ہدایت کا معنی و مفہوم اور اسباب و ذرائع

﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ ؕ وَ كَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ۝﴾(الفتح:28)
’’وہی ہے جس نے اپنا رسول بھیجا ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اور اللہ بطور گواہ کافی ہے۔“
اس دنیا میں انسان کی بے شمار ضرورتوں میں سے انتہائی اہم اور سب سے اہم ضرورت ہدایت و رہنمائی کی ہے۔ ہدایت و رہنمائی انسان کی ایسی ضرورت ہے کہ اسے زندگی کے ہر شعبے میں، ہر کام میں اور ہر لمحے میں ضروری ہوتی ہے، ان کاموں کا تعلق دنیا سے ہو، چاہے آخرت سے۔
دنیا کے لحاظ سے ہدایت و رہنمائی اللہ تعالی نے اپنی تمام مخلوقات کی فطرت میں ودیعت کر رکھی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے، فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا:
﴿فَمَنْ رَّبِّكُمَا يٰمُوسٰى﴾ (طة:49)
’’ تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ ؟‘‘
﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی﴾(طه:50)
’’تو فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کو ہدایت بخشی۔‘‘
یعنی ہر چیز کو اس کی ضرورت کے مطابق، جس کام اور جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اس کے مطابق اس کو رہنمائی دی۔
اس کی سب سے بہترین مثال: بچے کی خوراک کے حوالے سے ہے، بچہ جب پیدا ہوتا ہے تویقینًا کچھ نہیں جانتا ہوتا، ایک لفظ بھی پڑھنا لکھنا، بولنا اور سمجھنا نہیں جانتا۔
﴿وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ ﴾(النحل:78)
’’اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماوں کے چیزوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔‘‘
لیکن اپنی خوراک کے ذرائع تک وہ یوں پہنچتا ہے اور یوں منہ مارتا ہے جیسے ابھی ابھی کسی نے اچھی طرح سمجھا کر بھیجا ہو۔ یعنی کوئی مخلوق جس مقصد کے لیے بھی پیدا کی گئی ہو، سب سے پہلے تو اس کی اپنی زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اسے اس کی بھی رہنمائی دے کر بھیجا ہے۔ اب اس ہدایت کا تعلق تو دنیا کی زندگی سے ہے، اور یہ کتنی ضروری ہے، آپ جانتے ہیں ہیں۔
لیکن ایک دوسری ہدایت بھی ہے، جس کا تعلق آخرت سے ہے اور وہ ہدایت اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا ئیں کہ اللہ تعالی نے اس کا احسان کے طور پر ذکر کیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱﴾(الحجرات:17)
’’اے پیغمبر! یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا، ان سے کہو کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ جتاؤ، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ تمہیں ایمان کی ہدایت دی۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے ایک مقام پر ہدایت کے سب سے بڑے سبب آپ ﷺکی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بھی اسے اپنا احسان بتایا، فرمایا:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾(آل عمران:164)
’’اللہ تعالی نے اہل ایمان پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھیجا، جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
اور اس ہدایت کی اہمیت کا اس سے بھی انداز و لگا ئیں کہ اللہ تعالی نے ہدایت طلب کرنا نماز جیسی اہم عبادت میں فرض قرار دے دیا کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں لازما اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا مانگو۔
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۝﴾
’’کہ اے اللہ ! ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت نصیب فرما۔‘‘
ہدایت کا لغوی معنی تو آپ کو معلوم ہے کہ رہنمائی کرتا ہے، وہ رہنمائی دنیا کے معاملے میں ہو یا آخرت کے معاملے میں۔ جیسا کہ آپﷺ جب مدینہ کی طرف ہجرت فرما رہے تھے، اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، اور آپ کے روایف تھے، یعنی آپ ﷺکے ساتھ سواری پر پیچھے سوار ہوتے تھے، لوگ چونکہ زیادہ تر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو جانتے تھے، لہٰذا ان سے پوچھتے کہ
((مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بين يَدَيْكَ))
’’یہ آپ کے آگے کون صاحب ہیں ؟‘‘
تو حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذو معنی لفظ استعمال فرماتے ، یعنی ایسا لفظ کہ جس کے دو یا رو سے زیادہ معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یہ لفظ اصل میں دو معنین ہے، یعنی دو معنوں والا لفظ مگر کثرت استعمال سے ذومعنی کے لفظ پر ہی اکتفا کر لیا گیا۔
تو حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذو معنی لفظ بول کر فرماتے:
((هٰذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ)) (بخاری:3911)
’’یہ ہادی ہیں مجھے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں، سیدھا راستہ دکھاتے ہیں ۔‘‘
تو اس سے پوچھنے والے عموماً قریب کا معنی مراد لیتے اور یوں و ہ خطرہ ٹل جاتا کہ وہ کسی پیچھا کرنے والے کو اطلاع کریں گے۔ تو اخروی کامیابی کے لحاظ سے جو ہدایت ہے وہ سب سے ضروری اور سب سے اہم ہے، کہ اس میں حقیقتا دنیا کی کامیابی بھی مضمر ہے۔ تاہم دونوں قسم کی بنیادی رہنمائی اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں ہی رکھ دی ہے۔ اس کے بعد جو کوشش کرے گا وہ حقیقی رہنمائی پائے گا، ورنہ اس کی فطرت میں تو صحیح اور غلط میں فرق و تمیز کرنے کا مادہ موجود ہی ہے، جب چاہے اس کو استعمال کر کے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۝﴾ (الانسان:3)
’’ہم نے راستے کی رہنمائی دے دیا ہے، اب وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘
ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے ضمیر کے نام سے، جسے قرآن پاک میں نفس لوامہ کہا گیا ہے، یعنی ملامت کرنے والانس، ایک چیز رکھ دی ہے، جو اسے ہر غلط کام پرٹوکتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنے اُس ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرے اور برائی کی دلدل میں پھنستا ہی چلا جائے۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوّٰهَا﴾ (الشمس:7)
’’ اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اسے درست بنانے کی ۔‘‘
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸﴾ (الشمس:8)
’’پھر اس کی بدی اور اس کی نیکی اس کے دل میں الہام کر دی ۔‘‘
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾ (الشمس:9۔10)
’’یقینًا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کر لیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلود و کر لیا۔‘‘
یعنی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار خود انسان کو ٹھہرایا ہے، کیونکہ نیکی کی بنیادی تمام ہدایات نہ صرف یہ کہ اس کو بتلائی گئی ہیں بلکہ اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں اور وہ ہدایت کا اپکا اور ٹھوس انتظام ہے۔ گویا بتلائی ہوئی بات سکھائی ہوئی بات آدمی بھول بھی سکتا ہے، لیکن جو بات انسان کی فطرت میں رکھ دی جائے وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ہے، اسے یاد رہتی ہے، اس معنے میں کہ ضرورت پڑنے پر وہ اس کی صحیح صحیح رہنمائی کرتی ہے، وہ خوبی خود بخود اکتیو (Active) ہو جاتی ہے، اسے یاد رکھنی نہیں پڑتی کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی غلط اور اسی طرح ہر برائی کی تمیز بھی اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔
یعنی یہ نہیں کہ صرف نیکی کی رہنمائی دے رکھی ہے بلکہ برائی کی پہچان بھی اس میں رکھ دی ہے، اور ایک حد تک برائی سے نفرت بھی انسان کی فطرت میں رکھ دی ہے اور نیکی کی محبت بھی۔ تو اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص ہدایت نہیں پا سکتا، یا برائی سے باز نہیں آسکتا تو وہ یقینًا خود ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ نیکی کی محبت اور برائی سے نفرت اگر چہ ایک حد تک تو ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے مگر یہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا خصوصی امتیاز اور اعزاز ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ﴾(الحجرات:7)
