ہمہ دینیت، لادینیت

﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝﴾ (آل عمران:85)
جیسا کہ گذشتہ خطبہ جمعہ میں وحدت ادیان کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ وحدت ادیان یا همه دینیت کا عقیدہ، لادینیت کا عقیدہ اور نظریہ ہے اور یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اک سازش ہے، اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی ، انہیں دین اسلام سے پھیر دینے اور ان کا رخ موڑ دینے کی سازش ہے۔
اسلام کے خلاف سازشوں کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے اک بنیادی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کے مقابل دنیا میں جتنے بھی ادیان و مذاہب ہیں جتنی بھی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں وہ تمام کی تمام اسلام اور مسلمانوں کی فطری دشمن قوتیں ہیں۔ یعنی کوئی اختلاف کوئی جھگڑا، کوئی تنازعہ ہو یا نہ ہو مگر وہ دشمن ہر حال میں ہوتی ہیں۔
اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حق اور باطل کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، روشنی اور اندھیرا یکجا نہیں ہو سکتے اور اسی طرح دیگر متعدد عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں، جیسے حسد، بغض اور نفرت وغیرہ۔ اور اسی طرح اسلام سے متعلق ان کے بعض خطرات و خدشات وغیرہ، جیسا کہ ان کا یہ محسوس کرنا کہ اسلام کے آنے سے چودھراہٹ ختم ہو جائے گی، آباء و اجداد کے دور سے چلتے آئے رسم و رواج اور مشرکانہ عادات و تقالید کا خاتمہ ہو جائے گا۔ تو اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اسلام کو جانے اور پڑھے بغیر ہی اس سے دشمنی کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام سراسر امن وسلامتی اور ہمدردی و خیر خواہی کا دین ہے اور ہمارے رسول کریم نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام جہانوں کے لیے رسول رحمت ہیں، رحمۃ للعالمین ہیں۔ مگر تمام مذاہب عالم اسلام سے عدم واقفیت اور ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں اور ہر وقت مسلمانوں کے در پے آزار رہتے ہیں۔
لہٰذا اسلام کے خلاف ہونے والی سازشیں ہمارے لیے کوئی انوکھی اور انہونی بات نہیں ہیں اور یہ بھی نہیں کہ اسلام کے خلاف سازشوں کا ہم محض امکان سمجھتے ہیں، بلکہ یہ اک حتمی لازمی اور یقینی بات ہے کہ اسلام کے خلاف سازشیں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ ان سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے اور نہ انہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے، بلکہ ہر وقت چاق و چوبند اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے خلاف سازشیں کوئی نئی نہیں بلکہ یہ تو رسول کریمﷺ کے عہد مبارک سے ہی شروع ہوگئی تھیں، آپ نے وہ واقعات یقینا سن اور پڑھ رکھے ہوں گے کہ مشرکین مکہ نے بزعم خویش آپ ﷺ سے چھٹکارا پانے کے لیے تمام قبائل نے گٹھ جوڑ کر کے سازش تیار کی تا کہ قتل کا الزام کسی ایک قبیلے پر نہ آئے اور تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کی بنی ہاشم میں ہمت نہ ہوگی۔
پھر آپ ﷺ نے جب ہجرت کرنا چاہی تو اس میں بھی آڑے آئے اور جب ہجرت کر چکے تو وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا، یہود سے مل کر سازشیں کرنے لگے اور پھر جزیرۂ عرب میں اسلام کے غالب آجانے کے بعد بھی سازشیں نہ چھوڑیں، ہر میدان اور ہر شعبے میں اور ہر سطح پر کہ جہاں جہاں بھی کوئی زک پہنچا سکتے تھے، کوششیں کیں۔
ان کی بے شمار سازشوں، مکاریوں اور کذب و افتراءات میں سے مثال کے طور پر ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں جو کہ مختصرا کچھ یوں ہے کہ: چوتھی صدی ہجری کے شروع میں یہودی ایک عہد نامہ اور وثیقہ لے کر آئے اور اس وقت کے والی، رئیس الرؤساء، ابو القاسم علی بن الحسن کے سامنے پیش کیا، جس میں تھا کہ آپﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے جزیہ ختم کرنے کا حکم صادر فرما رکھا ہے۔ حاکم وقت نے وہ وثیقہ علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رکھا کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں! تو انہوں نے ایک نظر دیکھ کر کہا کہ یہ وثیقہ جعلی اور من گھڑت ہے۔
