حج کے فضائل، احکام اور آداب (۲)
اہم عناصرِ خطبہ:
01.حج کے تفصیلی احکام
02.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج مبارک کے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث
03.آدابِ زیارتِ مدینہ
پہلا خطبہ
گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں حج کی اہمیت وفرضیت، حج کے فضائل، سفرِ حج کے بعض آداب اور عمرہ کے تفصیلی احکام بیان کئے تھے۔ جبکہ آج کے خطبۂ جمعہ میں حج کے احکام اور اسی طرح آدابِ زیارتِ مدینہ منورہ کوتفصیل سے بیان کرنا مقصود ہے
حج کے تفصیلی احکام
8/ذو الحج (یوم الترویه)
مکہ مکرمہ میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں وہیں سے حج کا احرام باندھ لیں۔ احرامِ حج کا طریقہ بھی وہی ہے جو احرامِ عمرہ کا ہے۔ لہٰذا صفائی اور غسل کر کے اور بدن پر خوشبو لگا کر احرام کا لباس پہن لیں۔ پھر’’لَبَّیْكَ اللّٰهُمَّ حَجًّا‘‘ کہتے ہوئے حج کی نیت کر لیں اور تلبیہ شروع کر دیں اور دس ذو الحج کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتے رہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کرنے تک تلبیہ جاری رکھا۔ (صحیح البخاري:1685 و1670،صحیح مسلم :1281)
احرام باندھ کر ظہر سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ منٰی میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور نو ذو الحج کی فجر کی نمازیں قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر پڑھیں اور رات کو وہیں قیام کریں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ (صحیح البخاري:1653،1655،صحیح مسلم:1309،694)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ہمیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کو روانہ ہوئے۔ (سنن الترمذي:879۔ وصححہ الألباني)
یہی بات حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بھی طویل حدیث میں روایت کی ہے۔ (صحیح مسلم:1218)
9/ذو الحج (یومِ عرفة)
یومِ عرفة انتہائی عظیم دن ہے، اس دن عرفات کا وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اسی ليے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوفِ عرفة کو حج قرار دیا۔ (سنن الترمذي:889، سنن ابن ماجہ:3015۔ وصححہ الألباني)
اس دن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَا مِنْ یَّوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُّعْتِقَ اللّٰہُ فِیْهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَیَدْنُوْ ثُمَّ یُبَاهِیْ بِهِمُ الْمَلَائِکَةَ فَیَقُوْلُ: مَا أَرَادَ هؤُلَاءِ؟) (صحیح مسلم:1348)
’’اللہ تعالیٰ عرفات کے دن سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور وہ قریب آکر ان پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: یہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف فرمایا اور جب سورج غروب ہونے والا تھا توآپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: اے بلال! ذرا لوگوں کو خاموش کر کے میری طرف متوجہ کرو۔ چنا نچہ انھوں نے لوگوں کو خاموش کرایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَعَاشِرَ النَّاسِ، أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ آنِفًا، فَأَقْرَأَنِیْ مِنْ رَبِّیْ السَّلَامَ، وَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ غَفَرَ لِأَهْلِ عَرَفَاتَ، وَأَهْلِ الْمَشْعَرِ، وَضَمِنَ عَنْهُمُ التَّبِعَاتِ)
’’اے لوگوں کی جماعت! میرے پاس ابھی جبریل علیہ السلام آئے تھے، انھوں نے مجھے میرے رب کا سلام پہنچایا اور کہا: بے شک اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرفات اور اہلِ مشعر کی مغفرت کردی ہے اور ان کے حقوق کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔‘‘
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ ہمارے ليے خاص ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(هَذَا لَکُمْ وَلِمَنْ أَتٰی مِنْ بَعْدِکُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ) (صحیح الترغیب والترہیب للألباني:1151)
’’یہ تمھارے ليے اور تمھارے بعد قیامت تک آنے والے ہر شخص کیليے ہے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عرفہ کو فجر کی نماز منیٰ میں ادا فرمائی، پھر (طلوعِ شمس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کو روانہ ہوگئے۔ عرفات میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمرۃ میں اتری اور یہ وہ مقام ہے جہاں عرفات میں امام اترتا ہے یہاں تک کہ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول وقت میں ظہر اور عصر کو جمع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف فرمایا۔ (سنن أبي داؤد:1913 وحسنہ الألباني)
01.نو ذو الحج کو طلوعِ شمس کے بعد تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے عرفات کی طرف روانہ ہو جائیں۔
محمد بن ابی بکر الثقفی بیان کرتے ہیں کہ وہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ منیٰ سے عرفات کو جار ہے تھے۔ راستے میں انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس دن میں کیا کہتے تھے؟ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
(کَانَ یُهِلُّ مِنَّا الْمُهِلُّ، فَلَا یُنْکَرُ عَلَیْهِ، وَیُکَبِّرُ مِنَّا الْمُکَبِّرُ، فَلَا یُنْکَرُ عَلَیْهِ) (صحیح البخاري:1659،صحیح مسلم:1285)
’’ہم میں سے کوئی شخص تلبیہ پڑھتا تو اس پر انکار نہ کیا جاتا اور کوئی شخص تکبیر کہتا تو اس پر بھی انکار نہ کیا جاتا۔‘‘
عرفات میں پہنچ کر اس بات کا یقین کر لیں کہ آپ حدودِ عرفہ کے اندر ہیں، پھر (زوالِ شمس کے بعد) اگر ہو سکے تو امام کا خطبۂ حج سنیں اور اس کے ساتھ ظہر وعصر کی نمازیں جمع وقصر کر کے پڑھیں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو اپنے خیمے میں ہی دونوں نمازیں جمع وقصر کر تے ہوئے باجماعت ادا کرلیں۔