’’اللہ تعالی نے ایمان تمہارے نزدیک پسندیدہ اور محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے ولوں کی زینت بنا دیا، اور کفر وفق اور نافرمانی کو تمہارے لیے نا پسندیدہ اور قابل نفرت بنا دیا ہے۔‘‘
تو یہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا خصوصی امتیاز ہے۔
تو نیکی اور بدی کی پہچان اور اس میں فرق و تمیز کرنے کی بنیادی صلاحیت اللہ تعالی نے ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ مَوْلُودِ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ))
’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘‘
((فأبواه يهود انه أو ينصرانه أو يمحسانه))
’’پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بناتے ہیں، عیسائی بناتے ہیں یا مجوسی ۔‘‘
((كَمَا تُنْتَجُ البَهِيْمَةُ بَهِيْمَةً جَمْعَاءَ))
’’جیسا کہ جانور پورے کا پورا پیدا ہوتا ہے۔‘‘
((فَهَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ)) (بخاری:1358)
’’ کیا تم اس میں کوئی کان کٹا دیکھتے ہو؟‘‘
یعنی پورے کے پورے اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، پھر بعد میں لوگ ان کے کان یا ناک ضرورت کے لیے کاٹتے ہیں، پیدائشی طور پر تو کوئی جانور کان کٹا پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا اللہ تعالی اگر محض اس بات پر کسی کو عذاب دینا چاہیں کہ ہدایت اس کی فطرت میں رکھ دی گئی تھی ، اس نے پھر بھی ہدایت کی راہ اختیار نہیں کی تو یہ یقینًا ظلم و نا انصافی نہیں ہوگی ۔
لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے اپنی مخلوق پر اپنا فضل و رحمت کرتے ہوئے انبیاء و رسل علیہم السلام بھی بھیجے جو لوگوں کو خبردار کرتے ، انہیں ڈراتے اور خوشخبریاں سناتے رہے۔
جیسا کہ فرمایا:
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (بنی اسرائیل:15)
’’اور ہم کسی کو عذاب کرنے والے نہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘
یعنی اللہ تعالی نے خود ہی اپنے آپ پر اس بات کو لازم کر لیا۔
تو ہدایت کی اقسام میں سے ایک قسم یہی ہے جس کا ابھی ذکر ہوا، جسے ہدایت عامہ کہتے ہیں۔ پھر ہدایت کی ایک قسم ہدایت توفیق ہے، یہ اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھی ہے، ہدایت کی توفیق اللہ تعالی جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں حتی کہ یہ ہدایت اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں بھی نہیں رکھی، چنانچہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کی ہدایت کے بارے میں فرمایا:
﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ۚ﴾(القصص:28)
’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالی نے ہدایت کے کچھ اصول اور اسباب مقرر فرما رکھے ہیں، ان میں سے ایک ہے توحید اللہ تعالی پر ایمان خالص ، اس کی توحید کا اقرار ، فرمایا:
﴿وَمَن يُّؤْمِنَ بِاللهِ يَهْدِ قَلْبَهُ﴾ (التغابن:11)
’’جو اللہ پر ایمان لاتا ہے، اللہ تعالی اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اور ایک سبب ہے، اللہ تعالیٰ کو ہی قولا و عملاً اپنا مشکل کشاء حاجت روا سمجھنا، اس سے امیدیں وابستہ کرنا، اور اس کو ہر چھوٹی سے چھوٹی مشکل کے لیے پکا رنا۔
﴿وَ مَنْ يَعْتَصِمُ بِاللهِ فَقَدْ هُدَى إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾(آل عمران:101)
’’جو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے گا، اللہ تعالی اس کو ضرور صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے گا۔‘‘
اسی طرح ہدایت کے اسباب میں سے ایک اور بہت اہم سبب نمازوں کی پابندی کرنا اور انہیں ان کے اوقات میں باجماعت ادا کرنا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللهَ غَدًا مُسْلِمًا فَلْيُحَافِظُ عَلٰى هٰؤُلَاءِ الصَّلٰوَاتِ حَيْثُ يُنَادِى بِهِنَّ))
’’جو چاہے کہ کل کو اللہ کے حضور ایک مسلم کی حیثیت سے پیش ہو، وہ ان نمازوں کی حفاظت کرے جہاں ان کے لیے پکارا جائے ۔‘‘
((فَإِنَّ اللهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ سُنَنَ الْهُدَى))
