حصول علم کی راہ میں درپیش رکاوٹیں
ان الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد
فقال ربنا جل وعلا
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يعلمون (الزمر – آیت 9)
کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے ؟
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ…. رواه البخاري
اللہ تعالٰی جس سے خیر چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں اور یقیناً علم سیکھنے سے ہی آتا ہے
سامعین ذی وقار و حاضرین مجلس !
موضوع سخن ہے حصول علم کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں
وكتب ابو حاتم رحمہ اللہ فی کتابہ( روضۃ العقلاء )
یا طالب العلم باشرالورعا
وباین النوم واھجر الشبعا
ما ضر عبدا صحت إرادته
اجاع فی اللہ یوم او شبعا
ما ضر عبدا صحت عزیمتہ
این من الأرض أينما صعقا
اے طالب علم !زھد و ورع اختیار کر، نیند سے جدا ہو جا اور پیٹ بھر کرکھانہ کھانا چھوڑ دے
جس بندے کا ارادہ درست ہواسے اس بات سے کوئی غرض( نقصان )نہیں کہ اللہ کی راہ میں کسی دن بھوکا رہے یا پیٹ بھر کر کھائے
جس بندے کا عزم پختہ ہو اسے اس بات سے کوئی غرض( نقصان )نہیں کہ وہ زمین کے کس حصے پر گرا پڑا( رہ رہا )ہے
مثل مشہور ہے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے بھینس کا خالص دودھ دھونے کے لیے گوبر کی بدبو سونگنا ناگزیر ہے میٹھے شہد سے پہلے مکھی کا تیزابی ڈھنگ لازمی ہے پھول اگر خوشبو دار ہے تو کانٹوں کی سیج سے ڈھکا ہوتا ہے حتی کہ جنت کی راہ میں بھی( حُفَّتْ بِالْمَكَارِهِ)کی آزمائشیں ہیں
لیکن کیا ان مصائب و آلام کی وجہ سے حصول مقصد ترک کر دیا جائے گا نہیں نہیں ہر گز نہیں بلکہ اتنی ہی زیادہ تن دہی اور تیزی سے جانب سفر چلا جائے گا
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
حضرات قرآن و حدیث کا علم اللہ کی طرف سے رحمت ہوتی ہے اور یہ جتنی فضیلت والی چیز ہے اس کی راہ میں اتنی ہی زیادہ رکاوٹیں کھڑی ہیں آئیے چند رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں
* پہلی رکاوٹ،
آج کے مادی دور میں جب لوگ دیکھتے ہیں کہ دینی تعلیم کی بنیاد پر مستقبل میں ذریعہ معاش نظر نہیں آتا تو دنیاوی چکا چوند میں کھو جاتے ہیں جبکہ وہ اللہ تعالٰی کے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں
وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ دَآبَّةٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَهَا ۖ اللّٰهُ يَرۡزُقُهَا وَاِيَّاكُمۡۖ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ (العنكبوت – آیت 60)
اور کتنے ہی چلنے والے (جاندار) ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے، اللہ انھیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
دوسری رکاوٹ،
جدید دور میں لوگ عجیب سی عجلت پسندی کا شکار ہو چکے ہیں راتوں رات امیر ہونے کے خیالات نے اندھا کردیا ہے جب دیکھتے ہیں کہ مدارس میں لمبا وقت لگانا پڑتا ہے تو اکتاہ کر چھوڑ جاتے ہیں حالانکہ یہ علم وقت کا متقاضی ہے
اخی لن تنال العلم إلا بستۃ…… سانبیک عن تفصیلہا ببيان ذکاءوحرص و اجتہاد وغربۃ…. وصحبۃ استاذ وطول زمان
اے میرے بھائی آپ ان چھے چیزوں کے بغیر علم حاصل نہیں کر سکتے ذہانت، علم کی حرص، محنت، پردیس، استاد کی صحبت اور لمبا وقت
تیسری رکاوٹ،
طالب علم کی بے صبری ، جزع فزع کی کیفیت اور حالات کی نزاکتوں سے مایوس ہو جانا
فرمایا
اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا (المعارج – آیت 20)
جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔
اور فرمایا
وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ سَيِّئَةٌ ۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ اِذَا هُمۡ يَقۡنَطُوۡنَ (الروم – آیت 36)
اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو اچانک وہ ناامید ہوجاتے ہیں۔
شاعر نے کہا
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
شیطان، طالب علم کے ذھن میں گھریلو غربت اور پریشانیوں کو ضرورت سے زیادہ محسوس کرواتا ہے اور انہیں اوور سائز کرکے اسکے حواس پر سوار کردیتا
اَلشَّيۡطٰنُ يَعِدُكُمُ الۡـفَقۡرَ
شیطان تمہیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے البقرة – آیت 268
مزید کہا
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيۡطٰنُ يُخَوِّفُ اَوۡلِيَآءَهٗ ۖ فَلَا تَخَافُوۡهُمۡ
یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تو تم ان سے مت ڈرو
صدمے اٹھانے پڑتے ہیں خواہشات کو جلانا پڑتا ہے
علم کو پانا آسان نہیں گھر بار لٹانا پڑتا ہے
