*ابراہیم علیہ السلام کے ذاتی اوصاف آپ کے فضائل اور آپ کی ملت*
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔
الشعراء : 69
قارئین آئیے آج ہم اللہ تعالٰی کے اس حکم کی روشنی میں ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ خیر کرتے ہیں
سب سے پہلے ہم ابراہیم علیہ السلام کی ذاتی صفات، اخلاق و کردار اور آپ کے فضائل و مناقب کا مطالعہ کرتے ہیں
*ابراهيم علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے ہیں*
آپ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگوں میں سے ایک تھے
جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ
اور بلاشبہ وہ ہمارے نزدیک یقینا چنے ہوئے بہترین لوگوں سے تھے۔
ص : 47
*اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا مومن بندہ قرار دیا*
فرمایا :
إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ
بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا۔
الصافات : 111
*اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا*
خلیل اس دوست کو کہتے ہیں جس کی دوستی دل کے درمیان پہنچ جائے اور اس میں کسی پہلو سے بھی کوئی خامی نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے :
وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔
النساء : 125
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
[ مسلم : 532 ]
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا۔‘‘
*ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ خاص دوستی*
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ وُلاَةً مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَ إِنَّ وَلِيِّيْ أَبِيْ وَ خَلِيْلُ رَبِّيْ ]
’’ہر نبی کے لیے نبیوں میں سے کچھ دوست ہیں، جن سے اس کا خصوصی تعلق ہوتا ہے اور میرا (خاص تعلق والا) دوست میرا باپ اور میرے رب کا خلیل ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور اللہ ہی ایمان والوں کا دوست ہے۔
آل عمران : 68
[ترمذی : 2995۔ صحیح ]
*اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خاص رحمتوں اور برکتوں سے نوازا*
جیسا کہ فرمایا :
وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا
اور ہم نے انھیں اپنی رحمت سے حصہ عطا کیا۔
مريم : 50
اس رحمت سے مراد نبوت اور دینی و دنیوی بے شمار برکتیں ہیں، مثلاً اموال و اولاد کی کثرت، ارض مقدس کی خلافت، نسل در نسل نبوت و امامت وغیرہ۔
*اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام پر سلام بھیجا*
فرمایا :
سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ
کہ ابراہیم پر سلام ہو۔
الصافات : 109
كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
الصافات : 110
*ابراهيم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں بہت اجر عطا کیا*
فرمایا :
وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے اسے اس کا اجر دنیا میں دیا اور بے شک وہ آخرت میں یقینا صالح لوگوں سے ہے۔
العنكبوت : 27
*آخرت میں اجر و ثواب اور نوازشات*
*قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔*
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ
صحيح البخاري |. 3349
قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔
نوٹ :
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللّٰہ نے قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنائے جانے کی وجہ ذکر کی ہے کہ:
يقال : إن الحكمة في خصوصية إبراهيم بذلك لكونه ألقي في النار عريانا.
