ایمان اور عمل کا باہمی تعلق

ایمان اور عمل کا باہمی تعلق

﴿فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۝﴾ (الكهف:110)
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں اور اللہ تعالی کی نوازشوں کا مہینہ ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے، آج اس مبارک مہینے کا آخری جمعہ المبارک ہے ۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ یہ مبارک ایام کتنی تیزی سے گزرے ہیں۔ یہ تو خیر چند دن تھے جو جلدی سے گزرتے ہوئے محسوس ہوئے، حقیقت میں انسان کی پوری زندگی بھی ایسے ہی گزرتی ہے، بظاہر ایسے لگتا ہے کہ سال گزرتے ہوئے ایک لمبا وقت لگتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بھی اسی تیزی کے ساتھ گزرتا ہے، کیونکہ مہینہ گزرنے کا حساب ہم منٹوں، گھنٹوں، دنوں اور ہفتوں کے گزرنے کے ساتھ لگاتے ہیں، چنانچہ سال بھی دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے گزرنے کے ساتھ گزرتا چلا جاتا ہے اور دنوں اور ہفتوں کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
انسان کی زندگی بڑے غیر محسوس انداز سے مگر تیزی کے ساتھ گزرتی ہے۔ ساتھ ستر سال کا عرصہ تو جو کہ انسان کی اوسط عمر ہے، لگتا ہے پلک جھپکتے ہی گزر گیا ہو۔
جاننے کی بات یہ ہے کہ وقت تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ تو وقت تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ جب انسان کسی کام میں ذوق و شوق اور جوش و جذبے کے ساتھ مگن اور مجھ ہوتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے تو وقت تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ کام جس میں وہ مگن ہو اچھا ہو یا برا، دونوں صورتوں میں وقت تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
لیکن آدمی کو اگر کسی کام میں تکلیف، مشقت اور پریشانی کا سامنا ہو تو پھر لگتا ہے جیسے وقت ایک جگہ رک سا گیا ہے، البتہ وقت کے تیزی کے ساتھ گزرنے کے بارے میں جو حدیث میں آتا ہے کہ: ((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ)) ’’قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ وقت قریب آجائے گا، (سکڑ جائے گا )۔‘‘
((فتكون السنة كالشهر ، ويكون الشهر كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الجمعة كاليوم، ويكونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ وَتَكُونُ السَّاعَةُ كإحتراق السَّعَفَة)) (ابن ماجة:6842)
’’پس سال مہینے کی طرح مہینہ ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح اور دن ایک پہر یا گھٹے کی طرح اور گھنٹہ کھجور کے سوکھے پتے کے جلنے کے وقت کی طرح ہوگا۔‘‘
تو حدیث میں وقت نزدیک آنے سکڑنے یا تیزی سے گزرنے کا جو ذکر ہے تو اس کے دو مطلب ہیں: ایک حسی اور ایک معنوی۔
اس کا معنوی مطلب ہے برکت کا اٹھ جانا، یعنی وقت میں برکت نہیں رہے گی ، مطلب یہ کہ پورے دن میں بس اتنا استفادہ ہو سکے گا جتنا ایک گھنٹے میں کیا جاسکتا ہے، اور وقت قریب آنے کا ایک معنوی مطلب یہ بھی ہے کہ ایسے وسائل دستیاب ہوں گے کہ جو کام کو آسمان کردیں گے یا مسافت سمت جائے گی، یعنی جو مسافت پورے دن میں طے ہوئی تھی وہ چند گھنٹوں میں طے ہونے لگے گی۔
اور وقت کے قریب آنے کا دوسرا مطلب حسی ہے کہ واقعتا ایسا ہوگا اور محسوس کیا جاسکے گا کہ پورا دن ایسی تیزی سے گزرے گا جیسے ایک گھنٹہ گزرتا ہے اور ایسا وقت ابھی نہیں آیا، قیامت کے قریب ایسا وقت آنے کی پیشین گوئی ہے، بلکہ دجال کے معاملے میں تو اس کے بر عکس بھی ہوگا کہ ایک دن اتنا طویل ہو گا کہ سال کے برابر ہو جائے گا۔ تاہم وقت تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے، شاید ہم اس کے معنوی مطلب کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اور جب صورت حال ایسی ہو کہ وقت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہو، یا اس سے برکت اٹھ گئی ہو تو پھر عمل میں سستی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، اور ویسے بھی عمل میں جلدی کرنے کی یہ کوئی ایک ہی وجہ نہیں، بلکہ بہت سی وجوہات ہیں جن کی بناء پر عمل میں جلدی کرنا لازم بھی ہے اور آدمی کی عقلمندی کی علامت بھی ہے۔ مثال: ایک حدیث میں ہے: آپ ﷺنے فرمایا ((بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا)) ’’سات چیزیں حائل ہونے سے پہلے پہلے عمل کر لو۔‘‘
اور پھر ان سات چیزوں کا ذکر اس انداز میں فرمایا کہ گویا اگر وہ جلدی نہیں کریں گے تو پھر ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ عمل کرنا ممکن ہی نہ رہے چنانچہ فرمایا:
