دنیا کی زندگی سامان فریب کے سوا کچھ نہیں
﴿وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُور﴾ ( الحديد:20)
یہ دنیا جو دکھوں، تکلیفوں، مصیبتوں، آزمائشوں اور امتحانوں کا گھر ہے، یہ دنیا جولڑائی جھگڑوں اور فتنوں اور فسادوں کی آماج گاہ ہے، یہ دنیا جو گمراہی، بے راہ روی اور گم گشتگی کا کا ساماں ہے، اس دنیا کی حقیقت کیا ہے، لوگ کیوں بے ساختہ اس کی طرف لپکتے اور کھچے چلے جاتے ہیں اور کیونکر اس کی دلدل، چنگل اور جال میں پھنتے چلے جاتے ہیں اور کیونکر اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، عارضی اور فانی ہے اور ادھوری اور ناقص ہے، اس کی ہر نعمت عارضی اور قلیل ہے حتی کہ پوری کی پوری دنیا ہی نہایت مختصر مدت کے لئے ہے۔
اس دنیا کی حقیقت کیا ہے، انسان کو سمجھ کیوں نہیں آتی، اور اگر آتی ہے تو تجاہل عارفانہ سے کام کیوں لیتا ہے، یعنی جان بوجھ کر انجان کیوں بنتا ہے، اور دنیا کی حقیقت سمجھ نہ آنے کے نقصانات کیا ہیں؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
اگر چہ انسان اپنی عقل اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں کافی حد تک دنیا کی حقیقت کو کجھ لیتا ہے، انسان اپنی عقل اور مشاہدے سے دیکھتا اور سمجھ لیتا ہے کہ اس کا قیام اس دنیا میں عارضی، غیر یقینی اور نہایت مختصر ہے، وہ دیکھتا ہے کہ کبھی کوئی بچہ پیدا ہوتے ہیں فوت ہو جاتا ہے، کبھی بچپن کے چند سال گزار کر کبھی لڑکپن میں کبھی جوانی میں کبھی ادھیڑ عمر میں، اور بھی ارذل العمر یعنی بدترین عمر میں، تاہم اسے حتمی طور پر اس دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ انسان کے قیام کا محدود اور غیر یقینی ہونا، انسان کے مشاہدے کے لحاظ سے ہے ورنہ تو ہر انسان کا اس دنیا میں آنا اور جانا ایک مقررہ وقت پر ہوتا ہے اور یقینی طور پر ہوتا ہے لمحہ بھر بھی اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی تو انسان اپنی عقل، اپنی فطرت، اپنے تجربے اور اپنے مشاہدے سے حاصل ہونی والی معلومات کی بنا پر تجزیہ کرتے ہوئے مزید حقائق تک پہنچنے کی خوب صلاحیت رکھتا ہے اور انداز ہو کر سکتا ہے کہ اس کا دنیا کے ساتھ کسی طرح کا معاملہ ہونا چاہیے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالی نے انسان پر اپنا مزید فضل و کرم کرتے ہوئے ، اس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے قرآن پاک میں دنیا کی حقیقت کو بہت تفصیل ، وضاحت ، دلائل اور مثالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن وحدیث میں دنیا کی حقیقت اور حیثیت جو بیان کی گئی ہے، اس میں سے چند ایک باتوں کا ذکر سنتے ہیں اور پھر اس کی تفصیل جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ قرآن پاک میں ایک پہلو سے دنیا کی حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بہت مختصر ہے اس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ فرمایا:
﴿وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۙ۬ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ ؕ﴾ (الروم:55)
’’ اور جب وہ ساعت بر پا ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں۔‘‘
﴿كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۵۵﴾ (الروم:55)
’’اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔‘‘
ایک دوسری پہچان دنیا کی یہ کرائی کہ وہ متاع قلیل ہے، فرمایا:
﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ﴾ (النساء:77)
’’ ان سے کہو دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے۔‘‘
﴿وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۷۷﴾ (النساء:77)
’’اور آخرت ایک تقوی اختیار کرنے والے انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ایک لمحہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔‘‘
دنیا کی ایک تعریف یہ بیان کی کہ
﴿ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ ؗ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ﴾(المؤمن:39)
’’یہ دنیا تو اک متاع زندگی ہے، جائے قرار تو آخرت ہی ہے۔‘‘
اور ایک آیت کریمہ میں دنیا کی حقیقت کے چند پہلو کچھ یوں بیان فرمائے، فرمایا:
﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ؕ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾( الحديد:20)
’’ خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی ، زیب و زینت اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتاتا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہو گئی، تو اُس سے پیدا ہونے والے نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے، پھر وہی فصل پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ بجس بن کر رہ جاتی ہے، اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘
اسی طرح احادیث میں بھی دنیا کی حقیقت بیان کی گئی ہے ایک حدیث میں ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں:
((أَنَّ رَسُولَ اللهِ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ العالية وَالنَّاسُ كَنَفَتَهُ))
’’ایک روز آپﷺ بازار میں سے گزرے کسی عالیہ کی طرف سے آتے ہوئے (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو مدینہ سے باہر بلندی پر واقع ہیں) اور لوگ آپ کے ایک جانب تھے۔‘‘
((فَمَرَّ بِجَدْي أَسَكَّ مَيْتٍ))
’’تو ایک چھوٹے کانوں والی مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرا ہوا ۔‘‘
((فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَهُ بِأَذْنِهِ))
’’آپﷺ نے اسے اس کے کان سے پکڑا۔‘‘
ثُمَّ قَالَ: ((أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدرْهمٍ))
’’ پھر فرمایا: تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ ایک درہم میں اس کی ہو جائے، یعنی ایک درہم میں اسے کون خرید نا پسند کرے گا ؟‘‘ ((فَقَالُوا مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ))
’’تو لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں سے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا کہ کسی بھی چیز کے عوض اس کو خریدے اور ہم اس کا کیا کریں گے۔‘‘
یعنی ایک درہم تو کیا، اس سے بھی کم قیمت پر خرید نا کوئی پسند نہیں کرے گا:
((قَالَ: ((أَتْحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ))
’’ تو فرمایا: کیا پسند کرو گے کہ بس یونہی تمھیں مل جائے؟‘‘
((قالُوا: ((وَاللهِ لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا فِيهِ، لَأَنَّهُ، أَسَكُّ فَكَيْفَ وهو ميتٌ))
’’تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ زندہ ہوتی تو بھی عیب اور نقص والی تھی کہ چھوٹے کانوں والی ہے اور پھر بھلا کیسے کوئی پسند کرے گا جبکہ یہ مردہ بھی ہے!‘‘
((فَقَالَ: ((وَاللَّهِ! للدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هٰذَا عَلَيْكُمْ)) (صحیح مسلم:2957)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ تعالی کے ہاں دنیا کی حیثیت تمہارے ہاں بکری کی اس حیثیت سے بھی کم ہے۔‘‘
ایسے ہی ایک اور حدیث میں ہے، جو کہ مشہور ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا:
((لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِندَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِراً منها شربة ماءً)) (جامع ترمذی:2320)
’’دنیا کی حیثیت اللہ تعالی کے ہاں اگر مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالی کسی کا فر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ کرتے ۔‘‘
اور اس جیسی اور بہت سی احادیث میں سے ایک یہ ملاحظہ فرمائیے ، آپﷺ نے فرمایا:
((مَا الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ الاَّمِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُم إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِ فلينظر بِم يرجع)) (صحيح مسلم: 2858)
’’ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈیوئے ، پس وہ دیکھے کہ اس کے ساتھ کیا لگ کر آیا ہے۔‘‘
دنیا کی حقیقت ہمارے ذاتی مشاہدے اور قرآن وحدیث کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں اصول تو ہمیں سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہنی چاہیے، مگر یہ دلائل جان لینے کے بعد جو کہ اکثر و بیشتر لوگوں کو پہلے سے ہی معلوم ہوں گے، کیا ہمیں دنیا کی حقیقت سمجھ میں آئی ہے یا نہیں، اس کا انحصار تو ہمارے طرز عمل پر ہوگا ، جبکہ ہمارے طرز عمل سے تو بالکل واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ہمیں دنیا کی حقیقت سمجھ میں نہیں آئی، کیونکہ دنیا اور آخرت کا جو مقارنہ اور موازنه قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے اس حساب سے تو ہمیں آخرت کے لئے زیادہ محنت کرنی چاہیے اور دنیا کے لئے بس ضرورت کے مطابق، مگر ہمارا طرز عمل اس کے سراسر بر عکس ہے، دنیا کے حصول کے لئے جو کم از کم وقت دیا جاتا ہے وہ تقریبا آٹھ گھنٹے روزانہ ہے، جبکہ بہت سے لوگ کم از کم بار و بارہ گھنٹے بھی کام کرتے ہیں۔
