ایمان و عمل سے معمور پاکیزہ زندگی

الحمد لله الهادي إلى طريق السعادة، من على من شاء فجعله من أهل الحسنى والزيادة، أحمده سبحانه وأشكره على إفضاله، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو سعادت کی راہ دکھاتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے۔ اس پر احسان فرما کر نیکو کاروں اور اپنے خاص بندوں میں شامل کرتا ہے، میں رب سبحانہ کے فضل و انعام پر اس کی حمد و ثنا اور شکر گزاری کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اور اس کی طاعت و بندگی اور رضا و خوشنودی کے لئے عمل کرو کیونکہ کامل سعادت در حقیقت دنیاو آخرت کی سعادت ہے۔ اور اہل عقل و بصیرت اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس سعادت کے حصول کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ یہ ہے۔ کہ قرآن کریم کے احکامات کی تعمیل کی جائے رسول امین صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی پیروی کی جائے اور آپ کے پاکباز اصحاب اور سلف صالحین کے آداب و اخلاق اپنائے جائیں، کیونکہ ان اصحاب کرام نے کتاب اللہ اور سنت رسول کو اپنا امام و پیشوا بنایا اور اسی کی شاہراہ پر چلے ان پر کبھی بہیمانہ خواہشات اور نفسانی جذبات غالب نہیں ہوئے اور انہیں لوگوں کے بارے میں رب العالمین کا یہ ارشاد ہے:
﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۝وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ۝ اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۝﴾ (الفرقان: 63 تا 66)
’’اللہ کے بندے وہ ہیں۔ جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔ اور جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ گفتگو کرتے ہیں۔ تو وہ سلام کہتے ہیں۔ اور وہ جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے اور کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔ اور وہ جو دعاما لگتے ہیں۔ کہ اے پروردگار! دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھنا کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔ اور دوزخ ٹھہر نے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے۔‘‘
ان آیات کے اندر جن مومنوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ در حقیقت انہی بندوں نے دنیا کو جانا اور اس حقیقت کو سمجھا کہ دنیا تو چند روزہ سامان ہے۔ جس سے اچھے برے فائدہ اٹھا رہے ہیں، حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جو اس کے بعد آئے گی اور اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد انہوں نے دنیا سے صرف اسی قدر لیا جس سے زندگی کٹ جائے اور جسم و جان کی حفاظت ہو سکے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(حسب الأدمي لقيمات يقمن صلبه) [سنن ابن ماجة: کتاب الاطعمة، باب الاقتصاد في الاكل (3349) و جامع ترمذی: ابواب الزهد، باب ما جاء فی کراهیۃ کثرة الاکل (2380) و مسند احمد: 132/2]
’’انسان کے لئے چند لقمے کافی ہیں۔ جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔‘‘
دنیا سے بے رغبتی و لا تعلقی راحت قلب اور اطمینان کامل کا ایک اہم ذریعہ اور اللہ کی طرف رغبت و توجہ اس کے ذکر سے انسیت و محبت اور اس کی اطاعت و بندگی سے محفوظ ہونے کا بہت بڑا سبب ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۝۲۸﴾ (الرعد: 28)
’’سن لو کہ اللہ کے ذکر سے دل آرام پاتے ہیں۔‘‘
سکون قلب اور با سعادت زندگی ایسی نعمتیں ہیں۔ کہ ہر شخص کو ان کی تلاش ہے، چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے۔ کہ بکثرت مال و دولت اکٹھا کر لینے سے یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لئے مال جمع کرتا ہیں۔ ان کا مقصد زندگی ہے۔ اگر چہ وہ اس سے فی الواقع لطف اندوز نہیں ہو پاتے اسی طرح کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ کہ یہ اطمینان و سعادت جسم کو آرام پہنچانے، کم کام کرنے اور ہمیشہ بیٹھے رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے، جبکہ بعض دوسرے لوگ لذات و شہوات اور نفسانی خواہشات کے حصول میں یہ اطمینان و سعادت تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے۔ کہ مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز بھی انسان کے لئے باعث سکون و اطمینان نہیں نہ ہی ان سے زندگی کی وہ سعادت حاصل ہو سکتی ہے۔ جس کی اسے تلاش ہے۔ کیونکہ دنیا کے اندر انسان کو جو کچھ بھی مل جائے دنیا بہر حال دنیا ہے۔ آلام و مصائب اور رنج و محسن کی جگہ ہے۔ زندگی مکدر کرنا اور حالات کو بگاڑنا اس کی فطرت ہے۔ ایک عقلمند کے لئے یہ کبھی خوشگوار ہو سکتی ہے۔ نہ اسے راس آ سکتی ہے۔
