*احساس اور خیر خواہی*

 

*اسلام اجتماعی خیر خواہی کا دین ہے*

تمیم داری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«الدِّينُ النَّصِيحَةُ»

’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ ‘‘

ہم نے پوچھا :

کس کی (خیر خواہی؟)

آپ نے فرمایا :

«لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ» (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 196)

’’ اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی ( خیرخواہی۔) ‘‘

*خیر خواہی میں یہ بھی آتا ہے کہ اپنی قوم کو ممکنہ نقصان سے پیشگی مطلع کردیا جائے*

*ایک چیونٹی نے قوم کا احساس کرتے ہوئے ممکنہ خطرے سے آگاہ کر دیا*

سلیمان علیہ السلام جب اپنے لشکر سمیت سفر کررہے تھے اور چیونٹیوں کی ایک وادی سے گزر ہوا ایک چیونٹی نے دور سے لشکر کو آتے ہوئے دیکھ لیا، اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اگر بِلوں سے باہر نکلی ہوئی چیونٹیاں اپنی اپنی بلوں میں داخل نہ ہوئیں تو لشکر انہیں کچل کر رکھ دے گا اس نے فوراً اپنے تحفظ سے آگاہ کرتے ہوئے بلوں میں گھسنے کا اعلان کر دیا

اللہ تعالیٰ نے اسے یوں بیان فرمایا :

حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (النمل : 18)

یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں داخل ہو جائو، کہیں سلیمان اوراس کے لشکر تمھیں کچل نہ دیں اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :

اس سے معلوم ہوا کہ اس بظاہر حقیر سی مخلوق کا ایک فرد اپنی ساری قوم کے لیے فکر مند ہے اور انھیں بچنے کی تدبیر سے آگاہ کر رہا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ جب کسی قوم کے افراد صرف اپنی فکر میں پڑ جائیں تو اس قوم کو ذلت اور بربادی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، جیسا کہ اس وقت امتِ مسلمہ کے اکثر افراد کا حال ہو چکا ہے۔

*خیر خواہی میں یہ بھی شامل ہے کہ قوم کے ایک ایک فرد کی فکر کی جائے*

*سلیمان علیہ السلام ہد ہد کی فکر کرتے ہیں*

سلیمان علیہ السلام کے پاس بڑے بڑے مضبوط لشکر موجود تھے

طاقتور جن، انسان، جانور، ہوائیں الغرض کہ آپ کے پاس بے مثال حکومت تھی آپ کے پاس اتنا کچھ تھا کہ چھوٹے سے ہد ہد کی حاضری یا غیر حاضری سے آپ کو کوئی فرق پڑنے والا نہ تھا

مگر

اس کے باوجود آپ کے دل میں اپنے لشکر کے ایک ایک فرد کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ایک ہدہد کی گم شدگی پر پریشان ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (النمل : 20)

اور اس نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا مجھے کیا ہے کہ میں فلاں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا، یا وہ غائب ہونے والوں سے ہے۔

*خیر خواہی میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کو اچھا مشورہ دے دیا جائے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھے حق ہیں

ان میں سے ایک یہ ہے :

وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ (صحيح مسلم، كِتَابٌ السَّلَامُ.2162)

جب وہ مشورہ مانگے تو اسے اچھا مشورہ دے

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کو خیرخواہانہ مشورہ دیتے ہیں*

صحیح مسلم 1480 میں ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا کہ تین آدمیوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو بتائیں میں کس سے نکاح کروں

ایک معاویہ رضی اللہ عنہ

دوسرے ابوجہم رضی اللہ عنہ

تیسرے اسامہ رضی اللہ عنہ

تو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

معاویہ کمزور، غریب آدمی ہے

ابوجہم عورتوں کو بہت مارتا ہے

سنن نسائی کی 3244 روایت میں ہے آپ نے فرمایا :

وَلَكِنِ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ

تو اسامہ سے نکاح کرلے

تو

وہ فرماتی ہیں :

فَبَارَكَ اللَّهُ لِي فِي أُسَامَةَ (سنن الترمذي،1135)

میں نے اسامہ سے نکاح کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بڑی برکت رکھ دی

