حسد کے نقصانات

الحمد لله لا مانع لما أعطى، ولا معطي لما منع، يختص برحمته من يشاء، وهو الحكيم الخبير، أحمده سبحانه على سوابغ نعمه، وأشكره على ترادف جوده وكرمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له. وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الذي طهر الله قلبه من الغل والحسد. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه.
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ جو اگر دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں، اور اگر کسی چیز سے روک دے اسے کوئی دینے والا نہیں وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے۔ خاص کر دیتا ہے۔ اور وہ حکمت والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ میں اس رب ذی الجلال کی بے پایاں نعمتوں پر اس کی حمد و تعریف کرتا اور اس کے بے شمار فضل و کرم پر شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جن کے قلب اطہر کو اس نے غل و حسد اور کینہ و کپٹ سے پاک فرمایا۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام نازل ہو ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر۔ اما بعد!
دینی بھائیو! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(إياكم والظن، فَإِنَّ الظَّن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، كما أمركم الله، المسلم أخو المسلم لا يظلمه، ولا يخذله، ولا يحقره، التقوى ها هنا. التقوى هاهنا، التقوى هاهنا، ويُشير إلى صدره، بحسب امرى من الشر أن يحقر أخله المسلم، كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه) [یہ حدیث بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مطولاً یا مختصر صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد موطا مالک سنن ابی داود اور جامع ترندی میں مروی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: ’’جامع الاصول من احاديث الرسول‘‘ لابن الأثير523 تا 526/6]
’’بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ دوسروں کی ٹوہ میں نہ پڑو دوسروں کے عیب نہ ٹولو دنیا میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ریس نہ کرو ایک دوسرے سے حسد نہ رکھو، دشمنی اور قطع تعلقی نہ کرو اور جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اس کے مطابق ایک اللہ کے بندے کی حیثیت سے بھائی بھائی بن کر رہو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ سو نہ تو اس پر وہ ظلم کرے نہ اسے رسوا کرے نہ اس کی تحقیر کرے ‘سنو! تقویٰ یہاں ہے۔ ‘ تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرماتے آدمی کے برے ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے۔ کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ایک مسلمان کا خون مال اور عزت سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! حضرت شارع علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے نہایت ہی خیر خواہ ہیں۔ آپ نے اپنی امت کو ان تمام امور سے منع فرما دیا ہے۔ جو اس کے لئے دین دنیا اور معاشرہ میں خرابی اور نقصان کا باعث ہو سکتے تھے۔ مذکورہ بالا حدیث میں آپ نے اپنی امت کو جن عادتوں سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ وہ نہایت ہی مذموم اور مسلمانوں کے مابین ہر قسم کے شر و فساد کی جڑ ہیں۔ جس معاشرہ میں بھی یہ عادتیں پھیل جائیں اسے تباہ و برباد کر دیں گی اس کی وحدت و اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی ان کے درمیان سے الفت و محبت مٹا کر انہیں قلق و اضطراب میں مبتلا کر دیں گی اور پھر ان مذموم خصلتوں میں بھی سب سے مضر انجام کے اعتبار سے سب سے بری اور پھیلنے میں سب سے زیادہ تیز خصلت حسد کی ہے۔ حسد وہ مہلک اور خطرناک مرض ہے۔ جس میں آج اور اب سے پیشتر بھی بہت سے لوگ مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہی وہ سب سے پہلا گناہ ہے۔ جو اللہ کی نافرمانی میں کیا گیا میں وہ گناہ ہے۔ جس کا ابلیس لعین نے ارتکاب کیا اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے اسے راندہ درگاہ کیا ملعون قرار دیا اور آسمان سے بھگاتے ہوئے کہا:
﴿فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَحِيمٌ۔ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ﴾ (الحجر: 34، 35)
’’یہاں سے نکل جا تو مردود ہے۔ اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت برسے گی۔‘‘
اللہ کے بندو! حسد منافقین کی ایک صفت ہے۔ کہ جن کے دل مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب سے بھرے ہوتے ہیں۔ اور جنہیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت سے اچھو لگ گیا تھا اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر ان کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ کہ یہ مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں میں اس قدر غیظ و غضب اور کینہ و حسد رکھتے ہیں۔ کہ مارے غصہ کے اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
