فضائل صحابہ حبِ نبوی
(اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت، مسلمانوں کے باہمی حقوق)(صفر کی نحوست)
تمہید: اللہ نے ہمارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے: ﴿إن الدين عند الله الإسلام ﴾، ﴿ ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه ﴾ ہمارا دین ایک کامل اکمل دین ہے: ﴿ اليوم أكملت لكمم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ﴾
جس میں رہتی دنیا فلاح انسانیت کی ضمانت موجود ہے۔ یہی وہ دین ہے، جس پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے، دیگر مذاہب پر عمل کرنے والے کتنے زیادہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس کا تعلق اپنے دین سے انتساب کی حد تک ہے۔
دین اسلام کا دار ومدار اور مرکز ومحور سید الانس والجن سیدنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ، آپ کی ذات انسانیت کیلئے لازوال تحفۃ اور عدیم المثال منارۂ رشد وہدایت ہے ، ﴿ لقد من الله على المؤمنين﴾ اسلام میں سب سے متبرّک حیثیت تصور نبوت کو حاصل ہے جس کے گرد تمام عقائد ونظریات گھومتے ہیں ۔ ہمیں آپکے ذریعے اللہ کے تمام احکامات ملے ہیں۔ ﴿ يأيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم﴾ …. ﴿قل أطيعوا وأطيعوا الرسول…. وإن تطيعوه تهتدوا﴾
اگر محمد ﷺکے نبی ہونے پر شک وشبہ پیدا ہوجائے تو نہ صرف قرآن کریم پر ایمان متزلزل ہوجاتا ہے بلکہ اللہ، قرآن، فرشتوں اور دیگر تمام عقائد ونظریات میں دراڑیں پڑجاتی ہیں ۔ اس اعتبار سے دین اسلام کی سب سے مرکزی حیثیت منصبِ رسالت کو حاصل ہے، اور نبی کریم کی یہی مرکزیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ کی ذات ہر مسلمان کیلئے تمام محبتوں کا مرکز اور محور قرار پائے اور ایمان کو اس سے مشروط کر دیا جائے۔
محبت کے تین اسباب: 1. محبوب کا احسان 2. محبوب کا کردار 3. محبوب کا حسن وجمال
قال النووي: ثم الميل قد يكون لما يستلذه الإنسان ويستحسنه كحسن الصورة والصوت والطعام ونحوها وقد يستلذه بعقله للمعانى الباطنة كمحبة الصالحين والعلماء وأهل الفضل مطلقا وقد يكون لإحسانه إليه ودفعه المضار والمكاره عنه وهذه المعانى كلها موجودة في النبى ﷺ لما جمع من جمال الظاهر والباطن وكمال خلال الجلال وأنواع الفضائل وإحسانه إلى جميع المسلمين بهدايته اياهم إلى الصراط المستقيم ودوام النعم والإبعاد من الجحيم
نبی کریمﷺ کا احسان: آپ کی سیرت پر لکھی کتب کا نام محسن انسانیت … لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه … اللہم من وَلِيَ من أمر أمتي شیئا فَشَقَّ علیہم فَاشْقُقْ ومن ولي من أمر أمتي شیئا فَرَفِقَ بہم فَارْفُقْ بہ … مسلم
دشمنوں کے خیر خواہ: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا …. أفمن حق عليه كلمة العذاب أفأنت تنقذ من في النار … أفأنت تكره الناس حتى يكونوا مؤمنين … فإن كان كبر عليك إعراضهم فإن استطعت أن تبتغي نفقا … أبو هريرة: إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنْ النَّارِ وَهُمْ يَقْتَحِمُونَ فِيهَا … بخاری
