*حسن خاتمہ*

 

اچانک اور نوجوان اموات کی خبریں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں، اور یہ ہمیں نصیحت کیلئے کافی ہیں حالیہ دنوں شیخ قاری نوید الحسن لکھوی رحمہ اللہ کی موت نے تو جماعتی احباب کو ہلا کر رکھ دیا ہے

*پردیس اور سفر میں موت پر قاری صاحب کے لیے بشارت*

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک آدمی فوت ہو گیا، اسکی ولادت بھی مدینہ ہی میں ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا:

"يا ليته مات في غير مولده "

کاش!یہ اپنی جائے پیدائش کے علاوہ(کسی اور جگہ ) فوت ہوتا،

ایک شخص نے پوچھا: کیوں اے اللہ کے رسول؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ قِيسَ لَهُ مِنْ مَوْلِدِهِ إِلَى مُنْقَطَعِ أَثَرِهِ فِي الْجَنَّةِ (نسائی، كِتَابُ الْجَنَائِزِ، 1833)

جب آدمی کا انتقال اپنی جائے پیدائش کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتا ہے، تو اسکے لئے اس کی پیدائش کے مقام سے لے کر موت کے مقام تک پیمائش کرکے(اسکے برابر جگہ )جنت میں اس کو دی جاتی ہے

کچھ عرصہ پہلے قاری عبد المتین اصغر صاحب رحمہ اللہ کی دوران گفتگو موت بھی اسی طرح سے بہت غمناک واقعہ تھی

جامع مسجد القادسية میں ابو انس طالب الرحمن بھائی کی وفات کا واقعہ پیش آیا رات دوستوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سوئے صبح دیکھا تو موت کی آغوش میں پہنچ چکے تھے

(اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ)

چند سال قبل کامونکی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص مسجد میں بیٹھا وضوء کررہا تھا دوران وضوء طبیعت کچھ بے چین ہوئی تو ٹوٹی پر سر رکھ دیا ادھر ہی موت آگئ

دوران سفر مجھے ایک شخص نے انتہائی عجیب واقعہ سنایا کہ اس کا ایک عزیز مالٹے کھا رہا تھا اسی دوران مالٹے کا پانی اس کی ناک میں چڑھ گیا صرف اتنی بات پر اس کی موت واقع ہو گئی

سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت کے ساتھ ساتھ حسن خاتمہ کی دعا کرتے رہنا چاہیے

اچانک موت ایک لحاظ سے بہت خطرناک ہے کہ اس میں بندے کو توبہ کا موقع بہت کم ملتا ہے

جبکہ

*خاتمہ بڑی اہمیت رکھتا ہے*

*اعمال کا دارومدار ان کے خاتموں ہی پر ہے*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ] [ بخاري، الرقاق، باب الأعمال بالخواتیم … : ۶۴۹۳ ]

’’اعمال کا دارومدار ان کے خاتموں ہی پر ہے۔‘‘

*شیخ عبیدالرحمن محسن لکھتے ہیں*

کسی بھی چیز کا اختتام (End) بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

کھیل کا میدان ہو یا تعلیم کا ، سیاست کا معاملہ ہو یا معیشت کا ، انفرادی سطح ہو یا خاندانی اور ملکی وملی ، ہمیں نتائج کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ شروع میں کھلاڑی بہت اچھا کھیلے لیکن ناظرین اس انتظار میں رہتے ہیں کہ میچ کا (End) کیا ہوگا؟ ابتدا میں طالب علم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن اصل نتیجہ کمرہ امتحان میں گزارے ہوئے لمحوں کی بنیاد پر مرتب ہوگا۔

*ایک طالب علم کی مثال*

دوران سال سخت محنت کے ساتھ پڑھائی کرنے والا طالب علم سال کے اختتام میں امتحانات کے اندر اچھے نمبر لے کر خاتمہ اچھا نہ کرے تو درمیان والی محنت کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی

*خاتمہ ہی جنت ہے اور خاتمہ ہی جہنم ہے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ (بخاري،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ ،3208)

ایک شخص ( زندگی بھر نیک ) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کردیتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص ( زندگی بھر برے ) کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کردیتا ہے

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لا تُعْجَبوا بعملِ أحدٍ حتى تنظرُوا بما يُخْتَمُ لهُ ، فإن العاملَ يعملُ زمانا من دهرِهِ ، أو بُرهةً من دهرهِ بعملٍ صالحٍ لو ماتَ [ عليه ] دخلَ الجنةَ ، ثم يتَحوّلَ فيعملُ عملا سيئا ، وإن العبدَ ليعملُ زمانا من دهرهِ بعملٍ سيّيء لو ماتَ [ عليه ] دخلَ النارَ ، ثم يتحّولُ فيعملُ عملا صالحا ، وإذا أرادَ اللهُ بعبدٍ خيرا استعملهُ قبلَ موتهِ فوفّقَهُ لعملٍ صالحٍ ، [ ثم يقبضهُ عليهِ ] (السلسلة الصحيحة: 1334، صحیح)

*ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا*

جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :

[ يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ ] [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب الأمر بحسن الظن باللہ… : ۲۸۷۸ ]

’’ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا۔‘‘

*جو حج کرتے ہوئے فوت ہوگا*

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک محرم شخص کے اونٹ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی گردن (گراکر ) توڑ دی اور اسے جان سے مار دیا، اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا :

” اغْسِلُوهُ، وَكَفِّنُوهُ، وَلَا تُغَطُّوا رَأْسَهُ، وَلَا تُقَرِّبُوهُ طِيبًا ؛ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يُهِلُّ ” (بخاری، کِتَابُ جَزَاءِ الصَّيْدِ ،1839)

انہیں غسل اور کفن دے دو لیکن ان کا سر نہ ڈھکو اور نہ خوشبو لگاؤ کیوں کہ (قیامت میں ) یہ لبیک کہتے ہوئے اٹھے گا۔

*مرتے وقت اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھیں*

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ‘ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز پہلے فرمایا تھا:

لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ (ابو داؤد، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،3113)

” تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ عمدہ گمان رکھتا ہو ۔ “

*جس کی زبان پر مرتے وقت کلمہ جاری ہوگیا*

نزع کی ہچکی کو ذرا غور سے سن

زندگی بھر کا خلاصہ اسی میں ہے

سیدنا معاذ بن جبل ؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ (أبو داود، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،بَابٌ فِي التَّلْقِينِ3116)

” جس کی آخری بات «لا إله إلا الله» ہو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ “

*مرتے وقت سبحان اللہ، الحمد للہ پڑھیں*

انتہائی بوڑھا ہو گیا بے، بیمار ہے، سسک رہا ہے بستر پر پڑا ہوا ہے، لیکن موت نہیں آ رہی،

گلے شکوے، واویلے، جزع و فزع کی بجائے یہ سوچ لے کہ مجھے سبحان اللہ پڑھنے کا موقع مل رہا ہے اور پڑھتا جائے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (مسلم 223)

اور «الحمد لله» میزان کو ( ثواب سے ) بھر دیتا ہے،

اور «سبحان الله»، «الله أكبر» آسمان و زمین کو ( ثواب سے ) بھر دیتے ہیں

امام ابو المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم ورقاء بن عمر رحمہ اللہ کے پاس آئے وہ موت کی کشمکش میں تھے وہ اللہ اکبر لاالہ الااللہ اور ذکر الٰہی میں مشغول تھے جب لوگ زیادہ ہو گئے تو وہ اپنے بیٹے سے کہنے لگے :

اكفني رد السلام لايشغلوني عن ربي.

