اسلامی بھائی چارہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [الحجرات: 10]
دین اسلام اللہ تعالیٰ کا سچا دین ہے۔ اور دنیا جہان کے تمام باہمی رشتوں سے بڑا رشتہ اسلامی اخوت اور بھائی چارہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
’’تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
یہ وہ واحد رشتہ ہے۔ جو آخرت میں بھی قائم رہے گا۔ سورۃ الزخرف میں اللہ رب العزت
ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠۝۶۷﴾ [الزخرف:67]
’’تمام دوستیاں رشتے، محبتیں تعلقات اور روابط اس دن دشمنیوں اور عداوتوں میں بدل جائیں گے۔ صرف وہ تعلق ورشتہ قائم رہے گا جو ایمان تقوی اور اسلام کی بنیاد پر ہوگا۔‘‘
یہ وہ رشتہ و بھائی چارہ ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے قرآن وسنت میں بہت ساری سورتوں میں بہت ساری ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے قولاً وفعلاً اس رشتہ و تعلق کو ایسا مضبوط کیا کہ اللہ رب العزت نے نقشہ کھینچ کے رکھ دیا:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ﴾ [الفتح: 29]
’’محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کافروں پر سخت اور آپس میں انتہائی نرم دل اور رحم دل ہیں۔‘‘
یه نقشہ رب ارض و سماء نے کھینچا۔ آپ نے انصار و مہاجرین کے درمیان ایسی اسلامی اخوت قائم کی کہ اس کی مثال آج تک دنیا میں نہیں ملتی۔
ہر دور میں کافروں اور منافقوں نے اسلامی اخوت ختم کرنے کے لیے بڑی محنتیں اور سازشیں کیں، کبھی لسانی فتنہ کھڑا کیا کبھی علاقائی فتنہ کھڑا کیا کبھی رنگ ونسل کی بنیاد پر فتنہ کھڑا کیا اور مسلمانوں کو مختلف صوبوں اور ملکوں میں بانٹ کر اسلامی اخوت کو نقصان پہنچایا۔
مسلمانوں نے کافروں کی سازشوں کا شکار ہو کر اسلامی اخوت کو ثانوی حیثیت دے دی اور مختلف بنیادوں پر گروہ بنا لیے۔ کہیں زبان کی بناء پر، کہیں وطن کی بناء پر، کہیں پیشے کی بناء پر اور کہیں دنیاوی قبیلے اور برادری کی بناء پر۔ بہرحال اللہ رب العزت کے ہاں اور رسول اللہﷺ کے نزدیک سب سے بڑی اخوت سب سے بڑی تعلق داری اسلامی اخوت اور اسلامی رشتہ ہے۔ آپﷺ نے اس اخوت کو مضبوط رکھنے کے لیے بہت کچھ فرمایا اور بہت سارے حقوق اور قواعد و ضوابط مقرر فرمائے۔ وہ سب کچھ کسی ایک خطبہ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ آج کے خطبہ میں صرف ایک انتہائی جامع حدیث بیان کرتا ہوں کہ اگر مسلم معاشرہ صرف اس ایک حدیث پر عمل کر لے پورا معاشرہ محبت و مودت کی خوشبو سے مہک اٹھے، کینے، دشمنیاں، عداوتیں اور کدورتیں ختم ہو جائیں۔ وہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے امت مسلمہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
(لَا تَحَاسَدُوا) [مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2564) و ابوداود (4882)]
’’لوگو! ایک دوسرے پر حسد نہ کرو۔‘‘
یہ اس حدیث میں بیان کردہ پہلی نصیحت ہے لو گو حسد نہ کرو۔
حسد ایک خطر ناک روحانی بیماری ہے۔ جس کے نتیجے میں لڑائیاں۔ جھگڑے فتنے اور فسادات رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے تو اللہ رب العزت نے حاسد کے شر سے بچنے کے لیے آخری دو سورتوں میں دعا سکھائی:
﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد﴾ (سورة الفلق:5]
’’(یا اللہ) میں حاسد کے حسد کے شر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسد کے نتائج کتنے خطرناک ہیں۔ آج بہت ساری گھریلو لڑائیاں معاشرتی جھگڑے بہت سارے قو می فسادات اور فتنے حسد کی بناء پر ہیں۔ آپ نے تو حسد کا خاتمہ کرنے کے لیے دعا سکھلائی کہ جب اپنے مسلمان بھائی کو نئے کپڑے پہنے دیکھیں تو پڑھیں۔
(اِلْبَسُ جَدِيدًا وَعِشْ حَمِيدًا وَمُتْ شَهِيدًا) [ابن ماجه، كتاب اللباس، باب ما يقول الرجل اذا لبس ثوب جديدا (3558)]
آج حسد نے معاشرہ تباہ کر کے رکھ دیا:
(وَلَا تَنَاجَشُوا)
یہ دوسری نصیحت ہے کاروبار اور تجارت میں ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو۔