02.پھر غروبِ شمس تک ذکر، دعا، تلبیہ اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی وانکساری ظاہر کریں، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور ہاتھ اٹھا کر دنیا وآخرت میں خیر وبھلائی کی دعا کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(خَیْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ یَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَیْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ قَبْلِیْ۔۔۔)
’’سب سے بہتر دعا یومِ عرفہ کی دعا ہے اور سب سے بہتر دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کی وہ یہ ہے‘‘: ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئْیٍ قَدِیْرٌ‘‘ (سنن الترمذي:3585وحسنہ اللألباني۔ الصحیحة:1503)
03.وقوفِ عرفہ کا وقت زوالِ شمس سے لے کر دس ذو الحج کی رات کو طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ اس دوران حاجی ایک گھڑی کیليے بھی عرفات میں چلا جائے تو حج کا یہ رکن پورا ہو جاتا ہے۔
حضرت عروۃ بن مضرّس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ مزدلفہ میں تھے اور صبح کی نماز کیليے تیار ہو رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں (طی) کے دو پہاڑوں سے آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو مشقت میں ڈالا اور اپنے آپ کو بہت تھکایا، اللہ کی قسم! میں نے (عرفات میں) کوئی ریتلا مقام نہیں چھوڑا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو۔ تو کیا میرا حج درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنْ شَهِدَ صَلَاتَنَا هذِہٖ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتّٰی نَدْفَعَ، وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةِ قَبْلَ ذٰلِكَ لَیْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضٰی تَفَثَهُ) (سنن الترمذي:891،سنن ابن ماجہ:3026۔ وصححہ الألباني)
’’جو شخص ہماری اس نماز میں حاضر ہوا اور اس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے (منیٰ) کو چلے جائیں اور وہ اس سے پہلے رات کو یا دن کو کسی وقت عرفات میں وقوف کر چکا تھا تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور اس نے اپنے مناسک پورے کر ليے۔‘‘
نیز عرفات کی حدود میں جہاں بھی وقوف کر لیں کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وَقَفْتُ هَهُنَا، وَعَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ) (صحیح مسلم:1218)
’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور پورا میدان ِعرفات وقوف کی جگہ ہے۔‘‘
04.غروبِ شمس کے بعد عرفات سے انتہائی سکون کے ساتھ مزدلفہ کو روانہ ہو جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ یومِ عرفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ سے واپس لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سے سواریوں کو مارنے اور شدید ڈانٹنے کی آوازیں سنیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کوڑے کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(أَیُّهَا النَّاسُ، عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَةِ فَإِنَّ الْبِرَّ لَیْسَ بِالْإِیْضَاعِ) (صحیح البخاري:1671)
’’اے لوگو! انتہائی سکون واطمینان کے ساتھ جاؤ کیونکہ نیکی جلدی کرنے میں نہیں ہے۔‘‘
05.یومِ عرفہ کو مغرب کی نماز عرفات میں نہیں بلکہ مزدلفہ میں پہنچ کر عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھیں۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف ایک وادی میں جو کہ مزدلفہ سے پہلے ہے اس میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو بٹھایا، پھر آپ نے قضائے حاجت کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو میں نے آپ پر پانی ڈالا اور آپ نے ہلکا سا وضو کیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز پڑھنی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلصَّلَاۃُ أَمَامَكَ) ’’نماز ابھی اور آگے جا کر پڑھیں گے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ میں پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ (صحیح البخاري:1669،صحیح مسلم :1280)
06.مزدلفہ میں سب سے پہلے مغرب وعشاء کی نمازیں جمع وقصر کر کے باجماعت ادا کریں، پھر اپنی ضرورتیں پوری کر کے سو جائیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں جمع فرمائیں۔ ہر نماز کیليے الگ الگ اقامت کہی گئی اور ان دونوں کے درمیان اور اسی طرح ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔
07.عورتوں کیليے اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں اور بچوں کیليے اور اسی طرح کمزوروں کیليے جائز ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کو چلے جائیں۔ (صحیح البخاري:1673)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے گھر والوں میں سے کمزور لوگ مزدلفہ میں المشعر الحرام کے پاس رات کے وقت وقوف کرتے تھے اور وہ جتنا چاہتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ امام کے وقوف اور اس کے منیٰ کو لوٹنے سے پہلے ہی ان کمزور لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کر دیتے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی نماز فجر کے وقت منیٰ میں پہنچتا اور کوئی اس کے بعد۔ اور وہ جیسے ہی منیٰ میں پہنچتے جمرۂ عقبہ کو رمی کرتے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزدلفہ سے منیٰ کو جلدی جانے کی) رخصت دی تھی۔ (صحیح البخاري :1676،صحیح مسلم :1295)