تذكرة الحفاظ /1/230

آپ میری طرف سے سلام کا جواب دیں تاکہ وہ میرے رب سے میرا دھیان ادھر ادھر نہ پھیر دیں

*موت تک عمل کرو*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر : 99)

اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آجائے۔

اس آئت مبارکہ میں یقین سے مراد موت ھے

موت کو ’’یقین‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔

*فرمانبرداری کی حالت میں مرنے کا حکم*

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران : 102)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

*نماز سلام تک، روزہ غروب آفتاب تک*

اختتام یعنی اینڈ کس قدر اہم ہوتا ہے

‏امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

زندگی کا دارومدار اسکے آخری وقت پر ہے اور عمل کا دارومدار اسکے خاتمے پر ہے سلام پھیرنے سے پہلے جو بے وضو ہوگیا اسکی نماز کا گزرا ہوا حصہ باطل ہو گیا جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے افطار کر لیا تو اسکا روزہ ضائع ہو گیا اور جس نے اپنی آخری عمر میں برائی کی وہ اپنے رب سے اسی چہرے سے ملاقات کرے گا

الفوائد (ص٦٣)

*مقابلے میں دوڑنے والا گھوڑا ٹارگٹ کے قریب پہنچ کر اور تیز ہوجاتا ہے*

امام ابن الجوزي رحمه الله فرماتے ہیں

” إنَّ الخيل إذا شارفت نهاية المضمار

بذلت قصارى جهدها لتفوز بالسباق،

فلا تكن الخيل أفطن منك

فإنّما الأعمال بالخواتيم ” .

مواعظ رمضانية ٧٤

گھوڑا جب ٹریک کے بالکل قریب ہوتا ہے تو وہ مقابلہ جیتنے کے لئے اپنی تمام تر کوشش صرف کر دیتا ہے کہیں گھوڑا آپ سے ذیادہ سمجھدار نہ ہو جائے کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے

*یہود کے ایک بچے کا حسن خاتمہ*

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

ایک یہودی لڑکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا:

أَسْلِمْ

مسلمان ہوجا۔

اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا

أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

( کیا مضائقہ ہے )

ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ (بخاری 1356)

شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا

*مرنے سے پہلے قرآن حفظ کر لیا*

شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھا ہے :

زفر بن ہذیل امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں قرآن مجید حفظ کیا تھا

ان کی موت کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا

ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا حال ہے

تو انہوں نے کہا :

‏لولا السّنتَين لَهَلَك زفر!! ". [شرح مسند أبي حنيفة (١/٤٥)

اگر میری زندگی کے آخری دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا

*زفر بن ہذیل کے واقعہ سے ملنے والا سبق*

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے آپ کو ہروقت قرآن کی تعلیم و تعلم سے وابستہ رکھیں کیا معلوم کس وقت موت کا پیغام آ جائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،6853)

اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے

*اور یہ بھی حسن خاتمہ ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے کچھ نہ کچھ قرآن زبانی یاد کرلیں*

ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اﻗﺮءﻭا اﻟﻘﺮﺁﻥ…. ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻦ ﻳﻌﺬﺏ ﻗﻠﺒﺎ ﻭﻋﻰ اﻟﻘﺮﺁﻥ (سنن دارمی :(3362) کی یہ موقوفا روایت صحیح ہے جو حکما مرفوع ہے )

قرآن پڑھا کرو،پس بے شک اللہ ہرگز ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن حفظ کیا

*خاتمہ خیر کی دعا کیا کریں*

اللهم أَحسنْ عاقبتَنا في الأمور كلِّها وأجرْنا من خزي الدنيا وعذابِ الآخرة،

”اے اللہ پاک تمام کاموں میں ہمارا انجام اچھا کردے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے“

*حسن خاتمہ کی بہترین دعا*

(( اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي، وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونِ، وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ ،وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ )) . (مسند أحمد (22109)، والترمذي : ((3235، صححه الألباني رحمه الله)

