حیا ایمان کا ایک شعبہ
اہم عناصرِ خطبہ :
01. ’ حیاء ‘ کی اہمیت
02. ’ حیاء ‘ کسے کہتے ہیں ؟
03. ’ حیاء‘ کی اقسام
04. ایمانی ’ حیاء‘ کیسے آسکتی ہے ؟
05. ’ حیاء ‘ کے بعض فوائد وثمرات
06. ’ حیاء ‘ کے بعض اعلی نمونے
07. بے حیائی کی حرمت
08. معاشرے میں بے حیائی کی بعض صورتیں
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! ہمارا دین چار امور پر قائم ہے : عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاق وآداب ۔ اور آج ہم جس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ اخلاق وآداب سے متعلق ہے ۔ بلکہ اخلاق وآداب کی جڑ اور اس کی اساس ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقًا ، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَیَائُ )) سنن ابن ماجہ : 4181۔ وحسنہ الألبانی
’’ ہر دین میں حسن اخلاق کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہوتی ہے ۔ جبکہ اسلام میں حسن اخلاق کی اہم ترین صفت ’ حیاء ‘ ہے ۔ ‘‘
بلکہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ حیاء ‘ کو پورا دین قرار دیا ہے ۔
جیسا کہ حضرت قرۃ بن ایاس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کے سامنے ’ حیاء ‘ کا ذکر کیا گیا ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا حیاء دین میں سے ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بَلْ ہُوَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ ) صحیح الترغیب والترہیب :2630
’’ حیاء تو پورا دین ہی ہے ۔ ‘‘
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ حیاء ‘ کو ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ قرار دیا ۔
فر مایا : (( اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ۔ أَوْ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ ۔ شُعْبَۃً : فَأَفْضَلُہَا قَوْلُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَأَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذیٰ عَنِ الطَّرِیْقِ ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ ))
’’ ایمان کے ستر سے زیادہ ، یا فرمایا : ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں۔ سب سے افضل شعبہ ( لا إلہ إلا اللہ)
کہنا ہے ۔ اور سب سے کم ترشعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے ۔ اور حیاء ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :35
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرایک انصاری آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا ۔ ( یعنی اسے کہہ رہا تھا کہ تم ہر وقت شرماتے ہی رہتے ہو اور حیاء کی وجہ سے فلاں فلاں کام نہیں کرتے ۔۔۔۔ ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( دَعْہُ فَإِنَّ الْحَیَائَ مِنَ الْإِیْمَانِ )) ’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حیاء ایمان میں سے ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :16
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :(( اَلْحَیَائُ وَالْإِیْمَانُ قُرِنَا جَمِیْعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الْآخَرُ )) صحیح الجامع للألبانی :3200
’’ حیاء اور ایمان دونوں اکٹھے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ان میں سے ایک ختم ہوجائے تو دوسرا بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ‘‘ یعنی جس شخص کے اندر ایمان موجود ہو اس کے اندر حیاء بھی ضرور ہو گی ۔ اور اگر حیاء نہ ہو تو ایمان بھی نہیں ہوگا ۔ گویا حیاء کا نہ ہونا ایمان کے نہ ہونے یا ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’ حیاء ‘ کسے کہتے ہیں ؟
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ’’ حیاء اچھے اخلاق کی وہ صفت ہے جو انسان کو قبیح ، گھٹیا اور بے حیائی پر مشتمل اقوال وافعال سے روکے اور اچھے اقوال واعمال پر ابھارے ۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ’ حیاء ‘ در حقیقت اُس عظیم صفت کا نام ہے جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے ہر حرام عمل اور فحش قسم کے اقوال واعمال سے پرہیز کرے اور اچھے اقوال واعمال کو انجام دے ۔
یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ’ حیاء ‘ کی دو قسمیں ہیں :
01. فطری حیاء ، جو ہر انسان میں ، حتی کہ چھوٹے بچوں میں بھی ہوتی ہے ۔ مثلا ستر کو چھپانا ۔
یہی وجہ ہے کہ جب ابو البشر آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حواء علیہا السلام نے جنت کے اُس درخت کا پھل کھا لیا جس سے اللہ تعالی نے انھیں منع کیا تھا تو ان کی شرمگاہیں ننگی ہوگئیں ۔ چنانچہ شرم کے مارے وہ جنت کے پتوں کے ذریعے ان کو ڈھانپنے لگے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ﴾ الأعراف7 :22
’’ پھر جب انھوں نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے ان پر چپکانے لگے ۔ ‘‘
اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’ حیاء ‘ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کی جبلت وفطرت میں ہی رکھ دی گئی تھی ۔ اور اسی لئے یہ فطری حیاء ہر انسان میں موجود ہوتی ہے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ : ((وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ )) ’’ اور کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے ۔ ‘‘ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ( وہ تو شرماتی ہے تو ) اس کی اجازت کیسے ہوگی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْ تَسْکُتَ )) ’’ یہ کہ وہ خاموش ہوجائے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 5136 ، صحیح مسلم :1419
یہ بھی فطری حیاء ہے جو ہر کنواری لڑکی میں ہوتی ہے ۔
02. ایمانی حیاء
’’ ایمانی حیاء سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے حرام کاموں سے اجتناب کرے ۔ ‘‘
اور یہ حیاء انسان میں اس طرح آتی ہے کہ وہ ہر وقت ، ہرجگہ اللہ تعالی کو نگران تصور کرے ۔ جب وہ اللہ تعالی کو نگران تصور کرے گا اور اسے یقین ہوگا کہ اللہ تعالی اسے ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہے ، سن رہا ہے اور اس کی تمام حرکات وسکنات اس کے علم میں ہیں تو وہ اس سے حیاء کرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے گا۔
اللہ تعالی کافرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾ النساء4 :1
