حاکم وقت کی اطاعت صرف معروف کاموں میں واجب ہے۔

ارشادربانی ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (سوره نساء، آیت:59)
ترجمہ: اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسولﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ الله أَنَّهُ قَالَ : عَلَى الْمَرْءِ المُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمُعْصِيَةٍ فَلا سَمْعَ وَلَا طَاعَة. (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الأحكام، باب السمع والطاعة للإمام مالم تكن معصية، صحيح مسلم: كتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في المعصية)
ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے، خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا ناپسند۔ مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے تو پھر اس پر سنتا اور ماننا فرض نہیں۔ (بلکہ انکار ضروری ہے)۔
وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةِ لَقِيَ اللَّهَ يَومَ القِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةً مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة . (اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن وفي كل….)
ابن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جس نے (حکمران کے جائز کاموں میں) اطاعت سے ہاتھ اٹھا لیا تو وہ اللہ تعالی سے قیامت کے روز اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی اور جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ كَرِهَ مِنْ أميره شيئًا فَلْيَصْبَرُ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِيرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِية . (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الفتن، باب قول التي سترون بعدى أمورا تنکرونها، صحیح مسلم: کتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن وفي كل….)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اپنے حاکم کا کوئی نا پسندیدہ کام دیکھے تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے اس لئے کہ اگر وہ بالشت برابر بھی حاکم کی اطاعت سے نکلا تو اس کی موت، جاہلیت کی موت ہوگی۔
وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بن عَمرو بن العاص رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ الله فِيْ سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزَلاً، إِذْ نَادَى مُنَادِى رَسُولِ اللهِ ﷺ: اَلصَّلَاةُ جَامِعَةٌ ، فَاجْتَمَعَنَا إلَى رَسُولِ الله ﷺ فقال : إِنه لَمْ يَكُن نَبِيٌّ قَبلي إلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَن يَدلُّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُم، وَيُنْذِرَهُم شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُم، وَإِنْ أُمَّتَكُم هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وأُمُورٌ تُنْكِرُوْنَهَا، وَتَجِيْءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيْءُ الفِتْنَةُ فَيَقُولُ المُؤْمِنُ: هٰذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، وَتَجِيْءُ الفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هٰذِهِ هٰذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَن يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ ويُدخلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمرَةَ قَلْبِهِ ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخر يُنازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنقَ الآخر (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الإدارة، باب وجوب الوفاء بيعة الخليفة الأول فالأول)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے پس ہم نے ایک منزل پر قیام کیا ، کہ اچانک رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز لگائی کہ نماز تیار ہے۔ پس ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہو گئے۔ تو آپ نے فرمایا: مجھے سے پہلے جو بھی نبی ہوا اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ایسے کاموں کی طرف کرے جنہیں ان کے لئے بہتر جانتا اور ان کو ان کاموں سے ڈرائے جن کو ان کے لئے برا جانتا، اور تمہاری سی امت اس کی عافیت اس کے ابتدائی حصے میں رکھ دی گئی ہے اور اس کے آخری حصے میں ایسی آزمائش اور ایسے امور ظہور پذیر ہوں گے جو تمہیں برے لگیں گے اور ایسے فتنے پیدا ہوں گے جو ہلکا کر دے گا (یعنی ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ رونما ہوگا کہ بعد میں آنے والے فتنے کے مقابلے میں پہلا فتنہ بالکل ہلکا لگے گا) ایک فتنہ سامنے آئے گا تو مومن کہے گا ، یہی میری ہلاکت کا باعث ہوگا پھر دو دور ہو جائے گا اور کوئی اور فتنہ ظہور پذیر ہو گا تو مومن کہے گا یہیں دو فتنہ ہے جو سب سے بڑا ہے۔ پس جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ جہنم کی آگ سے دور ہو اور جنت میں داخل کر دیا جائے تو اس کو موت اس حالت میں آنی چاہیئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ کئے جانے کو پسند کرتا ہے اور جو شخص کسی امام کی بیعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اس کو چاہئے کہ امکان بھر اس کی اطاعت کرے، پھر اگر دوسرا کوئی اس کو اپنا تابع بنانے کے لئے اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو (اسے قتل کر دو)۔
تشریح:
اسلام میں امیر ، حاکم اور امام وقت کی اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے لیکن ان کے لئے کچھ اصول وضوابط بنائے گئے ہیں اگر ان کی جانب سے صادر ہونے والے احکامات قرآن وسنت کے موافق ہیں اور ان میں اللہ تعالی کی معصیت نہیں ہے اور خواہشات نفس کا دخل نہیں ہے اور معاشرے وسوسائٹی کے مفاد میں ہیں تو ایسے احکامات کی پاسداری کرنا مسلمانوں پر واجب ہے لیکن اگر ان میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہے یا کسی شخصی مصلحت کی وجہ سے احکامات جاری ہوئے ہوں جو معاشرے اور سوسائٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں تو ایسے احکامات پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں حاکم وقت کی دینی امور میں اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی معصیت سے بچائے۔
فوائد:
٭ اللہ تعالی کی معصیت کے علاوہ تمام معاملات میں حاکم وقت کی اطاعت واجب ہے۔
٭ حاکم وقت کی اطاعت دین کا ایک جزء ہے۔
٭ حاکم کی اطاعت قرب الہی کا ذریعہ ہے۔
٭٭٭٭