*خیر خواہی میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کو جلدی کوئی ہنر سکھا دیا جائے*

جیسے ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگنے کے لیے آنے والے ایک شخص کو کلہاڑے میں لکڑی کا دستہ ٹھونک کردیا اور اسے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کی ترغیب دی، یہ دراصل ایک ہنر کی طرف رہنمائی ہے

ہوسکتا ہے بعض کے نزدیک یہ روایت درجہ صحت کو نہ پہنچتی ہو البتہ اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت ہے

حضرت ابو سعید خدریؓ سےروایت ہے ،رسول اللہ ﷺ ایک لڑکے کے پاس سے گزرے جو ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا ۔

رسول اللہ ﷺنے اسےفرمایا:

«تَنَحَّ، حَتَّى أُرِيَكَ»

’’ ایک طرف ہو جا ، میں تجھے بتاتا ہوں کھال کیسے اترتی ہے ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان رکھا اور اسے زور سے داخل فرمایاحتی کہ بغل تک بازو چھپ گیا ۔

فرمایا :

«يَا غُلَامُ هَكَذَا فَاسْلُخْ» (ابن ماجہ، كِتَابُ الذَّبَائِحِ، بَابُ السَّلْخِ،3179)

’’لڑکے ! اس طرح کھال اتار ۔‘‘

پھر آپ چل دیے اور (جاکر ) لوگوں کو نماز پڑھائی اور (نماز کے لیے نیا ) وضو نہیں کیا

*بچے کو جلدی ہنر سکھا دو*

درزی، چھ چھ ماہ بچے سے کاج کرواتا اور بٹن لگواتا رہتا ہے موٹر-سائیکل مکینک تین تین ماہ صرف پیہ کھولنے پر لگائے رکھتے ہیں یہ غریب گھر کے بچے ہوتے ہیں ماں روزانہ انہیں روٹی دے کر بھیجتی ہے کہ میرا بچہ کام سیکھ رہا ہے جلد کاریگر بن جائے گا اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرے گا لیکن انہیں چھ چھ سال میں ہنر نہیں دیتے

خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں چھ ماہ میں ہنر سکھا کر روزی کمانے کے قابل کردو عرش کا رب تم پر بڑی رحمتیں نازل فرمائے گا

*خیر خواہی میں یہ بھی آتا ہے کہ جب بازار میں کسی چیز کا قحط پڑ جائے تو اپنے گودام کھول دیے جائیں*

جیسے مدینہ منورہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ تھا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے خزانے کھول دیے کنواں خریدا اور وقف کردیا

مہاجرین کے لیے زراعت، مکان، رہائش کا مسئلہ تھا تو انصار نے اپنی زمینیں بھانٹ دیں

دور فاروقی میں قحط پڑا تو امیرالمومنین نے بیت المال کا منہ کھول دیا

آج کل آٹے کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور سننے میں آرہا ہے کہ سیاست اور بیوروکریسی میں اثر و رسوخ رکھنے والے بڑے لوگوں کے گوداموں میں گندم اسٹاک پڑی ہوئی ہے

ایسے ہی تیل، چینی اور دیگر چیزوں کے اسٹاک لگا لگا کر مصنوعی بحران پیدا کیے جاتے ہیں جوکہ اسلام کے نظریہ خیر خواہی کے قطعاً خلاف ہیں

*لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا بھی جہاد ہے*

سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْغَزْوُ غَزْوَانِ, فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ، وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ, وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا، وَرِيَاءً، وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ (ابوداؤد كِتَابُ الْجِهَادِ،حسن،2515)

” جہاد دو قسم کا ہے : جس نے اللہ کی رضا چاہی ، امام کی اطاعت کی ، عمدہ مال خرچ کیا ، اپنے شریک کار سے نرمی کا برتاؤ کیا اور فساد سے بچتا رہا ، تو بلاشبہ ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا سبھی اجر و ثواب کا کام ہے لیکن جس نے فخر ، دکھلاوے اور شہرت کی نیت رکھی ، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو بلاشبہ ایسا آدمی ( ثواب تو کیا ) برابری کے ساتھ بھی نہیں پلٹا ( گناہ سے بچ آنا بھی مشکل ہے ) ۔ “