((هَلْ تَنتَظِرُونَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِيَا))
’’کیا تم فقر و فاقے کا انتظار کر رہے ہو جو بھلا دینے والا ہو۔‘‘
یعنی آدمی جب غریب ہو، تنگ دست و محتاج ہو، مفلس و نادار ہو تو اللہ کا ذکر اور اس کی یاد بھول جاتا ہے، جس کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہو، پہننے کو نہ ہو، سر چھپانے کو نہ ہو اور بالخصوص جس کے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہوں، اس کے لئے دنیا اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے، وہ رزق کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے اور اللہ کی یاد بھول جاتا ہے، عبادت اطمینان سے اور خشوع و خضوع سے ادا نہیں کر پاتا اور پھر ایک نیک اور دیندار آدمی کے دل میں انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ اور ذوق و شوق ہوتا ہے وہ بھی مرجھا جاتا اور حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔
کچھ ایسی ہی حسرت بھری آرزو رکھنے والوں اور اپنے جذبہ نا تمام پر رنجیدہ ہونے والوں کا حال قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے:
﴿وَّ لَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ ۪﴾(التوبه:92)
’’ایسے لوگوں پر کوئی حرج نہیں اور کوئی اعتراض کی بات نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس درخواست لے کر آئے کہ آپ ان کے لئے سواری کا بندو بست کریں تا کہ وہ جہاد میں شریک ہو سکیں اور آپ نے کہا کہ میں تمہارے لئے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا۔‘‘
﴿تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ۝﴾(التوبة:92)
’’تو وہ مجبورا واپس لوٹ گئے، اور حال یہ تھا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے،‘‘ یعنی اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی قدرت نہیں رکھتے۔
تو غریب آدمی غربت کی وجہ سے نہ صرف دنیا کی نعمتوں اور سہولتوں سے محروم ہوتا ہے۔ بلکہ بہت ساری عبادات سے بھی محروم ہو جاتا ہے، جیسے: زکوۃ ، صدقات، حج ، غلام آزاد کرنا اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا وغیرہ۔ عبادات سے، اور دنیا کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو کر تو گویا وہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے اور عبادات کا حق بھی ادا نہیں کر سکتا، اس لئے خوشحالی کے ایام کو غنیمت جانو اور صالح اعمال میں جلدی کرو۔ تو دوسری بات آپ سے ہم نے بیان فرمائی ((أو غنًى مطغِيًا))
’’یا سرکشی پر آمادہ کرنے والی تو نگری کا انتظار کر رہے ہو۔‘‘
جب انسان مالدار ہوتا ہے، مالی فراوانی آتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ پھر وہ شرعی، قانونی اور اخلاقی قوانین سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھنے لگاتا ہے، خود کو ان کا پابند نہیں سمجھتا کسی کی مدد کسی کے تعاون اور کسی سے کسی قسم کی غیور کا ضرورت مند اور محتاج نہیں سمجھتا چنانچہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس بے نیازی کے نتیجے میں وہ سرکشی کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے حق عبادت کی بھی پرواہ نہیں کرتا جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝۶
اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝﴾(العلق:6۔7)
’’انسان یقینًا سرکشی کرتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ وہ بے نیاز ہو گیا ہے۔‘‘
لہذا سرکش بنا دینے والی مالی فراوانی سے پہلے پہلے نیک عمل کر لو۔
اور تیسری بات ارشاد فرمائی: ((أو مرضاً مفيداً))
’’یا ضعیف و ناتواں کر دینے والی بیماری کا انتظار کر رہے ہو۔‘‘
آدمی جب بیمار ہوتا ہے تو شدید بیماری اسے ضعیف و لاغر اور بے کار و بے بس بنا دیتی ہے، زندگی بوجھ لگنے لگتی ہے اور آدمی کو اپنے جسم کا بوجھ اٹھانا بھی دشوار ہو جاتا ہے، چنانچہ نیکی کا جذبہ اور نیکی کی ہمت بھی کم پڑ جاتی ہے اور بیماری کسی کو نہ آنے کی گارنٹی نہیں ہے اور آنے کا وقت معلوم نہیں ہے لہذا اس سے پہلے پہلے نیک عمل کر لیں۔
((أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا))
’’یا وہ بڑھا یا جو قوتوں اور صلاحیتوں کو بے کار اور بے وزن بتا دیتا ہے۔‘‘
آدمی جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر اس کی جسمانی قوت متحمل ہو جاتی ہے ۔ اس کی سوچی، اس کے افکار، اس کی یادداشت، حتی کہ اس کی گفتگو بے معنی اور مہمل ہی ہو جاتی ہے، اس کے گھر والے اس کے پاس بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہی باتیں بار بار کر رہا ہوتا ہے، مہمان آجائے تو اس سے گھر والوں کی شکایتیں کرتا ہے تو ایسی صورت میں اسے عمل کی طرف کیا توجہ ہوگی، کیا اس کا شوق اور کیا اس کی ہمت ہوگی ، لہذا اس حالت سے پہلے پہلے عمل کر لینا چاہیے۔ قرآن پاک عمر کے اس حصے کو ارذل العمر کہتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠۝﴾(النحل:70)
