حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما کے فضائل و مناقب
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ﴾ [الطور:21)
آج کے خطبہ میں ان عظیم شخصیات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جن کے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب اور والدہ محترمہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہما تھیں۔ جن کے نانا محترم سید الرسل جناب محمد رسول اللہ ﷺ اور نانی جان حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہ تھیں۔ جنہیں شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ اہل بیت اور آل رسول ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ میری مراد سید شباب اہل الجنتہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما ہیں۔
سب سے پہلے ان دونوں شخصیات کی شان و منقبت قرآن کریم سے بیان کرتا ہوں۔ رب ارض و سماء سورۃ الطور میں فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتُهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِأَيْمَانِ﴾ (الطور:21)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی (یعنی اولاد بھی مومن اور صالح ہوئی۔‘‘
﴿اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ﴾ (الطور:21)
’’ہم ان کی اولاد کو ان کے (نیک اور صالح ماں باپ کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم ان کے ماں باپ کے عمل میں کمی نہیں کریں گے۔‘‘
غور کیجئے! مومن اولاد کو مومن باپ اور ماں کے ساتھ ملا دینے کا اعلان ہو رہا ہے۔ تو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذریت میں سے ہیں۔ انہیں رسول اللہ میں کام کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ سبحان اللہ! کیسی شان و عظمت ہے جو انہیں عطاء کی جائے گی۔
اس کے بعد کتب حدیث میں سے سب سے پہلے جناب حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی وہ شان و عظمت بیان کرتا ہوں جو دونوں کے لیے مشترکہ بیان کی گئی ہے: صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَابْنَاء كُم….﴾ [آل عمران:61)
تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم کو بلایا اور فرمایا:
(اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي) [صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل على بن ابی طالب شرکت (2920) والترمذي (3724)]
’’اے اللہ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ایک روز صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ ہم باہر نکلے آپ کے جسم پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی ایک منقش چادر تھی۔ اور دوران حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے آپ نے انہیں چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے وہ بھی آپ کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں تو آپ نے انہیں چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں داخل کر لیا پھر فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا﴾[صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل اهل بيت النبيﷺ (6261) (5445)]
’’اے اہل بیت اللہ تعالی ارادہ کرتا ہے کہ تم سے گناہوں کو دور کر دے اور تمہیں پاک کر دئے۔‘‘
ایک ضروری وضاحت:
بعض لوگ مذکورہ احادیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف یہی اہل بیت ہیں ازواج مطہرات اہل میں شامل نہیں۔ یاد رکھیے! یہ بات بالکل غلط ہے ان مذکور و شخصیات (حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم) کے اہل بیت ہونے کی دلیل یہ دو حدیثیں ہیں۔ جبکہ ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے کی دلیل قرآن کی بہت ساری آیات اور بہت ساری احادیث ہیں۔ تفصیل کے لیے ہماری اس خطبات میں شامل مستقل مضمون ملاحظہ فرمائیں: ’’اہل بیت کون۔‘‘
جناب حسن اور حسین میں دین کی مشترکہ فضیلت والی مزید احادیث سماعت فرمائیں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيْدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين (3777) و احمد (623/3)]
’’حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما اہل جنت کے نو جوانوں کے سردار ہوں گئے۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَيَّ مِنَ الدُّنْيَا) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين (3779) والبخاري في الادب المفرد (85) واحمد (85/2)]
’’یقیناً حضرت حسن اور حضرت حسین علی اعتماد نیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘
اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام کے سلسلے میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا آپ باہر تشریف لائے آپ نے کسی چیز کو لپیٹا ہوا تھا مجھے معلوم نہیں وہ کیا چیز تھی۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے دریافت کیا کہ آپ نے کیا لپیٹا ہوا ہے؟ آپﷺ نے چادر کو کھولا تو آپ کی پشت پر حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میرے نو اسے ہیں:
(اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَاحِبَّهُمَا وَاحِبَّ مَنْ يُّحِبُّهُمَا) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ تعالی عنہما (3778) و كنز العمال (34255) وتحفة الأشراف (86) (44/1) (114/13)]
’’اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور جو لوگ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں تو ان سے بھی محبت فرما۔‘‘
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے اچانک حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما آ گئے ان دونوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی وہ دونوں چلتے تھے اور گر پڑتے تھے (انہیں دیکھ کر) رسول اللہﷺ منبر سے اترے آپ نے انہیں اٹھایا اور اپنے آگے بٹھا لیا پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا کلام سچا ہے کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔ میں نے دونوں بچوں کو دیکھا کہ وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے:
