فضائل عشرہ ذی الحجہ اور اس میں کرنے کے کام

 

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَالْفَجْرِ (الفجر : 1)

قسم ہے فجر کی !

وَلَيَالٍ عَشْرٍ (الفجر : 2)

اور دس راتوں کی !

اللہ تعالیٰ جن دس راتوں کی قسم اٹھا رہے ہیں

بہت سے مفسرین نے اس سے ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں مراد لی ہیں۔

ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

"یہی تفسیر صحیح ہے”

تفسير ابن كثير: (8/413)

اور کسی بھی چیز کی قسم اٹھانا اسکی اہمیت، اور اسکے عظیم فوائد کی دلیل ہے

دنیا کے ایام میں سب سے افضل دن

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«ﺃﻓﻀﻞ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ» (صحیح الجامع الصغير 1133 -)

دنیا کے ایام میں سب سے افضل دن( ذوالحجہ کے) دس دن ہیں

تنبیہ

رمضان کے آخری عشرہ اور عشرہ ذی الحجہ میں تقابلی طور پر علماء اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عشرہ رمضان کی راتیں افضل ہیں کیونکہ ان میں لیلة القدر آتی ہے اور عشرہ ذی الحجہ کے دن افضل ہیں۔

امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔

(مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ:25؍287)

عشرہ ذی الحجہ میں نیک اعمال کی باقی دنوں کے نیک اعمال پر فضیلت

سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِي هَذِهِ ". قَالُوا : وَلَا الْجِهَادُ ؟ قَالَ : ” وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ ". (صحيح البخاري |969)

” اللہ تعالیٰ کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ اور محبوب ہوتا ہے ۔“ یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ۔

صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟

آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر جو کوئی شخص اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو ۔“

عشرہ ذی الحجہ میں آنے والے عرفہ کے دن کی خاص فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ ” (مسلم 3288)

"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”

ایک یہودی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ

يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا.

اے امیرالمومنین! تمھاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے

قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟

آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟

قَالَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3]

اس نے جواب دیا ( سورہ مائدہ کی یہ آیت کہ ) “ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا

قَالَ عُمَرُ: «قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ» (بخاري 45)

” حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق يوم عرفہ عید کا دین

عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ". (سنن أبي داود |2419 ،صحيح)

"یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں ۔

عشرہ ذی الحجہ کے آخری دن یعنی یوم النحر کی عظمت

سیدنا عبداللہ بن قرط ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ قَالَ عِيسَى قَالَ ثَوْرٌ وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي

(ابو داؤد 1765، حكم الحديث: صحيح)

” اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر ( دس ذوالحجہ ) اس کے بعد یوم القر ( ۱۱ ذوالحجہ ) ہے ۔ “ عیسیٰ نے ثور سے نقل کیا کہ یہ دوسرا دن ہوتا ہے “

یوم القر کی وضاحت کے لیے الصحيح لابن خزيمه کی حدیث نمبر 2966 میں اس روایت پر یوں تبویب کی گئی ہے

ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﺮ ﻭﻫﻮ ﺃﻭﻝ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﺘﺸﺮﻳﻖ

یوم القر کی فضیلت کا بیان اور اس سے مراد ایام تشریق کا پہلا دن ہے.

عشرہ ذی الحجہ میں بڑی بڑی عبادات جمع ہوجاتی ہیں

اس عشرہ مبارکہ کا ایک خاص امتیاز ہے جو کسی اور عشرے کو حاصل نہیں ہے وہ یہ کہ اس میں انسان تمام بڑی بڑی عبادات بجا لا سکتا ہے

جیسے روزے، نماز، زکوٰۃ، حج، جہاد، اور ہجرت وغیرہ

بالخصوص حج اور قربانی دو ایسی عبادات ہیں جو اس عشرے میں ہی ادا کی جاتی ہیں

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری کےاندرفرماتےہیں:

” عشرہ ذی الحجہ کی امتیازی حیثیت کاسبب غالبایہ ہےکہ دیگرایّام کےمقابلےمیں بڑی بڑی عبادتیں مثلا:نماز، روزہ، زکاۃ اورحج ان ایام میں اکٹھی ہوجاتی ہیں”

(فتح الباری (3/136)

عشرہ ذی الحجہ کے اعمال

پہلا عمل

پورا عشرہ ذی الحجہ تکبیرات کہنا صحابہ کرام کا مبارک عمل ہے

ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کا عمل

صحيح بخاری میں معلق روایت ہے

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا

عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل کر تکبیرات کہتے

علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا عمل

امام عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي رحمہ اللہ سے تکبیرات کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :

يُكَبَّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ كَمَا كَبَّرَ عَلِيٌّ وَعَبْدُ اللہِ. (المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٦ وسنده صحیح)

"عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشريق کے آخر تک تکبیرات کہے جیسا کہ سیدنا علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے.”