اور حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے مزدلفہ میں پڑاؤ ڈالا تو حضرت سودۃ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ لوگوں کے ازدحام سے پہلے وہاں سے منیٰ کو چلی جائیں؟ وہ بھاری جسم کی مالک تھیں اور بہت آہستہ آہستہ چلتی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اس ليے وہ لوگوں کے رش سے پہلے ہی روانہ ہوگئیں اور ہم صبح ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ٹھہرے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی منیٰ کو واپس لوٹی اور اگر میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرلی ہوتی جیسا کہ سودۃ رضی اللہ عنہا نے طلب کی تھی تو یہ میرے ليے اِس بات سے بہتر ہوتا جس پر میں خوش ہو رہی تھی (آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے پر۔) (صحیح البخاري :1681 ،صحیح مسلم :1290)
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزور افراد کے ساتھ مزدلفہ سے (منیٰ کو) جلدی روانہ کر دیا تھا۔ (صحیح البخاري :1678، صحیح مسلم :1293)
بعض غلطیاں:
1.حدودِ عرفہ سے باہر وقوف کرنا
2.یہ عقیدہ رکھنا کہ جبلِ رحمت پر چڑھے بغیر وقوفِ عرفہ مکمل نہیں ہوتا حالانکہ جبلِ رحمت پر چڑھنے کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کارِ ثواب ہے.
3.غروب ِشمس سے پہلے عرفات سے روانہ ہو جانا۔
4.مزدلفہ میں پہنچ کر سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کی بجائے کنکریاں چننے میں لگ جانا.
5.مزدلفہ کی رات میں نوافل پڑھنا۔
10/ ذو الحج (یومِ عید)
01.فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کریں، پھر صبح کی روشنی پھیلنے تک قبلہ رخ ہو کر ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں۔
02.بڑے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کیليے مزدلفہ سے موٹے چنے کے برابر کنکریاں اٹھا سکتے ہیں۔ البتہ یہ لازم نہیں کہ مزدلفہ ہی سے اٹھائی جائیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مزدلفہ سے منیٰ کو واپس لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب محسر میں پہنچے جو کہ منیٰ میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عَلَیْکُمْ بِحَصَی الْخَذْفِ الَّذِیْ یُرْمٰی بِهِ الْجَمْرَۃُ) (صحیح مسلم :1282)
’’تم کنکریاں لے لو جن کے ساتھ جمرۃ کو رمی کی جائے گی۔‘‘
ایامِ تشریق میں جمرات کو کنکریاں مارنے کیلئے مزدلفہ سے کنکریاں اٹھانا ضروری نہیں، وہ منیٰ سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں۔
03.پھر طلوعِ شمس سے پہلے منیٰ کو روانہ ہو جائیں، راستے میں وادیٔ محسر کو عبور کرتے ہوئے تیز تیز چلیں۔
04.منیٰ میں بڑے جمرہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ بند کر دیں اور بڑے جمرۃ کو جو کہ مکہ مکرمہ کی طرف ہے سات کنکریاں ایک ایک کر کے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں۔ کمزور یا بیمار مرد، بچے اور اسی طرح کمزور یا عمر رسیدہ خواتین کنکریاں مارنے کیليے کسی دوسرے شخص کو وکیل بنا سکتے ہیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو چاشت کے وقت کنکریاں مارتے اور اس کے بعد دیگر ایام میں زوالِ شمس کے بعد رمی کرتے۔ (صحیح مسلم:1299)
اور جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ الجمرۃ الکبری تک پہنچے تو انھوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کر لیا اور بڑے جمرہ کو سات کنکریاں ماریں اور پھر فرمایا: اسی طرح اس شخصیت نے کنکریاں ماریں جن پر سورۃ البقرۃ نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري:1748،صحیح مسلم:1296)
05.پھر قربانی کا جانور ذبح کریں جو بے عیب ہو اور مطلوبہ عمر کے مطابق ہو۔ قربانی کیليے جانور کی عمر کا لحاظ نہ کرنا اور عیب دار جانور قربان کر دینا ناجائز ہے۔ یاد رہے کہ آپ قربانی 11 یا 12 یا 13 ذوالحج کو بھی کر سکتے ہیں۔
قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت اپنے ليے بھی لے آئیں اور فقراء میں بھی تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۖ فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ ﴿٢٨﴾ (الحج22:28)
’’اور چند متعین دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام سے ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیئے ہیں، پھر تم خود بھی اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔‘‘
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی با اعتماد شرکہ (کمپنی) میں پیسے جمع کروا دیں جو آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی پابند ہوگی اور اگر آپ (حج تمتع کر رہے ہوں اور) مالی مجبوری کے سبب قربانی نہ کر سکیں تو آپ کو دس روزے رکھنا ہونگے۔ تین ایامِ حج میں اور سات وطن لوٹ کر۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِذَآ أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٍ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾ (البقرۃ 2:196)
’’پھر جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرہ سے لے کر حج تک تمتع کرے (یعنی عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر حج کیليے احرام باندھے) تو اسے قربانی کا جو جانور میسر ہو ذبح کرے۔ اگر اسے جانور نہ ملے تو وہ تین دن کے روزے حج کے ایام میں رکھے اور سات دن کے روزے گھر واپس جانے کے بعد، یہ مکمل دس روزے ہیں اور یہ حکم ان کیليے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے (اہلِ حرم) نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔‘‘
