احتجاج کے شرعی آداب
وطن عزیز پاکستان میں توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت کا سلسلہ بڑھی تیزی سے پروان چڑھتا جا رہا ہے، سیاست اور مذہب کے نام پر نوجوانوں کو ورغلا کر ان کے جذبات کو غلط جگہ استعمال کرنا تو گویا فنکاروں کے دائیں ہاتھ کا فن ہے
وطن عزیز پاکستان میں احتجاجی مظاہروں، دھرنوں، ریلیوں لانگ مارچ اور بڑے بڑے سیمینارز کا سلسلہ تقریباً پورا سال ہی جاری و ساری رہتا ہے
جن میں سے بعض مستقل اور بعض ہنگامی ہوتے ہیں اور بعض مذہبی اور بعض سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں
جن میں لوگوں کی کثیر تعداد اپنے گھروں سے نکل کر باہر سڑکوں پر اپنی مذہبی اور سیاسی وابستگی کا اظہار کرتی ہے،
یہ مظاہرے اپنے مظاہرین کے عقائد و نظریات اور حقوق کے ترجمان ہوتے ہیں
احتجاجی مظاہرے کے انداز اور اسٹائل سے ہی متعلقہ افراد کے اخلاق و کردار کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کا چہرہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ آیا یہ لوگ پر امن شہری ہیں یا پر تشدد ذہنیت کے حامل ہیں
یہ دھرنے اور احتجاج خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی مجموعی طور پر ان کا چہرہ مایوس کن اور انتہائی غیر مناسب ہے
مد مقابل کی عزت و حرمت سے کھیلنا
املاک کو نقصان پہنچانا
دکانیں جلانا
سڑکوں پر ٹائر جلا کر بلاک کرنا
گاڑیوں کو نظر آتش کرن
انسانی جانوں سے کھیلنا
الغرض کہ دھرنے کی دنیا میں یہ سب کچھ جائز سمجھ لیا جاتا ہے الا کہ کسی کو اللہ تعالٰی نے عقل و دانش سے کام لینے کی توفیق دے رکھی ہو
سو ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک مسلم کی جان، مال اور عزت کی کیا اہمیت ہے اور احتجاجی دھرنوں کے شرعی اصول و ضوابط کیا ہیں
احتجاج کرنے کے شرعی آداب
احتجاج کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اس کا پیدائشی حق ہے
بچہ دنیا میں آتے ہی احتجاج کرتا ہے
جب تک بچہ روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق منوانے، امت مسلمہ کے مفادات، اسلامی شعائر اور ارکان اسلام کے دفاع کے لیے اگر احتجاج اور دھرنا ناگزیر ہو جائے تو پھر احتجاج کرنے، دھرنا دینے اور لانگ مارچ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ایسا کیا جا سکتا ہے اور بعض اوقات احتجاجی مظاہرے نا صرف یہ کہ جائز بلکہ واجب اور ضروری ہو جاتے ہیں
غیرت اسلامی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی ”احتجاج“ کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
لیکن کسی بھی قسم کے احتجاج کے دوران کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو اور یہ خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ کہیں دوران احتجاج جذبات کی لہر میں بہتے ہوئے شرعی حدود سے متجاوز نہ ہو جائیں
احتجاجی مظاہروں کے لیے چند اھم امور مد نظر رکھنا ضروری ہیں
احتجاج کے لیے پر امن اور مہذب طریقہ اپنایا جائے
جاہلوں، بدؤں اور بد تمیز لوگوں سا انداز ہر گز نہ اپنایا جائے
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ (سورة المؤمنون 96)
” آپ برائی کو احسن (سب سے بہتر) طریقہ سے دفع کریں۔”
مثال کے طور پر پریس کانفرنس احتجاج ریکارڈ کرانے کا ایک سلجھا طریقہ ہے
احتجاج کریں مگر گالی مت دیں
اپنی زبان سے ”مجرموں“ کے خلاف گالم گلوچ یا نازیبا الفاظ نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ تقریر و تحریر میں اخلاقی قدروں میں رہتے ہوئے مجرموں کے اقدامات کی مذمت کی جائے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ (ترمذی)
مومن بہت زیادہ لعن طعن کرنے والا، فحش گو اور بدزبان نہیں ہوتا
و في حديث أنس بن مالك قال :
{نهانا كُبَرَاؤُنا من أصحاب النّبي ﷺ أن لاتسبّوا أمراءكم، ولا تغُشّوهم، ولا تعصوهم، واصبروا، واتّقوا الله، فإنّ الأمر قريب} (رواه ابن أبي عاصم وصحّحه الألباني.)
