حدیثِ رسولﷺ پر یقین

اہم عناصر:
❄میں گواہی دیتا ہوں ❄ہم رسول اللہﷺکے فیصلے پر راضی ہیں
❄میں بھول گیا تھا ❄ غُضَیف اچھا آدمی ہے
❄جنّت تلواروں کے سائے میں ❄بینائی لوٹ آئی
❄شفاء نہیں ، جنت چاہئے ❄منافع ہی منافع
❄جنت کی ایک کھجور کے بدلے میں۔۔ ❄مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں
نحمده ونصلي على رسوله الكريم اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [النجم: 4-3]
ذی وقار سامعین!
دین اسلام دو چیزوں ، قران اور حدیث کا مجموعہ ہے ، قران بھی اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہے اور حدیث بھی اللہ تعالی کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [النجم: 4-3]
"اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔”
اس لیے حدیثِ رسول کو بالکل اسی طرح ماننا ضروری ہے جس طرح قران کو ماننا ضروری ہے ، اگر کوئی بندہ قران پر ایمان لاتا ہے ، قران کو مانتا ہے لیکن حدیث رسول کو نہیں مانتا ، اس بندے کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا [الحشر: 7]
"اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔”
سیدنا عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گود وانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لئے آ گے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں ۔ عبداللہ بن مسعود کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہو ا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے ۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی ۔ انہوں نے کہا ؛
لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
اگر تم نے بغور پڑھا ہو تا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ ” رسول ﷺ تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں ، رک جایا کرو ۔ “
اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں سے روکا ہے ۔ اس پر عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو ۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی ۔ پھر عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی ؟ ہر گز نہیں ۔ [بخاری: 4886]
پتہ چلا کہ حدیث بھی قرآن کی طرح حجت اور شریعت اسلامیہ کا ایک ماخذ ہے۔ حدیث رسول کو ماننا اور اس پر کامل یقین رکھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ حدیث کے بغیر ہم کوئی بھی عبادت نہیں کر سکتے نماز کا حکم قران مجید میں موجود ہے طریقہ احادیث سے ملے گا نکاح کا حکم قران میں موجود ہے طریقہ احادیث سے ملے گا اذان دینے کا حکم قران میں موجود ہے لیکن طریقہ احادیث سے ملے گا اسی طرح اور بھی بہت ساری مثالیں ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ حدیث بھی قران کی طرح حجت ہے۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے صحابہ کرام ، صحابیات اور سلف صالحین کے چند واقعات کو سمجھیں اور سنیں گے اور اپنے آپ کا جائزہ لیں گے کہ ان لوگوں کا حدیثِ رسولﷺ اور فرمانِ رسولﷺ پر کتنا یقین تھا اور ہمارا کتنا ہے۔۔۔؟
میں گواہی دیتا ہوں
جناب عمارہ بن خزیمہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا نے بیان کیا جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بدوی سے گھوڑا خریدا اور بدوی سے کہا کہ میرے ساتھ آؤ تاکہ تمہارے گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں ۔ رسول اللہ ﷺ جلدی جلدی چلے جبکہ اعرابی آہستہ آہستہ چلا ۔ تو لوگ اس بدوی کے سامنے آئے اور گھوڑے کا سودا کرنے گلے ۔ انہیں علم نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسے خرید لیا ہے ۔ تو اس بدوی نے رسول اللہ ﷺ کو پکارا اور کہا : اگر گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لو ورنہ میں اسے فروخت کر دوں گا ۔ نبی کریم ﷺ اس کی آواز سن کر رک گئے اور فرمایا ” کیا میں نے اسے تم سے خرید نہیں لیا ؟ “ بدوی نے کہا : نہیں قسم اللہ کی ! میں نے تو اسے تم کو نہیں بیچا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” کیوں نہیں ‘ میں نے تم سے خرید لیا ہے ۔ “ بدوی کہنے لگا چلو گواہ لاؤ ۔ تو سیدنا خزیمہ بن ثابت بولے ؛
أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ، فَقَالَ: بِمَ تَشْهَدُ؟.فَقَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے یہ بیچ دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” تم کس طرح گواہی دیتے ہے ؟ “ انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! آپ کی تصدیق کی بنا پر ( یعنی آپ اللہ کے رسول ہیں جھوٹ نہیں بول سکتے اور آپ ہمیں وہ کچھ بتاتے ہیں جو ہم ملاحظہ نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ہم وہ سب کچھ تسلیم کرتے ہیں تو یہ کیوں نہیں تسلیم کر سکتے ۔ ) چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا خزیمہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا ۔ [أبوداؤد: 3607 صححہ الالبانی]