06.پھر سر کے بال منڈوا دیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروا دیں، البتہ بال منڈوانا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کیليے مغفرت (اور ایک روایت میں رحمت) کی دعا تین مرتبہ فرمائی جبکہ بال چھوٹے کروانے والوں کیليے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا ایک ہی بار فرمائی۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ) ’’اے اللہ! حلق کروانے والوں کی مغفرت فرما‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بال چھوٹے کروانے والوں کیليے بھی (دعا فرمائیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی فرمایا: (اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ) ’’اے اللہ! حلق کروانے والوں کی بخشش فرما‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بال چھوٹے کروانے والوں کیليے بھی (دعا فرمائیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی فرمایا: (اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِیْنَ) ’’اے اللہ! حلق کروانے والوں کے گناہ معاف فرما‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بال چھوٹے کروانے والوں کیليے بھی (دعا فرمائیے) تو چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وَلِلْمُقَصِّرِیْنَ) ’’اور بال چھوٹے کروانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔‘‘ (صحیح البخاري: 1728،صحیح مسلم :1302)
جبکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تین مرتبہ) یوں دعا فرمائی: (رَحِمَ اللّٰہُ الْمُحَلِّقِیْنَ) ’’اللہ تعالیٰ حلق کروانے والوں پر رحم فرمائے‘‘ پھر چوتھی مرتبہ فرمایا: (وَالْمُقَصِّرِیْنَ) ’’بال چھوٹے کروانے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔‘‘ (صحیح البخاري:1727،صحیح مسلم:1301)
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرۂ عقبۃ کو کنکریاں ماریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹوں کی طرف گئے اور انہیں قربان کیا۔ اُدھر حجام بیٹھا ہوا تھا، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آؤ اور حلق کرو۔ چنانچہ اس نے پہلے دائیں جانب سے حلق کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب کے بال اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں تقسیم کردئیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب بائیں جانب سے حلق کرو‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اس جانب کے بال انہیں عطا کئے۔ (صحیح مسلم:1305)
خواتین اپنی ہرچوٹی سے انگلی کے ایک پورے کے برابر بال کٹوائیں۔
اس کے ساتھ ہی آپ کو تحلل اصغر حاصل ہو جائے گا۔ یعنی جو کام بسببِ احرام ممنوع ہوئے تھے وہ سب حلال ہو جائیں گے سوائے بیوی کے قرب کے جو طواف افاضہ کے بعد جائز ہوگا۔ اس ليے آپ احرام اتار کر صفائی اور غسل وغیرہ کر کے اپنا عام لباس پہن لیں اور طوافِ افاضہ کیليے خانہ کعبہ چلے جائیں۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ثُمَّ لْيَقْضُوا۟ تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا۟ نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا۟ بِٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾ (الحج22 :29)
’’پھر انہیں چاہئے کہ اپنے جسم کا میل صاف کریں اور اپنی نذر پوری کریں اور بیت عتیق (خانہ کعبہ) کا طواف کریں۔‘‘
07.طواف افاضہ حج کا رکن ہے۔ اگر کسی وجہ سے آپ دس ذو الحج کو طواف افاضہ نہ کر سکیں تو اسے بعد میں بھی کر سکتے ہیں۔ اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو وہ طہارت کے بعد طواف کریں۔ اگر وہ ایامِ تشریق کی کنکریاں مارنے کے بعد پاک ہوں اور انھیں اپنے وطن کو روانہ ہونا ہو تو طواف افاضہ کرتے ہوئے طواف وداع کی نیت بھی کر لیں تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ اور اگر وہ قافلے کی روانگی تک پاک نہیں ہوتیں اور قافلہ والے بھی ان کا انتظار نہیں کرسکتے تو وہ غسل کر کے لنگوٹ کس لیں اور طواف کرلیں۔
08.طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعات ادا کریں، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کریں اور منیٰ کو واپس چلے جائیں جہاں گیارہ کی رات گذارنا واجب ہے۔
09.دس ذوالحج کے چار کام( کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، حلق یا تقصیر، طواف و سعی )جس ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں انھیں اسی ترتیب کے ساتھ کرنا مسنون ہے۔ تاہم ان میں تقدیم وتاخیر بھی جائز ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا شروع کر دئیے۔ چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے حلق قربانی کرنے سے پہلے کرلیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اِذْبَحْ وَلَا حَرَجَ) ’’جاؤ قربانی کر لو اور اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی رمی کرنے سے پہلے کرلی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اِرْمِ وَلَا حَرَجَ) ’’جاؤ رمی کرلو اور اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور کی تقدیم وتاخیر کے بارے میں جو سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اِفْعَلْ وَلا حَرَجَ) ’’جاؤ کرو اور کوئی حرج نہیں‘‘ (صحیح البخاري:1736، صحیح مسلم:1306)
ایامِ تشریق
1۔۱۱ اور ۱۲ ذوالحج کی راتیں منیٰ میں گذارنا واجب ہے۔ ۱۲ کو کنکریاں مارنے کے بعد منٰی سے جا سکتے ہیں تاہم ۱۳ کی رات وہیں گذارنا اور ۱۳ کے دن کنکریاں مار کے وہاں سے جانا افضل ہے۔ ان ایام میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہیں جس کا وقت زوالِ شمس سے لیکر آدھی رات تک ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَمَّا أَتٰی إِبْرَاهِیْمُ خَلِیْلُ اللّٰہِ الْمَنَاسِكَ عَرَضَ لَهُ الشَّیْطَانُ عِنْدَ جَمْرَۃِ الْعَقَبَةِ، فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتّٰی سَاخَ فِیْ الْأَرْضِ، ثُمَّ عَرَضَ لَهُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ الثَّانِیَةِ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتّٰی سَاخَ فِیْ الْأَرْضِ، ثُمَّ عَرَضَ لَهُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ الثَّالِثَةِ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتّٰی سَاخَ فِیْ الْأَرْضِ)