تصور کریں کوئی خودکشی کیلئے نکلے، آپ اسے روکیں تو وہ آپ کو گالیاں دے، پٹائی کرنا شروع کر دے، کیا آپ اسے بچائیں گے؟ نہیں بلکہ اسے خود ہی کھائی میں دھکا دے دیں گے۔ لیکن! آپ کو گالیاں دی گئی، مارا پیٹا گیا حتیٰ قتل کی سازشیں ہوئی، آپ کے پیچھے اوباشوں کو لگا دیا گیا، آپ کے زخموں سے اتنا خون بہا کہ جوتے پاؤں میں جم گئے کہ اللہ رب العٰلمین نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیج دیا: عائشة: فنظرت فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يا محمد إن الله قد سمع قول قومك لك وأنا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتأمرني بأمرك فما شئت إن شئت أن أطبق عليهم الأخشبين فقال له رسول الله ﷺ بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به شيئا … بخاري
لوگ بکواس کرتے ہیں کہ اگرمحمد کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی توپوری انسانیت کوتباہ کردیتے (نعوذ باللہ!) نادانو سنو! ہمارے نبی ﷺکواس سے بھی بڑی طاقت دی گئی ، پہاڑی فرشتہ جوتمہاری بے شمار فوجیوں پراکیلابھاری ،پہاڑوں پرکنٹرول جس پرپوری دیناکا توازن قائم ہے، اوریہ طاقت بھی آپ ﷺ پر ظلم کرنے والوں کے خلاف دی گئی تھی ،لیکن آپ ﷺنے ان ظالموں پر بھی اس طاقت کواستعمال نہ کیا ،اورنہ صرف ان پربلکہ ان کے ذریعہ پیداہونے والی آئندہ نسلوں پربھی رحم کیا ،آج نہ جانے پوری دنیا میں کتنے خاندان انہیں کی نسل سے ہیں ، انسانیت پراس سے بڑااحسان اورکیاہوسکتاہے۔
آپ کی دعا کی برکت سے عمومی عذاب نہیں آئے گا عن سعيد بن أبي وقاص: سألته أن لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها وسألته أن لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها … أحمد. و فی رواية: بِمَا عَذَّبَ به الأمم قبلهم: قال ابن حجر: وَدَخَلَ فِي قَوْله: « بِمَا عَذَّبَ بِهِ الْأُمَم قَبْلهمْ » الْغَرَق كَقَوْمِ نُوح وَفِرْعَوْن ، وَالْهَلَاك بِالرِّيحِ كَعَادٍ ، وَالْخَسْف كَقَوْمِ لُوط وَقَارُون ، وَالصَّيْحَة كَثَمُودَ وَأَصْحَاب مَدْيَن، وَالرَّجْم كَأَصْحَابِ الْفِيل وَغَيْر ذَلِكَ مِمَّا عُذِّبَتْ بِهِ الْأُمَم عُمُومًا
جانوروں پر احسان: سنن ابی داؤد عن ابن مسعود: چڑیا کے بچوں کا معاملہ …. زید بن ارقم: مدینہ کی گلی میں ہرنی کا قصہ ، اچھے طریقے ذبح کرنا۔
آپﷺ کا کردار: بہادری: أنس: كان النَّبِيُّ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ ﷺ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ … بخاري
على: كنا إذا احمر البأس ولقي القوم القوم اتقينا برسول الله ﷺ فما يكون منا أحد أدنى (دشمن کے قریب) من القوم منه … آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟؟؟
حسن خلق: وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ … عمرو بن العاص کا قصہ جن کا خیال تھا کہ وہ رسول اللہ کو سب سے محبوب ہیں ثمامة بن أثال: يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ … بخاری
حسن وجمال: وأحسن منك لم تر قط عيني: وأجمل منك … سيدنا يوسف کو نصف حسن ديا گیا تو نبی کریمﷺ کو مکمل حسن دیا گیا: أنس: كان النبيﷺ أحسن الناس … بخاري
جابر بن سمرہ: میں نے چودھویں رات کو نبی کریمﷺ کو سرخ لباس میں ملبوس دیکھا تو چاند بھی آپ کے سامنے ماند پڑگیا تھا۔
ربیع بنت معوذ اگر تم نبی کریمﷺ کو دیکھتے تو پکار اٹھتے گویا سورج طلوع ہو رہا ہے
کعب بن مالک : خوشی میں آپ کا چہرہ یوں دمک اٹھتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے۔
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ … بخاری