﴿وَ اِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۖۗۚ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ؕ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۱۹ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ؗ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠۝۱۲۰﴾ (آل عمران: 119،120)
’’یہ جب تم سے ملتے ہیں۔ تو کہتے ہیں۔ ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں۔ تو تم پر غصہ کے سبب انگلیاں کاٹتے ہیں۔ کہہ دو! ( بد بختو) تم اپنے حصے میں مر جاؤ اللہ تمہارے ولوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم تکلیفوں کو برداشت کرتے اور (ان سے) کنارہ کشی کرتے رہو گے تو ان کا فریب تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں۔ اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘
برادران اسلام! جب دلوں میں حسد داخل ہو جاتا اور نفس پر غالب آجاتا ہے۔ تو معاشرہ کے اندر اختلاف و اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ با ہم خیر خواہی کا جذبہ جاتا رہتا ہے۔ اخوت و محبت ختم ہو جاتی ہے، مزید بر آن معاشرہ پر ذلت و نکبت اور عاجزی طاری ہو جاتی ہے۔ اور دشمن موقع کی تاک میں لگ جاتے ہیں۔
حسد کا مرض جس جماعت کے اندر بھی پیدا ہوا ان کے ضمیر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ان کی وحدت کا شیرازہ منتشر کر دیا اور ان کے اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر حسد کی مذمت اور حاسدوں کی توبیخ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (النساء: 54)
’’کیا اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو دے رکھا ہے۔ اس کا یہ حسد کرتے ہیں۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حسد سے منع کرتے ہوئے اور حاسدین کے انجام بد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
(إيَّاكُمْ وَالحسد، فإنَّ الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب) [سنن ابی داود: کتاب الادب، باب فی الحسد (4903) و سنن ابن ماجه: کتاب الزہد، باب الحسد (4210) علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے: ضعیف سنن ابی داود]
’’خبر دار! جسد سے بچو کیونکہ حسد اس طرح نیکیاں کھا لیتا ہے۔ جیسے آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
(لا يَزَالُ الناس بخير ما لم يتحاسدوا) [الترغیب والترہیب: 547/3]
’’لوگ اس وقت تک خیر سے رہیں گے جب تک کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرنے لگیں۔‘‘
اللہ کے بندو! حسد نہایت ہی مذموم عادت ہے۔ حسد کرنے والا گویا اللہ تعالی کے فیصلے اور اس کی تدبیر پر اعتراض کرتا ہے۔ اور بندوں کو اس نے جو نعمتیں عطا کی ہیں۔ اسے اپنے لئے باعث مصیبت جانتا ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ رنج وغم میں رہتا ہے۔ حسد کی آگ اندر ہی اندر اس کے دل کو جلاتی رہتی ہے۔ اور محسود (یعنی جس سے حسد کیا جائے وہ) اس کی پرواہ کئے بغیر اللہ کی نعمتوں سے خوب خوب لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
حاسد کے دل میں حسد کی جو آگ لگتی ہے۔ وہ اس وقت ٹھنڈی ہو سکتی ہے۔ جب محسود سے نعمتیں چھن جائیں لیکن نعمتیں عطا کرنا اور چھیننا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے دے اور جس سے چاہے چھین لے۔
حد ایسا مرض ہے۔ جو حاسد کو حق کے چھپانے اور کسی صاحب فضل کی فضیلت کا اعتراف نہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ حاسد اپنے محسود کے سلسلہ میں جب کوئی خیر جانتا ہے۔ تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب اس کے بارے میں کوئی نا مناسب بات معلوم ہوتی ہے۔ تو اس کا خوب خوب پر چار کرتا ہے۔ اور جب اس سے بھی اس کی مراد پوری نہیں ہوتی تو اس کی جانب جھوٹی باتیں منسوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سب اس کے ضعف ایمان کی دلیل ہے۔ اس کے دل میں اگر کامل طور پر ایمان راسخ ہو جائے تو اس طرح کے کاموں کی ہرگز وہ جرأت نہیں کرے گا جو غضب الہی کا سبب ہوں۔
دینی بھائیو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ صفات سے مزین کرو اگرے عادات و اطوار اور مذموم خصلتوں سے بچو، قرآن کریم کے اخلاق و آداب اپناؤ اور ان صالح اور مومن بندوں کا طریقہ اختیار کرو جن کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠۝۱۰﴾ (الحشر:10)
’’(مال فئے ان لوگوں کے لئے بھی ہے۔) جو مہاجرین کے بعد آئے اور دعا کرتے ہیں۔ کہ اے پروردگار! ہمارے گناہ اور ہمارے جو بھائی ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ ان کے گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ وحسد نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