حج کی سعادت اور قبولیت کی شرائط

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲ لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝۱﴾ (الانعام:162، 163)
اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا، اور امت خیر البشر ﷺمیں پیدا فرمایا۔
اسلام کتنی بڑی نعمت ہے اور آپ ﷺکے امتی ہونا کتنا بڑا شرف ہے! افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اس سے آگاہ نہیں ہے ، ان کی اہمیت سے واقف اور ان کی قدر شناس نہیں ہے غنیمت نہیں جانتے، شاید اس لیے کہ یہ نعمتیں ہمیں بغیر کسی محنت کے محض وراثت میں ملی ہیں۔
یہ چونکہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے، اس لیے اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ، البتہ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے، شاعر کے الفاظ مستعار لے کر ضرور کہیں گے کہ:
وَمِمَّا زَادَنِي شَرَفاً وَتِيْهًا
وَكِدْتُ بِأَخْمَصِي أَطَأُ الثُّرَيَّا
دُخُوْلِي تَحْتَ قَوْلِكَ يَا عِبَادِي
وَأَنْ صَيَّرْتَ أَحْمَدَ لِي نَبِيًّا
(قاضی عياض ، غذاء الألباب للسفاريني ، ص:372)
’’مجھے جس چیز کا شرف وفخر حاصل ہے اور جس پر خوشی سے میرے پاؤں ثریا (یعنی آسمان کی بلندیوں ) کو جا کے چھونے لگتے ہیں، یہ کہ تیرے قول یا عبادی کے مخاطبین میں شامل ہوں اور یہ کہ تو نے احمدﷺ کو میرا نبی بنایا ہے۔‘‘
تو اللہ تعالی کی بے شمار، لاتعداد اور ان گنت نعمتوں میں سے یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مسلمان بندوں کے لیے وقفے وقفے سے نیکیوں کے مواقع اور مواسم مقرر فرما رکھے ہیں۔ نیکیوں کے ان مواقع میں سے ایک موقع حج بیت اللہ کا موسم ہے اور غیر حاجیوں کے لیے ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ نیکیوں کے اس موسم کی دو مختلف شکلوں میں جس کسی نے بھی سعادتیں سمیٹنے اور مستفید ہونے کے کوششیں کیں، اللہ تعالیٰ ان کی وہ کوششیں قبول فرمائے ، آمین
آج کی گفتگو میں نیکیوں کے اس موسم کی ایک شکل فریضہ حج سے متعلق ہی بات کریں گے، ان شاء اللہ
حج کی سعادت یقینا اک بہت بڑی سعادت ہے، کیونکہ اس کا اجر و ثواب اک بہت بڑا اجر و ثواب ہے اور وہ ہے جنت عطا کیا جانا ۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاء إِلَّا الْجَنَّةُ)) (بخاري، كتاب العمرة:1773)
’’مقبول حج کا بدلہ اللہ تعالی کے ہاں جنت ہے۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
((مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ) (بخاري ، كتاب الحج:1521)
’’جس کسی نے حج کیا بشر طیکہ کسی شہوانی فعل کا ارتکاب نہ کیا اور فسق و معصیت سے آلودہ نہ ہوا تو وہ گنا ہوں سے یوں پاک صاف ہو کر لوٹتا ہے جیسے اس روز گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے جس روز اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔‘‘
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسان کی منزل اور اس کا ہدف، اللہ تعالی کی رضا ، جنت کا حصول ہے، تو ایک ایسا عمل کہ جس کی ادائیگی سے انسان کے اہداف و مقاصد پورے ہوتے ہوں اور منزل کا حصول آسان ہو جائے ، جس سے آدمی گنا ہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جائے جیسے نو مولود بچہ ہو، اس سے بڑھ کر عظیم عمل کیا ہو سکتا ہے۔ تو فريضہ حج اک بہت بڑی سعادت ، بہت بڑی نعمت اور بہت بڑا موقعہ غنیمت ہے۔ اور جب فريضہ حج اتنی بڑی نعمت ٹھہرا تو یقیناً اس کی قبولیت کے کچھ آداب ، کچھ شرطیں اور کچھ تقاضے بھی ہوں گے۔ اتنا بڑا مثل ہو اور اس کا حصول اتنا آسان ہوا! ایسا نہیں ہوتا، کام دنیا کا ہو یا آخرت کا جتنا بڑا کام ہو، اتنی ہی بڑی اس کی قیمت ہوتی ہے، اتنی ہی بڑی محنت اس کے لیے درکار ہوتی ہے، چنانچہ مقبول و مبرور حج کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔
سب سے پہلی شرط ہے۔ اخلاص ، کہ حج سے خالص اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی مقصود ہو، اس میں ریاء کاری اور دکھلاوا نہ ہو۔ یہ کسی بھی عمل کی اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کی پہلی شرط ہے۔ چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ۝۵﴾ (البينة:5)
’’اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے دین کو خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں، یہی دین مستقیم اور دین عدل ہے۔‘‘
اور حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِي مَا نَوَى)) (بخاري، كتاب بدء الوحي:1)
’’اعمال کے اجر و ثواب کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ۔‘‘
چنانچہ آپﷺ نے حج کا احرام باندھنے ور تلبیہ کہنے کے بعد یہ بھی فرمایا:
((اللّٰهُمَّ حَجَّةً لَا رِيَاءَ فِيهَا وَلَا سُمْعَةَ) (صحيح الترغيب للألباني:1122)
’’اے اللہ! میں ایسا حج کر رہا ہوں جس میں ریا کاری ہے اور نہ شہرت کی طلب ‘‘
جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں: ((حَجَّ النَّبِيُّ عَلٰى رَحْلٍ رَثٍّ، وَقَطِيفَةٍ تُسَاوِي أَرْبَعَةَ
دَرَاهِمَ أَوْ لَا تُسَاوِي))
’’آپ ﷺنے ایسی سواری پر حج کیا جس کی زین اور کاٹھی پرانی اور بوسیدہ تھی اور اس پر ڈالا گیا کپڑے کا ٹکڑا بھی ایسا تھا کہ جس کی قیمت چار درہم یا اس سے بھی کم تھی ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ حَجَّةً لَا رِيَاءَ فيْهَا وَلَا سُمْعَةَ)) (صحيح ابن ماجة:2355)
’’اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ! ایسا حج کر رہا ہوں، جس میں ریا کاری مطلوب نہیں اور شہرت مقصود نہیں ۔‘‘
تو مقبول حج کی پہلی شرط ہے اخلاص ۔
اور دوسری شرط ہے۔ سنت کی متابعت اور مطابقت ۔ یعنی وہ عمل سنت کے مطابق ہو۔ اپنی مرضی اور خواہش سے کیا ہوا حج، یا کوئی بھی نیک عمل ، چاہے بظاہر وہ کتنا ہی پرکشش اور خوبصورت کیوں نہ نظر آتا ہو، اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہے، کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے۔
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ)) (مسلم ، كتاب الأقضية:1718)
’’جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
اور حج کے متعلق تو خصوصی طور پر فرمایا:
((خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ)) البيهقي "السنن الكبرى: 5/125، صحيح الجامع:7882)
’’مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھو۔‘‘
تو اخلاص اور سنت کی مطابقت کسی بھی عمل کی اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کے لیے اولین اور بنیادی شرطیں ہیں۔
حج کی قبولیت کی تیسری اہم شرط ہے: مال حلال سے حج کرنا، کہ حرام مال سے کیا ہوا حج قابل قبول نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اعمال حج میں سب سی اہم معمل دعا ئیں ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حرام ذرائع سے حاصل کیے گئے مال والے کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
((قَالَ رَسُولُ اللهِ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: ﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ﴾ (المؤمنون:51)
’’آپ ﷺنے فرمایا: لوگو! اللہ تعالی پاک ہے (ہر قسم کے نقص سے پاک ہے) اور صرف پاک اور حلال مال ہی قبول کرتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے مومنوں کو وہی حکم کیا جو رسولوں بیٹیٹر کو حکم کیا اور فرمایا: اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔‘‘
وقَالَ ﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ (البقره:172)
’’اور مومنین سے فرمایا: ’’اے ایمان والو! پاک چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں ۔‘‘
((ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ))
’’پھر آپ ﷺ نے ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے۔‘‘ یعنی حج کے لیے لمبا سفر طے کر کے آتا ہے۔
((أَشْعَثَ أَغْبَر))
’’پرا گندہ بالوں والا، گردو غبار میں اٹا ہوا۔‘‘
((يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ))
’’آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔‘‘
((يَا رَبِّ يَا رَبِّ))
’’یا رب یا رب پکارتا ہے۔‘‘
((وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حرامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذٰلِكَ)) (مسلم ، كتاب الزكاة:1015)
’’جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، پینا حرام کا ہے، پہننا حرام کا ہے، حرام کی غذا سے اس کی پرورش ہوئی ہے، پھر اس کی دعاء کیونکر قبول ہوا!‘‘
اب انداز و کیجئے کہ آپ ہم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کر کے حرام مال والے کی دعاء قبول نہ ہونے کا بیان فرمایا کہ جس میں قبولیت دعاء کے متعدد اسباب موجود تھے۔
مثلًا: فرمایا:
((يُطِيلُ السَّفْرَ))
’’لمبا سفر کرتا ہے۔‘‘
اور لمبا سفر کرنا قبولیت دعاء کے اسباب میں سے ایک ہے۔
اسی طرح فرمایا:
((أَشْعَثَ أَغْبَر))
’’پرا گندہ بالوں والا ، غبار آلود‘‘
اور یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ منکسر المزاج فخر و غرور سے دور، عاجزی و انکساری والا شخص ہے، اور عاجزی و انکساری والا ہونا بھی قبولیت دعاء کا اک وسیلہ ہے۔
اور پھر
((يَمُدُّيَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ))
’’ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے دعاء مانگتا ہے۔‘‘
آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا بھی قبولیت کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ))
’’اللہ تعالی بڑا حیاء کرنے والا اور سخی ہے۔‘‘
((يَسْتَحِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتين) (صحيح الترمذي:2556)
’’بندہ جب اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ وہ انہیں نا مراد خالی لوٹا دے۔‘‘
