حرمت رسول ﷺ
﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠﴾ [الأعراف:157]
حرمت رسول ﷺ کا مطلب ہے نبی الرحمة، نبی التوبہ، رحمة للعالمین، خاتم المرسلین، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا ادب و احترام بجالانا۔ آپ کی صمیم قلب سے تعظیم و تو قیر کرنا اور آپ کا مقام و مرتبہ تمام اولاد آدم سے افضل، اعلیٰ ارفع اور اشرف ماننا۔ حرمت رسول ﷺ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی اللہ رب العزت نے گوارا نہیں کی۔ اگر یہودی لفظ ’’راعنا‘‘ کو جھٹکا دے کر حرمتِ رسول پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں تو اللہ رب العزت اس لفظ کی ادائیگی امت مسلمہ پر ناجائز اور حرام قرار دے دیتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا﴾ [البقرة: 104]
اگر منافق آپ کا تمسخر اڑا کر حرمت رسول کو توڑنے کی ابلیسی جسارت کرتے ہیں تو رب ارض و سماء منافقوں کے چہروں سے نقاب اتار دیتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں:
﴿لَا تَعْتَذِرُوْا﴾ [التوبة: 66]
’’عذر معذرتیں نہ کرو۔‘‘
﴿قَد كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ [التوبة:66]
تم نے دعوائے ایمان کے بعد ہمارے رسول کا تمسخر اڑا کر کھلے کفر کا ارتکاب کیا ہے۔
اگر عبداللہ بن ابی اور اس کے کارندے آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کی ناپاک جرأت کرتے ہوئے حرمت رسول ﷺ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو رب کائنات ان کی مذمت میں پوری سورۃ المنافقون نازل فرماتے ہیں اور اس سورت میں حرمت رسول ﷺ کا دفاع ان الفاظ میں کرتے ہیں:
﴿وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ [المنٰفقون: 8]
اگر کچھ ضعیف الایمان دیہاتی قسم کے لوگ حجروں کے باہر آپ کو آواز میں دیتے ہوئے حرمت رسول میں فرق ڈالتے ہیں تو کائنات کا رب فورًا ان کی تربیت کرتا ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ﴾ [الحجرات: 4]
اگر مکے کی ایک کافرہ و مشرکہ عورت آپ کے خلاف زبان درازی کرتے ہوئے حرمت رسول کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو خالق کائنات پوری سورۂ والضحیٰ نازل فرما کر آپ کی حرمت و عظمت کا اعلان کرتے ہیں۔
اگر مکے کا چوہدری ابولہب آپ کو سب و شتم دے کر حرمتِ رسول ﷺ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو عرش عظیم کا رب سورۂ تبت نازل فرما کر قیامت تک کے لیے ابولہب کی چوہدراہٹ اور سرداری کو ذلت و رسوائی میں بدل دیتا ہے۔
اگر مشرکین مکہ آپ کے لخت جگر کی وفات پر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ محمد ﷺ کی معاذ اللہ نسل کٹ گئی آپ کا کوئی نام لینے والا نہیں رہے گا۔ تو اللہ رب العزت سورة الكوثر نازل فرما کر رسول اللہ ﷺ کی حرمت و عظمت کا اعلان ان زبر دست الفاظ میں کرتے ہیں:
﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ﴾ [الكوثر:3]
’’آپ کا دشمن جڑ کٹا ہے۔‘‘
اور واقعۃ ان گستاخوں کا نام کوئی کافر بھی عزت و تکریم سے نہیں لیتا، جبکہ میرے پیغمبر کا ذکر خیر اور اہم مبارک عرب و عجم اور شرق و غرب میں دن رات کی ہر گھڑی اور ہر لحظے میں گونجتا اور بلند ہوتا ہے۔ بہر حال پورا قرآن حرمت رسول کا دفاع کر رہا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ [الفرقان:33]
’’اور وہ آپ کے پاس جیسی بھی بات لے کر آئیں گے ہم (اس کے جواب میں) حق لے کر آئیں گے اور بہترین وضاحت اتاریں گئے۔‘‘