پوچھا وہ کیسے؟ فرمایا: اس طرح کہ اس میں دو گواہوں کے نام ہیں: ایک سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا اور دوسرا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا۔
سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ اس عہد نامے کی تاریخ سے دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ ت عالی عنہ اس سے دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے، لہٰذا یہ عہد نامہ جعلی اور جھوٹا ہے۔ (احکام اهل الذمة لابن القيم)
تو یہ بات اگر چہ بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے جھوٹے طریقے سے جزیہ معاف کروانے کی اک کوشش کی جس میں وہ ناکام ہو گئے ، مگر حقیقت میں یہ ایک سنگین کوشش تھی کیونکہ اس کی زد شریعت کے ایک حکم پر پڑتی تھی جو کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا تھا۔ تو اسی طرح یہود و نصاری اور مشرکین وملحدین اور دیگر تمام ادیان و مذاہب اسلام کو دبانے کے لیے ہر دور میں اور ہر میدان اور ہر شعبے میں سرگرم عمل رہے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں، تمام تر جد و جہد اور تمام تر وسائل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھونک دیتے ہیں۔
اور میدان جنگ میں مسلسل ناکامیوں کے بعد تو انہوں نے اپنی کوششوں کا رخ بالخصوص سازشوں کی طرف موڑ دیا اور اس کے لیے انہوں نے ہر ترکیب، ہر حربہ اور ہر منصوبہ آزمایا۔ ابھی ماضی قریب کی بات ہے، Lawrence of Arabia کا نام تو آپ نے سن رکھا ہوگا وہ برطانیہ کی فوج کا اک معروف افسر تھا، (لیفٹین کرنل تھا)۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین عرب علاقوں میں بغاوت کو منظم کرنے کے باعث اسے عالمی شہرت ملی، چنانچہ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔ خلافت اسلامیہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی طاقت تھی ، جس سے پورا عالم کفر لرزاں تھا، چنانچہ اسے توڑنے کے لیے سازشیں تیار ہوئیں ، منصوبے بنائے گئے اور ان منصوبوں پر عمل کے لیے خلافت اسلامیہ کے مختلف حصوں میں مختلف افراد ما مور تھے۔
مگر کرنل لارنس نے جو کہ بعد میں 1962میں فلم لارنس آف عریبہ بننے کے بعد لارنس آف عریبیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے لیے جو کردار اور جو کوششیں اس کی رہیں کسی اور کی نہ رہیں۔
چونکہ خلافت اسلامیہ کی باگ ڈور ترکوں کے پاس تھی ، چنانچہ عرب علاقوں پر بھی ان کی حکومت تھی اور ان علاقوں میں انہوں نے انہیں میں سے گورنر مقرر کر رکھے تھے۔ لارنس آف عریبیہ نے خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے لیے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر انہیں ترکوں کے خلاف متحد کر دیا۔
شروع میں اسے ناکامی ہوئی، پھر اس نے مذہب کی آڑ لینا شروع کی اور بصرہ کی ایک مسجد میں جا کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا، عربی خوب جانتا تھا، عربی لباس پہن لیا اور عرب صحرانشینوں میں گھل مل گیا اور بدوؤں میں خوب دولت لٹانے لگا، ہر ماہ دولاکھ پاؤنڈ بدوؤں میں تقسیم کرنا شروع کر دیئے، چنانچہ عرب اس کے مداح اور گرویدہ ہو گئے اور اسے اپنا محسن اور مربی سمجھنے لگے ، حتی کہ وہ اتنی چرب زبانی اور مکارانہ چالوں کے ذریعے گورنر مکہ شریف حسین ہاشمی کے قریب ہو گیا اور بالآخر اسے بادشاہت کا لالچ دے کر خلیفہ المسلمین کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ وہ شریف مکہ آج کے اردن کے بادشاہ عبد اللہ کے پردادہ تھے۔ ماضی قریب میں اغیار کی طرف سے کی جانے والی سازشوں میں سے ایک سازش کا یہ مختصر سا تعارف تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سازشیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہوتی چلی جائیں گی ، یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے، اس لیے آپ کو Vigilant رہتا ہے، چوکس اور چوکنا رہنا ہے۔ فتنوں اور سازشوں کو سمجھنا آسان کام نہیں، عام آدمی کے بس کی بات نہیں، اگر سازش آسانی سے سمجھ آ جائے تو سازش تو نہ ہوئی۔
آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ سازشیں کسی کسی راستے سے آتی ہیں ! سازشیں دین کے راستے سے آتی ہیں، سیاست کے راستے سے آتی ہیں، اصلاح کے نام سے آتی ہیں، انقلاب کے نام سے آتی ہیں، الفاظ اور نعرے بڑے پرکشش ہوتے ہیں، باتیں بظاہر بڑی منطقی ہوتی ہیں، مگر حقیقت میں فتنہ اور سازش ہوتی ہیں۔ انہی سازشوں میں سے ایک سازش جس کا ہم آج ذکر کرنے جا رہے ہیں، وہ ہے نظریہ وحدت ادیان، یا ہمہ دینیت، وحدت ادیان کا مطلب ہے کہ تمام ادیان عالم یکساں اور برحق ہیں، سب لوگ ایک ہی خالق و مالک کے ماننے والے ہیں، صرف طریقے مختلف ہیں اور نام مختلف ہیں، کوئی گاڈ کہتا ہے، کوئی بھگوان کہتا ہے اور کوئی اللہ کہتا ہے، مگر حقیقت میں سب ایک ہی ہیں، اس لیے سب کا احترام کرنا چاہیے اور سب کو انسانی بھائی چارے کے ناطے مل جل کر رہنا چاہیے، کسی ایک مذہب کی پیروی پر اصرار ، تشدد اور بے جانتی نہیں کرنی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ دین و مذہب کی پیروی انسان کا ذاتی معاملہ ہے، کوئی جس مذہب کو چاہے اختیار کرے، کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اغیار اگر یہ عقیدہ رکھیں اور یہ نظریہ پیش کریں تو وہ اپنے مفاد اور مقاصد کے لیے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، مگر کوئی مسلمان کہ جس نے قرآن پاک کا ایک بار ترجمہ پڑھ رکھا ہو وہ اس نظریئے کو تسلیم کرلے یقین نہیں آتا۔ اس عقیدے کے بطلان کی قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں۔
اب یہ مشہور آیت کسی نے نہیں سنی ہوگی ؟
﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝﴾ (آل عمران:85)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے، اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا‘‘
اسی طرح یہ مشہور آیت کریمہ:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾ (المائده:3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔‘‘
اور یہ آیت:
﴿یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۝﴾ (التوبة:32)
’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا۔‘‘
اور یہ آیت
﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠۝﴾ (الصف:9)
’’اور وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
اور اسی طرح اور بہت سی آیات ہیں۔
تو یہ نظریہ کوئی نیا نہیں ہے، اس نظریے کو مشرکین عرب بھی اک حربے کے طور پر استعمال کر چکے ہیں۔ مشرکین مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ سختی ، تشدد اور ظلم و ستم کا راستہ اختیار کیا اور جب اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر سودے بازی پر اتر آئے، مشرکین عرب بڑی سوچ و بچار کے بعد اسلام کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی طرف سے اک دور کی کوڑی لائے۔
انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ کے معبود اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کر لیتے ہیں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، اس طرح جو بھی حق پر ہوا تو دوسرے کو بھی ایک حصہ حق کا مل جائے گا۔
اللہ تعالی کی طرف سے ان کی اس وحدت ادیان کی تجویز کا جواب یوں آیا کہ
﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ۝ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ۝﴾ (الكافرون:1،2)
’’کہہ دو کہ اے کا فرو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔‘‘
﴿وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُۚ۝﴾ (الكافرون:3)
’’اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔‘‘
﴿وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْۙ۝۴﴾ (الكافرون:4)
’’اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے ۔‘‘
﴿وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُؕ۝۵﴾ (الكافرون:5)
’’اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔‘‘
﴿لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ۠۝۶﴾ (الكافرون:6)
’’تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘
اس سے بڑھ کر نظریہ وحدت ادیان کی نفی کیا ہوگی!