’’ یقینا اللہ تعالی تمھارے اوپر نگران ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے : ﴿وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ الحجرات 49:18
’’ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی اسے خوب دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ الحشر59:18
’’ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالی اس سے یقینا پوری طرح با خبر ہے ۔ ‘‘
بلکہ اللہ تعالی تو آنکھوں کے اشاروں اور دلوں کے بھیدوں تک کو بھی جانتا ہے ۔
فرمایا : ﴿ یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ ﴾ المؤمن40 :19
’’ وہ ( اللہ تعالی ) نظروں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور ان مخفی باتوں کو بھی جو سینوں نے چھپا رکھی ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ الملک67 :13
’’ اور تم چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے ، وہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالی بندے کے انتہائی قریب ہے ، حتی کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ ق50 :16
’’اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں وسوسہ گزرتا ہے ، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں ۔ اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔ ‘‘
عزیزان گرامی ! ان تمام آیات کریمہ کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو اللہ ہمارے اعمال سے با خبر ہے ، جو ہمیں ہر جگہ اور ہر وقت دیکھ اور سن رہا ہے ، جو ہمارے انتہائی قریب ہے ، جو ہمارے دلوں کے اندر چھپے ہوئے رازوں تک کو جانتا ہے ، جو ہماری آنکھوں کے اشاروں تک سے واقف ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اس سے حیاء کرنی چاہئے اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اِسْتَحْیُوا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ )) ’’ اللہ سے اُس طرح حیاء کرو جیسا کہ حیاء کرنے کا حق ہے ۔ ‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کی : ((یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّا نَسْتَحْیِیْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ))
’’ اے اللہ کے رسول ! اللہ کا شکر ہے کہ ہم حیاء کرتے ہیں ۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لَیْسَ ذَاکَ ، وَلٰکِنَّ الْاِسْتِحْیَائَ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعٰی ، وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَی ، وَلْتَذْکُرِ الْمَوتَ وَالْبِلٰی ، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَۃَ تَرَکَ زِیْنَۃَ الدُّنْیَا ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدِ اسْتَحْیَا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ )) جامع الترمذی : ۲۴۵۸۔ وحسنہ الألبانی
’’ میرا مقصد یہ نہیں جو تم لوگوں نے سمجھا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالی سے کما حقہ حیاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اسی طرح کانوں ، آنکھوں اورزبان کی حفاظت کرو ۔ اور پیٹ اور وہ جس چیز کو جمع کرے اس کی حفاظت کرو۔ ( یعنی اس میں حرام کا لقمہ نہ جانے دو ۔ اسی طرح اپنے دل اور شرمگاہ کی بھی حفاظت کرو ) اور موت اور (قبر میں ) بوسیدگی کو یاد کرو ۔ اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت کو چھوڑ دیتا ہے ۔ لہذا جو شخص ایسے کرے گا تو اس نے گویا کہ اللہ تعالی سے اُس طرح حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے ۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے کما حقہ حیاء کرنے کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنے پورے جسم کو ، خصوصا اپنے حواس کو اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچائیں۔
اللہ تعالی کی نافرمانی سے پر ہیز تبھی ممکن ہے جب بندہ اللہ تعالی سے حیاء کرے ۔
سعید بن یزید الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا:
( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! أَوْصِنِیْ ) ’’ اے اللہ کے رسول ! مجھے وصیت کریں ۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أُوْصِیْکَ أَنْ تَسْتَحْیِیَ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَمَا تَسْتَحْیِیْ رَجُلًا مِنْ صَالِحِیْ قَومِکَ )) السلسلۃ الصحیحۃ : 741
’’ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ عز وجل سے اُس طرح حیاء کرو جیسا کہ تم اپنی قوم کے صلحاء میں سے کسی صالح آدمی سے حیاء کرتے ہو ۔ ‘‘
یعنی جس طرح تم اپنے قبیلے کے ایک صالح آدمی سے حیاء کرتے ہوئے اس کے سامنے کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو معیوب ہو ۔ اسی طرح تم اللہ تعالی سے بھی حیاء کرتے ہوئے کوئی ایسا کام نہ کرو جو اللہ تعالی کی نظر میں برا ہو اور اس کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہو ۔
محترم حضرات !
٭ جس ایمانی حیاء کی ہم بات کر ر ہے ہیں ، یہ ہمیشہ خیر وبھلائی کا ہی سبب بنتا ہے ۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِیْ إِلَّا بِخَیْرٍ )) ’’ حیاء خیر ہی کو لاتی ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :6117، وصحیح مسلم : 165
٭ اور حیاء جس چیز میں ہو اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے ۔ اور جس چیز میں نہ ہو اور اس میں بے حیائی ہو تو وہ اسے بد صورت بنادیتی ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا کَانَ الْحَیَائُ فِیْ شَیْیٍٔ إِلَّا زَانَہٗ ، وَلَا کَانَ الْفُحْشُ فِیْ شَیْیٍٔ إِلَّا شَانَہٗ )) صححہ الألبانی فی صحیح الأدب المفرد ، باب الحیاء
’’ حیاء جس چیز میں بھی ہو اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے ۔ اور بے حیائی جس چیز میں بھی اسے وہ بد صورت بنا دیتی ہے ۔ ‘‘
٭ حیاء ایسی صفت ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور جس شخص میں ہو اس سے وہ محبت کرتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبد القیس رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا :
(( إِنَّ فِیْکَ لَخُلُقَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ )) ’’ تمھارے اندر دو صفات ایسی ہیں جنھیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے ۔ ‘‘
انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ کونسی ہیں ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْحِلْمُ وَالْحَیَائُ )) ’’ برد باری اور حیاء ہیں ۔ ‘‘ صححہ الألبانی فی صحیح الأدب المفرد ، باب التؤدۃ فی الأمور
