عفت و پاکدامنی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۝۲ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۝۳ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ۝۴ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۝۵ اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ۝۶ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ۝۷ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ۝۸ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ۝۹ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ۝۱۰ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱﴾ (مؤمن: 1-11)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’تحقیق وہی مومن فلاح کو پہنچ گئے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں اور لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں، اور باندیوں سے۔ کیونکہ ان میں ان پر کچھ الزام نہیں ہے۔ لیکن جو اس کے علاوہ اور کے طلبگار ہوں تو وہ یقینًا شرعی حد سے باہر نکل گئے ہیں۔ اور وہ لوگ بھی اپنی مراد کو پہنچ گئے ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی ہمیشہ حفاظت کرنے والے ہیں اور یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کی میراث پائیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں عفت کی فضیلت کا بیان ہے عفت کے معنی ہیں پاکدامنی کے یعنی حرام وزنا کاری اور بدکاری اور ہر قسم کی برائیوں سے بچتا اس کے لیے احسان کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔ عفت واحصان اور پاک بازی کو اسلامی محاسن میں شمار کیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کی بڑی مدح و تعریف کی گئی ہے
سورۃ معارج میں مسلمانوں کے جن اخلاقی اوصاف کی تعریف کی گئی ہے ان میں ایک عفت اور پاک دامنی بھی ہے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حٰفِظُوْنَ﴾ (معارج: 29)
’’اور جو اپنی شہوت کی جگہ کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
جن مسلمانوں کے لیے خدا نے اپنی بخشش اور بڑی مزدوری کا وعدہ کیا ہے ان میں وہ بھی ہیں جو عفیف اور پاک دامن ہیں۔
﴿وَالْحَافِظِينَ فُرُوْجَهُمُ وَالْحَفِظٰتِ﴾ (احزاب:35)
’’اپنی شرم گاہوں کی نگرانی کرنے والے مرد اور نگرانی کرنے والی عورتیں۔‘‘
اس عفت و پاکدامنی میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں جس طرح مرد کے لیے پاکدامن ہونا ضروری ہے اس طرح عورتوں کے لیے بھی بلکہ پاکدامنی میں عورتوں کو زیادہ مخصوص کیا گیا ہے حضرت مریم علیہا السلام کی عصمت و عفت کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِيْ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا﴾ (تحريم:12)
’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا۔‘‘
﴿وَالَّتِيْ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَحْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا﴾ (انبياء: 91)
’’اور وہ بی بی جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں روح پھونکی۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے جس پاکبازی کا ثبوت دیا اس کی گواہی خود عزیز مصر کی بیوی نے دی۔
﴿وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ﴾ (يوسف:32)
’’اور میں نے اس کو بہکانا چاہا تو وہ بچا رہا۔‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا میں نے ایسا اس لیے کیا:
﴿لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ﴾ (يوسف: 24)
’’تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور کریں، وہ بے شک ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔‘‘
اسی عصمت و عفت اور پاک بازی کو باقی رکھنے کے لئے حجاب و پردہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسب حرام، بدکاری اور بے حیائی نہ ہو اور شرم و حیا، خود داری محفوظ رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی مندرجہ ذیل آیتوں میں ان ہی باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰی لَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝۳۰ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوْبِهِنَّ ۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱﴾ (النور: 30-31)
