عید الفطر
﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقره:185)
اللہ تعالی کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک سے استفادے کا موقع عطا فر مایا، اس پر جتنا بھی اس کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
نیکی کی توفیق یقینًا اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و احسان ہے اور اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ انہیں نیکی کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے تا کہ اس کے بندے اس کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں سے مستفید ہو کر ان گھروں کے وارث بنیں اور ان کی طرف لوٹیں جو اللہ تعالی نے اپنے نیک و متقی اور مطیع و فرمانبردار بندوں کے لئے تیار کر رکھتے ہیں:
﴿وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ﴾ (آل عمران:133)
’’وہ جنت جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے اور وہ متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘
اور ان مؤمنین متقین کی ایک جگہ چند صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا:
﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙالَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ﴾(المؤمنون:10۔11)
’’یہی لوگ وہ وارث ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
تو اللہ تعالی اپنے مخلص متقی اور مطیع و فرمانبردار بندوں کے لئے ایسے مواقع فراہم کرتا ہے تا کہ وہ ان مواقع سے مستفید ہو کر بغیر وعافیت اور سیدھے اپنے گھروں کو لوٹیں اور بھٹکتے ڈگمگاتے لڑکھڑاتے، گرتے پڑتے اور جہنم کی آگ میں جھلتے ہوئے نہیں بلکہ سیدھے اپنے گھروں کو لوٹیں کہ:
﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ؕ﴾ (آل عمران:185)
’’ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے۔ ‘‘
تو اللہ تعالی اپنے بندوں کو جو مواقع فراہم کرتا رہتا ہے ان میں سے ایک رمضان المبارک بھی ہے اور رمضان المبارک کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو اس سے مستفید کرنے کا خصوصی انتظام فرمایا ہے اور وہ یہ کہ مہینہ بھر کے لئے شیاطین الجن کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
((وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِين)) (صحيح مسلم:1079)
’’اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
تا کہ وہ مسلمانوں کو بہکا نہ سکیں، بھٹکا نہ سکیں، گمراہ نہ کر سکیں ، ان کے توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کے درمیان حائل نہ ہو سکیں، ان کو نیکی سے روک نہ سکیں، اور ان با برکت اور قیمتی لمحات سے استفادے کی راہ میں روکاوٹ نہ بن سکیں۔ لیکن بعض احادیث میں بڑے بڑے سرکش شیاطین کو جکڑنے کا ذکر بھی ہوا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ تمام کے تمام شیاطین کو جکڑا نہیں جاتا ، اس میں بھی الدینا اللہ تعالی کی بہت سی حکمتیں ہوں گی۔
البتہ شیاطین الانس کھلے رہتے ہیں اور وہ شاید اس لئے کہ انہیں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے، انہیں سمجھا جاسکتا ہے اور انہیں سمجھایا بھی جاسکتا ہے اور اس لئے بھی تاکہ انہیں بھی تو بہ واستغفار اور رجوع الی اللہ کا یکساں طور پر موقع میسر آئے۔
اسی طرح خود انسان کے اندر، اس کے نفس میں برائی کی طرف میلان اور رجحان موجود ہے، وہ بھی آزا اور بتا ہے، اُس کے اس رجحان پر اگر پابندی لگادی جاتی تو رمضان میں جو اس کی تربیت اور اصلاح کے لئے محنت کی جاتی ہے وہ رائیگاں جاتی اور نفس اصلاح سے محروم رہتا۔
عيد الفطر تاہم انسان کے رمضان المبارک سے استفادے کے لئے اللہ تعالی نے خصوصی انتظامات فرمائے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی بنیادی طور پر اپنے بندوں کو عذاب نہیں دینا چاہتے۔
﴿ مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ ﴾ (النساء:147)
’’ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور ایمان کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا۔‘‘
اس لئے اللہ تعالی نے انسان کو عذاب سے بچانے کے لئے ہر قسم کے انتظامات فرمائے انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھیجا، کتا بیں نازل فرمائیں، عقل و خرد سے نوازا، علماء و صلحاء سے کام لیا اور دیگر بہت کی استعدادات مہیا فرما ئیں کہ جن سے دین کو سمجھنے کی راہ ہموار ہو، لیکن پھر بھی اگر کوئی نہ سمجھنا چاہے تو: ((فَلَا يَلُوْ مَنْ إِلَّا نَفْسَهُ)) ’’تو بس پھر وہ اپنے آپ کو ہی کو سے اور ملامت کرے۔‘‘ یعنی وہ اس کو تا ہی پر ہرگز کوئی عذر نہیں پیش کر سکتا۔
اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ اور مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس مبارک مہینے سے مستفید ہونے کی کوشش کی، روزے رکھے، تراویح پڑھیں، تلاوت قرآن پاک کرتے رہے، صدقہ خیرات کیا، تسبیحات اور دعائیں کرتے رہے، چنانچہ عید کا دن ان کے لئے خوشی او مسرت کا دن بھی ہے اور شکر گزاری کا دن بھی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:﴿ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ﴾’’ اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تم رمضان کے روزوں کی گنتی پوری کرو۔‘‘ یعنی پورے مہینے کے روزے رکھو اور وہ الحمد للہ اللہ کی توفیق سے سب نے پورے روزے ہی رکھے ہوں گے ۔
﴿ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ﴾
’’اور اللہ تعالی نے تمھیں جو ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرو۔‘‘
اور اللہ تعالی نے تمہیں جو ہدایت بخشی ہے، رمضان المبارک سے استفادے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس پر اُس کی بڑائی، کبریائی اور عظمت بیان کرو اور اسی کے گن گاؤ اللہ اکبر الله اكبر لا اله الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر ولله الحمد۔
چنانچہ صحابہ کرام رضی ا للہ تعالی عنہم عیدین کے روز بآواز بلند تکبیرات کہتے ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ عید الفطر کے روز گھر سے عید گاہ تک بآواز بلند تکبیرات کہتے اور عید الاضحی کے موقعے پر تو نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کہی جاتی تھیں۔
رمضان المبارک کے روزوں کے حوالے سے تیسری بات اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ فرمائی:﴿ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ ’’اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘ یعنی اس نعمت قرآن پر نعمت ہدایت اسلام پر اور نعمت توفیق صیام رمضان پر اللہ تعالی کا شکر بجالاؤ۔
اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر کیسے بجالانا چاہیے؟ اس پر تو ان شاء اللہ الگ سے تفصیلی گفتگو کریں گے مگر فی الحال مختصرا یہ جان لیجئے کہ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے شکر بجا لایا جا سکتا ہے، ورنہ تو دول، زبان اور اعضاء و جوارح تینوں پہلوؤں سے اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے نعمت اسلام کی صورت میں ہم پر جو احسان فرمایا ہے، رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق عطا کرتے ہوئے ہم پر جو انعام فرمایا اور دیگر ٹوٹی پھوٹی عبادات بجالانے کی ہمت عطا کرتے ہوئے جو فضل و کرم فرمایا، ہم اس پر اللہ تعالی کا بے حد و حساب شکر بجالاتے ہیں، اور انہی الفاظ سے اس کا شکر بجالاتے ہیں جو آپ سے ہم کسی بھی پسندیدہ کام پر فرمایا کرتے تھے اور وہ ہیں۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تتم الصالحات (ابن ماجة:3803)
’’اللہ کا شکر اور اس کی حمد و تعریف ہے کہ جس کی نعمت سے نیکیاں اتمام و تکمیل کو پہنچتی ہیں۔‘‘
اور ہم ان الفاظ سے اس کی حمد و ثناء بیان کرتے اور اس کا شکر بجالاتے ہیں کہ اہل جنت جنت میں داخل ہونے کے بعد جن الفاظ سے اللہ تعالی کا شکر بجالائیں گے اور وہ کہیں گے۔ ﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ﴾ (الاعراف:43)
’’تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی، ہم خود ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا اور ہمیں ہدایت نصیب نہ کرتا۔‘‘
﴿ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الاعراف:43)
’’ ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے ۔‘‘
﴿ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾(الاعراف:43)
اور جب وہ یہ کلمات شکر ادا کریں گے تو اُس وقت ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں ان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہتے تھے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو انہی خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………..
