اخلاص اور نیت
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿مَنْ كَانِ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآٰخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُونَ﴾ (سورة ھود آیت 15،16)
ترجمہ: جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زنیت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال ( کا بدلہ ) یہیں پر بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ، انہوں نے جو یہاں کیا ہو گا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے ۔ سب برباد ہونے والے ہیں۔
عَن عُمَرَ بنِ الخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنه، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِى مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، فَهَجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هَجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَو اِمرَأة يَتَزَوَّجَهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب بدء الوحی، باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله، صحیح مسلم: كتاب الإمارة باب قوله ﷺ انما الاعمال بالنية)
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔
وعَن أبِي سعيد الخدري رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ الله الله وَنَحْنُ تَتذاكرُ المَسِيحَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: أَلَا أَخْبِرُكُم بِمَا هُوَ أَخْوَفَ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِن المسيح الدجال؟ قَالَ: قُلْنَا : بَلَى، فَقَالَ: الشَّرُكَ الْخَفِىُّ، أنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلَّى فَيُزَيِّنَ صَلَاتُهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ. (رواه این ماجه.)
(سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الرياء والسمعة، وحسنه الألباني في المشكاة (5333))
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور فرمایا گیا میں تمہیں مسیح دجال سے بڑھ کر اور خطر ناک چیز نہ بتاؤں جس کا مجھے تمہارے بارے میں زیادہ خوف ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں ، ضرور بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شرک خفی ہے، یعنی آدمی اپنی نماز دوسروں کو دکھلانے کے لئے خوب اچھی طرح ادا کرے۔
وعَن أبِي هُرَيرَة رَضِيَ الله عنه، قَالَ: سَمِعتُ رَسُول الله . يَقُولُ: إن أوّلَ النَّاسِ يُقضٰى يَومَ القِيَامَة عَلَيهِ ، رَجُلٌ استُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى استُشُهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِاَن يُّقَالَ: جَرِىءٌ، فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهِ حَتّٰى اُلقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ العِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِىَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَها، قَالَ: فَمَا فَعَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ العِلْمَ وَ عَلَّمْتُه وَقَرَأتُ فِيْكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَ لٰكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ العِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ وَقَرَأتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِيٌ، فَقَد قِيْلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِىَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ أَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِىَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا الْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ فَعَلْتَ ليُقَالَ هُوَ جَوادٌ، فَقَدْ قِيل ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ اُلْقِيَ فِي النَّارِ. (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الإمارة، باب من قاتل للرياء والسمعة استحق النار.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن پہلے جس شخص کا فیصلہ ہوگا وہ شہید ہوگا جب اس کو اللہ تعالی کے پاس لائیں گے تو اللہ تعالی اسے اپنی نعمت کی پہچان کرائے گا ئیں وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اس نعمت کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ بولے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کیا تو لڑا تھا اس لئے کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کیا گیا پھر حکم ہوگا اور اس گواہند ہے سنہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، دوسر او شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا، اس کو اللہ تعالی کے پاس لائیں گے تو اللہ تعالی اسے اپنی نعمت یاد دلائے گا پس وہ نعمت اسے یاد آجائے گی پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اس نعمت کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھلایا اور تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لئے علم حاصل کیا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں، پس تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا پھر حکم ہوگا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور تیسرا وہ شخص ہو گا جس کو اللہ تعالی نے سب طرح کا مال خوب دیا تھا وہ اللہ تعالی کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالی اس کو اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور اسے یاد آ جائیں گی پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو نے اس کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تو خرج کرنا پسند کرتا تھا مگر میں نے تیرے واسطے خرچ کیا اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ کتنی کہیں تو تجھے لوگوں نے دنیا میں بھی کہہ دیا پھر حکم ہوگا اور منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تشریح:
کسی بھی عبادت یا عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطوں کا پایا جانا بے حد ضروری ہے اگر ان شرطوں میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو اس کی عبادت قابل قبول نہیں ہوگی۔ پہلی شرط عبادت خالص اللہ تعالی کے لئے ہو اس میں کسی کو شریک نہ کیا گیا ہو ۔ دوسری شرط: عبادت رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔
لہذا اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنی عبادت یا کوئی بھی دینی کام صرف اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لئے کریں اور سنت رسول ﷺ کے مطابق کریں اس میں دنیاوی کوئی مقصد نہ ہو اور نہ ہی لوگوں سے داد و دہش مطلوب ہو کیونکہ اگر یہ چیز میں مطمح نظر ہوں گی تو ثواب کے بجائے گناہ ملے گا۔ اللہ تعالی ہمیں نیک نیتی کے ساتھ دینی کام و کاج کرنے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ عبادت کی قبولیت کے لئے اخلاص کا پایا جانا لازمی جزء ہے۔
٭ اسلام میں اخلاص کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ بغیر اخلاص کے کوئی عمل قابل قبول نہیں۔
٭ عمل کو صحیح شکل میں پیش کرنا اس کی قبولیت کے لئے کافی نہیں۔
٭ ہر کام میں نیت کا صیح ہونا بھی ضروری ہے۔