اور جناب یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو کھلے میدان میں غسل کر رہا تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور حمد وثناء کے بعد ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ سِتِّیْرٌ یُحِبُّ الْحَیَائَ وَالسِّتْرَ ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ )) سنن أبی داؤد : 4014 ،سنن النسائی : 406۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی انتہائی با حیاء اور بہت ہی پردہ ڈالنے والا ہے ۔ حیاء اور پردہ ڈالنے کو پسند کرتا ہے ۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص غسل کرے تو وہ پردہ کر لے ۔ ‘‘
محترم حضرات ! حیاء کے بعض فوائد ذکر کرنے کے بعد اب ہم ’ حیاء ‘ کے بعض نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں :
01. اللہ تعالی کی صفت ِ حیاء
صفت ِ حیاء اللہ تعالی میں بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ جیسا کہ حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ)) جامع الترمذی :3556، سنن أبی داؤد :1488 ، سنن ابن ماجہ :3865۔ وصححہ الألبانی
’’بے شک اللہ تعالی بہت حیا کرنے والا اور نہایت مہربان ہے ۔ اور کوئی آدمی جب اس کی طرف ہاتھ بلند
کرتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ وہ انہیں خالی اور نا کام واپس لوٹا دے ۔ ‘‘
جب اللہ تعالی انتہائی با حیاء ہے تو اسی طرح اللہ تعالی کے بندوں کو بھی با حیاء ہونا چاہئے ۔ اور خصوصا اللہ تعالی سے بندوں کو حیاء کرنی چاہئے ۔
02. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صفت ِ حیاء
امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہ صفت موجود تھی کہ آپ بھی بہت ہی با حیاء تھے ۔
حضرت ابو سعیدالخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَشَدَّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِیْ خِدْرِہَا)) صحیح البخاری :3562، صحیح مسلم :2320
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر کے کونے میں ) پردے میں بیٹھی ہوئی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ با حیاء تھے ۔‘‘
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرماتھے اور آپ کی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ اسی دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی اور اپنی حالت کو نہ بدلا ۔ پھر ان سے بات چیت کی ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی اجازت دے دی اور اپنی حالت کو نہ بدلا ۔ پھر ان سے بھی بات چیت کی ۔ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو درست کر لیا ۔ پھر وہ داخل ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی بات چیت کی ۔ اس کے بعدجب وہ چلے گئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے کوئی پروا نہیں کی ، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے تو تب بھی آپ نے کوئی پروا نہیں کی ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو درست کر لیا ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَ لَا أَسْتَحْیِیْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْیِیْ مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ)) صحیح مسلم :6362
’’ کیا میں اُس آدمی سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ! ‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں صفت ِ حیاء موجود تھی ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی با حیاء تھے ۔
03.خواتین کی حیاء کا ایک اعلی نمونہ
یہاں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے سچے اور برحق واقعات میں سے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے چلیں ، جس میں دو با حیاء لڑکیوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَمَّا وَرَدَ مَآئَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآئُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ ٭ فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰی۔ٓ اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ﴾ القصص28 :23۔24
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے کہ جب سیدنا موسی علیہ السلام ’ مدین ‘ کے کنویں پر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے جانوروں کو اس کنویں سے پانی پلا رہا ہے ۔ اور انھوں نے دیکھا کہ لوگوں سے کچھ فاصلے پر دو عورتیں کھڑی ہیں جو اپنے جانوروں کو کنویں کی طرف جانے سے روک رہی ہیں ۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے پوچھا : ﴿مَا خَطْبُکُمَا ﴾ ’’تمہارا کیا معاملہ ہے ؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا :
﴿ لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآئُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ ﴾
یعنی ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں ، جب تک کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر فارغ نہ ہو جائیں ۔ اور جہاں تک ہمارے باپ کا تعلق ہے تو وہ بوڑھا ہے اور وہ جانوروں کو پانی پلانے کے قابل نہیں ہے ۔
یہ ہے وہ حیاء جس کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں ، کہ دو نو جوان لڑکیوں کو شرم وحیاء کی وجہ سے یہ گوارا نہیں کہ وہ غیر محرم مردوں کے ساتھ خلط ملط ہو کر جانوروں کو پانی پلائیں !
اللہ اکبر ! جبکہ آج کل کی خواتین ( الا ما شاء اللہ ) مردوں کے شانہ بشانہ چلنا اور ان کے ساتھ کام کرنا اپنا فرض منصبی تصور کرتی ہیں !
اس کے بعد اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ جناب موسی علیہ السلام نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا ۔ پھر ایک سایہ دار جگہ پر آرام کرنے کیلئے رک گئے ۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے کہا :
﴿ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ﴾
’’ اے میرے رب ! جو بھی بھلائی تو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں ۔ ‘‘
چنانچہ اللہ تعالی نے انھیں کس خیر سے نوازا ؟ سنئے
اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَمَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَآئَ ہٗ وَ قَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ القصص28 :25