”اے اللہ ! مجھے نیکیاں کرنے ، برائیوں سے بچنے اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرما اور تو مجھے معاف فرما، مجھے پر حم فرما، اور جب تو کسی قوم کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں ڈالے بغیر ہی فوت کر لینا، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری محبت کا ، اور اس کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرے اور ایسے عمل کی محبت کا جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کا وقت بالکل قریب آچکا تھا،آپ بار بار یہ فرما رہے تھے :

((اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى سَكَرَاتِ الْمَوْتِ . )) (سنن ابن ماجه : (1623) ، مستدرك على الصحيحين للحاكم (4386 ) صححه ذهبی)

(( اللهم أعنى على سكرات الموت . ))

یا الہی ! موت کی سختیوں کے معاملے میں میری مدد فرما۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِك (سنن ابن ماجہ 3834)

یا الہی ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔

*موت کے وقت شیطان کے گمراہ کرنے سے بچنے کی دعا*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت شیطان کے گمراہ کرنے سے دعا کی تعلیم دی، ابو الیسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :

[ أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّيْ، وَ أَعُوْذُ بِكَ منَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْهَرَمِ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ أَنْ يَتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَمُوْتَ فِيْ سَبِيْلِكَ مُدْبِرًا وَ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِيْغًا ] [ أبوداوٗد، الوتر، باب في الإستعاذۃ : ۱۵۵۲، و صححہ الألباني ]

’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں (اپنے اوپر) دیوار وغیرہ گرنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نیچے گر جانے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے اور شدید بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی بنا دے اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تیرے راستے میں پیٹھ دیتا ہوا مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ زہریلے ڈنک سے مروں۔‘‘

*یوسف علیہ السلام کی خاتمہ علی الایمان کی دعا*

یوسف علیہ السلام دعا کرتے ہیں :

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (يوسف : 101)

اے میرے رب! بے شک تو نے مجھے حکومت سے حصہ دیا اور باتوں کی اصل حقیقت میں سے کچھ سکھایا، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا یار و مددگار ہے، مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی موت کی خواہش*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ خواہش کیا کرتے تھے:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ (بخاری ومسلم)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے

میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں

*عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش شہادت کی موت*

عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا کیا کرتے تھے :

اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم)

ایک اللہ مجھے اپنے راستے میں اور اپنے نبی کے شہر میں شہادت کی موت عطا فرما

*خاتمہ خیر کی دعا کرنے کا فائدہ*

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ (مسلم، كِتَابُ الْإِمَارَةِ، 4929)

"جس شخص نے سچے دل سے شہادت طلب کی، اسے عطا کر دی جاتی ہے (اجر عطا کر دیا جاتا ہے) چاہے وہ اسے (عملا) حاصل نہ ہو سکے”

*حسن خاتمہ یہ بھی ہے کہ آپ جو نیک عمل کررہے ہیں وہ موت تک کریں*

*عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بڑھاپے میں نشانہ بازی کی مثال*

فُقَیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ (تیر چھوڑنے اور جا لگنے کے) ان دو نشانوں کے درمیان چکر لگاتے ہیں جبکہ آپ بوڑھے ہیں اور یہ آپ کے لیے باعث مشقت بھی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات نہ سنی ہوتی تو میں یہ تکلیف نہ اٹھاتا۔ حارث نے کہا: میں نے ابن شماسہ سے پوچھا: وہ بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا أَوْ قَدْ عَصَى (مسلم، كِتَابُ الْإِمَارَةِ، 4949)

"جس شخص نے تیر اندازی سیکھی، پھر اس کو ترک کر دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔” یا (فرمایا: ) "اس نے نافرمانی کی۔”

*کیوں کہ انسان مرتے وقت وہی کام کرتا ہے جسکو وہ دنیا میں زیادہ کرتا ہے*

*ایک واقعہ*

ایک ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :

ھﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺣﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﻮﮌ ﺑﺨﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﺗﮭﯿﮟ.ﻋﻼﺝ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ, ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﺭﮈ ﮐﯽ ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ, ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺟﺐ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ, ﯾﮧ ﻣﺮﺣﻮﻣﮧ ﻧﻤﺎﺯ, ﺭﻭﺯﮮ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻓﻈﮧ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ.