’’جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام مناسک ادا کرنے آئے تو شیطان جمرۂ عقبہ کے نزدیک آپ کے سامنے آیا۔ تو آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر وہ دوسرے جمرہ کے پاس آپ کے سامنے آیا تو آپ نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر وہ تیسرے جمرہ کے پاس آپ کے سامنے آیا تو آپ نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔‘‘
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم شیطان کو رجم کرتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرتے ہو۔ (رواہ ابن خزیمة والحاکم۔ صحیح الترغیب والترہیب :1156)
02.سب سے پہلے چھوٹے جمرۃ کو سات کنکریاں ایک ایک کر کے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں، پھر اسی طرح درمیانے جمرۃ کو کنکریاں ماریں۔ اگر آپ کو کسی دوسرے کی طرف سے بھی کنکریاں مارنی ہوں تو پہلے اپنی کنکریاں مار کر پھر اس کی کنکریاں ماریں۔ چھوٹے اور درمیانے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون ہے۔
03.پھر بڑے جمرۃ کو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں۔ اس کے بعد دعا کرنا مسنون نہیں۔ سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے جمرہ کو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، پھر آگے بڑھتے یہاں تک کہ ہموار زمین پر پہنچ جاتے۔ اس کے بعد قبلہ رخ ہو کر لمبی دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے۔ پھر درمیانے جمرہ کو کنکریاں مارتے، پھر بائیں جانب چلے جاتے اور ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر لیتے اور کافی دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے۔ پھر جمرہ عقبہ کو وادی کے بطن سے کنکریاں مارتے اور اس کے بعد کھڑے نہ ہوتے اور چلے جاتے۔ اس کے بعد فرماتے: (هَکَذَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم یَفْعَلُهُ) یعنی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ (صحیح البخاري:1751 ،1752 ،1753)
04.تینوں جمرات کو کنکریاں مارنے کیليے کنکریاں منیٰ میں کسی بھی جگہ سے اٹھا سکتے ہیں۔
05.کنکریاں جمرات کا نشانہ لیکر اور حسبِ استطاعت قریب جا کر ماریں۔
06.جمرات کو شیطان تصور کر کے انھیں گالیاں دینا یا جوتے رسید کرنا جہالت ہے۔
07.ایامِ تشریق کے فارغ اوقات اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گذاریں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں اور باجماعت نمازوں کی پابندی کریں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَٰسِكَكُمْ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا﴾ (البقرۃ2 :200)
’’پھر جب تم ارکان حج ادا کر لو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسا کہ تم اپنے آباء واجداد کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَٰتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ ٱتَّقَىٰ﴾ (البقرۃ 2:203)
’’اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کی یاد میں مشغول رہو، پھر جو شخص دو دن میں جلدی چلا گیا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور جو پیچھے رہ گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اُس کیليے جو متقی ہے۔‘‘
اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اگر آپ ۱۲ ذوالحج کو ہی منیٰ سے جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں بشرطیکہ غروبِ آفتاب سے پہلے کنکریاں مار کر منیٰ کی حدود سے نکل جائیں۔ تاہم ۱۳ کی رات بھی وہیں گذار کر اور پھر تیرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد منیٰ سے جانا افضل ہے۔
بعض غلطیاں:
01.کنکریاں دھونا۔
02.سات کنکریاں بجائے ایک ایک کر کے مارنے کے ایک ہی بار دے مارنا۔
03.کنکریاں مارنے کے مشروع وقت کا لحاظ نہ کرنا۔
04.پہلے چھوٹے، پھر درمیانے اور پھر بڑے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کی بجائے ترتیب الٹ دینا۔
05.چھوٹے اور درمیانے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہ کرنا۔
06.بڑے سائز کے کنکر یا پتھر مارنا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے سائز کی کنکریاں مارتے تھے۔ (صحیح مسلم:1299)
07.ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گذارنا۔
طواف الوداع
مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طواف الوداع کرنا واجب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(لَا یَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتّٰی یَکُوْنَ آخِرَ عَهْدِہٖ بِالْبَیْتِ) (صحیح مسلم:1327)
’’ کوئی شخص اس وقت تک نہ جائے جب تک وہ سب سے آخرمیں بیت اللہ کا طواف نہ کر لے۔‘‘
ہاں اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو ان پر طواف وداع واجب نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ مناسک حج میں ان کا سب سے آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو، ہاں البتہ حائضہ عورت کو اس کی اجازت دے دی گئی۔ (صحیح البخاري:1755،صحیح مسلم:1328)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مناسک حج میں سب سے آخری کام بیت اللہ کا طواف ہے۔ لہٰذا ۱۲ اور ۱۳ ذو الحج کو کنکریاں مارنے سے پہلے طواف وداع کرنا درست نہیں ہے۔
یاد رہے کہ طواف وداع کے بعد مسجد حرام سے الٹے پاؤں باہر آنا درست نہیں ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حج مبرور نصیب فرمائے۔ آمین
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج مبارک کے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث
اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج مبارک کی کیفیت کے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ذکر کرتے ہیں اور اس کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی کیا کیفیت تھی؟ دوسرا یہ ہے کہ اب تک ہم نے جو احکامِ حج ذکر کئے ہیں ان کے بارے میں ہمیں دوبارہ یاد دہانی ہو جائے اور احکامِ حج اچھی طرح سے ذہن نشین ہو جائیں۔