*یاسر الشریک کی بہترین مثال اشعری قبیلے کے لوگ*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِى الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِى ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوا بَيْنَهُمْ فِى إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُمْ» (بخاری : 2486)

’’اشعری قبیلے کے افراد ایسے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی ضرورت پیش آجائے یا شہر میں رہتے ہوئے ان کا کھانا کنبے کو پورا نہ آسکے تو وہ جتنے افراد ہوں ان کے پاس جو جو بھی ہو وہ کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر ایک برتن سے بھر بھر کر آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ لہٰذا وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔‘‘

*یاسر الشریک کی ایک اور مثال، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بھاری پہ پیدل چلتے*

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

بدر کے دن ہم میں سے ہر تین افراد کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا حضرت علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں کہتے

نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ

کہ اے اللہ کے رسول آپ کی باری پر بھی ہم ہی چلیں گے تو آپ انہیں جوابا ارشاد فرماتے

مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنْ الْأَجْرِ مِنْكُمَا (مسند احمد)

نہ تو تم دونوں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہو اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ مجھے اجر کی ضرورت نہیں ہے

*مقروض میت کا قرض اپنے ذمے لیتے ہیں*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر رکھا تھا

فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ (بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا،2399)

جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو اس کے ورثاءاس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں

اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔

*یتیم بچوں کو جگہ واپس کردی*

شیخ بدر بن محمد سلطان ایک سعودی عالم دین اور اپیل کورٹ کے جج ہیں، انہوں نے ہفتہ دس دن قبل سعودی شمالی ریجن الجوف کے سکاکا شہر میں یتیم بچوں کے حصے میں آئے ایک باغ بعوض ڈھائی لاکھ ریال خرید لیا باغ اب ان کی ملکیت تھا کہ سعودی وزارت نقل نے ان سے رابطہ کیا کہ اس باغ سے ایک شاہراہ گزرے گی جس کا معاوضہ 91 لاکھ 30 ہزار ریال بنتے ہیں، شیخ نے یتیم بچوں سے رابطہ کیا کہ اپنی زمین واپس لے لیں بجا کہ قانونی طور پر یہ باغ میرا ہے لیکن حقیقی حقدار اس رقم کے یتیم ہیں

فردوس جمال

*شوربہ زیادہ کرلو تاکہ ہمسائیوں کو بھیجا جا سکے*

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ (مسلم، كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ ،6688)

"ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔”

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا طَبَخْتَ مَرَقًا فَأَكْثِرْ مَاءَهُ ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ فَأَصِبْهُمْ مِنْهَا بِمَعْرُوفٍ (مسلم 6689)

” جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو، پھر اپنے ہمسایوں میں سے کسی (ضرورت مند) گھرانے کو دیکھو اور اس میں سے کچھ اچھے طریقے سے ان کو بھجوا دو۔”

*اچھے طریقے سے ہمسائیوں کی خدمت کا بہترین بہانہ*

ایک نوجوان لکھتا ہے :

ماں جی نے ہمسائیوں کے دروازے پر دستک دی اور ان سے نمک مانگ لیا ،بیٹا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہنے لگا امی کل ہی تو میں نمک بازار سے لے آیا تھا پھر یہ ہمسائیوں کے دروازے

پر جانے کی کیا ضرورت تھی.

ماں جی کہنے لگی بیٹا ہمارے ہمسائے غریب ہیں وہ وقتا فوقتا ہم سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ ہمارے کچن میں نمک موجود ہے لیکن میں نے ان سے

نمک اس لئے مانگ لی تاکہ وہ ہم سے کچھ مانگتے ہوئے ہچکچاہٹ اور شرمندگی محسوس نہ کرے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمسائیوں سے حسب ضرورت چیزیں مانگی جا سکتی ہیں،یہ ہمسائیوں کے حقوق میں سے ہے.

