حج کی اہمیت و فضیلت

الحمد لله الذي شرع الشرائع فأحكم ما شرع، وأوجد الكائنات فأبدع ما صنع، أحمده سبحانه حمد من شكر الله بقلبه ولسانه والعمل، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الإله الحق المبين، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله المصطفى الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه:
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے محکم ترین شریعت نازل فرمائی اور نہایت ہی انوکھے اور نرالے انداز سے کائنات کو تخلیق بخشی، میں اللہ سبحانہ و تعالی کی اس بندہ مومن جیسی حمد بیان کرتا ہوں جو اپنے دل، زبان اور عمل کے ساتھ اللہ کی شکر گذاری میں مصروف ہو اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور وہی معبود برحق ہے اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے امین اور برگزیدہ بندے اور رسول ہیں- اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب کرو یاد رکھو کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے بیت حرام خانہ کعبہ کا حج فرض قرار دیا ہے اور اسے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن بتایا ہے۔ حج بیت اللہ کی خوب خوب ترغیب دی ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب کثیر کا وعدہ فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حج کی تعلیم دی ہے اور اس کے بے پناہ اجر و ثواب بیان فرمائے ہیں چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المُبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جزاء إلا الجنة) [صحیح بخاری: کتاب العمرة، باب وجوب العمر ة و فضلها (1773) و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل الحج والعمرة (1349)]
’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے اور حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئی صلہ نہیں۔‘‘
لہٰذا! بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اخلاص، حسن نیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے جذبہ کے ساتھ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کا ارادور کھے اور اس کا آرزو مند ہو۔
دوسری حدیث کے اندر آپﷺ نے فرمایا:
(مَنْ حَجَّ الله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته امه) [صحیح بخاری: کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور (1521) وصحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الحج والعمرۃ (1350)]
’’جس شخص نے اللہ کے لئے حج کیا اور پھر فحش گوئی کی نہ بدکار ہوا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور اس بندہ صادق کا اجر و ثواب ذکر کیا ہے جو رب تعالیٰ کے حکم اور اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا اخلاص کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے رخت سفر باندھے کہ اللہ کے نزدیک اس بندہ کا ثواب جنت ہے اور گناہوں سے وہ اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اسے پاک وصاف جنا تھا وہ روئے زمین پر اس نوزائیدہ بچہ کی مانند بے گناہ چلتا پھرتا ہے جس نے کوئی برا کام کیا ہے نہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور نہ ہی اس بچہ سے کسی گناہ کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ایک مسلمان رب العالمین کے اس عظیم انعام کے حصول کے لئے پوری کوشش کرے بہت ممکن ہے وہ اس اجر عظیم کو پالے اور اللہ کے نزدیک اس کے حج کو شرف قبولیت حاصل ہو جائے۔
اسلامی بھائیو! حج کے اندر ایسے بے شمار بڑے بڑے فائدے ہیں کہ بہت سے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرتے، چنانچہ حج سے حکم الہی کی تعمیل ہوتی ہے ندائے خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام پر لبیک کہا جاتا ہے، فرمان الہی ﴿وليطوفوا بالبيت العتيق﴾ کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
(خُذُوا عَنِّي مُنَاسِكَكُم)
’’لوگو! تم مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو۔‘‘
حج کے ذریعہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے حالات زندگی اور ان کی یہ دعا یاد کی جاتی ہے جو بلد حرام کے سلسلہ میں انہوں نے کی تھی:
﴿وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ۝۳۵﴾ (ابراهیم: 35)
’’جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ بتوں کی پرستش کریں۔‘‘
حج میں مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کی جاتی ہے جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے امن و سلامتی کے اس مقدس شہر میں منجملہ دیگر نشانیوں کے ایک واضح نشانی قرار دیا ہے اور اس کی بابت یہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّٰى﴾ (البقره: 135)
’’جس جگہ ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اسے نماز کی جگہ بنا لو۔‘‘
حج کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کی وحدت اور یہ حقیقت یاد دلائی جاتی ہے کہ یہیں بیت اللہ ہے جو روئے زمین میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور یہی وہ گھر ہے جس کی طرف رخ کر کے ایک دن اور رات میں پانچ مرتبہ فرض نماز میں ادا کی جاتی ہیں۔
حج کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان احوال و واقعات کو یاد کیا جاتا ہے جب ابتدائے بعثت میں اس بیت اللہ کے پاس آپ اللہ کی عبادت و بندگی میں مشغول ہوتے اور لوگوں کو اللہ کی توحید اور بندگی کی دعوت دیتے تھے۔ ساتھ ہی آپ کا وہ بے مثال صبر و مجاہدہ اور ضبط و متحمل بھی یاد کیا جاتا ہے جس کا ثبوت آپ نے اس وقت پیش فرمایا تھا جب مشرکین آپ کو اذیتیں پہنچاتے، آپ کا اور آپ کے اصحاب کا استہزاء و تمسخر کرتے سجدہ کی حالت میں کندھے پر گندگی کا بوجھ ڈال دیتے، چیلنج کرتے اور آپ کی رسالت پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود آپ کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا جا تا رب العالمین پر بھروسہ اور اس کی نصرت و تائید پر آپ کا ایمان و یقین بڑھتا جاتا اور آلام و مصائب سے رہائی اور کشائش کی امید قوی ہوتی جاتی تھی، چنانچہ یہ سب کچھ آپ کو حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی بھر پور مدد فرمائی۔