ہم رسول اللہﷺکے فیصلے پر راضی ہیں
قَالَ عَمْرٌو كَانَ هَاهُنَا رَجُلٌ اسْمُهُ نَوَّاسٌ وَكَانَتْ عِنْدَهُ إِبِلٌ هِيمٌ فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَاشْتَرَى تِلْكَ الْإِبِلَ مِنْ شَرِيكٍ لَهُ فَجَاءَ إِلَيْهِ شَرِيكُهُ فَقَالَ بِعْنَا تِلْكَ الْإِبِلَ فَقَالَ مِمَّنْ بِعْتَهَا قَالَ مِنْ شَيْخٍ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ وَيْحَكَ ذَاكَ وَاللَّهِ ابْنُ عُمَرَ فَجَاءَهُ فَقَالَ إِنَّ شَرِيكِي بَاعَكَ إِبِلًا هِيمًا وَلَمْ يَعْرِفْكَ قَالَ فَاسْتَقْهَا قَالَ فَلَمَّا ذَهَبَ يَسْتَاقُهَا فَقَالَ دَعْهَا رَضِينَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوَى [بخاری: 2099]
ترجمہ: عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ یعنی امراض متعدی نہیں ہوتے۔
میں بھول گیا تھا
سیدنا عثمان بن عفان کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ‘ آپ ﷺ فرماتے تھے ” جس نے ( شام کو ) تین بار یہ دعا پڑھ لی ‘ اسے صبح تک کوئی اچانک مصیبت نہیں آئے گی
« بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ » ” اﷲ کے نام سے ، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں ‘ نقصان نہیں دے سکتی اور وہ خوب سنتا ہے اور خوب جانتا ہے ۔ “
اور جس نے صبح کے وقت تین بار یہ دعا پڑھ لی اسے شام تک کوئی اچانک مصیبت نہیں آئے گی ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے ابان بن عثمان کو فالج ہو گیا تھا تو ان سے حدیث سننے والا ، ان کو تعجب سے دیکھنے لگا ( کہ پھر یہ فالج کیونکر ہو گیا ؟ ) تو انہوں نے کہا ؛
مَا لَكَ تَنْظُرُ إِلَيَّ!؟ فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ عَلَى عُثْمَانَ، وَلَا كَذَبَ عُثْمَانُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! وَلَكِنَّ الْيَوْمَ الَّذِي أَصَابَنِي فِيهِ مَا أَصَابَنِي غَضِبْتُ!! فَنَسِيتُ أَنْ أَقُولَهَا. "کیا ہوا ‘ مجھے دیکھتے کیا ہو ؟ اﷲ کی قسم ! میں نے سیدنا عثمان ؓ پر جھوٹ نہیں بولا ہے اور نہ سیدنا عثمان نے رسول اﷲ ﷺ پر جھوٹ بولا ہے ۔ لیکن جس دن مجھے یہ فالج ہوا میں اس دن غصے میں تھا اور یہ کلمات پڑھنا بھول گیا تھا ۔” [ابوداؤد: 5089 صححہ الالبانی]]
غُضَیف اچھا آدمی ہے
عَنْ غُضَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، فَلَقِیَهُ أَبُو ذَرٍّ فَقَالَ: أَیْ أُخَیَّ اسْتَغْفِرْ لِی، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی للّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِی، فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُولُ: نِعْمَ الْفَتٰی غُضَیْفٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ بِالْحَقِّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ)) قَالَ عَفَّانُ: عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ یَقُولُ بِهِ
غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب کے قریب سے گزرے، انہوں نے کہا، غضیف! اچھا آدمی ہے، پھر غصیف کی سیدنا ابوذر سے ملاقات ہوئی تو سیدنا ابو ذر نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ غضیف نے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے حق میں دعا کریں، انھوں نے کہا: میں نے عمر بن خطاب کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ غضیف اچھا آدمی ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی دل و زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔ [مسند احمد: 1286 صحیح]
جنّت تلواروں کے سائے میں
عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ»، فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى، آنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ” فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ، ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَأَلْقَاهُ، ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ ” [مسلم: 4916]