’’ اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے، تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ، یقینًا اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔‘‘
ارذل العمر کو پہنچنے والا شخص چاہے کتنا بڑا عالم ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، سائنسدان ہو، ایک بار پھر سے بے علم ہو جاتا ہے، وہ جو علم میں، تجربے میں، ذہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، آج اسے کچھ بھی یاد نہیں عمل کی جب بات کی جائے تو عموما لوگ کہتے ہیں کہ بس جب میں ریٹائر ہو جاؤں گا تو پھر نماز روزے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا، حالانکہ ریٹائرمنٹ کے بعد انکی عمر آنے میں بھی کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی ، تو آدمی جب ایسی کیفیت کو پہنچ جائے تو کیا عمل کا شوق ہوگا اور کیا اس کی ہمت ہوگی لہذا اس سے پہلے پہلے عمل کر لینا چاہیے۔
((أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا))
’’یا اچانک موت کے منتظر ہو؟‘‘
موت کی حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں اور موت واقع ہونے کے بعد کسی بھی قسم کے عمل کی توفیق کا حتمی طور پر ختم ہو جانا ہر انسان تسلیم کرتا ہے اور پھر موت بھی جب اچانک ہو تو دو تمام منصوبوں اور تمام امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور اچانک اموات ویسے بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، لہذا موت تک عمل کو نہیں لگانا چاہیے کیونکہ عام حالات میں جو موت آتی ہے تو وہ بھی اچانک ہی ہوتی ہے کیونکہ بتا کر نہیں آتی۔ اور فرمایا:
((أو الدَّجَّالَ ، فَشَرٌّ غَائِبٌ يُنتظر))
’’کیا دجال کی آمد کا انتظار ہے، جس کا انتظار ایک غائب شر کا انتظار ہے۔‘‘
اور دجال دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہے، جس سے ہر نبی علیہ السلام نے اللہ کی پناہ مانگی ہے، اگر عمل کو لٹکاتے لٹکانے دجال آگیا تو پھر تو آدمی کو اپنا ایمان بچانا مشکل ہوگا چہ جائیکہ وہ عبادات میں مگن ہو سکے، لہذا اس سے پہلے پہلے عمل کر لیں۔ اور آخر میں فرمایا:
((أَوِالسَّاعَةَ وَالسَّاعَةُ أَدهٰى وَأَمَرُّ)) (مستدرك حاكم 7906، ترمذي:2306، ضعفه الألباني)
’’یا قیامت کا انتظار ہے جو کہ بڑی سخت اور کڑوی مصیبت ہے۔‘‘
قیامت برپا ہونے کے بعد تو پھر عمل کرنے کا نہیں بلکہ عمل کے حساب کا وقت ہوگا اور اس سے بڑا اور مشکل وقت انسان پر کیا ہوگا لہذا عمل میں ستی کاہلی اور لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے بلکہ فوراً بجالانے کی کوشش کی جائے۔
عمل کی انسان کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ دنیا میں عمل کی حد تک تو ہم سب اس کو خوب سجھتے ہیں، مگر آخرت کے معاملے میں ہم تساہل سے کام لیتے ہیں، یا اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے اسے اللہ کی رحمت کی امید کا نام دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ صرف خواہش ہے، امید نہیں ہے امید اور خواہش میں فرق یہ ہے کہ امید عمل کی بنیادی پر ہوتی ہے، جبکہ خواہش کے ساتھ عمل نہیں ہوتا، بس صرف خواہش ہوتی ہے، امید کی مثال ایک ایسے شخص کی مثال ہے جو زمین میں ہل چلاتا ہے، بیج ہوتا ہے، آبیاری کرتا اور پھر فصل کی امید کرتا ہے اور خواہش کی مثال اس کے بر عکس ہے کہ کیا کر لیا کچھ نہیں مگر فصل کی خواہش رکھتا ہے تو امید عمل کی متقاضی ہوتی ہے، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۝﴾ (الكهف:110)
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے۔‘‘
دوسری طرف یہود و نصاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی﴾(البقرة:111)
’’ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی یا عیسائی نہ ہو۔‘‘
اللہ فرماتے ہیں: ﴿تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ؕ ﴾
’’یہ ان کی تمنا ئیں ہیں، یہ محض ان کی خواہشات ہیں۔ ‘‘
عمل کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ زندگی اور موت کا سلسلہ قائم ہیں اس لیے کیا گیا تا کہ دیکھا جائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے۔ فرمایا:
﴿ِ۟الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ﴾( الملك:2)