(فَلَمْ اصْبِرْ حَتّٰی قَطَعْتُ حَدِينثي وَرَفَعْتُهُمَا) [سنن ابی داود، كتاب الصلاة باب الإمام يقطع الخطبة للأمر (1109) والنسائي (192/3) و ابن ماجه (1190/2) (3600)]
’’تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنا ارشاد مؤخر کر دیا اور انہیں اٹھا لیا۔‘‘
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ آج رات سے پہلے یہ فرشتہ بھی زمین پر نہیں آیا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کہے اور مجھے بشارت دے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی جب کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما اہل جنت کے نو جوانواں کے سردار ہوں گے۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب المناقب باب مناقب ابي محمد الحسن بن علي رقم: 3781]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تعجب ہے کہ عراقی لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا محرم (حالت احرام والا) آدمی مکھی مار سکتا ہے؟ حالانکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہل) کے بیٹے کو قتل کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما) دنیا میں میرے پھول ہیں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي سنا، باب مناقب الحسن والحسين من (3753)]
غور فرمائیے! ان احادیث مبارکہ میں ان دونوں عظیم شخصیتوں کی کیسی زبر دست شان و عظمت بیان کی گئی ہے اور ان کی محبت کو اللہ کی محبت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
اب وہ احادیث ذکر کرتا ہوں جن میں صرف حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و منقبت بیان کی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے کندھوں پر سوار تھے اور آپﷺ فرما رہے تھے:
(اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَاحِبَّهُ) [صحیح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب مناقب الحسن والحسين من (3749)]
’’اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ آپ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں آئے آپ نے پوچھا کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے؟ یعنی حسن رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوئے آئے حتی کہ وہ اور نبی ﷺ ایک دوسرے کو گلے ملے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور ان لوگوں۔ سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘[صحیح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب مناقب الحسن والحسين من (3747)]
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے میں نے دیکھا کہ آپ کبھی لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اور کبھی حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب۔ جو کہ آپ کے پہلو میں تھے اور آپ فرما رہے تھے میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں مصالحت کرائے گا۔[صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب قول النبي سويت للحسن بن علي الخ، رقم: 2704.]
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے ساتھ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ مشابہت کوئی شخص نہیں رکھتا تھا۔ اور اسی طرح انس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ تھے۔[صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب الحسن والحسين (3752)]
ایک فیصلہ کن واقعہ:
عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) عصر کی نماز پڑھی۔ بعد ازاں وہ باہر نکلے وہ چل رہے تھے ان کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے کندھے پر اٹھالیا اور کہا میرا باپ تم پر قربان ہو۔ تمہاری مشابہت نبی ﷺ سے ہے۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشابہت نہیں ہے۔ اس بات پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ (فرحت و مسرت کے ساتھ) ہنس دیتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب مناقب الحسن والحسين (3750)]
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ دونوں آپس میں شیر شکر تھے ان دونوں میں کوئی عداوت نہیں تھی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ کے نواسوں سے بے انتہا محبت تھی۔ لیکن آج بعض لوگوں نے تاریخ کی بعض بے سند اور غیر معتبر روایات کی بناء پر بہت کچھ مشہور کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں جھوٹی باتوں پر اعتماد کرنے سے محفوظ فرمائے۔
آخری بات:
ہم رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات آپ کی بنات طیبات اور آپ کے نواسوں سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اس محبت کو ایمان میں سے قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم غلو کو جائز نہیں سمجھتے کہ ہم انہیں بڑھا چڑھا کر اللہ کے برابر کر دیں یا ان کا رتبہ پیغمبر سے بھی زیادہ کر دیں ہم اس غلو سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیے! ہم حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کو مظلومانہ شہادت مانتے ہیں لیکن اس واقعہ کو واقعہ کربلا کے نام پر جس انداز میں آج بیان کیا جاتا ہے چونکہ اس کی زیادہ تر تفصیلات غیر مستند ہیں اس لیے اس واقعہ میں بیان کردہ غیر مستند باتوں کو قطعًا تسلیم نہیں کرتے۔ اور اس واقعہ کی آڑ میں جو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین کو برا کہا جاتا ہے اور اس وقت کی اسلامی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم ان باتوں سے اعلان براءت کرتے ہیں۔ ہم جہاں تمام اہل بیت کی محبت کے قائل ہیں وہاں تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی محبت کو بھی ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن وسنت سے ہمیں یہی راہنمائی ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسی بر حق عقیدے پر قائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ ہو۔ آمین!
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