اسی طرح بہت سی احادیث بھی ہیں ، ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنُ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّار)) (مسلم ، کتاب الایمان:153)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی، میرے بارے میں سنتا ہے، پھر اس حال میں مرتا ہے کہ میرے اوپر اور میری لائی ہوئی تعلیم پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے ۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ ہمہ دینیت اور نظریہ وحدت ادیان کے پس پردہ ان کے مقاصد یہ ہیں کہ:
﴿وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ۝۹﴾ (القلم:9)
’’(اللہ فرماتے ہیں) اے پیغمبر! یہ تو چاہتے ہیں کہ آپ مداہت کریں تو یہ بھی مداہنت کریں۔‘‘
یعنی آپ تبلیغ اسلام میں کچھ حیلے پڑیں تو آپ کی مخالفت میں یہ بھی کچھ نرمی اختیار کر لیں ، یا یہ کہ آپ ان کی گمراہیوں کی رعایت کرتے ہوئے اپنے دین میں کچھ نرمی پیدا کریں تو یہ بھی آپ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں۔ اور مداہنت کا مطلب ہے، خوشامد کرنا، یا کسی کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے موقف میں تھوڑا ترمیم و اضافہ اور نرمی پیدا کرنا۔
دوسری جگہ فرمایا
﴿وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً﴾ (النساء:89)
’’وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تا کہ تم اور وہ سب یکساں ہو جا ئیں ۔‘‘
مگر انہیں خوش کرنے کی کوششیں جہاں ایک طرف جائز ہی نہیں ہیں، وہاں دوسری طرف وہ بے فائدہ بھی ہے۔
جائز یوں نہیں ہے کہ انہیں خوش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ترمیم و اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
اور دین میں ترمیم و اضافے کی کسی عام آدمی کو تو کیا اجازت ہوگی ، خود رسول کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں،
﴿تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝﴾ (الحاقة:43)
’’یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔‘‘
﴿وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ۝﴾ (الحاقة:44)
’’اور اگر نبیﷺ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی ۔‘‘
﴿لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِۙ۝۴۵ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَؗۖ۝۴۶﴾(الحاقة:45،46)
’’تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور رگ گردن کاٹ ڈالتے ۔‘‘
﴿فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِیْنَ۝﴾ (الحاقه:47)
’’پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
تو پہلے تو ترمیم و اضافے کا اختیار نہیں ہے اور اگر کر بھی لیا جاتا تو یہ لوگ پھر بھی خوش ہونے والے نہیں تھے۔
﴿وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ؕ﴾(البقره:120)
’’آپ سے یہود و نصاری ہرگز راضی نہیں ہوں گے، جب تک آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں ۔‘‘
اور اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ ان کی یہ سازشیں کسی صورت رکھنے والی نہیں ہیں،
﴿وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ؕ﴾(البقره:217)
’’اور وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے حتی کہ اگر ان کے لیے ممکن ہو تو وہ تمہیں اس دین سے پھیر لے جائیں ۔‘‘
تو وحدت ادیان کا نظریہ اک باطل نظریہ ہے اور اسلام کے خلاف سازش ہے اور ایک غیر فطری وحدت ہے اور وحدت ادیان کا مطلب اسلام کی تھی اور انکار ہے، اور مسلمانوں میں مداہنت پیدا کرنا ہے۔
اور ان کی یہ کوشش ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں ہولی، دیوالی، ویلنٹائن ڈے، بسنت، کرسمس ڈے جیسے تہوار منائے جاتے ہیں، اور یہ یوں ہی اسلامی ملکوں میں رائج نہیں ہو گئے بلکہ اس کے پیچھے بڑی بڑی تنظیمیں ہیں، فری میسنری ہے، الومیناٹی ہے اور دوسری بہت طاقتور تنظیمیں ہیں، اس کے پیچھے کونسل آف فارن ریلیشنز جیسے خفیہ ادارے ہیں۔
جبکہ اسلام کی کوئی خفیہ تنظیم نہیں، اسلام جو کچھ مسجدوں میں ہے وہی باہر ہے جو گھر میں ہے وہی بازار میں ہے۔
یہ موضوع اختصار کے ساتھ عرض کیا ہے، ورنہ اس کی بہت سی تفصیلات بھی ہیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………