اللہ اکبر! کتنی جامع نصیحت ہے۔ معاملات میں کاروبار میں تجارت میں دھوکا غریب اور ہیرا پھیری عداوت پیدا کرنے والی چیزیں ہیں۔ اس سے محبت ختم ہو جاتی ہے اور نفرت جنم لیتی ہے۔ کوئی شخص بھی دھوکا دینے والے ملاوٹ کرنے والے اور فراڈ کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا:
(ولا تنا جشوا)
یوں بخش کی ایک مخصوص شکل بھی ہے دھو کے سے بولی بڑھانے والی پیچ کو بیچ نجش کہتے ہیں لیکن وسیع معنی و مفہوم کے اعتبار سے دھوکا اور فراڈ کی سب قسمیں اس میں شامل ہیں۔
(وَلَا تَبَاغَضُوا) [جامع الترمذی (1927)]
’’ایک دوسرے کے خلاف بغض نہ رکھو۔‘‘
یہ تیسری نصیحت ہے یعنی آپس میں دل صاف رکھو ایک دوسرے کی سخت گوئی اور رنجش والی بات سے درگزر کرو۔ آج اسلامی معاشرے میں بغض و عناد اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ معمولی بات پر سالہا سال ناراضگی قائم رہتی ہے جبکہ آپ ﷺنے ہجرت مدینہ کے وقت سب سے پہلا خطاب یہ فرمایا: حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٍ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ) [جامع الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق، باب (2485) ابن ماجه (1334)]
’’السلام علیکم کہنے کو عام کرو۔ کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب (غافل) لوگ سوئے ہوں تم نماز پڑھو تم سلامتی سے جنت میں داخل ہو جاؤ گئے۔‘‘
اور آپ ﷺ نے بغض ختم کرنے اور محبت قائم رکھنے کے لیے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک تم (کامل) مؤمن نہیں ہو گے اور تم اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بنو گے جب تک آپس میں محبت نہیں کرو گئے اور میں تمہیں آپس میں محبت قائم کرنے کا طریقہ بتلاتا ہوں: آپس میں سلام عام کر دو۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الايمان، باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون و أن محبۃ المومنين من الإيمان (54) (93)]
آج دنیا جہان کے کسی مذہب میں باہمی الفت و محبت کے لیے سلام جیسا کلمہ موجود نہیں، کوئی نمستکار کہہ رہا ہے کوئی گڈمارنگ (Good Morning) کہہ رہا ہے، کوئی ٹاٹا بائے بائے بول رہا ہے۔
(وَلَا تَدَابَرُوا)
’’ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو۔‘‘
یہ چوتھی نصیحت ہے۔ یعنی آپس میں بول چال بند نہ کرو بائیکاٹ نہ کرو کسی سے بڑی ہی زیادہ تکلیف پہنچے تو زیادہ سے زیادہ تین دن قطع تعلق کر سکتے ہو۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أن يهجر أخاه فوق ثلاث لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ) [صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب الهجرة (6077) (6237) ومسلم (3560)]
’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات اس طرح منقطع کرے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملیں تو یہ شخص ادھر منہ پھیر لے اور وہ ادھر منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو پہلے سلام کہے گا۔‘‘
اور یہ قطع تعلقی اس قدر خطر ناک ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے عمل ہی قبول نہیں ہوتے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں کے اعمال ہفتے میں دو بار پیر اور جمعرات کے دن پیش کیے جاتے ہیں تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو مومن ہوتا ہے البتہ وہ شخص جس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:
(اُترَّكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَفِيئا)[صحیح مسلم]
’’انہیں مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں صلح کر لیں۔‘‘
(وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ)
’’کسی کے سودے پر سودا نہ کرو۔‘‘
یہ پانچویں نصیحت ہے کہ سودے پر سودا نہ کرو کیونکہ اس سے بھی معاشرے میں باہمی منافرت پھیلتی ہے اس لیے اسے حرام قرار دے دیا:
