اخلاق ذمیمه

(1) زنا اور شراب نوشی و قمار بازی کی مذمت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَاءَ سَبِيلًا﴾ (بنی اسرائیل: 32)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ﴿لَا تَقْرَبُوا الزِّنَا﴾ کے تحت مسند احمد کے حوالہ سے یہ حدیث ہے۔[1]
جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے کیا کہہ رہا ہے آپﷺ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپﷺ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے اس نے کہا خدا کی قسم نہیں۔ یا رسول اللہﷺ! مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر سوچ کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا آپﷺ نے فرمایا: اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا آپﷺ نے فرمایا: ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنے بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتا۔ اچھا اپنی بہن کے لیے تو اسے پسند کرے گا ؟ اس نے اس طرح انکار کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسی طرح دوسرے بھی اسے اپنی بہنوں کے لئے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ تیری پھوپھی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 257،256؍5۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کرے اس نے سختی سے انکار کیا آپ نے اسی طرح کوئی اور بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے نہ چاہے گا۔ اچھا اپنی خالہ کے لیے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں۔ فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہی اس کے گناہ بخش۔ اس کے دل کو پاک کر اسے عصمت والا بنا پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا تھا۔
آپ کی حکیمانہ نصیحت ہر ایسے شخص کے لیے مفید ہے جو شخص اپنے لیے یعنی اپنی ماں بہن کے لئے اس فعل کو پسند نہیں کرتا تو دوسرے کی ماں بہن کے لیے بھی پسند نہ کرے لامحالہ وہ بدکاری سے باز آئے گا۔ بدکار لوگوں کی سزا دنیا میں سنگساری اور سو کوڑے ہیں اور آخرت میں دوزخ کی آگ ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے تنور جیسا کنواں دیکھا جسکے اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا حصہ کشادہ۔ اس میں آگ بھڑک رہی ہے اور شور و غل کی آواز آرہی ہے وہ آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر کو آ جاتے ہیں اور جب شعلے دب جاتے ہیں تو وہ نیچے چلے جاتے ہیں۔ یہ زنا کار مرد اور عورتیں ہیں جو آگ کے اس تنور میں جل رہے ہیں۔ [1]
اور آپﷺ نے فرمایا:
(إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيْمَانُ)[2]
’’جب انسان زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس سے نکل جاتا ہے۔ اگر اسی حالت میں مر گیا تو بے ایمان ہو کر مرے گا۔ اور زنا بدکاری کی وجہ سے خدا کی طرف سے بلائیں مسلط ہو جاتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِذَا ظَهَرَ الزِّنَا فِي قَرْيَةٍ فَقَدْ أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللَّهِ)[3]
’’جس بستی میں زنا کاری اور سود خوری کھلم کھلا ہونے لگے تو اس بستی میں خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے۔‘‘
شراب نوشی
اس کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے کہ نشہ آور چیز کا نام شراب ہے۔ اور شراب کا پینا نہایت ہی بری عادت ہے اس سے بہت سی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اسی لیے شریعت نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجنائز باب (ما يلي) ما قيل في أولاد مشرکین (1386)
[2] ابو داود: (357/4) كتاب السنة باب الدليل على زيادة الايمان و نقصانه۔
[3] مستدرك حاكم: كتاب البيوع باب اربي الربا عرض الرجل المسلم (37/9)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱﴾ (المائدة: 90-91)
’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت کے چڑھاوے اور پانسے گندے کام ہیں شیطان کے۔ سو تم ان سے بچتے رہو شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمہارے آپس میں شراب اور جوئے سے دشمنی ڈال دے اور تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پس کیا تم باز آتے ہو؟‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کے اسباب بھی بتا دیئے اول یہ کہ شیطان کا کام ہے دوسرا یہ کہ اس کو پی کر شرابی آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور تیسرا یہ کہ انسان کو اس کے بہت اسے ضروری کاموں سے غافل کر دیتی ہے اس دنیاوی نقصان کے ساتھ ساتھ آخرت کا نقصان سب سے بڑا ہے کیونکہ شراب کا پینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب کوئی مومن شراب پینے لگتا ہے اس وقت اس کا ایمان نکل جاتا ہے۔[1]
اور فرمایا کہ جو شراب پیتا ہوا مر جائے گا اسے جہنم میں جہنمیوں کی گندگیاں پلائی جائیں۔[2]
شرابی کی کوئی نفلی و فرضی عبادت اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔
اور جو شرابی بغیر تو بہ کے مر جائے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا۔ [3]