’’ چنانچہ ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئے آئی اور کہا : آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلایا ہے ، تو میرا
باپ آپ کو بلا رہا ہے تاکہ آپ کو صلہ دے۔ پھر جب وہ اس کے پاس آئے اور اپنا حال سنایا تو اس نے کہا : ڈرو نہیں ، تم نے ظالموں سے نجات پالی ہے ۔ ‘‘
اس کے بعد ان لڑکیوں کے والد نے ایک معاہدے کے تحت ان میں سے ایک کی شادی موسی علیہ السلام سے کردی ۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کیلئے بہت بڑی خیر تھی ۔
یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس لڑکی کی ایک صفت یہ ذکر کی ہے کہ وہ موسی علیہ السلام کو بلانے شرم وحیاء کے ساتھ چلتے ہوئے آئی ۔ لہٰذا آج کل کی لڑکیوں کو بھی اِس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اپنے اندر اس صفت کو پیدا کرنا چاہئے ۔
04. صحابیات ( رضی اللہ عنہن ) کی حیاء کے واقعات
01. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ جَرَّ ثَوبَہُ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ))
’’ جو شخص اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ گھسیٹے، اللہ تعالی روزِ قیامت اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا ۔‘‘
یہ سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( فَکَیْفَ یَصْنَعْنَ النِّسَائُ بِذُیُوْلِہِنَّ )
عورتیں اپنی چادروں کے کناروں کا کیا کریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( یُرْخِیْنَ شِبْرًا ) ’’ ایک بالشت تک لٹکا لیا کریں ۔ ‘‘ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ( إِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُہُنَّ ) تب تو پیر ننگے ہو جائیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 🙁 فَیُرْخِیْنَہُ ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ ) ’’وہ ایک ہاتھ تک انھیں لٹکا لیا کریں ، اِس سے زیادہ نہیں۔ ‘‘ جامع الترمذی :1731 قال الترمذی حسن صحیح ۔ وصححہ الألبانی
غور کیجئے کہ صحابیات ( رضی اللہ عنہن ) اِس قدر با حیا تھیں کہ قدموں کا ننگا ہونا بھی ان کیلئے قابل برداشت نہ تھا ! جبکہ آج کل قدم تو دور کی بات ، پوری پوری پنڈلیاں ننگی ہوجائیں ، سر ننگا ہو ، سینے پر اوڑھنی نہ ہو تو اسے بے حیائی نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ اسے ’ ماڈرن ازم ‘ سمجھا جاتا ہے ۔
02. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
(( کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم مُحْرِمَاتٌ،فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا ، فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ)) سنن أبی داؤد:1833،سنن ابن ماجہ:2935وضعفہ الألبانی ولکن لہ شاہد من حدیث أسماء وفاطمۃ
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت ِ احرام میں تھیں ، جب مرد ہمارے سامنے آتے تو ہم میں سے ہر
خاتون اپنی کھلی چادر کو اپنے سر سے چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھی اور جب وہ گذر جاتے تو ہم اپنی چادر ہٹا لیتیں ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ ہم احرام کی حالت میں (غیر محرم ) مردوں سے اپنے چہرے چھپا لیا کرتی تھیں۔ ‘‘ صحیح ابن خزیمہ، الحاکم : صحیح علی شرط الشیخین
یہ پاکباز خواتین ِ اسلام اِس قدر باحیا تھیں کہ احرام کی حالت میں ، مقدس مقامات پر بھی چہروں کا ننگا ہونا ان کیلئے قابل برداشت نہ تھا ! جبکہ آج کل تو عام دنوں میں اور عام مقامات پر بھی خواتین چہرہ تو دور کی بات پورے اعضائے زینت کی نمائش کرتی رہتی ہیں اور انھیں ذرا بھی شرم نہیں آتی ۔
03. عطاء بن ابی رباح جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا میں تمھیں ایک جنتی خاتون نہ دکھلاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا : یہ جو کالے رنگ کی عورت ہے ، یہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔ لہذا آپ اللہ تعالی سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ تو آپ نے فرمایا :(( إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیَکِ ))
’’ اگر تم چاہو تو صبر کرو ( اور اگر صبر کروگی تو ) تمھارے لئے جنت ہے ۔ اور اگر چاہو تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں عافیت دے ۔ ‘‘
( اب اس خاتون نے سوچا کہ ایک طرف صبر کرنے پر آخرت میں جنت کی ضمانت ہے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم عافیت کیلئے دعا کرنے کی پیش کش فرما رہے ہیں اور اس میں جنت کی ضمانت نہیں ہے ۔)
تو اس نے کہا : میں صبر ہی کرتی ہوں ، تاہم میں مرگی کے دورہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں تو آپ بس یہ دعا کر دیجئے کہ میں کم از کم بے پردہ نہ ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ۔ صحیح البخاری :5652 ، صحیح مسلم :2576
میرے بھائیو اور میری بہنو ! اسے کہتے ہیں حیاء ، کہ اس عظیم خاتون کو بیماری کی حالت میں بھی بے پردہ ہونا برداشت نہ تھا ، چہ جائیکہ وہ صحت وعافیت کی حالت میں بے پردہ ہوتی ۔ جبکہ آج کل بے پردہ ہو کر گھروں سے باہر نکلنا اور مردوں کے سامنے اپنی نمائش کرنا خواتین کیلئے انتہائی معمولی بات ہے ۔
04. حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اس وقت شادی کی جب ان
کے پاس کوئی جائیداد تھی نہ کوئی غلام تھا ۔ صرف ایک اونٹ اور ایک گھوڑا تھا ۔ میں ان کے گھوڑے کو گھاس چارہ ڈالتی اور اونٹ پر پانی لاد کر لے آتی ۔ اور میں خود ان کے ڈول کو سی لیتی اور خود آٹا گوندھتی ۔ البتہ میں روٹی پکانا نہیں جانتی تھی تو پڑوس کی انصاری خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں اور وہ سچی محبت کرنے والی خواتین تھیں ۔ اور جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بطور جاگیر عطا کی تھی وہ تقریبا دو میل کے فاصلے پر تھی اور میں اس میں گٹھلیاں چننے جاتی اور اپنے سر پر وہاں سے گٹھلیاں اٹھا کر لے آتی۔ ایک دن میں اپنے سر پر گٹھلیاں اٹھائے آرہی تھی کہ راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند انصاری بھی تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو بٹھانے لگے تاکہ آپ مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیں ۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ
(( فَاسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَسِیْرَ مَعَ الرِّجَالِ ، وَذَکَرْتُ الزُّبَیْرَ وَغَیْرَتَہٗ وَکَانَ أَغْیَرَ النَّاسِ ))