’’(اے نبیﷺ) مومن مردوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی ہے یقینًا اللہ ان کے عملوں سے خوب واقف ہے اور (اے نبیﷺ) مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھا کریں اور اپنی زینت (سنگھار) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے حصے کے جو خود بخود عمومًا کھلا رہتا ہے اور انہیں چاہئے کہ اپنے گریبانوں (سینوں) پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت (چہرے) کو کھلا نہ رکھیں۔ مگر لوگوں کے سامنے کھلا رکھیں۔ یعنی شوہروں، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے یا بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں اور اپنی لونڈی، غلام، خدمت گار، یا وہ مرد جو عورتوں کے مطلب کے نہیں رہے یا نابالغ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے ہیں اور ان عورتوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ چلتے وقت اپنے پاؤں کو زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں جس سے پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے اور ایمان والو! اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے غض بصر، حفاظت فروج، تزکیہ نفوس کا حکم تمام مردوں اور عورتوں کو دیا ہے۔ پہلے جملے میں غض بصر کا حکم دیا تو اس کے ساتھ ہی دوسرے فقرے میں اس کی حکمت، حفاظت فروج اور تزکیہ نفس بتایا اور جس طرح مردوں کو نیچی نظر رکھنے کا حکم دیا۔ اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کی علت غائی حفاظت وتز کیہ نفس ہے۔ عفت و پاک دامنی کے خلاف کا نام فاحشہ ہے جس سے بچنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَاءَ سَبِيلًا﴾ (بني اسرائيل:32)
’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک یہ بڑی برائی اور برا چلن ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں قرب فاحشہ سے روکا گیا ہے اسی طرح اسباب زنا سے بھی روکا گیا ہے جیسا کہ غض بصر والی آیت میں فرمایا:
اسلام میں زانیوں کی سزا بعض حالتوں میں سو کوڑے مارنا اور بعض حالتوں میں سنگسار کرنا ہے لیکن ان کو آخرت میں جو عذاب دیا جائے گا وہ اس سے بہت سخت اور بہت زیادہ عبرت انگیز ہے ایک روحانی خواب میں رسول اللہﷺ کو بہت سے لوگوں کے اخروی عذاب کی صوتیں دکھائیں گئیں ان میں بدکاروں کے عذاب کی صورت ان کے فعل قبیح کے مشابہ ہی تھی کہ تنور کی مانند ایک سوراخ تھا جس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا حصہ کشادہ تھا اور اس کے نیچے آگ بھڑک رہی تھی اور اس میں بہت سے برہنہ مرد اور برہنہ عورتیں تھیں جب اس آگ کے شعلے بلند ہوتے تھے تو یہ معلوم ہوتا کہ یہ لوگ اس کے اندر سے نکل آئیں گے لیکن جب آگ بجھ جاتی تھی تو یہ لوگ پھر اس کے اندر چلے جاتے تھے۔[1] یہ عالم برزخ کا عذاب تھا جو قیامت تک جاری رہے گا۔
اس کے برخلاف پاک باز و پاک دامن لوگوں کے فضائل بھی نہایت مؤثر انداز میں بیان کیے گئے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب کہ خدا کے عرش کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، اللہ تعالی سات آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے لے گا جس میں ایک شخص وہ ہوگا جس کو ایک معزز اور شریف عورت نے اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔[2]
یہ تو وہ شرف ہے جو پاک بازوں کو قیامت میں حاصل ہو گا لیکن پاکبازی کی دنیاوی برکتیں بھی کچھ کم نہیں۔ ایک حدیث میں آپﷺ نے زمانہ قدیم میں تین آدمیوں کا قصہ بیان کیا ہے جو ایک ساتھ سفر کر رہے تھے کہ دفعتہ پانی برسنے لگا۔ تینوں نے پانی سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ سوء اتفاق سے پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر لڑھک آیا۔ جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب نجات کی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ اپنے اعمال صالحہ کے واسطے سے خدا سے دعا کریں چنانچہ ہر ایک نے اسی طرح دعا کی اور ان اعمال کی برکت سے پتھر رفتہ رفتہ ہٹ گیا۔ اس میں ایک آدمی کی دعا یہ تھی۔ خداوندا! میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے میں بہت محبت رکھتا تھا میں نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب تک میں نے اسے سو دینار نہ دے دیئے وہ راضی نہ ہوئی۔ میں نے سو دنیار کما کر جمع کیے اور اس کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجنائز باب (مايلي) ما قيل في الأولاد المشركين رقم الحديث: 1386۔
[2] بخاري: کتاب الاذان باب من جلس في المسجد ينتظر الصلواة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دے کر اپنی نفسانی خواہش پوری کرنی چاہی۔ لیکن اس نے کہا: خدا سے ڈرو۔ میں فورًا رک گیا۔ خداوند اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری مرضی اور چاہت حاصل کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے تو اس پتھر کو ہٹا دے۔ چنانچہ وہ پھر سرک گیا اور یہ آدمی اس سے نجات پا گیا۔ (بخاري کتاب احادیث الانبياء باب حيث للغاز)
اللہ ہم کو اور آپ کو منکر اور فخش باتوں اور کاموں سے محفوظ رکھے اور عفت و پاکدامنی کے نور سے ہمارے قلوب منور فرمائے (آمین)
(وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