نو ذوالحجہ کی فجر سے بالخصوص تکبیرات کا آغاز :

ابو وائل شقیق بن سلمہ الأسدی رحمہ اللہ (تابعی) بیان کرتے ہیں :

كَانَ عَلِيٌّ يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ غَدَاةَ عَرَفَةَ، ثُمَّ لَا يَقْطع حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرُ. ( المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح: ١١١٣ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٥ وسنده حسن)

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کی صبح ، فجر کی نماز کے بعد تکبیرات کہتے، پھر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ کو) امام کے نماز عصر پڑھانے تک مسلسل کہتے رہتے اور عصر کی نماز کے بعد بھی تکبیرات کہتے.”

عکرمہ مولی ابن عباس رحمہ اللہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں :

أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ، إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ. ( مصنف ابن أبي شيبة : ٤٨٩/١ ح: ٥٦٤٦ ، المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٤ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٦ وسنده صحیح)

"سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ عرفہ کی نماز فجر سے لیکر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ) تک تکبیرات کہتے.”

تکبیرات کے الفاظ

اس بارے میں معاملہ وسیع ہے کیونکہ تکبیرات کہنے کا حکم مطلق ہے

فرمانِ باری تعالی ہے:

(وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ) (البقرة:185)

تا کہ تم اللہ تعالی کی اسی طرح بڑائی بیان کرو جیسے اس نے تمھیں سکھایا ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیرات کیلیے الفاظ کی تعیین نہیں فرمائی

الغرض کوئی بھی الفاظ تکبیرات کیلئے آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ تکبیرات کے معین الفاظ مرفوعاً منقول نہیں ہیں۔

البتہ صحابہ کرام سے منقول تکبیرات کے الفاظ پر پابندی کرنا بہتر ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تکبیرات کے یہ الفاظ منقول ہیں

” اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ ” "مصنف ابن ابی شیبہ” (2/165-168) "إرواء الغلیل” (3/125)

[اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں۔ ]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے

"الله اكبر كبيرا الله اكبر كبيرا واجل ‘الله اكبر ولله الحمد

اخرجہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف واسنادہ صحیح

بیہقی (3/315) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ الفاظ روایت کیئے ہیں

” اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، اَللهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اَللهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا”

البانی رحمہ اللہ نے اسے "ارواء الغلیل” (3/126) میں صحیح قرار دیا ہے۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے

” الله اكبر الله اكبر كبيرا”

کے الفاظ ثابت ہیں ۔

( ابن ابی شیبہ 2/168 ح5645 السنن الکبری اللبیہقی 3/316)

دوسرا عمل

روزے رکھیں

امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ. (ابو داؤد 2437،حكم الحديث: صحيح)

رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔

بغرضِ ترغیب روزوں کے چند فضائل درج کر رہا ہوں تاکہ اس عشرہ مبارکہ میں روزے رکھنے کا شوق پیدا ہو جائے

01. روزے جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ. (نسائی : 2230، 2231)

’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘

02. ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنْ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا (بخاري)

کہ جو شخص لوجہ اللہ ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے

03.روزے کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ ﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ. (ابن ماجه : 1638)

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔‘

اور ایک روایت میں ہے :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ. (بخاری : 1805)

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘

04.روزہ دار کے لیے انتہائی خوشی کے دو لمحات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ. (بخاری : 1805، مسلم : 1151)

’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘

05.اللہ کے نزدیک روزےدار کے منہ سے آنے والی خوشبو کی اہمیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

« وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ» (صحيح البخاري |1894)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔

06. قیامت کے دن روزہ سفارشی بن کر آئے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

((اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآَنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ۔)) (مسند احمد: ۶۶۲۶)

روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے اوقات میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا تھا، لہٰذا تو اب اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا: میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے روکے رکھا تھا، لہٰذا اب تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، نتیجتاً دونوںکی سفارش قبول کی جائے گی۔

عرفہ کا روزہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ (صحیح مسلم :۷۶۹)

عرفہ کے دن کے دن روزہ رکھنے سے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہ معاف فرمادے گا

ام المؤمنين سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

«ما من السنة يوم أصومه أحب إلي من أن أصوم يوم عرفة». (مسند ابن الجعد : 512، شعب الایمان للبیہقی : 315/5 ح : 3485، تهذيب الآثار للطبري : 600 وسندہ صحیح)

"مجھے پورے سال کے دنوں میں سے عرفہ کے دن روزہ رکھنا سب سے زیادہ پسند ہے.”