اسی طرح وہ یا رب یا رب کہہ کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اللہ تعالی کے ناموں میں سے کسی سے اس کو پکارنا ، قبولیت دعاء کے اسباب میں سے ہے، کہ اللہ تعالی نے اپنے اسماء حسنی کے ساتھ پکارنے کا اور دعاء کرنے کا حکم دیا ہے۔
((وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوهُ بِهَا)) (الاعراف:180)
’’اور اللہ تعالی کے بہت اچھے اچھے نام ہیں، اسے ان ناموں کے ساتھ پکارو۔‘‘
تو دعاء کی قبولیت کے لیے سارے اسباب موجود مگر چونکہ کمائی حرام کی ہے، اس لیے دعاء قبول نہیں کی جاتی۔ تو قبولیت حج کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط رزق حلال ہوتا ہے۔ اور چوتھی شرط قبولیت حج کی یہ ہے کہ جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے، ان سے باز رہنا، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُومٰتٌ﴾ (البقره:197)
’’حج کے معلوم و متعین مہینے ہیں۔‘‘
﴿ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ؕ ﴾(البقره:197)
’’پس جو شخص ان میں حج مقرر کرے، وہ شہوانی اعمال سے اجتناب کرے اور فسوق و معصیت سے احتراز کرے اور لڑائی جھگڑے سے بچے ۔‘‘
تو اللہ تعالی کے منع کردہ کاموں سے باز رہنا بھی قبولیت حج کی شرط لازم ہے۔ حج کی صحت و قبولیت کی یہ چند اور بنیادی شرطیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ بھی متعدد چیزیں ایسی ہیں جو حج کا لازمی حصہ ہیں، ان کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ تو یہ تھیں قبولیت حج کی چند اہم شرطیں، اب اس کی علامتیں بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں تو کسی بھی حمل کے اللہ تعالی کے ہاں قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، کوئی انسان اس پر مطلع نہیں ہو سکتا، الا یہ کہ اللہ تعالی اپنے انبیاء و رسل سلام میں سے کسی کو مطلع فرما دیں اور انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہو چکا ہے، البتہ علماء کرام نے قرآن و حدیث سے قبولیت اعمال کی چند علامات استنباط کی ہیں، ان علامات کا جانا ضروری ہے، تا کہ ہم کسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں نہ رہیں اور اگر کہیں اصلاح کی ضرورت ہو تو اصلاح کر سکیں۔
ممکن ہے کچھ لوگ ایسی باتیں سننا پسند نہ کریں، کیونکہ وہ اپنی کسی خوش فہمی کا مزا کر کرا نہیں کرنا چاہتے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو ذہن میں تازہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ مگر یہ حقیقت میں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اور میرے لیے بھی یہ مشکل نہیں کہ میں حاجیوں کو مبارک بادیں دوں اور مقبول حج کی فضیلت بیان کرتا رہوں، مگر انہیں حج مقبول نہ ہونے کے اسباب سے بے خبر رکھنا جہاں ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ، وہاں خود میرے لیے بھی اک شدید وعید بن سکتی ہے۔ (اعاذني الله منه)
کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ كَتَمَ عِلْمًا اَلْجَمَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامِ مِنَ النَّارِ))(صحیح ابن حبان:96)
’’کہ جس شخص نے شریعت کا علم چھپایا، اللہ تعالی اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنچائے گا۔‘‘ (اعاذنا الله منه)
اس لیے آپ کی ناراضی تو مول لی جا سکتی ہے، مگر اس وعید کا سامنا کرنے کی سکت نہیں، اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے ، آمین تو ان باتوں کا کسی دوسری نشست میں ان شاء اللہ ذکر ہوگا، تاہم فريضہ حج کی توفیق کے حوالے سے ایک بات عرض کرتا چلوں کہ فريضہ حج ایک بہت بڑی نیکی اور بہت بڑی سعادت ہے اور اس کی توفیق یقینا اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم اور بہت بڑا انعام ہے، چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالی نے فريضہ حج کی ادائیگی کی توفیق سے نوازا ہے، اسے اللہ تعالی کی اس توفیق اور ہدایت پر شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس میں انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے صحت و تندرستی اور مال ودولت کی فروانی وغیر ہ بھی سب اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں ، تو نیکی کی توفیق سراسر اللہ تعالی کی عنایت اور اس کا فضل و کرم ہے ، ورنہ ہم دیکھتے ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مال و دولت کی کثرت کے باوجود اس نعمت سے محروم ہیں۔اس لیے یہ توفیق محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ۔
﴿ وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ﴾ (النحل:53)
’’اور جو بھی نعمت تمہیں حاصل ہے، وہ صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔‘‘
اس لیے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بار بار حج و عمرے کی سعادت نصیب فرمائے اور اس پر اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
……………………..