*دوسرا واقعہ*

اﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻣﺮﺽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺯﯾﺮ ﻋﻼﺝ ﺗﮭﺎ.ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺮ ﮔﺎﻧﮯ ﺳﻨﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺗﮭﺎ.ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﻻ ﻋﻼﺝ ﮬﮯ.ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﮨﻮﮞ.ﻗﺮﺁﻥ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ.ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ? ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﻗﺖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﯿﮟ.ﺟﺐ ﻣﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﻠﻤﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ. ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺪ ﻧﺼﯿﺒﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﮐﻮ ﮔﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻤﺘﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﻠﻤﮧ ﺟﯿﺴﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮨﻮﺋﯽ

*تیسرا واقعہ*

ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ’ﺭﯾﮉﺭ ﮈﺍﺋﺠﺴﭧ’ ﻃﻠﺐ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﮕﻢ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ.ﺟﺐ ﻭﮦ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﯾﮉﺭ ﮈﺍﺋﺠﺴﭧ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﺗﮭﺎ, ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭼﯿﺰ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﺗﮭﯽ.

*چوتھا واقعہ*

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﺾ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﺗﮭﺎ.ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﯾﮑﺪﻡ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﺮﺱ ﮐﻮ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ, ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﮔﻨﺪﯼ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ.ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺪﯼ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ. ﺗﺤﻘﯿﻖ ﭘﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﮑﯿﮧ ﮐﻼﻡ ﺗﮭﺎ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯾﺘﺎ, ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺋﯽ.

*حسن خاتمہ سے متعلق اکثر لوگوں میں پائی جانے والی ایک سوچ اور اس کا حل*

عموماً لوگ صرف اسے ہی حسن خاتمہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص تلاوت کرتا ہوا فوت ہو جائے یا حالت سجدہ میں یا تقریر کرتا ہوا یا بیت اللہ کا طواف کرتا ہوا تو کہا جاتا کہ وہ جی کتنی اچھی موت ہے

ٹھیک ہے یہ بہت اچھی موت ہے

مگر

صرف یہی امید لگائے بیٹھ جانا اور اسی کی آرزو کرتے رہنا ہی کافی نہیں ہے

کیونکہ

اچھے انجام کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ ضرور مسجد میں فوت ہوں یا جائے نماز پر یا آپ جس وقت فوت ہوں تو قرآن آپ کے ہاتھ میں ہو . یا آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں

تمام مخلوقات میں سے بہترین *حضرت محمد صلى الله عليه و سلم* جس وقت فوت ہوئے وہ اپنے بستر پر تھے،

آپ صلى الله عليه وسلم کے دوست *ابوبکر صدیق رضي الله عنه* جو صحابہ میں سے بہترین تھے وہ اپنےبستر پرفوت ہوئے ،

*خالد بن الوليد رضي الله عنه* جن کا لقب سیف اللہ تها وہ اپنے بستر پرفوت ہوئے !!

لیکن حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ اس حال میں فوت ہوں کہ *شرک سے پاک ہوں،

*نفاق سے پاک ہوں،

*بدعتوں سے پاک ہوں ،

*قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں،

*مسلمانوں کے خون ، مال اور عزت کے بوجھ سے ہلکے ہوں

*حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے ہوں ،

*آپ کا دل سلامت ہو نیت پاک ہو اور آپ حسن اخلاق پر ہوں،

*کسی مسلمان کے لیے آپ کے دل میں کوئی بغض کینہ اور نفرت نہ ہو

*پانچوں نمازوں کو ان کےوقت پر ادا کرنے والے ہوں