خوبصورت معاشرے ایسی ماوں سے تشکیل پاتے ہیں

*ساتھی کو ترجیح دینے کا بہانہ*

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا۔ میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔

فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ. (بخاری ،كِتَابُ البُيُوعِ ،2092)

میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کیوں تلاش کرتے رہے*

کبھی سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کی بھنی ہوئی بوٹیاں چھوڑ کر کدو کیوں تلاش کرتے رہے

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت پسند نہیں تھا

کیا واقعی آپ کو گوشت کی نسبت کدو کی زیادہ خواہش تھی

نہیں یقیناً نہیں

بلکہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت بہت پسند تھا

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گھر کھانے کی دعوت تھی انہوں نے گوشت پیش کیا تو آپ نے فرمایا :

كأنهم علِمُوا أنَّا نُحبُّ اللحمَ (أحمد (14245)، والدارمي (45)

شائد انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم گوشت پسند کرتے ہیں

اسی طرح

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي دَعْوَۃٍ فَرُفِعَ إِلَیْہِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُہٗ فَنَہَسَ مِنْہَا نَہْسَۃً (أخرجہ البخاري،3162)

ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بکری کی ران کا (بھنا ہوا) گوشت پیش کیا گیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس میں سے توڑ کر تناول فرمانے لگے۔”

سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ بکری کا ایک شانہ آپ کے ہاتھ میں تھا جسے آپ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے پھر نماز کے لئے اذان کہی گئی تو اس شانہ کو اور چھری کو جس سے گوشت کاٹ رہے تھے ایک طرف ڈال دیا اور کھڑے ہوگئے پھر نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔

صحیح بخاری:حدیث نمبر 387​

تو

پھر بوٹیاں چھوڑ کر کدو تلاش کرنے کے پیچھے یہ سمجھ آتی ہے کہ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر اپنے ساتھی کو ترجیح دے رہے تھے کہ میں کدو کھا لوں اور میرا دوست گوشت کھا لے

*مجھے سیب پسند نہیں ہیں*

جیسے بو علی سینا کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہا :

اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی، جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تھے .

تب میری ماں نے کہا :

مجھے سیب پسند ہی نہیں .

ماں کا یہ باور کروانا کہ مجھے سیب پسند نہیں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی اسے سیب پسند نہیں ہیں بلکہ یہ اولاد کو ترجیح دینے کی ایک شکل ہے

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے بہانے سے جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت کی*

جابر رضی اللہ عنہ مالی لحاظ سے بہت کمزور آدمی تھے، جابر کی شادی قریب تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جابر کی مدد کرنا چاہتے تھے، ڈائریکٹ مدد یا تعاون کے نام پر کچھ دیتے تو جابر کی عزت نفس کا مسئلہ تھا میرے نبی کی حسن تدبیر دیکھیے کہ کیسے بہانے سے مدد کرتے ہیں

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرالیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کردی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاو، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی )

(صحيح البخاري كِتَابُ الشُّرُوطِ، بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ،2718)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا

خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ (مسلم، بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ،715)

اپنا اونٹ بھی لے لے اور اپنے درہم بھی لے لے یہ تیرا مال ہے

*غریب ریڑھی والے کی مدد کا بہانہ*

قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

‏سمعنا من بعض المشايخ أن ذلك أن يتصدّق على الضعيف في صورة المشتري منه؛ فيدفع له درهمًا مثلًا في شيء يساوي نصف درهم، فالصورة مبايعة، والحقيقة صدقة!

‏#المفهم للقرطبي : ٧٧/٣

کسی کمزور پر صدقہ کرنے اور اس کی عزت نفس کو بچانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اس سے کوئی چیز خریدیں اگر وہ چیز آدھے درھم کی ہے تو آپ اسے پورا درھم دے کر چلتے بنیں یہ ظاہراً سودا ہوگا مگر حقیقت میں صدقہ ہوگا

*کھانا پکانے والے غلام کو بھی لقمہ دو لقمے دے دو*

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَليُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ عِلاَجَهُ» (بخاري ،كِتَابُ العِتْقِ ،2557)

کہ جب کسی کا غلام کھانا لائے اور وہ اسے اپنے ساتھ ( کھلانے کے لیے ) نہ بٹھاسکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلادے یا ( آپ نے لقمۃ او لقمتین کے بدل اکلۃ او اکلتین فرمایا ( یعنی ایک یا دو لقمے ) کیوں کہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔

*گرمی تو سب کو لگتی ہے!*

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن اپنی لونڈی سے کہا:’’میں سونا چاہتا ہوں تم مجھے ہوا دو۔‘‘ چنانچہ لونڈی نے ہوا دی تو عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سو گئے۔لونڈی پہ جب نیند کا غلبہ طاری ہوا تو وہ بھی سو گئی۔عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جاگے تو پنکھا پکڑ کر اسے ہوا دینے لگے۔جب وہ جاگی اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو ہوا دیتے دیکھا تو گھبرا گئی۔خلیفۂ اسلام نے فرمایا:کوئی حرج نہیں، تو بھی انسان ہے،گرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ تونے مجھے ہوا دی ہے۔ اگر میں نے تجھے ہوا دے دی ہے تو کیا ہوا؟

(منہاج المسلم از شیخ ابوبکر جابر الجزائری ،258)

*بطورِ امانت نہیں بطور قرض رکھوں گا*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری ،عشرہ مبشرہ میں شامل، جلیل القدر صحابی زبیر رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو ان پر 22 لاکھ قرض تھا

انہوں نے اپنے بیٹے کو قرض کی ادائیگی کی وصیت کی تھی

زبیر رضی اللہ عنہ پر اتنا قرض کیوں چڑھا تھا آپ کے بیٹے عبداللہ نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَإِنَّمَا كَانَ دَيْنُهُ الَّذِي عَلَيْهِ، أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَأْتِيهِ بِالْمَالِ، فَيَسْتَوْدِعُهُ إِيَّاهُ، فَيَقُولُ الزُّبَيْرُ: «لاَ وَلَكِنَّهُ سَلَفٌ، فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ» (بخاری ،كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ ،3129)

کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ(بطور امانت) نہیں البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے ۔ کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہو جانے کا بھی خوف ہے ۔

*زبیر رضی اللہ عنہ ایسا کیوں کرتے تھے*

زبیر رضی اللہ عنہ کا ایسا کرنا محض خیر خواہی کی بنیاد پر تھا کیونکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھی جائے اور پھر اس کی کوتاہی یا سستی کے بغیر کسی وجہ سے وہ چیز ضائع ہو جائے تو امانت رکھنے والا اس سے مطالبہ کرنے کا حقدار نہیں ہوتا

لیکن

اگر کسی کو بطور قرض کوئی رقم یا چیز دی جائے اور پھر وہ چیز ضائع ہو جائے تو اس کے باوجود قرض دینے والا مقروض سے اس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے

تو

زبیر رضی اللہ عنہ لوگوں سے بطور امانت لینے کی بجائے بطورِ قرض اس نیت سے لیتے تھے کہ اگر خدانخواستہ یہ رقم کسی وجہ سے ضائع ہو بھی جائے تو میرے کھاتے ہی پڑے، میرے دوسرے بھائی کا نقصان نہ ہو

*وہ، لوگوں کو معاف کرتا تھا اور کہتا "جو گزر گیا سو گزر گیا” رب العزت نے اسے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ "جو گزر گیا سو گزر گیا”*

امام ذھبی نے مسعود الهمذاني کے حالات میں لکھا ہے کہ

أنه كان من خيار الناس، وكان كثيرا ما يصفح عن الناس بقوله: "الماضي لا يُذكر”

وہ بہت اچھا آدمی تھا (اور لوگ اس پر زیادتی کرتے تو بعد میں) لوگوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کرتا تھا کہ گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا

قيل إنّه رؤي في المنام بعد موته فقيل له: ما فعل الله بك؟

پھر ان کی وفات کے بعد کسی نے خواب میں ان سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا

تو کہنے لگے :

أوقفني بين يديه، وقال لي: يامسعود الماضي لايُذْكَر، انطلقوا به إلى الجنة”. (تاريخ الإسلام (٤٢/٣٢٧)

مجھے میرے رب نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا :اے مسعود گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا (اور فرشتوں سے کہا 🙂 اسے جنت میں لے چلو