فتنوں کی تعمیم و تفہیم اور بچاؤ کی تدبیریں ترکیب
﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ (انفال:25)
گذشتہ خطبه جمعہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں فتنوں کے دور کی بات ہو رہی تھی کہ ایک دور ایسا آنے والا ہے جب فتنے رونما ہوں گے، بہت زیادہ ہوں گے، بہت شدید ہوں گے، بہت تاریک ہوں گے، بہت سنگین ہوں گے، ایسے سنگین کہ ان میں ایک شخص دور سے جھانکنے کی کوشش کرے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور وہ فتنے اس قدر تحمیر اور الجھے ہوئے ہوں گے کہ انہیں سمجھنا نہایت مشکل ہوگا حتی کہ بڑے بڑے علم و دانش کے دعویدار بھی حیران و ششدر رہ جائیں گے اور انہیں سمجھنے سے قاصر ہوں گے، اور فتنے ایک خلق کثیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اور بعض فتنے تو ایسے ہوں گے کہ ان میں سو میں سے نانوے آدمی قتل ہو جائیں گے اور کچھ ایسے ہوں گے کہ آدمی سمجھے گا کہ فلاں فتنہ تو اب ختم ہونے کو ہے، دب جانے والا ہے مگر وہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوگا اور وہ فتنے جب شروع ہوں گے تو پھر یکے بعد دیگرے اور پے درپے ہوں گے۔
اور وہ دور یقینًا شروع ہو چکا ہے، کئی ایک قیامت کی نشانیاں اور فتنے ظاہر ہو چکے ہیں، جیسے:
(۱) بکریوں کے چرواہوں کا اونچی اونچی عمارتیں بنانا
(۲) بدکاری اور فحاشی کا عام ہونا
(۳) سود کا عام ہونا
(۴) قتل و خونریزی کا عام ہونا
(۵) ناپنے اور گانے والیوں کا عام ہونا وغیرہ۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جزوی طور پر ظاہر ہو چکے ہیں جیسے امانت کا اٹھ جانا ، عمل کا امان فقدان اور علم کا اٹھایا جانا وغیرہ اور کچھ ابھی ظاہر ہونا باقی ہیں، بالخصوص بڑے بڑے فتنے اوربڑی بڑی نشانیاں۔
تاہم اللہ تعالی کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان فتنوں سے پیشگی خبردار کیا، شدید تاکیدی الفاظ میں خبردار کیا ہے اور پر زور انداز میں ان کی شدت اور سنگینی سے آگاہ کیا، فتنوں کی شدت اور سنگینی کے بارے میں اگر چہ ہم پہلے بھی کچھ جان چکے ہیں، مگر آئیے کچھ مزید سنتے ہیں تاکہ بات ذہن نشین ہو جائے اور اس کی اہمیت اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
گذشتہ خطبہ جمعہ میں فتنوں کی کثرت کے بارے میں ہم نے یہ جانا، کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح ہوں گے اور ہم نے یہ بھی جانا کہ فتنوں سے آدمی اس قدر محفوظ ہوگا جس قدر وہ ان سے دور رہے گا اور یہ کہ جو کوئی ان میں دور سے جھانکنے کی کوشش کرے گا وہ بھی ان میں مبتلا ہو جائے گا اور اسی طرح اور باتیں بھی جائیں۔ مگر بعض فتنوں کی سنگینی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ان میں شریک ہونے والے ننانوے فیصد لوگ قتل ہو جائیں گے۔
حدیث میں ہے، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((سمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ))
’’میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب فرات میں سونے کا ایک پہاڑ نمودار ہوگا۔‘‘
((فَإِذَا سَمِعَ بِهِ النَّاسُ سَارُوا إِلَيْهِ))
’’لوگ جب اس کے بارے میں سنیں گے تو اس کی طرف چل پڑیں گے۔‘‘
((فَيَقُولُ مَنْ عِنْدَهُ لَئِنْ تَرَكْنَا النَّاسَ يَأْخُذُونَ مِنْهُ لَيُذْهَبَنَّ بِهِ كُلَّهُ))
’’جو لوگ اس وقت فرات کے پاس موجود ہوں گے، وہ کہیں گے اگر ہم نے لوگوں کو یونہی سونا لینے کے لیے چھوڑ دیا تو وہ سارے کا سارا پہاڑ ہی لےجائیں گے۔‘‘
((فَيَقْتَتِلُونَ عَلَيْهِ))
’’چنانچہ وہ اس پر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے۔‘‘
((فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتَسْعُونَ)) (مسلم:2895)
’’پس ہر سو میں سے ننانوے لوگ قتل ہو جائیں گے۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((فَمَنْ حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا)) (بخاري:7119)
’’پس جو وہاں موجود ہو وہ وہاں سے کچھ نہ لے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ آپ ﷺہم نے اس فتنے سے متعلق ایک واضح رہنمائی فرمائی ہے اور آپ ﷺکا یہ فرمان نسل در نسل لوگوں کو معلوم ہوتا جائے گا، مگر اندازہ کیجئے کہ فتنے میں کسی قدر کشش ہوتی ہے کہ اس واضح ہدایت اور رہنمائی ملنے کے باوجود لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے کود پڑیں گے اور لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے، یہ نہیں کہ لوگوں تک آپ ﷺ کا یہ فرمان پہنچا نہیں ہو گا بلکہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَيَقُولُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ ، لَعَلَّى أَكُونُ أَنَا الَّذِي أَنْجُو))(مسلم:2894)