فتح الباری
کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ننگا کر کے پھینکا گیا تھا سو اس کے بدلے میں انہیں قیامت کے دن سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا
مگر یہ کوئی پکی مضبوط بات نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی صحیح مرفوع روایات موجود نہیں ہے
*ابراهيم علیہ السلام کا گھر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے اوپر ساتویں آسمان پر*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا…….. ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا
فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ
صحيح مسلم | 162
تو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے )داخل ہوتے ہیں ، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس ( آکر داخل) نہیں ہو سکتے
بخاری میں ہے :
جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا :
مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے
*ابراهيم علیہ السلام کی طرف سے امت محمدیہ کو سلام*
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
يَا مُحَمَّدُ! أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ
سنن الترمذي | 3462 ، حسن
اے محمد ! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادیناکہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے اور اس کی باغبانی "سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ” سے ہوتی ہے
*چھوٹے فوت ہوجانے والے بچے ابراہیم علیہ السلام کے پاس جنت میں چلے جاتے ہیں*
ابراهيم علیہ السلام کے پاس بے شمار بچے بھی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ لوگوں کے وہ بچے ہیں جو بچپن میں ہی فوت ہو گیے تھے آپ نے پوچھا کہ ان میں مشرکین کے بچے بھی ہیں تو بتایا گیا کہ ہاں ان میں مشرکین کے بچے بھی ہیں
*دنیا میں نوازشات کی چند مثالیں*
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام پر اپنی بہت سی نوازشات دنیا میں ہی ظاہر کردیں
*ابراهيم علیہ السلام نوح علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے قرار*
اللہ تعالیٰ کی ابراہیم علیہ السلام پر دنیا میں ہی کرم نوازی کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ نوح علیہ السلام جو ابراہیم علیہ السلام سے صدیوں پہلے گزر چکے تھے، ابراہیم علیہ السلام نے نوح علیہ السلام کا نہ زمانہ پایا اور نہ ہی ان کا کوئی عملی ساتھ دیا
مگر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کی نیکیوں کے سلسلہ کو بہت پیچھے جا کر کاؤنٹ کرنا شروع کیا
اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ
اور بے شک اس کے گروہ میں سے یقینا ابراہیم (بھی) ہے۔
الصافات : 83
یعنی نوح علیہ السلام کا ساتھ دینے والے گروہ میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں، کیونکہ وہ بھی توحید، آخرت اور دین کی تمام بنیادی چیزوں کے متعلق وہی عقائد و اعمال رکھتے تھے جو نوح علیہ السلام کے تھے، بلکہ تمام انبیاء کا اصل دین ایک ہی ہے جس کا نام اسلام ہے اور سب کی امتیں ایک امت ہیں جس کا نام امتِ مسلمہ ہے
*ابراهيم علیہ السلام امت محمدیہ کے باپ قرار پائے*
یہ بھی دنیا میں ہی ابراہیم علیہ السلام پر ایک بہت بڑی کرم نوازی اور مہربانی ہے کہ انہیں امت محمدیہ کا بات قرار دیا گیا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا
اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، تمہارے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق۔ اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی
الحج : 78
یہاں اگر مخاطب عرب سمجھے جائیں تو ابراہیم علیہ السلام کو ان کا باپ اس لیے فرمایا کہ وہ اکثر ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے
اور اگر پوری امت مسلمہ مخاطب ہو تو ابراہیم علیہ السلام پوری امتِ مسلمہ کے اس لیے باپ ہیں کہ وہ اس امت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہیں۔
*ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیاء ہیں*
یہ تو بہت ہی بڑی کرم نوازی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیشتر انبیاء کا باپ بنایا
ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے سوا کسی کو نبوت اور آسمانی کتاب نہیں دی گئی، جتنے انبیاء ہوئے ان کی اولاد سے ہوئے، اس لیے انھیں ابو الانبیاء کہا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کا ایک سلسلہ اسحاق و یعقوب علیھما السلام کا ہے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے حضرات کو نبوت ملی۔ دوسرا سلسلہ اسماعیل علیہ السلام کا ہے جس میں آخری نبی سید ولد آدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ
اور اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی
عنکبوت : 27