’’وہی جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
تو جو لوگ خواہشات پر زندگی گزارتے ہیں پھر موت کے وقت کہ جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں:
﴿فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝﴾(المنافقون:10)
’’اے میرے رب ! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ اس کی خواہش کا ذکر یوں کیا: ﴿حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۝۹۹
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ﴾(المؤمنون:99۔100)
’’جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے اس دنیا میں واپس بھیج جسے میں چھوڑ آیا ہوں تا کہ نیک اعمال کرلوں ۔‘‘
قرآن وحدیث میں عمل کی اہمیت اور اس کی ترغیب و تاکید کا بہت زیادہ ذکر کیا گیا ہے، مگر اتنی بات ذہن میں میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے عملوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ حدیث قدسی ہے، آپﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا:
((يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا علَى اتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا))
’’ اے میرے بندو! اگر تمہارے سارے پہلے اور سارے بعد والے تمہارے تمام جن اور انسان تم میں سے کسی ایک سب سے متقی شخص کے دل جیسے ہو جائیں تو یہ میری ملکیت میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرے گا۔‘‘
(( يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا على أفجرٍ قَلْبِ رَجُل وَاحِدٍ مِنكُمْ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شيئًا))
’’ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور تمام جن و انس تم میں سے کسی سب سے بڑے دل والے شخص جیسے ہو جائیں تو میرے ملک میں کسی قسم کا نقصان نہ ہوگا۔‘‘
((يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ، أَحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أَوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا))
’’اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں، میں انہیں تمہارے لئے گن گن کے رکھتا ہوں اور پھر تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔‘‘
((فمن وجد خيرا فليحمد الله عز وجل))
’’ پس جو اس میں خیر اور اچھائی پائے تو وہ اللہ عز وجل کا شکر ادا کرے، اس کی حمد و تعریف کرے۔ ‘‘
((وَمَنْ وَجَدَ غَير ذٰلِكَ فَلَا يَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ)) (مسلم:2577)
’’اور جو معاملہ اس کے برعکس پائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔‘‘
عمل کی ضرورت واہمیت کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہم اپنے اعمال کے ذریعے اللہ تعالی سے تجارت کر رہے ہوتے ہیں، اس تجارت میں ہمیں اعمال کے مقابلے میں عذاب الیم سے بچنا ہے اور جنت حاصل کرنا ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۱۰ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ۝۱۱ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۙ۝۱۲﴾ (الصف:10۔12)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بیچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ تعالی اور اس کے رسول (ﷺ) پر ، اور جہاد کرو اللہ تعالی کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ، یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ، اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے ہاتھوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گے، اور ابدی قیام کی جنتوں میں گھر تمھیں عطا فرمائے گا ، یہ ہے بڑی کامیابی ۔‘‘
تو جنت اللہ تعالی کا مال تجارت ہے اور وہ بہت مہنگا ہے۔
((أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِیَةٌ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ)) (ترمذي:2450)
’’جان لو کہ اللہ تعالی کا مال تجارت بہت قیمتی اور بہت مہنگا ہے اور جان لو کہ اللہ تعالی کا مال تجارت جنت ہے۔‘‘
﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدً﴾ (النساء:122)
’’وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، تو انھیں ہم ایسے بانوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اور اللہ تعالی کے ساتھ سودا صرف خواہشات پر طے نہیں پاتا بلکہ عمل درکار ہوتا ہے۔
﴿لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ﴾ (النسا:123)
’’انجام کارتہ تمہاری آرزؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزؤں پر۔‘‘ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………….