’’اور ان میں سے ہر ایک شخص یہی کہے گا کہ شاید وہ نجات پانے والا شخص میں ہی ہوں گا۔‘‘
یعنی ہر شخص کو معلوم ہوگا کہ اس لڑائی میں نانوے فیصد قتل ہو جائیں گے، مگر اس امید پر وہ لڑائی میں شریک ہو جائے گا کہ وہ بیچ نکلنے والا شخص وہی ہوگا۔
اور اس فتنے کی کشش کا مزید انداز ہ کیجئے کہ آپ ﷺنے ان لوگوں کے بارے میں یہ بھی بیان فرما دیا ہے کہ وہ بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔
حدیث میں ہے۔
((عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أتِي النَّبِي بِقِطْعَةٍ مِنْ ذَهَبٍ ، كَانَتْ أوَّلَ صَدَقَةٍ جَاءَتْهُ مِنْ مَعْدِن))
’’حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس سونے کا ایک ٹکڑا لایا گیا ، کسی کان میں سے نکلا ہوا زکاة کے مال کے طور پر لایا جانے والا وہ پہلا صدقہ تھا۔‘‘
((فقال: ما هذه ؟))
’’آپﷺ نے فرمایا، یہ کیا ہے؟‘‘
((قَالُوا: صَدَقَةٌ مِنْ مَعْدِن لَنَا))
’’لوگوں نے بتایا کہ ہماری کان میں سے صدقہ ہے ۔‘‘
((فَقَالَ: إِنَّهَا سَتَكُونُ مَعَادِنُ، وَسَيَكُونُ فِيهَا شِرَارُ خَلْقِ اللهِ عز وجل)) (المعجم الأوسط: 4/30)
’’تو فرمایا: ایک دور میں کا نہیں ہوں گی کہ ان میں اللہ تعالی کی بدترین مخلوق ہوگی ۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ: ((يَخْرُجُ إِلَيْهِ شِرَارُ النَّاسِ ، أَوْ يُحْشَرُ إِلَيْهِ شِرَارُ النَّاسِ)) (مسند ابی یعلی، ج:11 ، ص:305)
’’اس کان کی طرف بدترین لوگ نکلیں گے یا فرمایا نکالے جائیں گے ۔‘‘
تو لوگوں کی جرات اور فتنے کی کشش ملاحظہ کیجئے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ آپ ﷺنے ایسے لوگوں کو اللہ تعالی کی بدترین مخلوق قرار دیا ہے پھر بھی اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔
اور وہ جو آپ ﷺنے اس سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے تو اس کی علماء کرام نے متعدد حکمتیں بیان کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے جو جمہور علماء کرام کی رائے ہے کہ آپ ﷺنے اس لیے منع فرمایا ہے کہ لوگ فتنے میں شریک ہونے سے بچ جائیں۔
تا ہم ایسا ہو کر رہے گا کہ آپ ﷺکی فرمائی ہوئی ہر ہر بات حق اور سچ ہے وہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے، کسی کی عقل پر پوری اترتی ہو یا نہ اترتی ہو، وہ یقینًا حق اور آئی ہے۔ یوں تو بہت سی قیامت کی نشانیاں حرف بحرف ثابت ہو چکی ہیں، مگر ایک کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بہت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، وہ جو آپ ﷺنے فرمایا کہ:
((وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي البنيان)) (مسلم:8)
’’تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، غریب قسم کے لوگ، بکریوں کے چروا ہے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بلند و بالا عمارتیں بنائیں گے۔‘‘
ننگے پاؤں ننگے بدن کا مطلب ہے کہ نہایت ہی غریب قسم کے لوگ اور بکریوں کے چروا ہے، یعنی عرب کہ عرب کے بدو لوگ ہی اونٹوں اور بکریوں کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔
یعنی جن لوگوں کے پاس کھانے اور پینے کو کچھ نہیں ہے وہ کل کو بلند و بالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے، آپ نے دیکھا کہ دبئی نے جب 500 میٹر بلند عمارت بنانے کا اعلان کیا اور اس پر کام شروع کر دیا تو ادھر سے سعودیہ کے ایک پرنس نے اعلان کر دیا کہ وہ ایک میل بلند عمارت بنائیں گے۔
تو غور فرمائیں، کس طرح حرف بحرف آپ ﷺکی پیش گوئی ثابت ہوئی ، اسی طرح دوسری پیشن گوئیاں بھی ہیں اور آنے والی بھی ہوں گی۔
تو ان باتوں کو ایک بار پھر سے ذہن میں تازہ کر لیں کہ فتنے بہت زیادہ ہوں گے، بہت شدید ہوں گے، انہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوگی، صرف خاص خاص علماء ہی سمجھ پائیں گے۔
اب آئے مسلمانوں کے موجودہ حالات کے حوالے سے قیامت کی نشانیوں اور فتنوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