محمد بن علی بن حسین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال (مدینہ منورہ میں) ٹھہرے رہے، اِس دوران آپ نے حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ وہ امسال حج کرنے والے ہیں۔ یہ سن کر مدینہ منورہ میں بہت سارے لوگ جمع ہو گئے۔ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے اور اسی طرح حج ادا کرے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم جب ذو الحلیفہ پہنچے تو وہاں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کو جنم دیا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ میں اب کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (اِغْتَسِلِیْ، وَاسْتَثْفِرِیْ بِثَوْبٍ، وَأَحْرِمِیْ) ’’ تم غسل کر کے لنگوٹ کس لو اور احرام کی نیت کرلو۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی، پھر آپ (القصواء) اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپ کی سواری (البیداء) میں سیدھی کھڑی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے، آپ کی دائیں جانب، بائیں جانب اور آپ کے پیچھے (چاروں طرف) حدِ نگاہ تک انسان ہی انسان تھے۔ کوئی سوار تھا اور کوئی پاپیادہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے اور اس وقت قرآن مجید کا نزول جاری تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تفسیر سے واقف تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل کیا ہم نے بھی وہی عمل کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ احرام کی نیت کی اور یہ تلبیہ پڑھا:
(لَبَّیْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّیْكَ‘ لَبَّیْكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ‘ إنَّ الْحَمْدَ وَالنّعْمَ لَكَ وَالْمُلْكَ‘ لَا شَرِیْكَ لَكَ)
’’میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تعریفیں، نعمتیں اور بادشاہت تیرے ليے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ لوگوں نے بھی یہی تلبیہ پڑھنا شروع کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اس تلبیہ کا کوئی لفظ رد نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل یہ تلبیہ پڑھتے رہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے حج ہی کی نیت کی کیونکہ ہم عمرہ کو تو جانتے ہی نہ تھے یہاں تک کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر (پہلے) تین چکر وں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکر آپ نے عام رفتار میں چلتے ہوئے پورے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ﴿وَٱتَّخِذُوا۟ مِن مَّقَامِ إِبْرَٰهِـۧمَ مُصَلًّى﴾ اورآپ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دورکعت نماز ادا فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الکافرون اور سورۃ الإخلاص پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی طرف چلے گئے اور جب صفا کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ﴿ إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ ﴾اور فرمایا: (أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِهِ) ’’میں بھی وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا سے آغاز کیا اور اس کے اوپر چڑھ گئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دیکھ لیا تو اس کی طرف رخ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور بڑائی بیان کی اور آپ نے فرمایا: (لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ‘ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ‘وَھُوَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ‘ أنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَہُ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران دعا مانگی۔ آپ نے تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کی طرف چل دئے یہاں تک کہ جب وادی کے درمیان آپ کے قدم ٹک گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑ پڑے حتی کہ جب چڑھائی شروع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام رفتار میں چلنے لگے یہاں تک کہ آپ مروہ پر پہنچ گئے۔ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کیا جو آپ نے صفا پر کیا تھا اور جب آپ کا آخری چکر مروہ پر پورا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَوْ أَنِّیْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْیَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَۃً، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ لَیْسَ مَعَهُ هَدْیٌ فَلْیَحِلَّ، وَلْیَجْعَلْهَا عُمْرَۃً)
’’مجھے اب جو بات معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور نہ لے کر آتا اور اسے عمرہ بنا لیتا۔ لہٰذا تم میں سے جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ حلال ہو جائے اور اسے عمرہ سمجھ لے۔‘‘