حدیث میں شراب پر اور شراب کے بیچنے والے پر اور پینے پلانے والے پر لعنت آئی ہے۔[4] لہذا شراب سے بچتا نہایت ضروری ہے۔
قمار بازی
جوا اور سٹے کو عربی میں قمار اور میسر کہتے ہیں۔ شراب کی طرح یہ بھی حرام ہے۔ اور گناہ کی بات ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب المظالم باب النهي بغير اذن صاحبه۔
[2] مسند احمد: 399/4۔
[3] صحیح مسلم. [4] ترمذی و ابن ماجه۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ؗ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ؕ﴾ (بقرة : 219)
’’آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدہ کی چیزیں بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔‘‘
اور سورہ مائدہ کی آیت میں جو پہلے گزر چکی ہے، شراب اور جوئے کی قطعی حرمت آ گئی ہے۔ اور اسے شیطانی کام بتایا گیا ہے۔ اس سے دین و دنیا دونوں کی تباہی وبربادی ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ جوئے اور سٹے کی کمائی حرام ہے۔
(2) چوری کی مذمت
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۳۸﴾ (المائدة: 38)
’’اور جو چور مرد ہوں یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ یہ سزا ان کی کمائی کی ہے اور یہ سزا اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ زور آور حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے چوری کی مذمت اور چوری کی سزا بیان فرمائی ہے یعنی کسی محفوظ جگہ رکھی ہوئی چیز کو بغیر مالک کی اجازت کے چھپا لینے کو چوری کہتے ہیں جو نہایت ہی کمینی اور نازیبا حرکت ہے چوری کے ذریعے جو مال حاصل کیا جاتا ہے وہ مال حرام ہے اور چور کی دنیا و آخرت میں بڑی سزا ہے۔ دنیا میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور قیامت کے روز جہنم میں چلے گا چور اور چوری کی مذمت قرآن وحدیث میں بہت ہے۔
رسول اللہ ﷺ جب کسی سے بیعت کرتے تو بہت سی ناز یہ باتوں سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ چوری سے بھی منع فرماتے۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت ﷺ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہم سے عہد کرو کہ تم شرک، چوری اور بدکاری نہ کرو گی۔ پھر آیت پڑھی جو کوئی یہ عہد پورا کرے گا تو اس کی مزدوری خدا کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی ایک کا مرتکب ہوا اور خدا نے اس کو چھپا دیا تو خدا کے ہاتھ میں ہے چاہے معاف کر دے چاہے سزا دے۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الايمان باب (ما يلى) علامة الإيمان حب الانصار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیانت بھی چوری کی ایک قسم ہے امانت کی ضد خیانت ہے۔ جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمانداری سے کام نہ لینا بدیانتی اور خیانت ہے۔ یا بغیر اجازت کے امانت میں بے جا تصرف کرنا اور مطالبہ کے وقت ادا نہ کرنا خیانت ہے اس طرح ہر حق والے کے حق کو ادا نہ کرنا خیانت ہے دوستی کا حق پورا نہ کرنا بھی خیانت ہے۔ میاں اپنی بیوی کے حق ادا نہ کرے یا بیوی اپنے میاں کے حق کو ادا کرے، یہ بھی خیانت ہے۔ خیانت۔ دل، زبان، ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ سے بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
﴿اللَّهُ يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ﴾ (المؤمن:19)
’’اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کاری کو اور جس کو سینے چھپائے ہوئے ہیں۔‘‘
خیانت کی مذمت قرآن وحدیث میں بہت آئی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷﴾ (انفال:27)
’’اے ایمان والو! اللہ، رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو‘‘
اللہ ورسول کی خیانت یہ ہے کہ ان کی جان کر نافرمانی کی جائے اور پوری پوری امانت داری و دیانت داری سے ان کے احکام کی تعمیل و تکمیل نہ کی جائے ان کے دشمنوں کو پوشیدہ طور پر امداد پہنچائی جائے اور آپس کی امانتوں میں خیانت یہ ہے کہ جو کسی کی چیز امانت رکھی ہو اس میں بے جا تصرف کر دے اور راز و نیاز کی باتیں دوسروں کو بتا دے بدیانتی منافقین کی نشانی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اٰيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ وَإِن صَامَ وَصَلَّى و وَزَعَمَ اَنَّهُ مُسْلِمٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ)[1]
’’منافق کی نشانیاں تین ہیں گو وہ روز رکھتا ہو۔ نماز پڑھتا ہو۔ اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ جب بات کہے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے خلاف کرے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ خدا کی راہ میں شہید ہو جانا ہر گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے مگر امانت میں خیانت کرنے کا گناہ معاف نہیں ہوتا ہے قیامت کے دن بندے کو لایا جائے گا اگرچہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الایمان باب علامة المنافق، و مسلم کتاب الایمان باب بيان خصال المنافق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خدا کی راہ میں شہید ہوا ہے اور اس بددیانت سے کہا جائے گا۔