’’اللہ تعالی نے تمہارے نبی ﷺ کے لیے ہدایت کے راستے واضح کر دیئے ہیں۔‘‘
((وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنن الهُدٰى))
’’اور یہ نمازیں ہدایت کے راستوں میں سے ہیں ۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هٰذَا الْمُتَخَلَّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكِم))
’’اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگ جاؤ، جس طرح یہ متخلف مسجد سے دور دور رہنے والا گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم نبی ﷺکے راستے کو ترک کر دو گے۔‘‘
((وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَّلْتُمْ))
’’اور اگر تم نے نبی نے کام کے طریقے اور سنت کو ترک کر دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘
((وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقَ))
’’اور ہم نے دیکھا ہے کہ نماز با جماعت سے پیچھے صرف وہ شخص رہتا تھا جو منافق تھا اور جس کا منافق ہونا سب پر واضح تھا۔‘‘ ((وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ يُهَادَى بينَ الرَّجُلَيْنِ حَتّٰى يُقام فِي الصَّفِّ))(مسلم:654)
’’اور ہم نے دیکھا کہ آدمی کو مسجد میں لایا جاتا، یعنی بیمار اور معذور شخص بھی نماز با جماعت سے پیچھے نہ رہتا، وہ مسجد میں ضرور آتا حتی کہ دو آدمیوں کے سہارے کے ساتھ اسے صف میں لا کر کھڑا کیا جاتا ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((إِنَّ رَسُولَ اللهِ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدٰى))
’’آپﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے اور راستے سکھائے ہیں اور نشاندہی فرمائی ہے۔‘‘
((وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُوذَنُ فِيْهِ))(مسلم:654)
’’اور ہدایت کے راستوں میں سے ایک بات یہ سکھائی کہ مسجد میں نماز ادا کرنا جس میں اذان ہوتی ہو ۔‘‘
ہدایت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اچھی صحبت ۔ اچھی صحبت اختیار کرنے
والے کو ہدایت ملتی ہے ورنہ وہ اس سے محروم رہتا ہے، کیونکہ آدمی پر اچھی یا بری صحبت کا ضرور اثر ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت احادیث میں مثالوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے، آپ ضرور اس سے آگاہ ہوں گے۔
اور اچھی مجلس اور بری مجلس کے اثر کے حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے:
کہتے ہیں کہ صحبت کا اثر ہوتا ہے
آدمی کیا در و دیوار بدل جاتے ہیں
یعنی آدمی کی صحبت کا انسان تو انسان رہا در و دیوار پر بھی اثر ہو جاتا ہے۔ اور وہ یوں کہ آدمی جس گھر میں اور جس کمرے میں رہتا ہے، اپنی پسند کی چیزیں اس کمرے میں آویزاں کرتا ہے، اپنی پسند کی سیٹنگ اور ڈیکوریشن کرتا ہے۔ تو گویا کہ آدمی کی پسند اور اس کی سوچ اور اس کے خیالات کا دیوار پر بھی اثر ہو گیا۔
تو جو لوگ برے اور بے نماز لوگوں کی مجلس اختیار کریں گے ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے نماز لوگوں کے ساتھ ہوگا تو وہ بے نماز ہی بنیں گے۔ اور قیامت کے دن حسرت کے ساتھ کہیں گے۔
﴿ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷﴾ (الفرقان:27)
’’اے کاش میں نے رسول والا راستہ اختیار کیا ہوتا ، رسول کا ساتھ دیا ہوتا ۔ ‘‘
﴿وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷﴾ (الفرقان:27)
’’ظالم انسان اپنا ہاتھ چہائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔‘‘
﴿یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝﴾ (الفرقان:28)
’’ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔‘‘

﴿لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ﴾
’’جو نصیحت میرے پاس آئی تھی اس نے اس نصیحت سے مجھے بہکا دیا۔‘‘
﴿وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹﴾ (الفرقان:29)
’’اور شیطان انسان کو بڑا ہی رسوا کرنے والا ہے، بڑا ہی دغا دینے والا ہے۔‘‘
تو اسی طرح کچھ اور بھی ہدایت کے اسباب ہیں، پھر کسی وقت ان شاء اللہ ذکر کریں گے۔
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
…………….