ترجمہ: ابوبکر بن ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعری ) سے روایت کی، کہا: میں نے اپنے والد سے، جب وہ دشمن کا سامنا کر رہے تھے، سنا: وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے (ہوتے) ہیں۔” یہ سن کر ایک خستہ حال شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ابوموسیٰ! کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو خود یہ فرماتے ہوئے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر وہ شخص واپس اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں تمہیں (الوداعی) سلام کہتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور تلوار لے کر بڑھا، اس سے شمشیر زنی کی یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔
بینائی لوٹ آئی
سیدنا سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛
الْكَمْأَةُ مِنْ الْمَنِّ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ
"کھمبی اس من میں سے ہے جسے اللہ تعا لیٰ نے بنی اسرا ئیل کے لیے نازل کیا تھا اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔” [مسلم: 5345]
اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے امام یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حدیث مصطفی پر پورے اعتقاد کے ساتھ صرف کھنبی کا پانی ہی نچوڑ کر آنکھ میں ڈال لیا جائے تو اللہ تعالی شفا عطا فرما دیتے ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور میرے علاوہ کئی لوگوں نے دیکھا کہ نیک اور عادل شیخ الکمال بن عبداللہ الدمشقی نابینے ہو گئے اور ان کی بینائی بالکل ختم ہو گئی ، انہوں نے کھنبی کا پانی نکال کر آنکھوں میں ڈالا تو شفایاب ہو گئے اور دوبارہ بینائی لوٹ آئی۔
[شرح صحیح مسلم للنووی: 159/6 ، مکتبۃ البشری]
شفاء نہیں ، جنت چاہئے
عَن عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺفَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: «إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا
ترجمہ: عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [بخاری: 5652]
منافع ہی منافع
سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْهُ، فَقَالَ: «هُوَ صَغِيرٌ فَمَسَحَ رَأْسَهُ وَدَعَا لَهُ» وَعَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ بِهِ جَدُّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ إِلَى السُّوقِ، فَيَشْتَرِي الطَّعَامَ، فَيَلْقَاهُ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَيَقُولاَنِ لَهُ: «أَشْرِكْنَا فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ دَعَا لَكَ بِالْبَرَكَةِ»، فَيَشْرَكُهُمْ، فَرُبَّمَا أَصَابَ الرَّاحِلَةَ كَمَا هِيَ، فَيَبْعَثُ بِهَا إِلَى المَنْزِلِ
ترجمہ: ان کی والدہ زینب بنت حُمَید رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بیعت لے لیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے۔ پھر آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے۔ وہاں وہ غلہ خریدتے۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ کیوں کہ آپ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کرلیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ ( مع غلہ ) نفع میں پیدا کرلیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے۔ [بخاری: 2501]
مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں
ابوبکر بن ابوجہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں رہائش دی نہ خرچ۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "جب (عدت سے) آزاد ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا” سو میں نے آپ کو اطلاع دی۔ معاویہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے ان کی طرف پیغام بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "معاویہ تو فقیر ہے اس کے پاس مال نہیں ہے، اور رہا ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارنے والا ہے، البتہ اسامہ بن زید ہے۔” انہوں نے (ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا: اسامہ! اسامہ! رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے۔” کہا: چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں اتنی خیر رکھ دی کہ مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں۔ [مسلم: 3712]
جنت کی ایک کھجور کے بدلے میں۔۔
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّة
”جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔ ”
آپ ﷺ نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا:؛
یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَة فِی الْجَنَّة فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ كَلِمَة تُشْبِهُهَا [مسند احمد: 11903صححہ الالبانی]
اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آؤ، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