ضروری بات

یہ روزہ حاجیوں کے لیے نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے :

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فضل لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

أَنَّ نَاسًا تَمَارَوْا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : هُوَ صَائِمٌ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَيْسَ بِصَائِمٍ. فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ فَشَرِبَهُ. (صحيح البخاري |1988)

"لوگ عرفات کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے متعلق شک میں تھے (کہ آج آپ کا روزہ ہے یا نہیں) تو میں نے آپ کی طرف ایک مشروب بھیجا تو آپ نے اسے نوش فرما لیا”۔

عرفہ کا روزہ علاقائی 9تاریخ یا یوم عرفہ کے مطابق

جب سے جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ میں تیزی آئی ہے تب سے بعض حلقوں کی جانب سے صوم عرفہ کے متعلق ایک عجیب اشکال کھڑا کیا گیا ہے

وہ یہ کہ روزہ اسی دن رکھا جائے گا جس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں جمع ہونگے خواہ اپنے علاقے میں اس دن نو تاریخ ہو یا نہ ہو

جبکہ یہ موقف کئی ایک وجوہات کی بنا پر انتہائی کمزور موقف ہے

01.اس موقف کے قائل تمام علماءرمضان کے روزوں’دیگر نفلی روزوں اور یوم عاشور اور عیدین وغیرہ کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے جوڑنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں

02.اگر اس موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی۔کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے۔چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یومِ عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عیدالاضحی منائی جارہی ہوتی ہے تو اس غیرمنصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے

03.روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کےلحاظ سےیومِ عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کےلئےروزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگا؟اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو کیا وہ رات کا روزہ رکھیں گے

04.اگرچہ آج ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیں لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے جن سے سعودیہ میں یومِِ عرفہ کا پتا لگایا جا سکتا اب بھی دیہاتوں اور دراز کے باشندوں کو کیسے پتا چلے گا کہ سعودی میں یومِ عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزے کا اہتمام کریں

ماخوذ از فتاویٰ شیخ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ تعالیٰ

یوم عرفہ کے دیگر اعمال

یوم عرفہ میں بالخصوص گناہوں سے بچنا

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَنْ مَلَكَ فِيهِ سَمْعَهُ، وَبَصَرَهُ، وَلِسَانَهُ، غُفِرَ لَهُ. ( مسند أحمد : 329/1 ح : 3041، )

"جو شخص اس (یعنی عرفہ کے) دن اپنے کانوں، آنکھوں اور زبان کو گناہوں سے قابو میں رکھتا ہے اسے بخش دیا جاتا ہے.”

دوسرا عمل

جہاد فی سبیل اللہ

اس عشرہ میں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ عام دنوں میں کیا جانے والا جہاد بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا

اور بالخصوص اگر کوئی خوش قسمت مجاہد ان دنوں شہادت کی سعادت حاصل کرلیتا ہے تو اس کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا مِنْ أَيَّامٍ, الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ –يَعْنِي: أَيَّامَ الْعَشْرِ-، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ.

” اللہ تعالیٰ کو کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قدر پسندیدہ نہیں ہے جتنا کہ ان دنوں میں پسندیدہ اور محبوب ہوتا ہے ۔ “ یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں ، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر جو کوئی شخص اپنی جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو ۔ “

تیسرا عمل

حج بیت اللہ

سبحان اللہ کیسا عظیم عشرہ ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ایسا ہے جو خاص اسی عشرے سے تعلق رکھتا

بغرضِ ترغیب حج و عمرہ کے چند فضائل درج کر رہا ہوں تاکہ اس عشرہ مبارکہ میں حج بیت اللہ کا شوق پیدا ہو جائے

1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ ) [ ترمذي : ٨١٠ ]

” حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ “

02. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِِلَّا الْجَنَّۃُ ) [ بخاري : ١٧٧٣۔ مسلم : ١٣٤٩ ]

” عمرہ سے لے کر عمرہ، دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ “ گناہوں کی معافی بھی بہت بڑا نفع ہے،

03. نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

( مَنْ حَجَّ لِلَّہ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ أُمُّہٗ ) [ بخاري، : ١٥٢١ مسلم : ١٣٥٠ ّ ]

” جو شخص حج کرے، نہ کوئی شہوانی فعل کرے اور نہ کوئی نافرمانی کرے تو واپس اس طرح (گناہوں سے پاک ہو کر) جائے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ “

04. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن عاص (رض) سے فرمایا تھا :

( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ وَأَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ ) [ مسلم، : ١٢١ ]

” کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتی ہے اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے (گناہوں) کو گرا دیتا ہے۔ “

چوتھا عمل

عید پڑھنا

اسی عشرہ مبارکہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا کرنا ایک اہم شرعی فریضہ ہے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‏‏‏‏

أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، ‏‏‏‏‏‏ .(داود 2789)

اضحی کے دن ( دسویں ذی الحجہ کو ) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے

شرعی دلائل اور عید کی اسلام میں اہمیت کے پیش نظر صحیح بات یہی ہے کہ نماز عید فرض ہے

ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے :

أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا (صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).)

” ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے "

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” مجموع الفتاوى” ميں كہتے ہيں:

” دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں ” اھـ (ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 )

اگر جمعہ اور عیدین ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کے متعلق رخصت ہے۔ حالانکہ جمعہ واجب ہے، اگر صلوٰۃ عید فرض نہ ہوتی تو دوسرے فرض کو کیسے ساقط کر سکتی ہے۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ عیدین دیگر نماز پنجگانہ کی طرح فرض عین ہے

پانچواں عمل

قربانی

عشرہ ذی الحجہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنا دوسرے تینوں دنوں کی بنسبت ثواب زیادہ ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:

(( مَاالْعَمَلُ فِیْ اَیَّامٍ اَفْضَلُ مِنْھَا فِیْ ھٰذِہٖ قَالُوْا وَلَا الْجِھَادُ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ اِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ یُخَاطِرُ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ بِشَیْئٍ))

[’’ کسی اور دن میں عبادت ان دس دنوں میں عبادت کرنے سے افضل نہیں ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ جہاد بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ جہاد بھی نہیں ۔ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالتے ہوئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لوٹے۔‘‘]

قربانی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام : 162)

کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (الحج : 34)

اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ سو تمھارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے فرماں بردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔

لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ … : یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ہمارے عطا کردہ پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام لے کر انھیں قربان کریں، نہ کہ کفار کی طرح ہمارے عطا کر دہ چوپاؤں کو بتوں اور غیر اللہ کے آستانوں پر انھیں خوش کرنے کی نیت سے ذبح کریں

اسلام میں بھی یہ بطور عبادت مقرر کی گئی ہے، اس میں حاجی، غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے۔ البتہ مکہ میں حج یا عمرہ پر کی جانے والی قربانی کو ہدی اور دوسرے مقامات پر کی جانے والی قربانی کو اضحیہ کہا جاتا ہے۔

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

[ ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صِفَاحِهِمَا يُسَمِّيْ وَيُكَبِّرُ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهٖ] [بخاري : ۵۵۵۸۔ مسلم : ۱۹۶۶ ]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ’’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ ‘‘ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔‘‘

چھٹا عمل

قربانی کی نیت رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں حجامت وغیرہ نہ کروائے

قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص جب ذوالحجہ کا چانددیکھ لے یا یہ خبر عام ہو جائے کہ چاند نظر آگیا ہے تو اس رات سے لے کر اپنے جا نور کی قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی حصے سے کوئی بال یا ناخن نہ کاٹے کیونکہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ» (صحیح مسلم :۱۹۷۷)

"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔

یہ پابندی قربانی کرنے تک ہے

صحیح مسلم اور سنن ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:

(( فَلاَ یَاْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّيَ ))

’’وہ اپنے جانور کو ذبح کرلینے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘

المستدرک على الصحيحين میں حدیث نمبر 7519 میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے

"ﺇﺫا ﺩﺧﻞ ﻋﺸﺮ ﺫﻱ اﻟﺤﺠﺔ ﻓﻼ ﺗﺄﺧﺬﻥ ﻣﻦ ﺷﻌﺮﻙ ﻭﻻ ﻣﻦ ﺃﻇﻔﺎﺭﻙ ﺣﺘﻰ ﺗﺬﺑﺢ ﺃﺿﺤﻴﺘﻚ”

یعنی یہ ناخنوں اور بالوں کی پابندی قربانی کرلینے تک ہے

مؤطا امام مالک میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے بعد سر کے بال کٹوائے

ﻓﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﺣﻴﻦ ﺫﺑﺢ اﻟﻜﺒﺶ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﺮﻳﻀﺎ ﻟﻢ ﻳﺸﻬﺪ اﻟﻌﻴﺪ ﻣﻊ اﻟﻨﺎﺱ

موطا ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﺎﻳﺎ

یہ پابندی تمام گھر والوں پر ھے

نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں

أﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮﻣﺮ ﺑﺎﻣﺮﺃﺓ ﺗﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﺷﻌﺮ اﺑﻨﻬﺎ ﻓﻲ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻌﺸﺮ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دس دنوں میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کے بال کاٹ رہی تھی

تو آپ نے فرمایا

"ﻟﻮ ﺃﺧﺮﺗﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻨﺤﺮ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ” (مستدرک للحاکم 7520)

اگر تو اسے قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو بہتر ہوتا