احتجاج میں فساد فی الارض نہ ہو
مظاہروں اور جلوسوں کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ بلکہ اگر ”مجرمان سے متعلقہ املاک“ بھی ہماری دسترس میں آجائیں تو انہیں بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ توڑ پھوڑ اور پولس یا انتظامیہ پر پتھراؤ وغیرہ کرنا بالکل غلط ہے
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ …(سورة الأعراف 56)
” اور زمین میں فساد برپا نہ کرو
وَاللَّہ ُلَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿ سورة آل عمران: 5 ﴾
اللہ تعالٰی ظالموں کو پسند نہیں کرتے
احتجاج، اسلام اور اہلیان اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنے
دوران احتجاج ایسا کچھ بھی نہ کیا جائے کہ سیکولر لابی کو باتیں کرنے کا موقع ملے
یا اسلام کا غلط چہرہ دنیا کے سامنے ظاہر ہو
یا یہ کہ اس سے بڑا کوئی اور ’’منکر‘‘ جنم نہ لے
کیونکہ پھر یہ احتجاج دفاع اسلام نہیں بلکہ اسلامیان کے لیے ایک نئے فتنے اور کئی طرح کی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ …(سورة البقرة 119)
” اور فتنہ قتل سے زیاده سخت ہے”
لہذا حرمت رسول اور دین اسلام کی حفاظت کرتے کرتے حرمتِ دینِ رسول پامال نہ کیجئے
دوران احتجاج اگر کسی کی گاڑی جلا دی گئی یا دکان جلا دی گئی یا اس کی کسی اور چیز کو نقصان پہنچا دیا گیا تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس شخص کو ہمیشہ ہمیش کے لیے مذہب اور اہلیان مذہب سے متنفر کردیا گیا ہےسوچئے کہ یہ کتنا بڑا فتنہ و فساد ہےکیا یہ اسلام کی خدمت ہوگی یا اسلام سے دشمنی
دوران احتجاج راستے مت روکے جائیں
احتجاج سے ٹریفک میں خلل نہیں پڑنا چاہئے اور نہ ہی راستہ بلاک کرکے عام شہریوں کو مشکلات میں ڈالنا چاہئے
جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ كَذَا وَكَذَا، فَضَيَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، وَقَطَعُوا الطَّرِيقَ، فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي فِي النَّاسِ : ” أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ ".(حكم الحديث: حسن)
کہ ایک دفعہ جہادی سفر کے دوران لوگوں نے راستے بلاک کر دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں میں اعلانات کروادیے کہ جس نے راستے بلاک کیے اس کا کوئی جہاد نہیں ہے
حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے راستوں پر بیٹھنے سے بھی منع کردیا فرمایا
ایاکم والجلوس علی الطرقات
راستوں میں مت بیٹھا کرو
راستے بلاک ہونے کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرکے کھانے والےغریب و مسکین کام نہیں کرسکتے لہذا وہ اور انکے بچے بھوکے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
بیمار علاج کیلئے بھی نہیں جا سکتے۔ بے شمار لوگ اذیت میں دن گزارتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کی اکثریت کو اذیت پہنچتی ہے اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانا کبیرہ گناہ ہے
فرمایا
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا.(الأحزاب:۵۸)
” اور وہ لوگ جو ناحق مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا پہنچاتے ہیں انھوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا یا۔”
احتجاج روڈ بلاک کیے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔
سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر بھی مظاہرہ ہوسکتا ہے
عجیب بات ہے کہ ہمیں راستہ روکے بغیر احتجاج کا کوئی طریقہ سجھائی نہیں دے رہا۔
ڈبل سڑکوں پہ ایک جانب بند کر لیں تاکہ دوسری طرف ٹریفک بحال رہے۔
احتجاج کو بغاوت و خروج کا جامہ مت پہنایا جائے
احتجاج کے لیے نکلنے سے پہلے اپنے کارکنان کو خوب اچھی طرح بریف کریں
کہ
احتجاج کرنا ہے بدمعاشی نہیں کرنی
احتجاج کا مقصد حکومت تک اپنی بات پہنچانا ہے, بغاوت کرنا نہیں
دوران احتجاج کسی بھی حکومتی وغیر حکومتی عہدیدار کی تکفیر مت کریں، کسی بھی انسان کے قتل کے فتوے مت جاری کریں اور نہ ہی عوام الناس اور کارکنان کو جوش دلائیں کہ فلاں فلاں شخص اگر آپ کو کہیں مل جائے تو اسے قتل کر دیا جائے
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(۸)
’’ ایمان والو، اللہ کی خاطر عدل وانصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ، اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمھیں برانگیختہ کر کے ناانصافی پر آمادہ کردے۔ عدل پر قائم رہو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمھارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘
احتجاج کے دوران افراتفری، توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کا سا ماحول بنا کر معاشرے میں دہشت نہ پھیلائی جائے
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے
عَنْ عَبْدﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ: کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ الْفِتَنَ، فَأَکْثَرَ فِي ذِکْرِهَا حَتَّی ذَکَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ. فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اﷲِ! وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ.
أبوداود، السنن،کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن، 4: 94، رقم: 4242
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا۔کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ افراتفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
إِنَّﷲَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا.
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق، 4 : 2018، رقم : 2613
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.
(بخاری، الصحيح، باب من سلم المسلمون، رقم11
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
سورۃ البروج کی آیت نمبر دس (10) میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ
(بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے)
دوران احتجاج اسلحہ کی بے جا نمائش مت کریں
حالیہ مظاہروں کے دوران ایسے بہت سے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں
حتی کہ ایک صاحب نے تو ننگی تلوار ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی
جبکہ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات ملاحظہ فرمائیں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا يُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ.
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4: 2020، رقم: 2617
’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ أَشَارَ إِلَی أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّی يَدَعَهُ، وَإِنْ کَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ.
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4: 2020، رقم: 2616
ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في إشارة المسلم إلی أخيه بالسلاح، 4: 463، رقم: 2162
’’جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی(ہی کیوں نہ) ہو۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُتَعَاطَی السَّيْفُ مَسْلُولًا. (ترمذی، ابو داؤد)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔‘‘
________
اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ایک مسلمان کی عزت، مال اور جان کی حرمت
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَۚ
اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حجاب.( بخاری )
مظلوم کی بددعا سے بچیں کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پردہ نہیں ہے
کسی مسلم کو حقیر سمجھنا حرام ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ».[مسلم: 2564]
"کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ۔”
آپﷺ نے ایک اور موقعہ پر فرمایا:
المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے
بخاری و مسلم
مسلمان کی حرمت کعبہ کی حرمت کی طرح ہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی جان ومال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هذَا، فِی شَهْرِکُمْ هٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ هٰذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمٍْ.(بخاری و مسلم)
بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی)ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا:
مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932
(اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
مسلمانوں کی عزت، مال اور جان سب کے سب دوسروں پر حرام ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص ۱۳۸۶،حدیث:۲۵۶۴)
یعنی ہر مسلمان کا خون ،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔
کسی کی ملکیت پر نا جائز قبضہ کرنے کا خوفناک انجام
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
مَنْ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ ظُلْمًا طَوَّقَهُ اللَّهُ إِيَّاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ.(مسلم)
جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین پر نا جائز قبضہ کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنائیں گے
کسی کو ناحق قتل کرنے کی سنگینی
قرب قیامت کئی فتنے ظاہر ہونگے جن میں سے ایک قتل و غارت بھی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ العِلْمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُمَا هُوَ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، الْقَتْلُ.
بخاری و مسلم
’’ زمانہ قریب ہوتا جائے گا، علم گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل، قتل (یعنی ہرج سے مراد ہے: کثرت سے قتلِ عام)۔‘‘
مسلمان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.(المائدة، 5: 32)
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی ﷲِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ.(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے
قیامت کے دن سب سے پہلے قتل کا حساب ہوگا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خونریزی کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
أَوَّلُ مَا يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاء.(بخاری و مسلم)
’’قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘
قاتل کے کسی بھی قسم کے نیک اعمال قبول نہیں ہوتے
حضرت عبد اﷲ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ ﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.(ابو داؤد)
جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔
قاتل کی سزا دائمی جہنم ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًاo
’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَائِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ ﷲُ فِي النَّارِ.
ترمذي، کتاب الديات، باب الحکم في الدماء، 4: 17، رقم: 1398
’’اگر تمام آسمانوں و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘
مزید فرمایا
إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُوْرِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ، فِيْهَا سَفْکَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ.
بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدًا فجزاؤه جهنم، 6: 2517، رقم: 6470
’’ہلاک کرنے والے وہ اُمور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو، اِن میں سے ایک بغیر کسی جواز کے حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔‘‘
______
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ.(البقرة : 11)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ.(البقرة : 12)
سن لو! یقینا وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔
انکار منکر، افہام و تفہیم اور بغاوت میں فرق
حج تمتع اور ابن عمر (انکارِ منکر)
صلح حدیبیہ اور عمر (افہام و تفہیم)
ابو بکر کا عمر کو سمجھانا
ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا
قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ! إِنَّهُ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ يَعْصِيْ رَبَّهُ وَهُوَ نَاصِرُهُ ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللّٰهِ ! إِنَّهُ عَلَی الْحَقِّ [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد… : ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ]
’’اے (اللہ کے) بندے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘
حکام کے ظلم کے باوجود اسلام میں صبر کا حکم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أُثْرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ (بخاری ،کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ،بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِلْأَنْصَارِ: «اصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الحَوْضِ»،3792)
میرے بعد ( دنیاوی معاملات میں ) تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اس لیے صبر سے کام لینا ، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ (بخاری ،كِتَابُ الفِتَنِ،بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا»،7053)
جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسند بات دیکھے تو صبر کرے
اسلام میں سمع و طاعت کا حکم جبکہ مظاہرین
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا
«اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنِ اسْتُعْمِلَ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ» (بخاری ،كِتَابُ الأَذَانِ،بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى،693)
( اپنے حاکم کی ) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی ( غلام تم پر ) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو
قالﷺ :
{تسمع_وتطيع للأمير وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك} رواه مسلم.
وقالﷺ :
{إذا رأيتم من ولّاتكم شيئا تكرهونه فاكرهوا عملهم ولا_تنزعوا_يداً_من_طاعة} رواه مسلم.
تمہارے ذمے جو حقوق ہیں وہ مکمل ادا کرو اور ان کے ذمے جو حقوق ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے مانگو
جبکہ مظاہرین اس کے الٹ چلتے ہیں
قالﷺ : {إنّها ستكون بعدي أثرة وأمورٌ تنكرونها ، قالوا : يا رسول الله ، كيف تَأْمُرُ من أَدرك مِنّا ذلك ؟! قال : تُؤدّونَ_الحقّ_الذي_عليكم، وتسأَلونَ_الله_الذي_لكم} متفقٌ عليه.
عن سلمة بن يزيد قال: {يا نبيّ الله، أرأيتَ إن قامت علينا أمراء يسألونا حقّهم، ويمنعونا حقّنا فما تأمرنا؟ فأعرض عنه، ثم سأله، فقال رسول الله ﷺ: اسمعوا وأطيعوا، فإنّما عليهم ما حُمِّلوا، وعليكم_ما_حُمِّلتم}رواه مسلم.
قالﷺ :{ أعطوهم حقّهم، واسألوا الله الذي لكم، فإنّ الله #سائلهم عمّا استرعاهم}متفق عليه.
مظاہرے کفار کا دین ہے ہمارا نہیں
مسلمانوں کی روشن تاریخ میں احتجاج نظر نہیں آتا
قالﷺ :{من تشبّه بقوم فهو منهم}رواه أبي داود وصحّحه الألباني.
قالﷺ :
{من رغب عن سنّتي فليس منّي} متّفق عليه.
کسی گمراہ شخص کا مجسمہ بنانا اور پھر اسے نظر آتش کرنا تاکہ اس کی شد ومد سے مذمت کی جائے اور اس کے خلاف بھر پور احتجاج کیا جا سکے کیسا ہے؟
مجھے اس بارے کوئی دلیل نہیں ملی۔
شیوخ کرام کیا فرماتے ہیں
بسم اللہ۔۔ خلاف مروت اوراوچھاپن یعنی گھٹیا حرکت ھے۔ بازاری اورآوارہ قسم کے لوگ ایسی حرکات کیاکرتے ھیں۔