اسی طرح بندہ مومن جب اپنے کپڑے اتار کر احرام کے کپڑے زیب تن کرتا اور سر کو کھلا رکھ چھوڑتا ہے۔ مشاعر حج اور عرفات کے میدان میں اللہ سے گریہ وزاری کرتا ہے، قربانی کا جانور ذبح کرتا اور رمی جمار کرتا ہے اور ذکر الہی کے لئے منٰی کے اندر قیام پذیر ہوتا ہے تو اس کے یہ تمام حالات رب تعالی کی عبودیت و بندگی کا منظر ہوتے ہیں اور اس کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہوتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ﴾ (الحجرات:13)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
حج کے اندر اس مقدس ترین مقصد کی تکمیل کا اشارہ ملتا ہے جس کے لئے کائنات کی تخلیق عمل میں آئی ہے اور وہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلاَّ لِيَعْبُدُوْن﴾ (الذاريات: 56)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لئے جن وانس کی تخلیق ہوئی اللہ رب العالمین نے انہیں عبث یا محض دنیا کو آباد رکھنے زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کے او پر اپنی فوقیت و بالادستی کا مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہو اور اہل ایمان اور اصحاب تقولی کے لئے تجارت گاہ۔ چنانچہ فرمایا:
﴿ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰۹﴾ (يوسف:109)
’’آخرت کا گھر بہت اچھا ہے متقیوں کے لئے کیا تم سمجھتے نہیں۔‘‘
بندگان الهی! لہٰذا اللہ سے ڈرو اور جب تک قید حیات میں ہو اعمال صالحہ کا ذخیرہ جمع کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے مستحق بن سکو جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے فرمایا ہے:
(الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة)
’’حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئی دوسرا بدلہ نہیں۔‘‘
وہ شخص بڑا ہی باسعادت ہے جسے اللہ تعالی حج بیت اللہ کی توفیق دیدے اور اس کا حج قبول فرما کر اس کے گناہ سے درگذر کر دے۔ وہ نفس بھی بڑا مبارک ہے جسے بیت اللہ الحرام تک پہنچنے کی سعادت حاصل ہو اور وہ اس کا طواف کرے اور اس حرم امن میں نماز ادا کرے جو پوری دنیا کے مسلمانوں کی اجتماع گاہ ہے، مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اس مقدس مقام پر حاضر ہوتے ہیں تاکہ فریضہ حج ادا کریں اور اللہ تعالی کے گھر میں اللہ سے عہدوپیمان کی تجدید کریں ساتھ ہی وہ اس مقام مقدس میں بیٹھ کر اللہ رب العالمین سے گناہ و معصیت کے کاموں سے دور رہنے اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بایں طور عہدوپیمان کرتے ہیں کہ اس کی اطاعت و بندگی کریں گے، عمل اسی کے لئے انجام دیں گے اس کے سوا کسی سے لو نہیں لگائیں گے۔ استفاده و فریاد اسی سے کریں گے اس کے آگے جھکیں گے اس سے امید و بیم رکھیں گے اس کو پکاریں گے اس پر اعتماد و توکل کریں گے اور اس کے سوا کسی کو معبود و پروردگار نہیں جانیں گے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ۝۶۲﴾ (النمل:62)
’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور کون تم کو زمین میں اگلوں کا جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو۔‘‘
کعبۃ اللہ کی اس مقدس سر زمین پر اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہونا بڑی عظمت کی بات ہے ارشاد الہی ہے:
﴿جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ﴾ (المائده:97)
’’اللہ تعالی نے کعبہ بیت حرام کو لوگوں کے لئے کھڑے ہونے کی جگہ قرار دی ہے۔‘‘
کعبة اللہ در حقیقت ملت حنیفیہ سمحہ اور شعائر دین اسی کا رمز اور حنیفیت کے اس علمبردار کی یاد گار ہے جس نے اس کی بنیاد رکھی اور اسے تعمیر کیا اللہ رب العالمین نے فرمایا:
﴿ وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۱۲۷ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱﴾ (البقرة:127،128)
’’جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیاد میں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار! ہم سے یہ خدمت قبول فرما بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے پروردگار! ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہنا اور ہمیں ہمارے طریق عبادت ہتا اور ہمارے حال پر توجہ فرما، بیشک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
خطبه ثانیه
الحمد لله، أحمده واستعينه واستهديه واستغفره وأتوب إليه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، سيد المرسلين وأفضل الخلق أجمعين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں اسی سے مدد چاہتا ہوں اس سے ہدایت طلب کرتا ہوں اس سے مغفرت چاہتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں جو رسولوں کے سردار اور تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندہ ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
بندگان الهی! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی شکر گذاری کرو جو اس نے تم کو دین اسلام کی رہنمائی فرمائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی توفیق دی اور بیت اللہ الحرام تک پہنچنے اور کعبہ مشرفہ کے پاس حاضر ہونے کی سعادت عطا کی جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، آرزؤوں کی تکمیل ہوتی ہے مرتبے بلند ہوتے ہیں اور گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ جی ہاں ایسی وہ مقدس مقام ہے جہاں آنکھوں سے بے ساختہ اشک جاری ہوتے ہیں، لغزشوں کی بخشش اور دلوں کا تزکیہ ہوتا ہے، کہیں وہ بابرکت جگہ ہے جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان باہم ملتے اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں ان کے رنگ و نسل، زبان و اسلوب، لباس و معیشت اور حالات تو مختلف ہوتے ہیں مگر مقصد ایک ہوتا ہے وہ اپنے پروردگار کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے خائف وتر سال ہوتے ہیں ان کے دل اسی ذات واحد کی یاد سے معمور ہوتے ہیں اس کے سوا کسی اور کو وہ معبود تسلیم کرتے ہیں نہ پروردگار مانتے ہیں۔
مسلمانو! لہٰذا اس عظیم نعمت پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرو اور قول و عمل ہر اعتبار سے اس کے مخلص بندے بن جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