*دنیا میں آپ پر ایک نوازش یہ بھی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک آپ کو اچھی ناموری عطا کی*
ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی :
وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ
اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔
الشعراء : 84
یعنی قیامت تک آنے والی نسلوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما کہ وہ اچھے الفاظ میں میرا ذکر کرتی رہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے "لِسَانَ صِدْقٍ "کی تفسیر ’’ثَنَاءٌ حَسَنٌ‘‘ (اچھی شہرت) فرمائی۔
[ طبری بسند ثابت ]
*اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور آپ کو رہتی دنیا تک اچھی ناموری عطا کی گئی*
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی
چنانچہ فرمایا :
وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا
اور انھیں سچی ناموری عطا کی، بہت اونچی۔
مريم : 50
اب یہ اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب انھیں اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔
مسلمان تو نماز میں ’’كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ‘‘ اور ’’كَمَا بَارَكْتَ عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
*دیگر نوازشات*
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ابراہیم علیہ السلام پر آنے والے تمام مشکل حالات کو ایسے بہترین حالات کے ساتھ بدل دیا جو پہلے حالات کے بالکل الٹ تھے
مثال کے طور پر
1 قوم نے انھیں توحید کی دعوت کی وجہ سے آگ میں پھینکا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے خیریت و سلامتی کے ساتھ بچا لیا۔
2 وہ پوری قوم میں تنہا تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں انھیں اتنی اولاد عطا فرمائی جس سے دنیا بھر گئی۔
3 ان کے رشتے دار خود گمراہ اور مشرک تھے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے اور شرک کی دعوت دینے والے تھے، جن میں ان کا باپ آزر بھی تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان رشتہ داروں کے بدلے میں ایسے رشتہ دار دیے جو خود ہدایت یافتہ اور دوسروں کو ہدایت دینے والے تھے، یہ ان کی وہ اولاد تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب رکھ دی۔
4 وہ اپنے وطن میں بے وطن تھے، تو اللہ تعالیٰ نے بابرکت زمین شام میں انھیں ٹھکانا عطا فرمایا۔
5 ان کے پاس مال و جاہ نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنا مال عطا فرمایا کہ وہ اچانک آنے والے چند مہمانوں کے لیے تھوڑی دیر میں بھنا ہوا بچھڑا لے آتے ہیں
6 اور آپ کو جاہ و مرتبہ اتنا عطا فرمایا کہ قیامت تک آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے ساتھ ان پر بھی درود بھیجا جاتا رہے گا۔
7 ایک وقت تھا کہ وہ اپنی قوم میں اس قدر بے حیثیت تھے کہ انھیں ایک بے نام شخص سمجھا جاتا تھا
جیسا کہ سورۂ انبیاء میں ہے :
« قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِيْمُ »
[الأنبیاء : ۶۰ ]
’’انھوں نے کہا ہم نے ایک جوان سنا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔‘‘
اور دعوت توحید کی وجہ سے ان کی قوم ان کی دشمن تھی، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیامت تک آنے والوں میں ایسی لسان صدق (سچی شہرت اور ناموری) عطا فرمائی کہ اب کم ہی کوئی شخص ہو گا جو انھیں نہ جانتا ہو۔ یہودی ہوں یا عیسائی یا مسلمان سب ان سے محبت کرتے ہیں، ان کا ذکر اچھے سے اچھے طریقے سے کرتے ہیں اور ان کی طرف نسبت پر فخر کرتے ہیں۔
الغرض ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اس بات کی بلا ریب شہادت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے کہیں بہتر چیز عطا کرتا ہے۔
*ابراهيم علیہ السلام بڑے مالدار اور مہمان نواز آدمی تھے*
ابراہیم علیہ السلام پر دنیوی لحاظ سے ایک یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ آپ بڑے مالدار آدمی تھے اور صرف مالدار ہی نہیں بلکہ دل کے سخی اور مہمان نواز بھی تھے
یہ مہمان نوازی والا وصف تو ہر نبی میں ہی پایا جاتا تھا
خصوصاً ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت پایا جاتا تھا۔
ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور بلاشبہ یقینا ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے، انھوں نے سلام کہا، اس نے کہا سلام ہو، پھر دیر نہیں کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔
هود : 69
یہ واقعہ نہ صرف آپ کی مہمان نوازی بلکہ مالداری کی بھی دلیل ہے ورنہ بھنا ہوا بچھڑا تھوڑی دیر میں لا کر پیش کر دینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔
*ابراهيم واقعی اس اہل تھے کہ انہیں رشد و ھدائت عطا کی جائے*