(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا) [صحيح البخاري، المظالم، باب لا يظلم المسلم (6066) (2442) و مسلم (58)]
’’اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘
یہ چھٹی نصیحت ہے۔ یہ بھی انتہائی جامع نصیحت ہے کہ بھائی بھائی بن کر زندگی بسر کرو۔ اخوت و محبت کے اسباب اختیار کرو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو اور نفرت پھیلانے والے عوامل و اسباب سے بچو۔
پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
(الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘
غور کیجئے صرف لفظ ’’بھائی‘‘ کے اندر ہی کتنی بڑی نصیحت ہے یہ لفظ ہی باہمی الفت و محبت، شفقت و مودت، نزمی و رحمت، همدردی و خیر خواہی اور لطف و مہربانی پر ابھارتا ہے۔
( لا يَظْلِمُهُ)
’’مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر ظلم نہ کرے۔‘‘
یہ ساتویں نصیحت ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ظلم وہ خطرناک گناہ ہے جس سے مظلوم کے دل میں ظالم کے خلاف نفرت کدورت اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کی خطرناکی اس قدر زیادہ ہے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
(يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تُظَالَمُوا) [صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (2577) و احمد (160/5)]
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
اور بخاری و مسلم کی روایت ہے: جناب حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يَفْلِتْهُ)) [صحيح البخاري، كتاب التفسير باب قوله: ﴿وكذٰلک أخذ ربك إذا أخذ القرى﴾، رقم: 4686 و مسلم رقم: 6581]
’’بلاشبہ اللہ پاک ظالم کو ڈھیل دیتا ہے لیکن جب اسے پکڑ لیتا ہے تو وہ بچ کر نہیں نکل سکتا۔‘‘
اور صحیح بخاری میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی کی یا کچھ اور زیادتی کی تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے آج معافی مانگ نے اس سے پہلے کہ (جب) دینار اور درہم نہ ہوں گے۔ اگر اس کے نیک اعمال ہوں گے تو اس کی زیادتی کے مطابق ان میں کمی کر دی جائے گی اور اگر اس کے نیک کام نہیں ہوں گے تو اس سے متعلقہ شخص کی برائیوں کو لے کر اس پر لاد دیا جائے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المظالم، باب من كانت له مظلمة عند الرجل الخ، رقم: 2449]
اس ظلم کے متعلق صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:
(اتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟) قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَن لَّا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ.‘‘
’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس مال ہے نہ سامان۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ کے ساتھ آئے گا (جبکہ )
قد شتم هذا، وقذف هذا واكل مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعطٰى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضٰى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ قَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ)[صحیح مسلم، كتاب: البر والصلة، باب تحريم الظلم (6579)]
’’اس نے کسی کو برا بھلا کہا ہوگا کسی پر تہمت لگائی ہوگی کسی کا مال چھینا ہوگا کسی کا خون گرایا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی اگر اس کی نیکیاں اس سے پہلے ختم ہو جائیں گی کہ اس کے ذمہ عائد حقوق کا معاوضہ بن سکیں تو ان کی غلطیاں لے کر اس پر رکھی جائیں گی پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
لیکن آج! لوٹ مار، قتل و غارت، ظلم و بر بریت کا ایسا بازار گرم ہے کہ مسلمان مسلمان پر لوٹ ڈال رہا ہے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مسلمان مسلمان کو ذلیل و رسوا کر رہا ہے جبکہ یہ ظلم اس قدر خطر ناک گناہ ہے۔
(وَلَا يَخْذُلُهُ)