’’مجھے اس بات سے شرم آئی کہ میں مردوں کے ساتھ چلوں ۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے خاوند زبیر کی غیرت بھی یاد آگئی جو لوگوں میں سب سے زیادہ غیرت مند تھے ۔ ‘‘
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوگیا کہ میں مردوں کے ساتھ چلنے سے شرما رہی ہوں … الخ صحیح البخاری ۔ النکاح باب الغیرۃ :5224، صحیح مسلم ۔ السلام :2182
حضرات محترم ! دیکھا آپ نے کہ ایک با حیاء خاتون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے اس لئے سوار نہ ہوئی کہ کہیں غیر محرم مردوں کی نظریں اس پر نہ پڑ جائیں ۔ اس خاتون کو ایک تو صفت ِحیاء نے مردوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا ، دوسرا ان کے خا وند کی غیرت نے ۔ لیکن نہایت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ آج نہ تو خواتین میں حیاء باقی رہی ہے اور نہ ہی مردوں میں غیرت کا مادہ رہ گیا ہے ۔ مردوں کو کوئی فکر نہیں کہ ان کی بیویاں ، بیٹیاں اور بہنیں بے پردہ ہو کر جہاں مرضی گھومتی رہیں اور جو چاہیں کرتی رہیں ۔ ( حیاء اور غیرت ) ان دونوں چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی ، عریانی اور فحاشی زوروں پر ہے ۔
حالانکہ بے حیائی کے جتنے کام ہیں ، سب کے سب حرام ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ ﴾ الأعراف7 :33
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے بے حیائی کے تمام اقوال وافعال کو حرام کر دیا ہے ، خواہ وہ ظاہر ہوں یا خفیہ ہوں۔‘‘
لہذا ان تمام باتوں اور تمام کاموں سے بچنا ضروری ہے جن میں بے حیائی کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو ۔ بچنا ہی ضروری نہیں بلکہ ان کے قریب جانا بھی ممنوع ہے۔
اللہ تعالی کافرمان ہے :﴿ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ﴾ الأنعام6 :151
’’ اور تم ان اقوال وافعال کے قریب بھی نہ جاؤ جن میں بے حیائی پائی جاتی ہو ، چاہے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے ہوں۔ ‘‘
جبکہ ہمارے معاشرے کے اندر بے حیائی کے بے شمار مظاہر اور اس کی ان گنت شکلیں موجود ہیں ، ہم ان میں سے بعض کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
01. میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں فحاشی ، بے حیائی اور عریانی کے شرمناک مناظر
میڈیا ،چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو ، یا سوشل میڈیا ہو ، اس کے ذریعے بے حیائی اور عریانی کے طوفان نے ہمارے معاشرے کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ ٹی وی چینلز پر دکھائے جائے والے ڈرامے ہوں یا فلمیں ہوں ، ٹاک شوز ہوں یا نیوز پروگرامز ہوں ، ان سب میں فحاشی اور عریانی ہر شخص کو نظر آتی ہے ۔۔۔۔ حتی کہ دین کے نام پر ہونے والے پروگراموں میں بھی بے حیائی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ بلکہ اب تو نوبت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کے وقت پیش کئے جانے والے پروگراموں میں بھی بے حیائی خوب چھلک رہی ہوتی ہے اور شرم وحیا کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے ۔ خاص طور پر وقفوں میں جو کمرشل اشتہارات چلائے جاتے ہیں ان میں معنی خیز الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ننگا ناچ دکھایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے جذبات کو بھڑکایا اور شہوات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے ۔
وہ لوگ جو میڈیاکے ذریعے اِس بے حیائی ، عریانی اور فحاشی کو پھیلا رہے ہیں ، انہی کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ النور24 :19
’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ، ان کیلئے دنیا میں بھی المناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی ۔ اور ( اس کے نتائج کو ) اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، تم نہیں جانتے ۔ ‘‘
دین وایمان کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ بے حیائی ، فحاشی اور عریانی کے ان مناظر کو نہ دیکھا جائے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ لِّلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ
اَزْکٰی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ ﴾ النور24 :30
’’ آپ مومنوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔اور جو کچھ وہ کرتے ہیں ، اللہ تعالی اس سے با خبر ہے ۔ ‘‘
اسی طرح مومنہ عورتوں کے بارے میں بھی حکم دیا کہ
﴿وَقُلْ لِّلْمُؤمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ ﴾ النور24 :31
’’ آپ مومنہ عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ ‘‘
02. عورتوں کا گھروں سے بغیر ضرورت کے نکلنا اور گھومنا پھرنا
حیا دار خواتین اپنے گھروں میں ہی ٹکی رہتی ہیں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہیں جاتیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ان کیلئے یہی حکم ہے کہ ﴿ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ﴾ الأحزاب33 :33
’’ اور اپنے گھروں میں ہی ٹک کر رہو ۔ ‘‘
جب کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر جاتی ہیں اور مارکیٹوں ، بازاروں اور پارکوں میں گھومتی پھرتی ہیں اور جو کام ان کے مردوں کو کرنے چاہئیں ، وہ خود ایسے کام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔
حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
(( اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ ، فَإِذَاخَرَجَتِ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہَا وَہِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِہَا)) صحیح ابن حبان :/12 413 :5599 وصحح إسنادہ الأرناؤط ، وأخرج الجزء الأول منہ الترمذی :1773وصحح إسنادہ الشیخ الألبانی فی المشکاۃ :3109
’’ خاتون ستر ( چھپانے کی چیز ) ہے ۔ اس لئے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے ۔ (یعنی شیطان اس کو مردوں کی آنکھوں میں مزین کرکے پیش کرتا ہے ) حالانکہ وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہو تی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ‘‘
03. عورتوں کا گھروں سے بغیر پردہ کے نکلنا
باحیا خواتین کو جب ضرورت کے تحت گھروں سے باہر جانا پڑے تو وہ مکمل پردہ کرکے باہر نکلتی ہیں اور بے
پردگی سے اجتناب کرتی ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ان کیلئے یہی حکم ہے کہ
