فضول باتوں سے اجتناب

الحمد لله الهادي إلى سبيل الرشاد، موفق من شاء من عباده إلى طريق السداد، أحمده سبحانه وأشكره، وشكره واجب على جميع العباد، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، لا خير إلا دل الأمة عليه، ولا شر إلا حذرها منه، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك الناصح الأمين، وعلى آله وصحبه والتابعين۔
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو رشد و ہدایت کی راہ دکھاتا اور اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ اس پر گامزن کرتا ہے، میں اس اللہ سبحانہ کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرتا ہوں، جس کی شکر گذاری تمام بندوں پر ضروری ہے۔ اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہوں نے اپنی امت کو ایک ایک خیر کی تعلیم دی اور ہر شر سے ڈرایا۔ الٰہی! تو اپنے ایسے خیر خواہ اور امانت دار بندے و رسول پر اور ان کے آل و اصحاب اور پیرو کاروں پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس بندے مومن جیسا عقیدہ رکھو جو یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ تعالی اس کے ہر چھوٹے اور بڑے عمل کا محاسب اور اس کی ہر معمولی اور غیر معمولی گفتگو کا نگراں ہے۔ جو یہ ایمان رکھتا ہو کہ اس کے ایک ایک عضو ایک ایک چال ہر ہر نگاہ اور ایک ایک گفتگو پر نگراں اور محاسب مقرر ہیں۔ اور اس تقوی کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی اطاعت میں صرف کر رہا ہو، منہیات و معاصی سے بچتا ہو اپنے عیوب کی تلاش و جستجو اور ان کی اصلاح میں مشغول اور نفس کے تزکیہ و تطہیر کے لئے کو شاں ہو ارشاد الہی ہے:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس:9،10)
’’جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ فلاح یاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا۔‘‘
تزکیہ نفس کا طریقہ یہ ہے۔ کہ اچھے اعمال انجام دیئے جائیں۔ محرمات و منہیات سے اجتناب کیا جائے اور نفسانی خواہشات میں پڑنے سے نفس کو باز رکھا جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کی بہتری کے نہایت خواہش مند تھے آپ نے امت کے لئے ہر ممکن خیر خواہی فرمائی ارشد و ہدایت کی راہ بنائی تاکہ امت اس کو اختیار کرے اور شر و فساد کے راستوں سے متنبہ کیا تاکہ اس پر چلنے سے بچے۔ اللہ رب العالمین کی جانب سے آپ جوامع الکلم سے نوازے گئے جو ہمیں خیر و سلامتی کی راہ دکھاتے اور صراط مستقیم واضح کرتے ہیں۔ انہی جوامع الکلم میں سے آپ کا یہ گرانقدر جامع ارشاد بھی ہے:
(من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه) [مسند احمد:201/1 (1737) و جامع ترمذی ابواب الزهد، باب: 11 (2318)]
’’آدمی کے حسن اسلام کا تقاضا یہ ہے۔ کہ وہ فضول اور لایعنی باتیں چھوڑ دے۔‘‘
حدیث پاک کا یہ مختصر سا جملہ اپنے اندر دنیا و آخرت کی بھلائی سموئے ہوئے ہے۔ کیونکہ ایک آدمی جب فضول کام اور لایعنی باتیں چھوڑ دے اور صرف ضروری اور مفید قول و عمل پر اکتفا کرے تو اس نے گویا اپنا اسلام مکمل اور بہترین بنا لیا کیونکہ اسلام کا تقاضا یہ ہے۔ کہ آدمی واجبات کی تعمیل اور محرمات و منہیات سے اجتناب کرے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده) [صحیح بخاری: کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویده (10)]
’’مسلمان وہ ہے۔ جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
ایک مسلمان کا اسلام جب کامل ہو جائے تو اس کا تقاضا ہو گا کہ وہ حرام مشکوک مکروہ اور تمام غیر ضروری ولا یعنی امور سے اجتناب کرے اور در حقیقت کی درجہ احسان تک پہنچا ہو اوه مسلمان ہے۔ جس کے بارے میں حدیث کے اندر وارد ہے۔ کہ عبادت کے وقت وہ ایسا محسوس کرے کہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر وہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہے۔ تو اللہ تو اسے دیکھ ہی رہا ہے۔ ایک مسلمان کے اندر جب یہ وصف پیدا ہو جاتا ہے۔ تو ہمہ وقت وہ اپنے دل میں اپنے خالق کی عظمت و بڑائی محسوس کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو رب العالمین سے شرم و حیا آنے لگتی ہے۔ اور لایعنی امور کو چھوڑ کر صرف ضروری کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے، وہ حیا جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(الحياء شعبة من الإيمان) [1]صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب امور الایمان (9) و صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان (35)]
’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
اور حیا کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے دوسری حدیث میں فرمایا:
(الاستحياء من الله: أن تحفظ الرأس وما وعى، والبطن وما حوى، ولتذكر الموت والبلى، ومن أراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذلك فقد استحيا من الله حق الحياء) [جامع ترمذی: ابواب القیامه، باب 24 (2458) و مسند احمد:387/1 (3671)]
’’اللہ سے حیا کرنے کا مطلب یہ ہے۔ کہ تم اپنے سر کو اور سر نے جو باتیں یاد کر رکھی ہیں۔ ان کو اور اپنے پیٹ کو اور پیٹ نے جو کچھ جمع کر رکھا ہے۔ ان کو (خرابی سے) محفوظ رکھو موت و فنا کو یاد کرو اور جو آخرت کی کامیابی چاہتا ہو وہ دنیا کی زیب و زینت ترک کر دے جس نے ایسا کیا اس نے گویا اللہ سے حیا کا حق ادا کیا۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے۔ کہ انہوں نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی گفتگو کو عمل میں سے شمار کرے وہ ضرورت کے علاوہ بہت ہی کم گفتگو کرے گا“
چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس قول کے مطابق آج بہت سے لوگوں کا حال یہ ہے۔ کہ ان کے یہاں بولنے اور گفتگو کرنے کا کوئی حساب ہی نہیں ہوتا اور ان کے دل میں یہ بات بھی نہیں کھٹکتی کہ ہم جو کچھ کہہ اور بول رہے ہیں۔ رب العالمین کے یہاں ہم سے اس کا بھی حساب ہو گا اگر وہ یہ محسوس کر لیں تو شاید زیادہ بولنے سے اجتناب کریں۔
یہ مسئلہ ایسا ہے۔ کہ اسے بہت سارے لوگ نہیں جانتے بلکہ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کو بھی اس کا علم ابتداء نہ تھا چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم نہ تھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا:
(يارسول الله، وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به؟ فقال: ثكلتك أمك يا معاذ. وهل يكب الناس على مناخرهم في النار إلا حصائد ألسنتهم) [مسنداحمد:231/5 (22077) و جامع ترمذی: ابواب الایمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلاة (2616)]
’’اے اللہ کے رسول اہم جو کچھ بولتے ہیں۔ کیا اس کا بھی مواخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں تمہیں فوت کرے اے معاذ! لوگوں کے منہ سے نکلی ہوئی فضول باتیں ہی تو انہیں پیشانی کے بل جہنم میں لے جائیں گی۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی کا انتقال ہو گیا تو کسی کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا: (أبشر بالجنة) تم جنت کی بشارت لو، اسے سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(أولا تدري، فلعله تكلم فيما لا يعنيه أو بخل بما لا ينقصه) [جامع ترمذی: ابواب الزھد، باب 11(2316)]
’’ایسا مت کہو، تم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے۔ کہ اس نے کوئی لایعنی بات کی ہو یا اس چیز کے دینے میں بخیلی کی ہو جس سے اس کے مال میں کوئی کمی نہ آتی۔‘‘
نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے:
(أكثر الناس ذنوباً أكثرهم كلاماً فيما لا يعنيه) [منادی نے کہا ہے۔ کہ سید علی نے جامع صغیر کے اندر اس حدیث کے ضعیف ہونے کا اشارہ کیا ہے۔ لیکن مناوی کے خیال میں یہ حدیث دو وجہ سے حسن کے درجہ میں ہے۔ (1) تعدد طرق کیونکہ اس کی تخریج ابن لال بن نجار نے ابو ہریرہ سے اور سجزی نے کتاب الابانہ کے اندر عبد اللہ بن ابی اوفی سے نیز احمد بن حنبل نے سلمان سے موقوف کی ہے۔ (2) دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ طبرانی کی روایت (اکثر الناس خطاباً يوم القيامة أكثرهم خوضا في الباطل) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں روایتیں ایک ہیں، صرف لفظ میں اختلاف ہے۔ ملاحظہ ہو: فیض القدیر (81/2) شرح الجامع الصغير للعزيزی (431/1) حاشیہ الحنفی علی جامع الصغیر167/1 التیسير في شرح الجامع الصغير المناوي(200/1)]
’’سب سے زیادہ گندگار وہ شخص ہے۔ جو لایعنی باتیں سب سے زیادہ کرتا ہو۔‘‘
دینی بھائیو! اللہ تعالی سے ڈرو زبان کی حفاظت کرو اور فضول ولا یعنی ہاتوں سے بچھو تاکہ دین و ایمان سلامت رہے اخلاق و مردت باقی رہے اور عزت و آبرو محفوظ رہے۔ رب پاک کا ارشاد ہے:
﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸﴾ (16تا 18)
’’ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اور جو خیالات اس کے دل میں گذرتے ہیں۔ ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ جب وہ کوئی کام کرتا ہے۔ تو دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔ لکھ لیتے ہیں۔ کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله عالم الغيب والشهادة، أحمده سبحانه وأشكره على ما أولاه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو حاضر و غائب کا جاننے والا ہے، میں اس کی جملہ نعمت و بخشش پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام نازل ہو ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر۔
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور غیر ضروری باتوں سے خاموشی اختیار کرو۔ جو بولتا ہے۔ وہی زیادہ شرمندگی اٹھاتا ہے۔ اور جو خاموشی اختیار کرتا ہے۔ وہ ندامت و پشیمانی سے محفوظ رہتا ہے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ بد بخت وہ ہے۔ جس کا دل بند اور زبان آزاد ہوا نہ تو اچھی طرح بات کر سکتا ہو اور نہ ہی خاموش رہ سکتا ہو، صحیح ابن حبان کے اندر حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(كان في صحف إبراهيم عليه السلام: وعلى العاقل أن يكون بصيراً بزمانه، مقبلاً على شأنه، حافظاً للسانه، ومن حسب كلامه من عمله قل كلامه إلا فيما يعنيه)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں یہ بات بھی تھی کہ عقلمند کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ اپنے زمانہ کے حالات و ظروف پر نظر رکھے اپنے کام سے کام رکھے اپنی زبان کی حفاظت کرے اور جو شخص اپنے کلام کو عمل میں شمار کرے وہ ضروری باتوں کے علاوہ بہت ہی کم گفتگو کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