’’مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو بے یارو مددگار نہ چھوڑے۔‘‘
یہ آٹھویں نصیحت ہے کہ جب مسلمان بھائی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنے اور اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑے مسلمان بھائی کی مدد کرنا بڑا عظیم عمل ہے:
(كَانَ اللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ) [صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن (2699) و ابوداود (4946) والترمذي (1425)]
(وَلَا يَحْقِرُهُ)
’’اور کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو حقیر نہ جائے۔‘‘
یہ نویں نصیحت ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کی تحقیر نہ کرے اسے حقارت کی نظروں سے نہ دیکھئے حقیقت ہے یہ تحقیر بہت سارے خطرناک گناہوں کی جڑ ہے غیبت چغلی، تمسخر اڑانا، گالی دینا یہ سب گناہ تحقیر کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ حقیقت ہے جس کا احترام دل میں ہو انسان اس کو گالی نہیں دیتا اس کا مذاق نہیں اڑاتا اس کی غیبت نہیں کرتا۔
اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ تحقیر کے نتیجے میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ تکبر ایسا مہلک گناہ ہے جو سب سے پہلے ابلیس نے کیا تھا:
﴿اَبٰي وَاسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ﴾ [البقرة:34]
اس نے آدم علیہ کی تحقیر کی اور اپنے آپ کو بڑا جانا۔
تکبر عزازیل را فوار کرد بزندان لعنت گرفتار کرد
اور تکبر کرنے والا:
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ) [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب تحريم الكبر و بیانه (265)]
’’جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
اور اسی حدیث کے آخر میں فرمایا: ’’آدمی کو تباہی و بربادی کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرنے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے بات کا تسلسل کاٹتے ہوئے فرمایا:
(التقوى ههنا)
’’تقوی دل میں ہے۔‘‘
یعنی تمام خوبیوں کا موجب اور برائیوں کا مانع ہے یعنی جب دل میں تقویٰ
خشیت الہی اور خوف الہی موجود ہو تو انسان اسلام کی دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلام،
درس، اخوت و مواخات کو بھی قبول کرتا ہے اور باہمی الفت و محبت کے اسلامی قواعد وضوابط کو اپناتا ہے اور اخوت و محبت کو خراب کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔
(كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ) [صحیح مسلم، البر والصلة، باب تحريم ظلم المسلم و خذلہ… (2564)]
’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون بہانا مال لوٹنا اور عزت پر ہاتھ ڈالنا حرام ہے۔‘‘
یہ اس حدیث میں دسویں اور آخری نصیحت ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کا ناحق خون بہائے باطل طریقے سے اس کا مال بٹورے اور اس کی بے عزتی کرے۔ مسلمانوں کی یہ تینوں چیزیں بڑی قیمتی ہیں:
1۔ خون
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:
(زَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ) [جامع الترمذي، كتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، رقم: 1395]
’’دنیا کا برباد ہو جانا اللہ کے ہاں نہایت معمولی ہے بہ نسبت کسی مسلمان کے قتل ہونے کے۔‘‘
بخاری و مسلم میں ہے: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جہینہ (قبیلہ) کے چند لوگوں کی طرف بھیجا چنانچہ میں ایک شخص کے پاس گیا میں نے اسے نیزہ مارنا چاہا اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ میں نے (پھر بھی) نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو سارا واقعہ کہہ سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تعجب ہے تو نے اسے قتل کر دیا حالانکہ وہ گواہی دیتا تھا کہ صرف اللہ معبود برحق ہے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس نے تو بچاؤ کے لیے ایسا کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
(فَهَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟) [صحیح البخاري، كتاب المغازی، باب بعث النبيﷺ اسامة بن زيد الخ، رقم: 4269]
’’کیا تم نے اس کے دل کو چیر کر معلوم کر لیا تھا؟۔‘‘
اور صحیحین میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أَوَّلُ مَا يُقْضٰى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ) [صحيح البخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى: (ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤهجهنم) [النساء:(93) (6864)]
’’قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خونوں کا فیصلہ ہوگا۔‘‘
اور صیح بخاری کی روایت ہے۔ ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا) [صحيح البخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى (ومن يقتل مؤمنا متعمد ا، رقم: 6863]
’’مؤمن (شخص) ہمیشہ فراخی میں رہتا ہے یعنی اس کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ جب تک وہ ناحق خون نہیں بھاتا۔
2۔ مال:
(إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللهِ بِغَيْرِ حَتَّى فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) [صحیح البخاري، كتاب فرض الخمس باب قوله تعالى (فإن لله خمسه والرسول)]
’’کئی لوگ اللہ کے مال کو ناحق بٹورتے اور کھا جاتے ہیں پس ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہے۔‘‘
غور کیجئے! رب کائنات نے ایک دوسرے کے مال کو مال اللہ اپنا مال قرار دیا ہے اور اس مال میں ناحق ہاتھ ڈالنے پر نار جہنم کی وعید سنائی ہے۔
3۔ عزت:
مسلمان کی عزت بڑی قیمتی چیز ہے اس لئے مسلمان کی بے عزتی کرنا خطرناک گناہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
[إِنَّ أَرْبَى الرِّبَا عِرضُ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ) [مستدرك حاكم، كتاب البيوع، باب أن أربى الربا (37/2)، رقم: 3118]
سود کے سب سے خطرناک درجے سے بھی خطرناک گناہ مسلمان بھائی کی بے عزتی کرنا ہے۔‘‘
جبکہ سب سے چھوٹے درجے کا سود اس قدر مہلک گناہ ہے گویا کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔[سنن ابن ماجه، كتاب التجارات باب التغليظ في الرباء رقم: 2274.]
تو سود کا سب سے بڑا درجہ کس قدر خطر ناک ہوگا۔ اور اس بڑے درجے کے برابر اس گناہ کو قرار دیا گیا ہے کہ آدمی اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی کرے۔
آج دین سے دوری کے نتیجے میں اس حدیث میں بیان کردہ اسلامی اخوت کے تمام قواعد وضوابط کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ آج حسد، بغض، قطع تعلقی دھوکہ و فراڈ ظلم، زیادتی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔
خصوصاً وہ ارباب اقتدار جن کی ذمہ داری رعایا کی جان مال اور عزت کا تحفظ ہے وہ خونخوار بھیڑیئے بنے ہوئے ہیں اوپر سے لے کر نیچے تک سب عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ وہ اسلامی سزائیں جو معاشرے میں امن قائم کرتی ہیں۔ مجرموں کا خاتمہ کرتی ہیں ان سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہہ کر مزاق اڑاتے ہیں اور اپنے اقتدار کی خاطر بے گناہ لوگوں پر الزامات لگا کر آن واحد میں سینکڑوں افراد کا خون بہاتے ہیں۔ کبھی وانا آپریشن کبھی بھگٹی آپریشن، کبھی لال مسجد آپریشن اور اس لال مسجد آپریشن نے تو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا۔
ہم یہودیوں کو کیا کہیں۔ ہم صلیبیوں پر کیا دکھ کریں۔ ہم غیروں کا کیا گلہ کریں ہمارے اپنوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اسلام کے مرکز کو شہید کر کے رکھ دیا۔
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
عالم اسلام کا سب سے بڑا نسوانی مدرسہ برباد کر کے رکھ دیا۔ اور یاد رکھیں اس قسم کی غلامانہ کاروائیوں سے اسلام ختم نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