﴿ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُوْلیٰ ۔۔۔۔﴾ الأحزاب 33 :33
’’ اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ
﴿ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنیٰ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤذَیْنَ ﴾ الأحزاب33 :59
’’ اے نبی ! اپنی بیویوں سے ، اپنی بیٹیوں سے اور تمام مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی ، پھر انھیں ستایا نہیں جائے گا ۔ ‘‘
لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین بغیر پردہ کے ، مکمل آزادی کے ساتھ گھروں سے باہر جاتی اور اپنے حسن کی نمائش کرتی ہیں۔ نہ جسم پر برقع پہنتی ہیں،نہ سر پر دو پٹہ لیتی ہیں اور نہ سینے پر چادر اوڑھتی ہیں۔۔۔۔ بلکہ گھٹنوں تک ٹانگیں بھی ننگی ہوتی ہیں، چہرہ بھی ننگا ہوتا ہے اور سینہ بھی کھلا ہوا ہوتا ہے ۔
جو خواتین اِس طرح بناؤ سنگھار کو ظاہر کرکے بے حیائی کا مظاہرہ کرتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ہی خواتین کے بارے میں ارشاد فرمایا : (( سَیَکُونُ فِی آخِرِ أُمَّتِیْ نِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلٰی رُؤُوْسِہِنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ ، اِلْعَنُوہُنَّ فَإِنَّہُنَّ مَلْعُونَاتٌ )) رواہ الطبرانی فی الصغیر وحسنہ الألبانی فی الثمر المستطاب :317/1
’’ میری امت کے آخری دور میں ایسی عورتیں ہونگی جن کے سر وں پر اونٹوں کی کہانوں کی طرح کہانیں ہونگی ۔ ان پر لعنت بھیجو کیونکہ وہ ملعون ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا :
((صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا : قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلَاتٌ مَائِلَاتٌ ، رُؤُوسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا وَإِنَّ رِیْحَہَا لَتُوجَدُ مِنْ مَّسِیْرَۃِ کَذَا وَکَذَا))
’’ دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے ۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے۔ اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ
ہوں گی۔ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور تکبر سے مٹک کر چلنے والی ہوں گی ، ان کے سر اونٹوں کی کہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہوں گے ۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی ۔ ‘‘ صحیح مسلم ۔الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون :2128
آج حالت یہ ہے کہ پردہ جو عورت کیلئے وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا ، اب اسے رجعت اور دقیانوسی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ وہ عورت جو با پردہ رہنا باعث افتخار سمجھتی تھی آج پردہ کو اپنے حق میں باعث عار تصور کرنے لگی ہے ۔ اور وہ عورت جو صرف اور صرف اپنے شریک حیات کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرتی تھی آج وہی عورت سڑکوں ، پارکوں ، بازاروں اور پارٹیوں میں اجنبی لوگوں کے سامنے اپنے حسن وجمال اور آرائش وزینت کا اظہار کرکے فخر محسوس کرتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عورتوں کے اندر شرم وحیاء نام کی چیز نہیں رہی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مردوں کے اندر غیرت کا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اسی بے غیرتی کو دیکھ کر کہا تھا :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمین میں غیرت ِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ وہ مردوں کی پڑ گیا
04. خواتین کا راستوں کے درمیان چلنا
حیاء دار خواتین اگر ضرورت کے پیش نظر گھروں سے باہر جائیں تو مکمل پردہ کے ساتھ جاتی ہیں اور راستوں پر مردوں کے ساتھ خلط ملط نہیں ہوتیں بلکہ ایک سائیڈ پر چلتی ہیں ۔
جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین بلا جھجک راستوں کے بالکل بیچ میں چلتی ہیں، چاہے عام راستے ہوں ، یا مارکیٹوں ، بازاروں اور سیاحتی مقامات کے راستے ہوں ۔ اور مردوں کے ساتھ یوں خلط ملط ہوجاتی ہیں کہ اگر کوئی مرد ان سے دور بھی رہنا چاہے تو اس کیلئے یہ نا ممکن ہو جاتا ہے ۔
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس معاملے میں یہاں تک سختی کی ہے کہ نماز کے بعد مسجد سے واپس جانے والی خواتین کو بھی راستے سے ہٹ کر ایک سائیڈ پر چلنے کا حکم دیا ۔
ابو اُسید الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد سے نکلتے ہوئے راستے میں مرد عورتوں کے ساتھ خلط ملط ہوگئے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ارشاد فرمایا :
((اِسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّہُ لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیْقَ ( وَسَطَہَا ) عَلَیْکُنَّ بِحَافَاتِ الطَّرِیْقِ)) فَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَلْصَقُ بِالْجِدَارِ حَتّٰی إِنَّ ثَوْبَہَا لَیَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوْقِہَا بِہٖ ۔
’’ تم ایک طرف ہٹ جاؤ کیونکہ تمھارے لئے جائز نہیں کہ تم راستے کے عین درمیان میں چلو ۔ تم پر لازم ہے کہ تم راستے کے کناروں پر چلو ۔‘‘ چنانچہ وہ خواتین دیوار کے ساتھ چمٹ کر چلنے لگیں حتی کہ ان کی چادریں (جن سے انھوں نے پردہ کیا ہوتا) دیوار سے اٹک جاتی تھیں۔ سنن أبی داؤد: 5272 وصححہ الشیخ الألبانی فی الصحیحۃ :856
05. خواتین کا خوشبو لگا کر گھروں سے باہر جانا
حیا دار خواتین جب ضرورت کے تحت گھروں سے باہر جاتی ہیں تو خوشبو لگا کر نہیں جاتیں ۔ جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین خوشبو استعمال کرکے گھروں سے نکلتی ہیں۔اور جن عورتوں کے پاس سے ہمارا گزر ہوتا ہے ، ان سے بہت اچھی خوشبو آتی ہے جو ان کی بے حیائی کی ایک نشانی ہے ۔ کیونکہ خوشبو لگا کر تو مسجد میں جانا بھی خواتین کیلئے درست نہیں ہے ، چہ جائیکہ وہ خو شبو لگا کر مارکیٹوں ، بازاروں اور سیاحتی مقامات کا رخ کریں !
جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں ایک عورت ملی جس سے خوشبو پھوٹ رہی تھی اور اس کا برقع اتنا طویل تھا کہ غبار اڑا رہا تھا ۔ تو انھوں نے فرمایا : (( یَا أَمَۃَ الْجَبَّارِ ! جِئْتِ مِنَ الْمَسْجِدِ ؟ )) ’’ اے الجبار (زور آور اللہ ) کی بندی ! کیا تم مسجد سے آرہی ہو ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی ہاں ۔
انھوں نے فرمایا : (( وَلَہُ تَطَیَّبْتِ ؟)) ’’ اور کیا تم نے مسجد کیلئے خوشبو لگائی تھی ؟ ‘‘