ابدی سعادت اور پاکیزہ زندگی در حقیقت اہل ایمان کو حاصل ہوتی ہے۔ جو یہ جانتے ہیں۔ کہ دنیا از اول تا آخر محض تھوڑی سی پونجی اور چند روزہ سامان ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيْل﴾ (التوبه:38)
’’دنیاوی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔‘‘
اہل ایمان کو اگر دنیا کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ تو بھی وہ دنیا کی طرف انہیں مائل نہیں کر پاتی وہ کبھی بھی دنیا سے مطمئن اور اس کے مکر سے مامون نہیں ہوتے بلکہ ہمہ وقت دنیا کی گردش سے ہو شیار رہتے ہیں۔ اور اگر سختی و پریشانی اور مشقت و تشنگی ان پر آتی ہے۔ تو افسردہ خاطر نہیں ہوتے گلہ و شکوہ نہیں کرتے اور ان پریشانیوں کی وجہ سے ان کے عزم وارادہ میں کوئی سختی نہیں آتی بلکہ وہ اللہ سبحانہ کے اس فرمان کا نمونہ پیش کرتے ہیں:
﴿وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌ ۚ فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْا ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۴6﴾ (آل عمران: 146)
’’بہت سے نبی ہوئے ہیں۔ جن کے ساتھ ہو کر اہل اللہ لڑے ہیں، تو جو مصیبتیں ان پر اللہ کی راہ میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی اور نہ کمزور پڑے اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ وہ ان پر صبر کرتے ہیں۔ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ان سے فوت ہو جانے والی دنیا کی آسائش و لذت انبا انہیں کبیدہ خاطر نہیں کرتی نہ ہی اس کے حصول سے انہیں خوشی ہوتی ہے۔ بلکہ کمال مسرت اور انتہائے شادمانی اس سے حاصل ہوتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں دینی عطیات یعنی علم نافع، عقل سلیم اور عمل صالح کی توفیق سے نواز رہا ہے، جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُوْنَ﴾ (يونس: 85)
’’چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں یہ اس سے کہیں بہتر ہے۔ جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:﴿يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَّأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيْعُ أَجْرَالْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (آل عمران: 171)
’’وہ اللہ کے انعامات اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں۔ اور اس سے کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
قرآن کریم نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔ کہ دنیا کے اندر پاکیزہ زندگی اور سعادت کا حصول اہل ایمان کے لئے خاص ہے، مزید برآں اللہ تعالی نے ان کے لئے آخرت میں اجر عظیم اور دائمی نعمتوں کا ذخیرہ بھی تیار کر رکھا ہے، جس سے ان کی دنیاوی اور اخروی دونوں سعادتیں مکمل ہو جائیں گی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾ (النحل: 97)
’’جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو گا تو ہم اس کو دنیا میں پاکزندگی سے زندہ رکھیں گے اور آخرت میں ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘
اللہ کے بندو! دنیادی زندگی کی زیب و آرائش سے دھو کہ نہ کھاؤ اور کتاب اللہ کی بکثرت تلاوت کر کے اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھ کر اس پر عمل کر کے بکثرت تسبیح و تحلیل کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و سیرت کو پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے نیز آنے والے دن آخرت کیلئے تیاری کر کے اپنے ایمان کو مکمل کر لو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وَتَمَنَّى عَلَى اللهِ الأَمَانِي) [مسند احمد: 134/4 (17133) و جامع ترمذی: ابواب القیامة، باب 25 (2459)]
عقلمند و دانا وہ شخص ہے۔ جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور آخرت کے لئے عمل کرے اور عاجز اور بے وقوف وہ ہے۔ جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ سے امید میں وابستہ رکھے۔
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