یہ سن کر حضرت سراقۃ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا یہ حکم صرف اس سال کیليے ہے یا ہمیشہ کیلے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملا کر دو مرتبہ فرمایا:(دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِیْ الْحَجِّ) ’’عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘ اور یہ ہمیشہ کیليے ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے، انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا حلال ہو چکی ہیں اور انھوں نے رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگایا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم نے ایسا نہیں کرنا تھا۔ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے میرے باپ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں بیان کیا کرتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کیا تھا اس کی شکایت لے کر پہنچا اور میں یہ چاہتا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کا حکم دیا تھا اس کے بارے میں آپ کی رائے معلوم کر لوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتلایا کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کہا ہے کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (صَدَقَتْ، صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتَ حِیْنَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟) ’’اس نے سچ کہا ہے، اس نے سچ کہا ہے اور بتاؤ تم نے جب اپنے اوپر حج فرض کرلیا تھا تو کیا نیت کی تھی؟‘‘ میں نے گذارش کی: میں نے یوں کہا تھا کہ اے اللہ! میں اس چیز کے ساتھ احرام کی نیت کرتا ہوں جس کے ساتھ تیرے رسول نے کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ تو قربانی بھی ہے (اور جس طرح میں حلال نہیں ہوا) تم بھی حلال نہیں ہوسکتے۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو قربانی کے جانور یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے ان کی تعداد ایک سو تھی۔ پھر تمام لوگ حلال ہوگئے اور انھوں نے بال چھوٹے کروا ليے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ قربانیاں تھیں۔ پھر جب یوم الترویۃ (آٹھ ذو الحج کا دن) آیا تو تمام لوگ حج کی نیت کر کے منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی سواری پر سوار ہو کر منیٰ میں پہنچے اور آپ نے وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور (نو ذو الحج کو) فجر کی نمازیں پڑھیں۔ فجر کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (عرفات میں پہنچ کر) نمرۃ میں ان کیليے ایک خیمہ لگا دیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے۔ قریش کو اس بارے میں یقین تھا کہ آپ ضرور المشعرالحرام میں وقوف فرمائیں گے جیسا کہ قریش جاہلیت کے دور میں کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عبور کر کے عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کیليے ایک خیمہ نمرۃ میں لگا دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میں اتر گئے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے القصواء کو تیار کرنے کا حکم دیا۔ لہٰذا حسبِ حکم اس پر کجاوا رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوکر وادی کے درمیان پہنچے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا…
[عید الأضحی کے بعد اس خطبہ کا تفصیل سے تذکرہ کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ] اس کے بعد (مؤذن نے) اذان اور پھر اقامت کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر دوسری اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور نماز (نفل وغیرہ) نہیں پڑھی۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورای پر سوار ہوئے اور (عرفات میں) جائے وقوف تک پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی (القصواء) کا پیٹ پتھروں کی طرف اور پا پیادہ چلنے والوں کو اپنے سامنے کرلیا اور قبلہ رخ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور مزدلفہ کی طرف اس حالت میں روانہ ہوئے کہ آپ نے اپنی اونٹنی (القصواء) کی نکیل کو شدت سے کھینچا ہوا تھا حتی تک کہ اس کا سر کجاوے کے اس حصہ تک جا پہنچا جہاں ایک سوار تھک کر اپنے پاؤں رکھ لیتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے: (أَیُّهَا النَّاسُ، اَلسَّکِیْنَةَ السَّکِیْنَةَ) ’’اے لوگو! سکون واطمینان کے ساتھ چلو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ہموار زمین پر پہنچتے تو اپنی سواری کی نکیل ڈھیلی چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ (کسی پہاڑ وغیرہ پر) چڑھائی شروع کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ میں پہنچے تو وہاں آپ نے مغرب وعشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا کیں اور ان کے درمیان کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور جب واضح طور پر فجر کا وقت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان اور اقامت کے ساتھ نمازِ فجر ادا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم القصواء پر سوار ہوئے اور المشعر الحرام میں آگئے جہاں آپ ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اس کی بڑائی اور توحید بیان کی اور صبح کی روشنی پھیلنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدستور اسی حالت میں رہے۔ اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کو روانہ ہوگئے یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا جو کہ بہت ہی حسین وجمیل اور خوبصورت بالوں والے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے خواتین گذرنے لگیں تو حضرت الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ ان کی طرف دیکھنے لگے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا لیکن حضرت الفضل رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ دوسری جانب پھیر لیا اور دوبارہ خواتین کی طرف دیکھنے لگے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جانب سے بھی ان کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تاکہ وہ خواتین کی طرف مت دیکھیں یہاں تک کہ آپ وادی محسر کے درمیان میں پہنچ گئے۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو تیز کر دیا اور آپ اس راستے کی طرف مڑ گئے جو جمرۂ عقبۃ کو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بڑے جمرۃ تک پہنچے جو کہ درخت کے قریب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی کے درمیان سے اسے سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے۔ کنکریاں چھوٹے سائز کی تھیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63) اونٹ ذبح کئے اور باقی جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دئیے جنہوں نے ان کو ذبح کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی قربانیوں میں شریک کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہر قربانی سے کچھ گوشت لیا جائے۔ چنانچہ حسبِ حکم ہر قربانی سے گوشت لیکر اسے ہانڈی میں ڈال دیا گیا اور جب گوشت پک گیا تو دونوں نے گوشت تناول کیا اور اس کا شوربہ نوش کیا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے اور طوافِ افاضہ کیليے بیت اللہ کو روانہ ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز بیت اللہ میں ادا کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عبد المطلب کے پاس گئے جو کہ (حجاج کو) زمزم کا پانی پلا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِنْزَعُوْا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْ لَا أَنْ یَّغْلِبَکُمُ النَّاسُ عَلٰی سِقَایَتِکُمْ لَنَزَعْتُ مَعَکُمْ) ’’اے بنی عبد المطلب! تم ڈول کے ذریعے پانی نکالو اور اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی نکالتا اور (حجاج کو پلاتا۔)‘‘ پھر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈول دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کا پانی نوش فرمایا۔ (صحیح مسلم :1218)
یہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ حج۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی توفیق دے۔
دوسرا خطبہ
حضرات! حج تو مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہو جاتا ہے البتہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مدینہ طیبہ کا سفر کرنا مستحب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
(صَلاَۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ هَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ) (صحیح البخاري:1190،صحیح مسلم :1394)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘
آدابِ زیارتِ مسجد نبوی
01.مسجد نبوی میں پہنچ کر تحیۃ المسجد پڑھیں۔ اگر ہوسکے تو روضۃ من ریاض الجنۃ میں جا کر پڑھیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنت کا باغیچہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:
(مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ) (صحیح البخاري:1195، صحیح مسلم:1390)
’’میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانہ حصہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔‘‘
پھر اگر فرض نماز کا وقت ہو تو پہلے فرض نماز باجماعت ادا کریں۔
02.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے آئیں، درود وسلام پڑھیں اور بہتر ہے کہ درود ابراہیمی جسے نماز میں پڑھا جاتا ہے وہی پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی سلام کہیں۔
03.اگر دعا کرنا چاہیں تو مسجد نبوی میں جہاں چاہیں قبلہ رخ ہوکر کریں۔
04.روضہ مبارکہ پر بنیت ِ تبرک ہاتھ پھیرنا یا اس کا طواف کرنا قطعا درست نہیں ہے۔
05.مردوں کیليے مستحب ہے کہ وہ بقیع الغرقد میں مدفون حضرات اوراسی طرح شہداء احد رضی اللہ عنہم کی قبروں پہ جا کر انھیں سلام کہیں اور ان کیليے دعا کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ دعا سکھلائی ہے:
(السَّلَامٌ عَلٰی أَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْکُمْ وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ، نَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَةَ) (صحیح مسلم:974، سنن النسائي :2037 و2040، سنن ابن ماجہ :1547)
’’ان گھروں میں رہنے والے مومنوں اور مسلمانوں پر سلامتی ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ کی رحمت ہو ہم میں اور تم میں پہلے جانے والوں پر اور پیچھے رہ جانے والوں پر۔ ہم اللہ سے اپنے ليے اور تمھارے ليے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘
06.مسجد نبوی کے علاوہ مدینہ طیبہ کی مساجد میں سے صرف مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی خاص فضیلت ہے کیونکہ خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں جایا کرتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(مَنْ تَطَهَّرَ فِیْ بَیْتِه ثُمَّ أَتٰی مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلّٰی فِیْهِ صَلَاۃً کَانَ لَهُ کَأَجْرِ عُمْرَۃٍ) (سنن الترمذي،سنن النسائي ،سننن ابن ماجہ ، ابن حبان۔ وصححہ الألباني)
’’جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر مسجد قبا میں آیا اور اس میں نماز پڑھی تو اسے عمرہ کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘
باقی مساجد میں نماز پڑھنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہے، اس ليے ثواب کی نیت سے ان کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔
بعض غلطیاں:
01.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی نیت کر کے مدینہ طیبہ کا سفر کرنا۔
02.حجاج کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجنا۔
03.ہر نماز کے بعد روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے جانا یا اس کی طرف رخ کر کے انتہائی اَدب سے کھڑے ہو جانا۔
04.دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا۔
05.مدینہ طیبہ میں چالیس نمازوں کی پابندی کرنا حالانکہ اس کے متعلق جو حدیث عموما ذکر کی جاتی ہے وہ ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔
خطبہ کے اختتام پر ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حج مبرور نصیب فرمائے۔ آمين