ایک حدیث گذشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کی تھی کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد ایسے ایسے حکمران ہوں گے جو میری ہدایت اور میری سنت کے مطابق نہیں چلیں گے اور نہ لوگوں کی رہنمائی کریں گے اور ان میں سے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو انسانی جسموں میں شیطان کے دل رکھتے ہوں گے ان کی بھی ہر حال میں اطاعت کرنا، چاہے وہ تمہاری پٹائی کریں اور تمہارا مال بھی لوٹ لیں۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّمَا أَخَافُ عَلٰى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِينَ)) (ترمذي: 2229)
’’میں اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ڈرتا ہوں ۔‘‘
((وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَا يُرْفَعُ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)) (ترمذي:2202)
’’اور میری امت میں جب ایک بار تلوار نکل آئی تو قیامت تک میان میں نہیں جائے گی۔‘‘
اور ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے اس سلسلے میں رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا:
((كَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِعُوا فِيهَا أَوْ تَارَكُمْ وَالْزَمُوا فِيهَاأَجوَافَ بُيُوتِكُمْ وَكُونُوا كَابْنِ آدم)) (ترمذي:2204)
’’فتنوں کے دور میں اپنی کمانیں توڑ ڈالنا، ان کے دھاگے کاٹ دینا، اپنے گھروں میں گوشہ نشین ہو جانا اور ابن آدم (یعنی ہابیل) کی طرح ہو جانا۔‘‘
اور ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((أَلَا فَإِذَا نَزَلَتْ أَوْ وَقَعَتْ فَمَنْ كَانَ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ وَمَنْ كانَتْ لَهُ غَنْمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضَ فَلْيَلْحَقُ بِاَرْضِهِ))
’’فرمایا: جب فتنے ظاہر ہوں تو جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اونٹوں کے باڑے میں چلا جائے ، جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس کے پاس کھیتی باڑی کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں چلا جائے۔‘‘
((قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِبِلٌ وَلَا غنَمٌ وَلَا أَرْضٌ))
’’ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! اگر کسی کے پاس اونٹ ، بکریاں اور زمین نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟‘‘
((قَالَ يَعْمِدُ إِلٰى سَيْفِهِ فَيَدُقَّ عَلٰى حَدِّهِ بِحَجَرٍ ثُمَّ لِيَنْجُ إِن اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ اَللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ)) (مسلم:2887)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: وہ اپنی تلوار لے اور پھر سے اس کی دھار کند کر دے، کھنڈی کر دے اور پھر وہ بچ جائے اگر بچنے کی استطاعت رکھتا ہو اور پھر فرمایا: اللہ ! گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، اللہ گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، اللہ گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
ہم نے آپ ﷺکے فرامین سے، جو کہ ہمارے موجودہ حالات کے مطابق ہیں اور مکمل رہنمائی دیتے ہیں اور اتنے واضح ہیں کہ ان کی مزید تشریح اور تفسیر کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
ہر مسلمان سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ ان فرامین کی روشنی میں اپنی منزل متعین کرے گا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دے گا کہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
آپﷺ کا پیغام آپ تک پہنچ چکا، جس میں آپ ﷺنے فتنوں کی نشاندہی بھی فرمائی اور ان میں رہنمائی بھی فرمادی، گمراہ کرنے والے رہنما کون ہیں اور ان سے کسی طرح بچنا ہے اور کیا آپ بچنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں یہ آپ کی صوابدید پر ہے
اگر کوئی شخص آج کے دور میں۔ پاکستان کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ کسی بد کردار اور گمراہ کرنے والے رہنما کی پہچان نہیں کر سکتا، آج کے فتنے کو سمجھ نہیں سکتا تو کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے، کیونکہ فتنوں کو سمجھنا واقعی بہت مشکل ہے، لیکن اگر کوئی سمجھتا ہی نہ چاہے تو پھر اس کی کم عقلی، خواہش پرستی اور کج فکری پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کم عقل سے مراد کوئی پاگل اور مجنون نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس نے اپنی عقل کو اپنی خواہشات کے تابع کر رکھا ہو، اپنے لیڈروں اور رہنماؤں کی گود میں ڈال رکھا ہو کہ وہ جس طرح چاہیں اس سے کھیلیں۔