جب بارہ بارہ گھنٹے ایک ایسی دنیا کے لئے صرف کئے جاتے ہیں جس کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں صرف ایک قطرہ ہے اور اس ایک قطرے کو بھی اربوں انسان شیئر کرتے ہیں۔ آپ کا شیئر اس میں سے کتنا ہو سکتا ہے اتنا کم کہ حساب لگانا بھی مشکل ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اتنے ٹھوس ، مضبوط اور ناقابل تردید دلائل اور مشاہدات کی روشنی میں بیان کی گئی دنیا کی بے حیثیتی جان لینے کے باوجود انسان دنیا کی طرف ہی لپکتا ہے اور اسے آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ اور اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ جو کہ تمام وجوہات کا خلاصہ ہے، وہ یہ کہ یا تو ایمان کی خرابی کی وجہ سے یا عقل کی خرابی کی وجہ سے ہے۔
یعنی اس قدر واضح طور پر دنیا کی حقیقت معلوم ہو جانے کے باوجود انسان دنیا کو آخرت پر ترجیح دے تو یقینًا یا تو وہ ایمان سے فارغ ہے یا عقل سے فارغ ہے۔
اور اگر اس کی دیگر وجوہات پر غور کریں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں کشش بہت زیادہ ہے، اس کشش کی وجہ سے انسان دنیا کو ترجیح دیتا اور آخرت کو نظر انداز کرتا ہے، اور ترجیح کی وہ جو اصلی اور بنیادی وجہ ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے، یعنی ایمان کی کمزوری کی وجہ سے یا عقل کی کمی کی وجہ سے وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔
انسان کی رہنمائی کے لئے قرآن وحدیث میں جن متعدد چیزوں کی نشاندہی کر کے ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک دنیا کی کشش بھی ہے، جسے دھو کے کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ﴾ (فاطر:5)
’’لوگو! اللہ کا وعد و یقینًا برحق ہے، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھو کے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے ۔ ‘‘
برحق وعدہ، یعنی آخرت کا وعدہ، کہ تمہارے تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔
انسان کی اخروی کامیابی کی راہ میں حائل دو بڑی چیزوں کی نشاندہی فرمائی اور خبردار کیا، ایک یہ کہ تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور دوسرے شیطان کہیں تمہیں ورغلانہ لے۔ دنیا انسان کو دھو کہ کیسے دیتی ہے؟ جب دنیا کی کشش سے متاثر ہو کر انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے تو یہ اسے دھو کہ لگتا ہوتا ہے۔ انسان کو یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے، کیوں کہ اس سے زندگی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں جو کہ اک حقیقت ہے پھر دھوکہ کیسے ہوئی؟
دنیا دھو کہ اس وقت بنتی ہے جب انسان اس کی حیثیت سے زیادہ اس کو اہمیت دیتا ہے، دنیا جب تک ہاتھ میں رہے تو نقصان نہیں ہے مگر جب دل میں گھر کر جائے تو پھر تباہی ہے اور دنیا کے دل میں گھر کر جانے کو ہی اس کی عبادت کرنا کہا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
((تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَالدَّرْهَم))
’’دینار و درہم کا بندہ تباہ و بر باد ہوا ۔‘‘
ورنہ کوئی بندہ دینار و درہم کو سجدہ تو نہیں کرتا ۔
اور اسی طرح ہر وہ چیز دھوکہ ہے جو نتیجے کے وقت کارآمد ثابت نہ ہو ، کسی عدد کے بائیں طرف جو زیرو ہوں وہ دیکھنے میں تو بہت بڑی رقم لگیں گے مگر جب نوئل کریں گے تو ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا، کوئی حیثیت نہ ہوگی، دنیا کہ آخرت میں جس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی وہ دھوکہ ہے چاہے دنیا میں اس کی کتنی ہی کشش اور اہمیت ہو ، اب مال اور اولاد کی دنیا میں کتنی اہمیت ہے۔ مگر آخرت میں اس کی کیا حیثیت ہوگی ، قرآن بتلاتا ہے۔
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۳۴ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ۳۵ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ۳۶﴾ (عبس:34 تا 36)
’’ اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اور اپنی ماں اور باپ سے ، اور اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔‘‘
اور ایک دوسرے مقام پر ہے۔
﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ﴾ (الشعراء:88)
’’جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی لیکن فائدے میں وہی ہوگا جو قلب سلیم لے کر حاضر ہوگا۔‘‘
تو بس اتنی ہی دنیا کی حیثیت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کے دھوکے سے محفوظ فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………