شیطان ملعون کے ہتھکنڈوں اور وساوس کا مقابلہ کرنا انتہائی اہم ہے
فرمایا( لا تتبعوا خطوات الشيطان )
اور فرمایا (إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ )
چوتھی رکاوٹ،
وقت کی قدر نہ کرنا اور آج کے کام کو مسلسل کل پہ چھوڑتے جانا
ارشاد نبوی ہے نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ
پانچویں رکاوٹ
طالب علم کو علم سے محروم کرنے والی بہت بڑی چیز اس کی غذا میں حلال و حرام کی تمیز نہ ہونا، جب حرام سے پرورش پاتا ہےتو نتیجتاً سوء حفظ کا شکار ہو کر بلکھڑ بن جاتا ہے
فرمایا وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ… مسلم
بقول اقبال
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
چھٹی رکاوٹ
علم اللہ تعالٰی کی نعمت ہے مگر یہ نعمت روٹھ جاتی ہے جب طالب علم خود ہی اس سے اعراض برتنا شروع کر دیتا ہےاور تعلیم کی بجائے دیگر سرگرمیاں اس کی ترجیحات کا محور بن جاتی ہیں
(ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)
وقال نبینا محمد صلی اللہ علیہ و سلم( وان لکل امرء ما نوی )
ساتویں رکاوٹ
طالب علم کے ذھن میں برے اعمال، موبائل وغیرہ کا غلط استعمال اور ضرر رساں اشیاء کی خوبصورتی اور کشش کا پیدا ہوجانا، جس سے وہ ھدائت سے محروم ہو جاتا ہے
(أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ )
اور فرمایا ( وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ )
طالب علم کی بری خواہشات اور غلط ترجیحات بھی اسے ھدائت سے محروم کرتی ہیں (وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)
آٹھویں رکاوٹ،
طالب علم کا ڈگری ہولڈر اور مالدار لوگوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر مرعوب ہونے کے بعد اسی دوڑ میں شامل ہوجانا اور دینی تعلیم کو خیر باد کہہ دینا
فرمایا (وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ )
مزید کہا (ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ )
دوسری جگہ فرمایا فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلَا يَسۡتَخِفَّنَّكَ الَّذِيۡنَ لَا يُوۡقِنُوۡنَ
قارون کے قصے میں اللہ تعالٰی نے بیان کیا
(فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ * وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ )
نوویں رکاوٹ،
طالب علم کا متکبر، آکڑ خان، بے ادب، عجب پسند اور شیخی خور ہونا
(وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ * وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ )
فرمایا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ
دسویں رکاوٹ،
طالب علم کا اپنے آپ کو قربانیوں کے لیے تیار نہ کرنا سستی، کاہلی اور عدم توجہگی کا شکار رہنا اسے علمی لذتوں سے محروم کردیتا ہے
مثل مشہور ہے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے
فرمایا
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے
وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ ،مسلم
گیارہویں رکاوٹ
طالب علم کا عبادت گزار اور شکر گزار نہ ہونا
(وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ)
فرمایا
(يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ)
مزید کہا( واتقوا اللہ یعلمکم اللہ )
بارہویں رکاوٹ،
طالب علم کا برے دوستوں اور برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا اسے علمی چاشنی سے محروم کردیتا ہے
فرمایا
( الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ )
اور فرمایا مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
اقبال نے کہا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا. بلندپروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
تیرہویں رکاوٹ،
محرومی ءعلم کا بہت بڑا سبب، طالب علم کا اللہ تعالٰی کی نافرمانی اور گناہوں میں مبتلاء ہونا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فَإِنَّكُمْ أَهْلُ هَذَا الْأَمْرِ مَا لَمْ تَعْصُوا اللَّهَ
طالب علم کے گناہ اور معاصی اسے نالائق اور کند ذہن بنا دیتے ہیں حتی کہ اس کے دل ودماغ زنگ آلود ہو کر کسی کام کے نہیں رہتے
(كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا( إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ)
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روگردانی اور آپ ص کے حکم کی مخالفت بھی حصول علم کی راہ میں فتنہ بن کر کھڑی ہوتی ہے ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)
وقال الشاعر
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فارشدنی الی ترک المعاصي
فقال إعلم بأن العلم فضل
وفضل اللہ لا یعطاہ العاصي