اس نے کہا : جی ہاں ۔ تو انھوں نے فرمایا :
میں نے اپنے محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا تُقْبَلُ صَلَاۃٌ لِامْرَأَۃٍ تَطَیَّبَتْ لِہٰذَا الْمَسْجِدِ حَتّٰی تَرْجِعَ فَتَغْتَسِلَ غُسْلَہَا مِنَ الْجَنَابَۃِ ))
’’اُس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اِس مسجد کیلئے خوشبو لگا کر اس میں نماز ادا کرے ، یہاں تک کہ وہ لوٹ جائے ، پھر غسل ِ جنابت کی طرح غسل کرے ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد : 4174 ۔ صححہ الألبانی
بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
((أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْقَوْمِ لِیَجِدُوْا رِیْحَہَا فَہِیَ زَانِیَۃٌ)) سنن أبی داؤد ۔ الترجل باب فی طیب المرأۃ ۔4167،جامع الترمذی ۔ الإستئذان باب ما جاء فی کراہیۃ خروج المرأۃ متعطرۃ ۔2937،سنن النسائی ۔ الزینۃ باب ما یکرہ للنساء من الطیب ۔5126
’’جو عورت خوشبو لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے تاکہ وہ اس کی خوشبو محسوس کر سکیں تو وہ بد کار عورت ہے ۔ ‘‘
06. فیشنی لباس پہن کر لوگوں کے سامنے اس کی نمائش کرنا
حیاء دار خواتین ایسا فیشنی لباس پہن کر اس کی نمائش نہیں کر تیں جو جاذب نظر ہو اور مردوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے والاہو ۔ جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین فیشنی لباس کی تلاش میں رہتی ہیں ۔ اور جونہی انھیں کوئی نیا فیشن نظر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اس فیشنی لباس کو زیب تن کرے تاکہ دیگر خواتین اسے دیکھ کر اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور وہ اس لباس کے ساتھ مشہور ہو جائے ۔
حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
((مَنْ لَبِسَ ثَوبَ شُہْرَۃٍ فِی الدُّنْیَا أَلْبَسَہُ اللّٰہُ ثَوبَ مَذَلَّۃٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،ثُمَّ أَلْہَبَ فِیْہِ نَارًا)) سنن ابن ماجہ :3607، وحسنہ الألبانی
’’ جو شخص دنیا میں شہرت والا لباس پہنے ، اسے اللہ تعالی قیامت کے روز ذلت والا لباس پہنائے گا ۔پھر اس میں آگ لگا دے گا ۔ ‘‘
07. مردو زن کا اختلاط
باحیا خواتین مردوں کے ساتھ اختلاط کو انتہائی ناپسند کرتی ہیں اور اس سے حتی الامکان بچتی اور پرہیز کرتی ہیں ۔ جبکہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین کو مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے میں کوئی شرم وحیا محسوس ہی نہیں ہوتی ۔ چنانچہ وہ محفلوں میں اجنبی مردوں کی بھیڑ بھاڑ میں شریک ہوتی ہیں ۔ وہ مردوں کے قریب اور مرد عورتوں کے قریب سے قریب تر ہوتے ہیں ۔ اسی ازدحام اور اختلاط ِ مرد وزن میں شیاطین بھی گونا گوں حربوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ اور ان کے شکنجے میں گرفتار ہو کر مرد وعورت عفت وعصمت کو تار تار کر بیٹھتے ہیں ۔
محفلوں ، بازاروں اور خاص کر شادی بیاہ کی پارٹیوں میں مرد وزن کے اختلاط کی وجہ سے حیا سوز واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو باہمی تعلقات قائم کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے ۔ اور پھر اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں ۔
حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
(( إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَائِ )) ’’ تم ( غیر محرم ) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کیا کرو ۔‘‘
تو ایک انصاری نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ ’ اَلْحَمْو‘ یعنی خاوند کے بھائی (دیوریا کزن وغیرہ )
کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ )) ’’ دیور( یا کزن وغیرہ ) موت ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری ۔ النکاح باب لا یخلون رجل بامرأۃ ۔5232،صحیح مسلم ۔الأدب ۔2083
اس حدیث میں ذرا غور کریں کہ جب دیور ( یا کزن وغیرہ ) اپنی بھابھی کیلئے موت ہے تو عام مرد وعورت کا آپس میں اختلاط کتنا خطرناک ہو سکتا ہے !
08. غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا
با حیاء خواتین ہرگز یہ برداشت نہیں کرتیں کہ وہ کسی غیر محرم مرد سے مصافحہ کریں ۔اسی طرح حیا دار مرد اِس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ وہ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کریں۔ لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری خواتین بلا جھجک غیر محرم مردوں سے مصافحہ کرتی ہیں ۔ اور بہت سارے مرد غیر محرم خواتین سے مصافحہ کرتے ہیں ۔ یقینا یہ بھی بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے ۔ کیونکہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَأَنْ یُّطْعَنَ فِی رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِمِخْیَطٍ مِنْ حَدِیْدٍ خَیْرٌ لَّہُ مِنْ أَنْ یَّمَسَّ امْرَأَۃً لَا تَحِلُّ لَہُ)) السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی : 226
’’ تم میں سے کسی ایک کے سر میں لوہے کی سوئی کو چبھویا جائے تو یہ اُس کیلئے اِس سے بہتر ہے کہ وہ اُس عورت کو ہاتھ لگائے جو اُس کیلئے حلال نہیں ۔ ‘‘
09. مردوں کی عورتوں سے مشابہت اور عورتوں کی مردوں سے مشابہت
آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سارے مرد پوری بے شرمی کے ساتھ اپنی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں ۔ اور اسی طرح بہت ساری خواتین بھی اپنی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں مردوں سے مشابہت کرتی ہیں ۔
جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(( لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمُتَشَبِّہِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَائِ ،وَالْمُتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَائِ بِالرِّجَالِ)) صحیح البخاری : 5885
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔ ‘‘
10. غیر محرم کے ساتھ خلوت نشینی
حیاء دار خواتین مردوں میں سے کسی مرد کے ساتھ خلوت نشینی کو ہرگز گوارہ نہیں کرتیں ۔ کیونکہ حیاء انھیں اِس سے منع کرتی ہے ۔ لیکن بہت ساری خواتین کیلئے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ چنانچہ وہ غیر محرم مردوں میں سے کسی مرد کے ساتھ خلوت میں گپ شب بھی کرتی ہیں اور کھاتی پیتی بھی ہیں ۔
حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