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو جو رشد و ھدائت کے بے پناہ خزانوں سے نوازا ہے اس کی بڑی وجہ ابراہیم علیہ السلام کا قلب سلیم ، یعنی دنیا و آخرت کی بے شمار لغزشوں سے صاف ستھرا دل ہے
فرمایا :
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ
اور بلاشبہ یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم اسے جاننے والے تھے۔
الأنبياء : 51
وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ : یعنی ہم اسے جانتے تھے کہ ہم نے اس میں کیا کیا خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی جتنی بھی خوبیاں بیان کر لی جائیں اللہ تعالیٰ کی یہ شہادت ان سب سے بڑھ کر ہے۔
یہ منصب عطا ہی اسے ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں اس کا اہل ہو، فرمایا :
«اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ »
[ الأنعام : 124 ]
’’اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔‘‘
*ابراہیم علیہ السلام کے مکارم اخلاق کی چند مثالی جھلکیاں*
*سب سے بڑا اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خالص ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے*
جیسا کہ آپ نے خود اپنے متعلق فرمایا ہے :
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں۔
الأنعام : 79
*اور آپ اللہ کی توحید ہی کے طرفدار تھے*
فرمایا :
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرماں بردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔
آل عمران : 67
*آپ بہت سچے تھے*
سچ بولنا اعلی اخلاق اور مثالی کردار ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کا سچا ہونا بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا
اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔
مريم : 41
*صدیق کسے کہتے ہیں*
یہ صدق سے مبالغہ ہے، یعنی جو بہت سچا ہو۔ بعض نے کہا، جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔ بعض نے کہا، صدیق وہ ہے کہ صدق کی عادت کی وجہ سے اس سے جھوٹ نا ممکن ہو اور بعض نے کہا کہ جو اپنے اعتقاد اور قول میں سچا ہو اور اپنے فعل کے ساتھ اپنے صدق کو ثابت کرے۔ یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے والا ہو اور کبھی کسی معاملے میں خلجان اور شک اس کے دل میں پیدا نہ ہو
*ابراہیم علیہ السلام کو صدیق اس لیے فرمایا کہ*
وہ صداقت کے دونوں پہلوؤں پر پورا اترتے تھے یعنی بات کرنے میں بھی بہت سچے تھے اور اپنے رب کے ساتھ معاملے میں بھی سچے تھے۔
اللہ کی خاطر گھر سے بے گھر ہونا، آگ میں جلنے کو گوارا کرنا، وطن سے بے وطن ہونا، پردیس میں اپنی عزت و ناموس کے خطرے میں ہونے کو برداشت کرنا، بیوی بچے کو بے آباد سنگلاخ وادی میں چھوڑنا، اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کی تعمیل، اسّی(۸۰) برس کی عمر میں ختنے کا حکم ہونے پر فوراً عمل کرنا، یہ ان کے ہر معاملہ میں صدق کی چند مثالیں ہیں۔
*آپ بہت نرم دل اور بردبار تھے*
دل کی نرمی بھی بہترین اخلاق ہے اور یہ صفت ابراہیم علیہ السلام میں بہت زیادہ موجود تھی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
بے شک ابراہیم یقینا بہت نرم دل، بڑا بردبار تھا۔
التوبة : 114
’’ لَاَوَّاهٌ ‘‘ کا معنی بہت آہ وزاری کرنے والا ہے اور یہ دل کی نرمی کی علامت ہے، یعنی وہ اللہ کے حضور بہت آہیں بھرنے والے، بڑے حلم والے تھے۔ ایسے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو اسے نرمی سے جواب دیتے۔
مزید فرمایا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ
بے شک ابراہیم تو نہایت بردبار، بہت آہ و زاری کرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔
هود : 75
*آپ دل کے بہت صاف تھے*
دل کا صاف ہونا، دل میں میل، منافقت ،اور دو نمبری کا نہ ہونا بھی بہت اچھا اخلاق ہے
ابراهيم علیہ السلام کے اندر یہ خوبی بھی کمال درجے کی موجود تھی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
جب وہ اپنے رب کے پاس بے روگ دل لے کر آیا۔
الصافات : 84
یعنی شرک، شک، منافقت، حسد، بغض، سرکشی اور ہر روگ سے پاک دل لے کر نہایت اخلاص اور عاجزی کے ساتھ اپنے رب کی طرف رجوع کیا۔
*سورہ نحل کی دو آیت میں آپ کی کئی صفات*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔
النحل : 120
شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والا۔ اس نے اسے چن لیا اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔
النحل : 121
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی خوبیاں اور صفات بیان کی ہیں
*1امۃ*
پہلی صفت ’’ اُمَّةً ‘‘ بیان فرمائی۔
’’ اُمَّةً ‘‘ کا ایک معنی پیشوا اور امام ہے
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
« اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا »
[ البقرۃ : ۱۲۴ ]
’’بے شک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘
اور دوسرا معنی یہ کہ وہ اکیلے ہی ایک امت (جماعت) تھے، کیونکہ اکیلے ہی میں اتنے کمالات تھے جو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور اکیلے شخص نے اتنا کام کیا جو ایک امت کے برابر تھا۔
تیسرا معنی یہ کہ ایک مدت تک اکیلے ہی وہ اور ان کی بیوی امت مسلمہ تھے، جیسا کہ جبارِ مصر اور سارہ علیھا السلام کے واقعہ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیھا السلام سے کہا کہ اس وقت اس سرزمین میں میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں، سو تم ایمان میں میری بہن ہو۔
[ بخاری : 3358 ]
*2’’قَانِتًا لِّلّٰهِ‘‘*
دوسری صفت ’’ قَانِتًا لِّلّٰهِ ‘‘ بیان فرمائی، یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ کے فرماں بردار
*3’’حَنِيْفًا‘‘*
یہ تیسری صفت ہے، اس کا معنی ہے ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا
یعنی تمام باطل دینوں سے ہٹ کر حق کی طرف مائل ہونے والا، تمام خداؤں کا انکار کرکے صرف ایک اللہ کی طرف ہو جانے والا۔ جس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، زندگی اور موت سب ایک اللہ کے لیے تھے۔
*4″وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ”*
یہ چوتھی صفت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے تھے
*5″شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ”*
یعنی اپنے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے
ایسے شکر گزار تھے کہ اللہ تعالیٰ نے "شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ” کہہ کر شہادت دی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس کے احکام کی اطاعت، اس کے امتحانات میں کامیابی اور اس کے حقوق کی ادائیگی سب کو پورا کر دیا
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى
اور ابراہیم کہ جس نے (عہد) پورا کیا۔
النجم : 37
یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اور بندوں سے کیا ہوا ہر عہد پورا کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا اسے پورا کیا اور جن باتوں کے ساتھ امتحان لیا سب پوری کر دکھائیں۔
*آپ آخرت کو بہت یاد کرنے والے تھے*
اللہ تعالیٰ نے سورہ ص میں ابراہیم علیہ السلام سمیت دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ
بے شک ہم نے انھیں ایک خاص صفت کے ساتھ چن لیا، جو اصل گھر کی یاد ہے۔
ص : 46
یعنی ان انبیاء کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ ہر وقت آخرت کو یاد رکھتے تھے اور ہر معاملہ میں اسی کو پیش نظر رکھتے تھے، دنیا کی ہوس کا ان میں کوئی شائبہ نہ تھا اور لوگوں کو بھی وہ ہمیشہ آخرت یاد دلاتے رہتے تھے
مزید ابراہیم علیہ السلام کی فکر آخرت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ
بے شک ابراہیم تو نہایت بردبار، بہت آہ و زاری کرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔
هود : 75
*آخرت کی فکر کا یہ عالم کہ حسن خاتمہ کی دعا کرتے ہیں*
ابراهيم علیہ السلام اپنے لیے دعا کرتے ہیں :
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا۔
الشعراء : 83
یعنی دنیا میں بھی صالح دوستوں اور ساتھیوں کی رفاقت عطا فرما اور آخرت میں بھی انھی کے ساتھ ملا دے۔
یوسف علیہ السلام نے بھی یہ دعا کی :
« تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ »
[ یوسف : 101 ]
’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘
اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت دعا کی تھی :
[ اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْأَعْلٰی ]
[ بخاري : 3669، 4437 ]
’’(اے اللہ!) مجھے سب سے بلند رفیقوں میں شامل فرما دے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تین دفعہ کی۔
*اے اللہ قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کرنا*
آپ نے یہ دعا بھی کی :
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ
اور مجھے رسوا نہ کر، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔
الشعراء : 87
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ
جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے۔
الشعراء : 88
إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
مگر جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا۔
الشعراء : 89
*اے اللہ! مجھے جنت کے وارثوں میں سے بنا دے*
وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ
اور مجھے نعمت کی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔
الشعراء : 85
*ملت ابراہیمی*
ابراہیم علیہ السلام کی دعوت ،آپ کے دین، آپ کی ملت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مقام اور شرف بخشا کہ رہتی دنیا تک سبھی لوگوں کو اسی ملت کی پیروی کا حکم دیا