اور ایسے ہی لوگ بد کردار اور دین بے زار لیڈروں کے دست و بازو ہوتے ہیں اور جب تک معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں، بد کردار لیڈروں کی پانچوں گھی میں ہیں۔
چنانچہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب تک بے وقوف زندہ ہے عقلمند بھوکا نہیں مر سکتا۔ یه محاروہ اگر چہ لوگوں کے تجربات کے نتیجے میں بنا ہے، مگر قرآن پاک بھی کچھ اس کی تائید اور توثیق کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن پاک نے فرعون اور اس کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے کچھ ایسی ہی بات فرمائی کہ فرعون کسی طرح اپنی قوم پر حکمرانی کرنے میں کامیاب ہوا، کس طرح انہیں اپنے تابع کر لیا، فرمایا:
﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ﴾ (الزخرف:54)
’’اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی ۔‘‘
یعنی اس نے اپنی قوم کو کم عقل باور کرایا، انہیں یہ سمجھایا کہ تم عوام ہو، تمہیں سیاست کی سمجھ نہیں ہے، ہم تمہاری قسمت کا فیصلہ کریں گے ۔ پس انہوں نے سرتسلیم خم کر دیا، اس کے نعروں کے سامنے، اس کے دعووں کے سامنے، اس کی حکمت بھری باتیں کہ جسے وہ سمجھتا تھا، اپنی گردنیں جھکا دیں۔
اور فرمایا:
﴿ا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فٰسِقِينَ﴾ (الزخرف:54)
’’اصل بات یہ ہے کہ وہ تھے ہی فاسق لوگ ۔‘‘
انہیں اس بات کی فکر ہی نہیں تھی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، دین کیا ہے اور بے دینی کیا ہے، دین دار کون ہے اور دین بے زار کون ہے، انھیں تو اس کی بس پر سٹیلٹی اچھی لگی تھی، اس کی تقریریں اچھی لگی تھیں، اس کے دعوے اور سبز باغ اچھے لگے تھے وہ تو یہ سب کچھ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کر رہے تھے۔
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر خواہشات دین کے تابع نہ ہوں تو وہ بے دینی ہوتی ہے۔ اور تعجب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے جلسوں اور جلوسوں اور اپنی تقریبات کا آغاز تاریخ اور گانے سے کرتا ہو اور لوگوں کو پھر بھی معلوم نہ ہو کہ وہ دیندار ہے یا بے دین؟
یاد رکھو ایسی تقریبات میں شریک ہونا اور انہیں اپنے کسی بھی طرز عمل سے سپورٹ کرنا ویسی ہی بے دینی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑایا جاتا ہو وہاں مت بیٹھو، اگر پھر بھی بیٹھے رہتے ہو تو پھر ﴿ اِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ) (النساء:140) ’’تم اور وہ ایک جیسے ہو۔‘‘
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر اپنے قول و فعل سے اس میں شریک نہ بھی ہو تو رضا مندی کے سبب بھی ان جیسا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑائے جانے کے وقت ان کے ساتھ بیٹھے رہنا رضا مندی کی علامت ہے۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا:
((يَا أَبَا سَعِيدٍ أَخْبِرْنِي عَنْ رَجُلٍ لَمْ يَشْهَدْ فِتْنَهُ ابْنِ الْمُهَلِّبِ إِلَّا أَنَّهُ سَكَتَ بِلِسَانِهِ وَرَضِيَ بِقَلْبِهِ))
’’اے ابو سعید! ایسے شخص کے بارے میں بتائیے کہ جو فتنہ ابن المهلب میں موجود تو نہ تھا مگر زبان سے وہ خاموش رہا اور دل سے راضی رہا ۔‘‘
((قَالَ يَا ابْنَ أَخِي! كَمْ يَدًا عَقَرَتِ النَّاقَةَ))
’’تو انھوں نے کہا: بھتیجے ! صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو کتنے لوگوں نے قتل کیا تھا‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: يَدٌ وَّاحِدةٌ))
’’کہتے ہیں، میں نے کہا ایک ہاتھ نے ‘‘ یعنی صرف ایک شخص نے ۔
((قَالَ: أَلَيْسَ قَدْ هَلَكَ الْقَوْمُ جَمِيعًا بِرِضَاهُمْ وَتَمَالِيْهِمْ)) (الزهد لاحمد بن حنبل:234)
’’تو کہا: کیا ساری قوم ان کی رضا مندی اور ان کی طرف جھکاؤ اور خیالات کی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں بلاک کی گئی ؟‘‘
اللہ تعالی ہمیں فتنوں کو سمجھنے اور ان سے دور رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين