دنیا سے محبت اور آخرت سے غفلت

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
ہم اپنے ماحول اور گرد و پیش پر نظر ڈالیں اور معاشرے کی نقل و حرکت کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ہر طرف اک گہما گہمی ہے، بازاروں میں جانے آنے والوں کا رش ہے، لوگوں کا اک ہجوم ہے، سڑکوں پر وسائل حمل و نقل کی قطار میں لگی ہوئی ہیں، سمندروں میں سفینے رواں دواں ہیں ، فضا میں ہوائی جہازوں کا اک جال بچھا ہوا ہے، ہر شخص مصروف نظر آتا ہے، کسی نہایت ہی اہم کام کے لیے بے چین و بے قرار اور فکر مند معلوم ہوتا ہے، مرد اور عورتیں، بچے اور بوڑھے کبھی کسی گمشدہ کی تلاش میں سرگرداں اور کسی مہم جوئی کا حصہ نظر آتے ہیں۔
غور و تأمل اور تحقیق و جستجو سے پتا چلا کہ لوگ فکر معاش کے لیے پریشان ہیں، زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں ہیں، سہولتوں اور آسائشوں کی تلاش میں بے قرار ہیں ، لذتوں، راحتوں اور تن آسانیوں کی تلاش میں بے چین ہیں، ان کی تمام تر مصروفیتیں اور تمام تر کوششیں صرف اور صرف جسم کی خواہشات اور جسم کے مطالبات کے حصول کے گرد گھومتی ہیں۔ روح کی نشوونما اور اس کی زندگی کی قطعا کوئی فکر ہے اور نہ سوچ۔ گویا کہ وہ اس فکر میں ہیں کہ زندگی کیسے گزاری جائے اور کسی طرح بہتر بنائی جائے اور زندگی گزارنے کا مفہوم ان کا خود ساختہ ہے اور وہ جسم کی خواہشیں اور رغبتیں بر آتا ہے۔ زندگی گزارنے کی فکر یقینًا انسان کو ہونی چاہیے، اگر چہ زندگی تو خود بخود گزر جاتی ہے۔ کسی کی فکر اور بے فکری سے اس میں کچھ فرق نہیں آتا، کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ قرآن پاک میں یہ حقیقت یوں بیان کی گئی ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۝۶﴾ (الانشقاق:6)
’’اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، پس اس سے ملنے والا ہے۔‘‘
یعنی شعوری یا غیر شعوری طور پر انسان کی زندگی گزر رہی ہے، البتہ وہ جو زندگی گزار نے کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ کر رہا ہے اگر چہ وہ اسے اغراض دنیوی کے لیے کر رہا ہے اور اسے صرف دنیا کی زندگی سے متعلق ہی سمجھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان زندگی کے اس سفر پر اپنی حقیقی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کے حضور پیش ہونا اور پھر وہاں زندگی گزارنے کے لیے کی گئی ان تمام کوششوں محنتوں ، مشقتوں اور مصروفیتوں کا حساب ہوگا۔ دنیا کی زندگی اک سفر ہے اور سفر پر روانہ ہونے سے پہلے زاد سفر ساتھ لینا اور لوازمات سفر پورے کرنا لازمی اور ضروری ہوتا ہے جس میں منزل کا تعین اور راستے کی ڈائریکشن اور دیگر لوازمات ہوتے ہیں۔
اور اور ہر وہ شخص جو یہ چاہے کہ اس کا سفر بخیر و عافیت گزرے، مصائب، مشکلات او خطرات کا سامنا کرنا نہ پڑے، راستہ نہ بھولے، پگڈنڈیوں میں نہ اترے اور بھول بھلیوں میں گم ہونے کے بجائے شاہراہ پر چلتا ہوا منزل پر پہنچے تو اس پر لازم ہے کہ وہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ان سوالوں کے جواب جان لے:
کہ اس کی منزل کیا ہے، ڈائریکشن کیا ہے اور زاد راہ کیا ہے؟
اب ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اگر یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی منزل کیا ہے، کن راستوں پر چل کر اسے منزل پر پہنچتا ہے، اور اس کے پاس زاد راہ کیا ہے تو اسے بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
اپنے گریبان میں جھانکیے ، اپنے دل کو ٹٹو لیے، اپنی خواہشات کو جانچے اور اپنے طرز عمل پر نظر ڈالیے اور معلوم کیجیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ دنیا کی زندگی یا آخرت کی زندگی؟ دنیا کی سہولتیں یا آخرت کی عافیت، جسم کی خواہشیں اور رغبتیں یا روح کے تقاضے اور مطالبے، دنیا والوں کی خوشی یا اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی ، متاع دنیوی کا حصول یا رضائے الہی کی طلب و جستجو ، اور کن راستوں پر چل کر منزل پر پہنچتا ہے! یقینًا راستوں کی ڈائریکشن منزل کے تعین کے بعد سب سے اہم نقطہ ہے اور وہ منزل کے تعین کے حساب سے ہے، ہر منزل کے الگ الگ مطالبے اور تقاضے ہیں، اور صرف انہیں پر چل کر منزل پر پہنچا جا سکتا ہے، مشرق کی طرف جانا مقصود ہو تو مغرب کا رخ منزل سے دور لے جائے گا۔
زندگی گزارنے کی فکر یقینًا انسان کا اک بہت بڑا مسئلہ ہے یہ کوئی آسان بات نہیں ہے، منزل کے تعین اور راستوں کی رہنمائی میں کئی لوگ بہک اور بھٹک جاتے ہیں، چنانچہ اس کی اہمیت کے پیش نظر آپ سلا نظام نے ہمیں زندگی کے فتنے سے پناہ مانگنے کی دعاء سکھائی ہے۔ جو کہ خود بھی فرمایا کرتے تھے اور وہ ہے۔
((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ)) (بخاری:1377)
’’اے اللہ! میں عذاب قبر اور عذاب جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
اور زندگی کا فتنہ کیا ہے؟ وہ تمام پریشانیاں، مصیبتیں، آزمائشیں ، تمام شہوات اور شبہات کے فتنے کہ جو انسان کی حقیقی منزل سے اس کا منہ پھیر دیتے ہیں، اس کے راستوں کا رخ بدل دیتے ہیں، اسے دین سے دور کر دیتے ہیں اور زندگی کا سب سے شدید فتنہ یہ ہے کہ کسی کا خاتمہ برائی اور معصیت پر ہو، کسی کو موت اس حال پر آئے کہ اس کا نام سود لینے اور دینے والوں میں ہو۔
اور زندگی کے فتنے سے بھلا اور کسی کو امان مل سکتی ہے، جب آپ ﷺکے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا یہ حال ہو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
((وَمَا يُؤَمِّنُنِي وَ إِبْلِيْسَ حَىٌّ)) (تاریخ دمشق ، ج:67 ، ص:369)
’’اور مجھے برائی میں مبتلا ہونے سے کیسے امان مل سکتی ہے جبکہ ابلیس اب تک زندہ ہے۔‘‘
اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک زندگی کی ایک سانس بھی باقی ہے کسی کے شیطان سے بچ نکلنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، بہکنے اور بھٹکنے کا ہر لمحہ خطرہ موجود رہتا ہے۔
جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أَصْبَعَينِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ)) (ترمذی:2140)
’’لوگوں کے دل اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘
چنانچہ آپ ﷺنے دعاء سکھلائی ہے اور جو کہ خود بھی کثرت سے فرمایا کرتے تھے۔
((يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰى دِينِكَ)) (ترمذی:2140)
’’اے دلوں کو پھیر دینے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھے۔‘‘
اور قرآن پاک میں پختہ کار علماء کا رویہ یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعاء مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۝﴾ (آل عمران:8)
’’اے ہمارے پروردگار ہدایت عطا فرمانے کے بعد اب ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دینا اور ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا فرما کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔‘‘
اور زندگی کے فتنے کیا ہیں؟ زندگی کے فتنے کوئی دو چار اور دس میں نہیں بلکہ بے شمار ہیں، بالخصوص قرب قیامت تو وہ چنائی کے تنکوں کی طرح ایک ایک کر کے دل پر وارد ہوں گے اور دل کو سیاہ کرتے چلے جائیں گے، اور ایسے شدید فتنے ہوں گے کہ:
(يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا))
’’آدمی صبح مؤمن ہوگا اور شام کو کافر ، یا شام کو مؤمن ہوگا اور صبح کافر ‘‘
اور فتنوں میں مبتلا ہونے کا سبب یہ بتلایا کہ:
((يَبِيْعُ دِيْنَهُ بعَرَضِ مِنْ الدُّنْيَا)) (مسلم:118)
’’کہ متاع دنیوی کے بدلے وہ اپنے دین کو بیچ ڈالیں گے۔‘‘
اور ان بے شمار فتنوں میں سے قرآن وحدیث میں بہت سے بیان ہوئے ہیں، جن میں مال و دولت کو فتنہ بتلایا ، مرد و زن کے اختلاط کو فتنہ قرار دیا، اولاد کو فتنہ بتلایا اور اسی طرح اور بہت سے ہیں، اور ہر وہ چیز جس کی کشش آخرت کی راہ میں حائل ہوتی ہے، انسان کو دین سے دور کر دیتی ہے، فتنہ ہے۔ جب دنیا کے اس قدر فتنے ہوں تو دین پر قائم رہنے کی اور دین سے چمٹ کر رہنے کی ضرورت یقینًا شدید ہو جاتی ہے، کیوں کہب دین سے آدمی کا تعلق کمزور ہو جاتا ہے اور دنیا کی محبت اس کے دل میں گھر کر جاتی ہے تو پھر اس کا حال یہ ہوتا ہے،
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ﴾ (الحج:11)
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے۔‘‘
یعنی دین میں پختہ نہیں ہوتا۔ دین کو مضبوطی سے تھامے ہوئے نہیں ہوتا ، بلکہ کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہوتا ہے کہ جو نہی ذرا سا لڑکھڑایا، اسلام کی حد پار کر کے دائرہ کفر میں داخل ہو گیا۔
اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ
﴿فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ ِ۟اطْمَاَنَّ بِهٖ ۚ ﴾ (الحج:11)
’’اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا ۔‘‘
﴿وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ِ۟انْقَلَبَ عَلٰی وَجْهِهٖ ۚ۫﴾(الحج:11)
اور اگر مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا یعنی اسلام سے بدظن ہو گیا، اسلام میں نقص نکالنے لگا، علماء کو برا بھلا کہنے لگا گیا۔
ایسے شخص کی بدبختی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۝﴾ (الحج:11)
’’ایسے شخص کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ، اور یہ بہت صریح خسارہ ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کشش انسان کو مد ہوش کر دیتی ہے، اسے کچھ بھائی نہیں دیتا، خیر اور شر میں فرق و امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے، حالانکہ دنیا کی بے ثباتی کے حسی اور معنوی بے شمار دلائل موجود ہیں، مگر آدمی کی حالت یہ ہوتی ہے جیسے نیم خوابی کی سی کیفیت ہو۔ آئے دن آدمی اپنی آنکھوں سے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے اور کتنوں کے جنازے میں بھی شریک ہوتا ہے، مگر آنکھوں کو کھولنے کے لیے، اسے خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے وہ حادثہ کافی نہیں ہوتا۔ اسے یقین سے معلوم ہے کہ اسی طرح اس کی بھی ایک دن باری آنے والی ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس دور میں لوگوں کی ایوریج عمر ساتھ اور ستر کے درمیان ہے، وہ بہت کم ہیں جو اس سے تجاوز کرتے ہیں، مگر پھر بھی وہ دنیا کی طرف کھچا چلا جاتا ہے اور ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ:
﴿وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيا﴾ (النازعات:38)
’’دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے ۔‘‘
یہ ساٹھ ستر سالہ زندگی کہ جب آنکھ کھلے گی تو اس مدت قلیل کی حقیقت اس پر یوں منکشف ہوگی۔ پوچھا جائے گا کہ:
﴿ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲﴾ (المؤمنون:112)
’’بتاؤ زمین میں کتنے سال رہے؟‘‘
﴿قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّیْنَ۝﴾ (المؤمنون:113)
’’وہ کہیں گے ایک دن، یا دن کا بھی بس کچھ حصہ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے‘‘
﴿قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝﴾ (المؤمنون:114)
’’اللہ فرمائیں گے تو تم تھوڑی ہی دیر بھہرے ہونا، کاش تم نے یہ اس وقت جانا ہوتا۔‘‘
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝﴾ (المؤمنون:115)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے، اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے ۔‘‘
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۙ۬ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ ؕ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝۵۵﴾(الروم:55)
’’قیامت کے روز مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے، اسی طرح وہ دنیا میں دھوکے کھاتے رہے۔‘‘
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جا بجا لوگوں کو دنیا کے دھوکے سے خبردار کیا ہے، تاکہ لوگ اس دن کی ذلت و رسوائی ، بدبختی اور عذاب سے بچ سکیں۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۝﴾(لقمان:33)
’’لوگو! اللہ تعالی کا وعدہ یقینًا برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ وہ دھو کے باز تمہیں اللہ تعالی کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے کہ تمہیں قیامت کے روز اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے، دنیا کی کشش تمہیں اس سے غافل نہ کر دے اور نہ ہی وہ دھو کے باز شیطان تمہیں دھوکے میں مبتلا کر دے بلکہ خبردار رہو کہ:
﴿اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ۝﴾ (فاطر:6)
’’ یقینًا شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھ، وہ تو اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جا ئیں ۔‘‘
شیطان کے بارے میں آپ نے جانا کہ وہ انسان کو ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ، وہ رتی بھر انسان کو کوئی چھوٹ نہیں دیتا جہاں اس کا بس چلتا ہو۔
شیطان کی چالوں سے آگاہی کا موضوع اگر چہ ہم کئی ماہ سے سن رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع اتنا طویل ہے کہ ابھی اصل موضوع شروع ہی نہیں ہوا، ابھی تو صرف تمہید ہوئی تھی، لیکن رمضان المبارک کی آمد کے سبب سردست ہم اس کو ختم کرتے ہیں، تا کہ رمضان المبارک کے فضائل و مسائل بیان کیے جاسکیں کلی طور پر تو یہ موضوع ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر معاملے میں اس کی دخل اندازی موجود ہے، تا ہم تفصیل کے ساتھ اس پر گفتگو نہیں ہوگی۔
آئندہ خطبات جمعہ میں رمضان المبارک کے حوالے سے شیطان کے متعلق بھی ان شاء اللہ بات ہوگی کہ اسے رمضان المبارک میں پابند سلاسل کیوں کیا جاتا ہے؟ اور یہ شبہ کہ اگر شیطان قید کر دیئے جاتے ہیں تو پھر رمضان المبارک میں گناہ کیوں ہوتے ہیں، اس پر بھی ان شاء اللہ بات ہوگی۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………….