(( أَ لَا لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّیْطَانُ )) جامع الترمذی :2165 ۔ وصححہ الألبانی
’’ خبردار ! کوئی بھی آدمی جب کسی عورت کے ساتھ خلوت نشینی کرتا ہے تو ان کاتیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ)) صحیح البخاری ۔ الحج باب حج النساء ۔2862، صحیح مسلم ۔ الحج ۔1341
’’ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے ، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے ۔اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘
11. بہنوئی کی سالی کے ساتھ اور دیور کی بھابھی کے ساتھ کھلی گفتگو اور گپ شپ
ہمارے معاشرے میں فقدانِ شرم وحیا کی ایک اور مثال یہ ہے کہ سالیاں بہنوئی سے اور بھابھی دیور سے پردہ نہیں کرتیں ۔ خاص طور پر سالیاں بہنوئی سے بے تکلف بات چیت کرنا اور اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔ اسی طرح بہنوئی اپنی سالیوں سے ہنسی مذاق کرنااپنا حق سمجھتا ہے ۔
جہاں تک دیور اور بھابھی کا تعلق ہے تو ہم ایک حدیث پہلے عرض کر چکے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیور کو بھابھی کیلئے موت قرار دیا ہے ۔ اور جہاں تک بہنوئی اور سالیوں کا تعلق ہے تو پردے کے معاملے میں سالیوں کیلئے وہی حکم ہے جو غیر محرم عورتوں کیلئے ہے ۔ لہٰذا سالیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بہنوئی سے پردہ کریں ۔ اور بہنوئی کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ سالیوں کی طرف نگاہ نہ اٹھائے جیسا کہ دیگر عورتوں کی طرف نگاہ اٹھانا اس کیلئے جائز نہیں ۔
بعض لوگ دیگر قریبی رشتہ داروں کو تو بلا روک ٹوک گھروں میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیتے ہیں ، لیکن جب داماد صاحب کا معاملہ آتا ہے تو گھروں میں جوان لڑکیوں کی موجودگی کے باوجود ان کے آنے جانے پر کوئی
پابندی نہیں ہوتی ۔ وہ بلا روک ٹوک آتے جاتے ہیں اور اپنی سالیوں سے کھلی گفتگو کرتے ہیں ۔ اِس آزادی کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اس لئے اس سلسلے میں پرہیز کرنا چاہئے ۔
12. نوکروں کو گھروں میں آنے جانے کی کھلی آزادی
ہمارے معاشرے میں بے حیائی کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ بعض گھروں میں نوجوان نوکروں یا ڈرائیوروں کو کھلی آزادی دی جاتی ہے ۔ چنانچہ وہ پوری آزادی کے ساتھ گھروں کے اندر آتے جاتے ہیں ۔ گھروں میں موجود خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے گفتگو کرتے ہیں ۔حالانکہ گھریلو نوکروں کے ساتھ گھر کی نوجوان لڑکیوں کا فتنے میں مبتلا ہونا آسان تر ہوتا ہے ۔ اور اِس طرح کے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ گھریلو نوکروں اور ڈرائیوروں کے ساتھ گھر کی خواتین اور نوجوان لڑکیاں حیا سوز اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔ اسی طرح گھریلو ملازموں کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کے فرار کی کہانیاں بھی ہر آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ لہٰذا گھروں کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ ان نوکروں اور ڈرائیوروں کو بلا روک ٹوک گھروں میں داخل ہونے سے منع کریں اور اپنی خواتین اور بیٹیوں کو ان سے بے تکلف گفتگو کرنے سے روکیں تاکہ عزت وآبرو کا تحفظ ہو سکے اور عفت وعصمت تار تار ہونے سے بچ جائے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات ( رضی اللہ عنہن ) کو مخنث قسم کے لوگوں کے بارے میں حکم دیا تھا کہ (( لَا یَدْخُلْنَ ہٰؤُلَائِ عَلَیْکُنَّ )) ’’ یہ تمھارے پاس داخل نہ ہوں ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 4069 ، صحیح مسلم :2180
آپ ذرا غور کریں کہ جب مخنث قسم کے لوگ کہ جو مردوں کی طرح زنا کا ارتکاب نہیں کر سکتے ، ان کا عورتوں کے پاس آنا جانا ممنوع ہے ، تو نوکروں اور ڈرائیوروں کا گھروں میں آزادانہ آنا جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے!
13. زنا کاری
بے حیائی اور فحاشی کی بد ترین شکل وصورت زنا کرنا ہے ۔ جو اسلام کی نظر میں سنگین جرم ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کے قریب تک جانے سے منع کردیا ہے ۔
اس کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًا﴾ الإسراء17 :32
’’ اور تم زنا کے قریب تک نہ جاؤ ، یقینا وہ بے حیائی کا کام اور بہت برا راستہ ہے ۔ ‘‘
محترم حضرات ! بے حیائی کی جتنی صورتیں ہم نے ذکر کی ہیں ان سب سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صفت ِ حیا اختیار کرنے کی توفیق دے ۔ اور ہمیں بے حیائی سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! بے حیائی کی مزید دو صورتوں کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں ۔
14. خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی بازاروں میں خرید وفروخت
ہمارے معاشرے میں عورتوں یا نوخیز لڑکیوں کا ٹولوں میں یا تنہا خرید وفروخت کی خاطر مارکیٹوں اور بازاروں میں نکلنا بھی بہت بڑی بے حیائی ہے ۔ چنانچہ یہ خواتین بناؤ سنگار کرکے بے پردہ بازاروں میں نکلتی ہیں اور وہاں دوکاندار سے سامان خریدتے وقت بھاؤ تاؤ کرتی ہیں ، قیمت میں کمی کرنے کیلئے ہنسی مذاق کا سہارا لیتی ہیں ، دوکاندار ان سے غیر اخلاقی گفتگو کر کے انھیں لبھاتے ہیں اور عورتیں اسے اپنی تعریف پر محمول کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتیں ۔ پھر دوکاندار قیمت میں اچھی خاصی چھوٹ ( ڈسکاؤنٹ ) دے کر بار بار اپنی دوکان کا طواف کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔ عورتیں سمجھتی ہیں کہ دوکاندار ان کے حق میں بڑے مخلص ہیں ۔ حالانکہ
یہ خصوصی ڈسکاؤنٹ بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
15.یوٹیوب وغیرہ پر بے حیائی والے وڈیو کلپس دیکھنا
آج کل بے حیائی کی ایک اور شکل یہ ہے کہ جنسی مناظر پر مشتمل وڈیو کلپس یوٹیوب وغیرہ پر موجود ہیں ۔ جس شخص کے پاس انٹرنیٹ کی سروس ہو وہ چند لمحات میں ان مناظر تک پہنچ جاتا ہے اور انھیں دیکھتا ہے ۔ یقینا یہ مناظر ایک با حیا انسان کیلئے انتہائی خطرناک ہیں ۔ لہٰذا ہر مرد وعورت کو ایسے مناظر دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سب کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں ، یعنی ناجائز اور حرام چیزوں کو دیکھنے اور غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے اپنی نظروں کو بچائیں ۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہماری آنکھوں میں حیاء پیدا کردے ۔ آمین