دوسری طرف رب ارض و سماء نے مختلف ادوار میں اپنے مخصوص بندوں کو حرمت رسول ﷺ کا دفاع کرنے کی سعادت بخشی، کبھی محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ اور کعب بن اشرف جیسے یہودی سردار کا سر قلم کر رہے ہیں۔ کبھی معوذ و معاذ رضی اللہ تعالی عنہما دو ننھے جاں نثار ابو جہل جیسے شاتم رسول کو خاک و خون میں لت پت کر رہے ہیں، کبھی مدینہ کا نابینا صحابی گستاخ رسول ﷺ لونڈی کو کھدال کے ذریعے واصل جہنم کر رہا ہے۔
جو میلی نظر اٹھائے وہ آنکھ پھوڑ دیں گے
ہر دست بے ادب کی کلائی مروڑ دیں گے
ابو جہل و ابولہب کے بیٹے نہ بچ سکیں گے
ہم دست و انتقام سے ان کو دبوچ لیں گے
اور بعض ادوار میں خالق کائنات نے اپنے خاص بندوں کو حرمت رسول کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا شرف بخشا حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ جیسے پروانہ رسالت سے کہا جاتا ہے (اور کہنے والا ابوسفیان تھا) کہ صرف اتنا کہہ دو کہ میری جگہ محمدﷺ کو سولی پر چڑھا دیا جائے ہم تمہیں چھوڑ دیں گے تو حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ جواب دیتے ہیں: ظالمو! تم اتنی بڑی بات کہلوانا چاہتے ہو مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جگہ میرے پیغمبر کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چھبے۔[ابن هشام 169 تا 179/2، زاد المعاد 109/2]
غور کیجئے! ناموس رسالت کے محافظ نے جان دے دی لیکن ناموس رسالت پر آنچ نہیں آنے دی۔
مسیلمہ کذاب اپنے دربار میں ایک جانثار صحابی سے پوچھتا ہے بتاؤ محمد ﷺ کے بارے کیا کہتے ہو؟ وہ جانثار صحابی رضی اللہ تعالی عنہ جواب دیتا ہے: محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ مسیلمہ پوچھتا ہے: میں کون ہوں؟ یہ جان نثار کہتا ہے مجھے سنائی نہیں دیتا۔ تین مرتبہ ایسا ہوا آخر مسیلمہ اس پروانہ مصطفیٰ کو قتل کروا دیتا ہے۔ کیسا عظیم صحابی ہے۔ گردن کٹوالی لیکن رسول اللہﷺ کی سچی رسالت و حرمت میں مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹے شخص کی جھوٹی نبوت و حرمت کی شراکت گوارا نہیں کی۔ اور جب اس واقعہ کی خبر امام الانبیاءﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا:
(فَقَدْ صَدَعَ بِالْحَقِّ فَهَنِيئًا لَهُ)
’’اس نے قربانی دے کر حق کا ڈنکا بجایا ہے۔ اسے مبارک ہو۔‘‘
اور کہیں غازی علمدین شہید حرمت رسول کی خاطر جام شہادت نوش کر رہا ہے مسلمانوں کے دل میں حرمت رسول عظمت رسول اور ناموس رسالت کا مسئلہ جان و مال اور آل اولاد کی محبت کے مقابلے میں بے انتہاء اونچا اعلیٰ اور اہم مسئلہ ہے۔
لمحۂ فکریہ! آج یہ بات کسی قدر افسوسناک ہے کہ ہم سید الرسل، خاتم النبین، سید ولد آدم، رحمتہ للعالمین، کی بے مثال اعلیٰ اور عمدہ سیرت کو نظر انداز کر کے ان کافروں مشرکوں، مجوسیوں، یہودیوں اور صلیبیوں کی نقلیں اتاریں۔ جو ہمارے عظیم المرتبت پیغمبر کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ کیا اب بھی ہماری ایمانی غیرت بیدار نہیں ہوئی۔
آؤ اگر حرمت رسول کا دفاع کرنا چاہتے ہو تو اپنی شکل و صورت لباس و حجامت معقل دافکر خوشی و نمی خلوت و جلوت تجارت و حرفت اور تمام امور زندگی محمد عربیﷺ کی سیرت و سنت کے مطابق بنا لو یہ گستاخان رسول کی ذلت ورسوائی کے لیے کافی ہے۔ ورنہ زبانی جمع خرچ سے بات نہیں بنے گی۔
ضروری وضاحت
مضمون میں بیان کردہ واقعات اگر تفصیل سے بیان کیے جائیں تو مضمون کافی لمبا کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