(اَدِّ اَمَانَتَكَ) ’’تو اپنی امانت لا کر ادا کر‘‘
وہ گنہگار کہے گا۔
(أَيْ رَبِّ كَيْفَ وَقَدْ ذَهَبَتِ الدُّنْيَا)
’’اب وہ کیسے اور کہاں سے لاؤں دنیا تو ختم ہو چکی ہے۔“
تو اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو دوزخ کے طبقہ ہاویہ میں لے جاؤ وہاں امانت کی چیز اصل صورت میں سامنے آئے گی تو وہ اس کو دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کا پیچھا کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ اسے پا لے گا اور اس کو اپنے کندھوں پر لاد کر چلے گا جب وہ دوزخ سے باہر لکھنا چاہے گا تو وہ بوجھ اس کے کندھوں سے گر پڑے گا اور اس کے پیچھے ہمیشہ گرتا جائے گا۔‘‘[1]
بد دیانتی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ)[2]
’’جب امانت ضائع کر دی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنا چاہئے۔‘‘
کہ وہ قریب آ گئی ہے۔ کسی نے کہا امانت کسی طرح ضائع ہو گی آپﷺ نے فرمایا:
(إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا)[3]
’’جب کہ حکومت نا اہل لوگوں کے حوالے کر دی جائے جو کہ رعایا کے حق امانت کو ادا نہ کرے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے اچھا میرا زمانہ ہے پھر وہ زمانہ ہے جو اس کے بعد آئے گا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا – (يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُون)[4]
’’ کہ لوگ بغیر گواہ بنائے گواہی دیں گی اور امانتوں میں خیانت کریں گی اور امانت دار نہیں بنیں گے اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے۔ اور ان میں موٹا پن خوب ظاہر ہو گا۔ آخرت سے غافل ہوں گے اس بے فکری کی وجہ سے خوب فربہ ہوں گے۔‘‘
نبی کریمﷺ جن بری باتوں سے پناہ مانگا کرتے تھے ان میں سے ایک خیانت بھی ہے۔
آپ کی دعا یہ ہے:
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْجُوْعِ فَإِنَّهَا بِئْسَ الضَّجِيْعُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخَيَانَةِ فَإِنَّهَا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن کثیر: 515/1. [2]،[3] بخاري: كتاب العلم من سئل علما و هو مشتغل في حديثه
[4] بخاري: کتاب فضائل اصحاب النبي باب فضائل اصحاب النبي ﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ)
’’الہی بھوک اور فاقہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین ہمنشین ہے اور خیانت سے بچا کیونکہ وہ بہت ہی برا رفیق ہے۔‘‘
چھپا کر لینا
جو سامان اور اسباب مختلف لوگوں کے درمیان ابھی تک مشترک ہے اور وہ الگ الگ تقسیم نہیں ہوا اس میں سے کوئی چیز دوسرے شریکوں سے چھپا کر بغیر ان کی اجازت کے لینے کو غلول کہتے ہیں یہ بھی خیانت اور بدیانتی اور ایک قسم کی چوری ہے اس کی بھی سخت سزا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا۔
﴿ وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۱۶۱﴾ (ال عمران: 161)
’’ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہو گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا اور اس پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘
بخاري و مسلم میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا۔ جسے ابن لتبیہ کہتے تھے جب وہ زکوۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے۔ نبی کریمﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں کہ یہ تمہارا ہے اور یہ ہمارے تحفہ کا۔ یا اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میں سے کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے گا وہ قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا۔ اونٹ ہے تو چلا رہا ہوگا۔ گائے ہے تو بول رہی ہوگی، بکری ہے تو چیخ رہی ہوگی پھر آپ نے اپنے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہم لوگوں کو نظر آنے لگی۔ تین مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا خدایا کیا میں نے پہنچا دیا؟
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی بھی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہوگا یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے۔ حضور! میں تو عامل بنے سے دست بردار ہوتا ہوں۔ فرمایا کیوں؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اب بھی سنو جس کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الصلوة باب في الاستعاذة (567/1)
[2] بخاري: كتاب الاحكام باب هدايا العمال- مسلم كتاب الأمارة باب تحريم هدايا العمال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہیے کہ سب کچھ لائے۔ جو اسے دیا جائے۔ دو لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے۔[1]