*بے وقوف ہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے دین سے منہ موڑتا ہے*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ
اور کون ہے جو ابراہیم کی ملت سے بے رغبتی کرے گا سوائے اس کے جس نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا لیا
البقرۃ : 130
*دین ابراہیم ہی صراط مستقیم ہے*
فرمایا :
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کردی ہے، جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا
الأنعام : 161
اور فرمایا :
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ
اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہو جاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے، اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔
الشورى : 13
*ملت ابراہیمی سے اچھا دین کیا ہو سکتا ہے*
فرمایا :
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔
النساء : 125
*ابراہیم علیہ السلام دینِ یہود یا دینِ نصاریٰ پر نہیں تھے*
یہود ابراہیم علیہ السلام کے یہودی ہونے کے دعوے دار تھے اور نصاریٰ ان کے نصرانی ہونے کے دعوے دار تھے
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے دعوے کو رد کرتے ہوئے فرمایا :
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ جب کہ تورات اور انجیل تو نازل ہی اس کے بعد کی گئی ہیں، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔
آل عمران : 65
یعنی ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ موسیٰ علیہ السلام سے ہزاروں برس پہلے کا ہے، یہ تورات و انجیل ان کے بہت بعد نازل ہوئیں تو وہ یہودی یا نصرانی کیسے ہوئے؟
*ابراهيم علیہ السلام مشرکین مکہ کے دین پر بھی نہیں تھے*
مشرکین عرب بت پرستی میں مبتلا تھے اور اس غلط عقیدے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم ہونے کے دعوے دار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اور مشرکوں سے نہ تھا
الأنعام : 161
اس میں مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ کی تردید ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمھارا دعویٰ غلط ہے، تمھاری اور ان کی کیا نسبت! تم مشرک اور ابراہیم علیہ السلام شرک سے بے زار اور ایک ﷲ کی طرف ہو چکنے والے۔ ان کا دین تو سچا، سیدھا اور نہایت مضبوط دین اسلام تھا، جسے ﷲ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے پسند فرمایا اور جس کی ہدایت میرے رب نے مجھے عطا فرمائی۔
*یوسف علیہ السلام جیل میں دینِ ابراہیمی کی تبلیغ کرتے ہیں*
یوسف علیہ السلام جب جیل میں گئے تھے تب آپ کے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے ایک دن ان دونوں کو خواب آیا تو دونوں نے یوسف علیہ السلام سے خواب کی تعبیر پوچھی آپ نے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے انہیں جس چیز کی دعوت دی وہ دین ابراہیم ہی تھا
فرمانے لگے :
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی ہے، ہمارے لیے ممکن ہی نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کے فضل سے ہے اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
يوسف : 38
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اے قید خانے کے دو ساتھیو! کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے؟
يوسف : 39
مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند ناموں کی، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
يوسف : 40
گویا یوسف علیہ السلام کی زبانی دین ابراہیم کا حاصل یہ ہے کہ کسی صورت اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کریں، خواہ وہ آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت پری، بت ہو یا قبر، پتھر ہو یا درخت، چاند سورج ہوں یا ستارے، غرض کسی کو بھی ہر گز اللہ کا شریک نہ بنائیں۔
*اصلی ابراہیمی کون لوگ ہیں*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور اللہ ہی ایمان والوں کا دوست ہے۔
آل عمران : 68
*اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا*
فرمایا :
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر، جو ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔
النحل : 123
*امت محمدیہ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم ہے*
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
کہہ دے اللہ نے سچ فرمایا، سو تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو، جو ایک طرف کا تھا اور وہ شرک کرنے والوں سے نہ تھا۔
آل عمران : 95
اور فرمایا :
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
اور انھوں نے کہا یہودی ہو جائو، یا نصرانی ہدایت پا جائو گے، کہہ دے بلکہ (ہم) ابراہیم کی ملت (کی پیروی کریں گے) جو ایک اللہ کا ہونے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔
البقرة : 135