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبد الاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریبا مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی۔ ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے۔ بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے۔ تف ہے۔ میں سمجھا آپﷺ مجھے فرما رہے ہیں۔ چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا حضور! آپ کے اس فرمان کی وجہ سے میں رک گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں نے تجھے نہیں کہا۔ بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے میں نے اسے فلاں قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا۔ اس نے ایک چادر لے لی۔ وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے۔[2]
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لے کر فرمانے لگے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جتنا تمہارا ہے۔ خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیام کے دن ہوگی۔ سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی۔ خدا کی راہ میں جہاد کرو۔ نزدیک والوں سے اور دور والوں سے بھی۔ وطن میں بھی اور سفر میں بھی۔ جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ جہاد کی وجہ سے اللہ تعالی مشکلات اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے۔ خدا کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو۔ خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں نہ روکے۔[3]
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا ابو مسعود! جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو۔ جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہے میں نے کہا حضور! پھر تو میں نہیں جاتا۔ آپﷺ نے فرمایا: اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں۔[4]
مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آئے اور کہنے لگے فلاں آدمی شہید ہے۔ جب ایک آدمی کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرگز نہیں۔ میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپﷺ نے فرمایا: اے عمر بن خطاب! تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے۔[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإمارة باب تحريم هدايا العمال۔ [2] مسند احمد: 392/9۔
[3] مسند احمد: 330/5، [4] ابو داود: كتاب الخراج و الفئ والإمارة باب في غلول الصدقة95/3۔
[5] مسلم: کتاب الایمان باب غلط تحريم الغلول و انه لا يدخل الجنة إلا المومنون (74/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غصب
دوسرے شخص کے حق کو زبر دستی ظلماً چھین کر اپنا لینے کو غصب کہتے ہیں جیسے دوسرے کی زمین اور مکان و جائیداد پر ظلمًا قبضہ کر کے اپنا سمجھ لینا دوسرے کے کپڑے کتاب وغیرہ پر ناجائز تصرف کرنا یہ غصب ہے جو کہ بڑا بھاری ظلم ہے اور سخت حرام ہے اور اس غصب و ظلم کی آمدنی بھی حرام ہے اور لوگوں کی دعا اور عبادت بغیر ادائے حقوق کے قبول نہیں ہوتی۔ زمین وغیرہ کے غصب کرنے والے کے لیے بڑی بڑی سزائیں ہیں اس کو زمین میں دھنسا دیا جائے اور قیامت کے دن ان زمینوں کا گلے میں طوق و ہار ڈالے ہوئے میدان حشر میں آئے گا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(1) ((مَنْ أَخَدٌ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ)[1]
’’جس نے کسی کی ایک بالشت زمین ناجائز دبائی ہے تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق ڈالے ہوئے اٹھے گا۔‘‘
(2) (مَنْ أَخَذَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقَّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ اَرْضِيْنَ)[2]
’’جس نے کسی کو کچھ زمین ناحق دبائی ہے تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔‘‘
(3) (مَنْ أَخَذَ أَرْضًا بِغَيْرِ حَقَّهَا كُلَّفَ أَنْ يَحْمِلَ تُرَابَهَا إِلَى الْحَشْرِ)[3]
’’جس نے ظلم کسی کی زمین چھین لی تو اسے اس بات کی تکلیف دی جائے گی کہ اس کی مٹی (کھود کر) میدان حشر میں لائے۔‘‘
(4) (أَيْمَا رَجُلٍ ظَلَمَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ كَلَّفَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ أَنْ يَحْفِرَهُ حَتَّى يَبْلُغَ اٰخِرَسَبْعِ أَرْضِينَ ثُمَّ يُطَوِّقُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقْضٰى بَيْنَ النَّاسِ)[4]
’’جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالی اسے اس بات کی تکلیف دے گی کہ ساتوں زمینوں تک کھودے پھر ان کا ہار بنا کر قیامت کے دن اٹھائے گا یہاں تک کہ لوگوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب بدء الخلق باب ما جاء في سبع أرضين۔ و مسلم كتاب المساقاة باب تحريم الظلم و غضب الأرض۔
[2] بخاري: کتاب بدء الخلق باب ما جاء في سبع أرضين۔ [3] مسند احمد: 173/1۔
[4] مسند احمد: 173/1۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔‘‘
مختصر یہ کہ چوری غصب و خیانت سے دور ہی رہنا چاہئے۔ یہ بڑی ہی خوفناک اور مہلک بیماریاں ہیں جو ایمان اور نیک اعمال کو برباد کر دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