اِسلامی بھائی چارہ

اہم عناصر خطبہ:
01.اخوت وبھائی چارے کی اہمیت
02.مسلمانوں کے باہمی حقوق
03.باہمی تعلقات کو بگاڑنے والے امور
برادران اسلام! تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور آپس میں ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ﴾ (الحجرات49 :10)
اور مومنوں کے آپس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‎﴿٧١﴾ (التوبة9 :71)
’’مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے (مدد گار ومعاون اور) دوست ہوتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے، زکاۃ ادا کرتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیه وسلم کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ غالب، حکمتوں والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو ایک دوسرے کا مددگار ومعاون، دوست اور ہمدرد قرار دیا ہے اور وہ اپنے اسی تعلق کی بناء پر ایک دوسرے سے خیر خواہی کرتے ہوئے باہم نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، پانچ وقتی نماز جو اللہ تعالیٰ کا اہم یومیه فریضه ہے اسے مل کر ادا کرتے ہیں اور ان میں سے جو مالدار ہوتے ہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کو زکاۃ دے کر انھیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں اور ان کی باہمی اجتماعی زندگی کا اہم شعار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری ہے، وہ اللہ کے حکم پر اکٹھے ہوتے اور اللہ کے حکم پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور آپ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے والے ہر مسلمان سے محبت کرتے ہیں اور جو لوگ یہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنی اجتماعی زندگی گذارتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے مستحق ہیں۔
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مومنوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

(مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَکیٰ مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعیٰ لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی) (صحیح البخاري :6011، صحیح مسلم :2586)
’’مومنوں کی مثال ‘آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر ترس کھانے اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کیليے بخار کے ساتھ تڑپ اٹھتا ہے اور اس کی وجہ سے بیدار رہتا ہے۔‘‘
*اِسلامی بھائی چارہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا کر ان پر بہت بڑا احسان کیا اور اس احسان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خاص طور پر ذکر فرمایا اور مسلمانوں کو یہ نعمت یوں یاد دلائی:

وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٰنًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٠٣﴾ (آل عمران 3:103)
’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور (یاد کرو جب) تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمھارے ليے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مَّآ أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُۥ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‎﴿٦٣﴾ (الأنفال8: 63)
’’اس (اللہ) نے مومنوں کے دلوں میں الفت پیدا کی، اگر آپ زمین پر موجود تمام چیزیں خرچ کر ڈالتے تو پھر بھی آپ ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں محبت پیدا کر دی جو غالب اور حکمتوں والا ہے۔‘‘
اِس آیت کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ بعثت نبوی سے پہلے عرب لوگوں میں قبائلی جنگیں ہوتی تھیں جو سالہا سال تک جاری رہتی تھیں، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے، کسی قبیلے کا ایک آدمی مارا جاتا تو اس کے بدلے میں دسیوں بے گناہ لوگوں کو مار دیا جاتا۔ مدینہ منورہ میں مقیم دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان بھی اسی طرح کی جنگیں ہوتی رہتی تھیں جن میں سے ایک ’’جنگ بعاث‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
پھر جب اسلام آیا تو اِس دین کو قبول کرنے والے مختلف قبائل میں اللہ تعالیٰ نے الفت ومحبت پیدا کر دی اور سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا۔ پھر وہ لوگ جو کل تک باہم دست وگریباں تھے اب شیر وشکر ہوگئے۔ جو کل تک ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اب ایک دوسرے سے دلی محبت کرنے لگے اور جو کل تک ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اب اپنے بھائیوں کی ضرورتوں پر اپنی ضرورتوں کو قربان کرنے لگے۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا۔
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کو فتح کیا تو آپ نے مال ِغنیمت تقسیم کیا اور ان لوگوں کو دیا جن کی تالیف قلب کرنا مقصود تھا۔ پھر آپ تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی اُن کی طرح مال غنیمت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، ان سے خطاب کرنا شروع کیا اور حمد وثناء کے بعد فرمایا:

(یَا مَعْشَرَ الْأنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ؟ وَعَالَةً فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ؟ وَمُتَفَرِّقِیْنَ فَجَمَعَکُمُ اللّٰہُ بِیْ؟) (صحیح البخاري:4330،صحیح مسلم:1061)
’’اے انصار کی جماعت! کیا تم گمراہ نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے ہدایت دی؟ اور تم فقیر نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے مالدار بنا دیا؟ اور تم جدا جدا نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعے جمع کر دیا؟‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ سوالات کر رہے تھے تو انصار ہر سوال کے جواب میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کا احسان بہت بڑا ہے۔
*مسلمانوں کے باہمی حقوق
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق ہیں:
01.پہلا حق ہے ایک دوسرے سے محبت کرنا
لہٰذا ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے محبت کرنی چاہئے جس سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ) (صحیح مسلم:54)
’’تم جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا میں تمھیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو گے؟ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلا دو۔‘‘ یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو۔
نیز فرمایا:(تَصَافَحُوْا یَذْهَبِ الْغِلُّ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوْا وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ) (مؤطا إمام مالک مرسلا :1682)
’’تم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو، اِس سے تمہارے درمیان بغض اور کینہ ختم ہو جائے گا اور ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اِس سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے اور تمہارے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔‘‘
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کو سلام کہنے، مصافحہ کرنے اورہدیہ دینے سے مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت پیدا ہوتی ہے اور بغض وعداوت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
*باہمی محبت سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے
ابو ادریس الخولانی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی رضا کیليے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: واقعتا اللہ کی رضا کیليے؟ میں نے کہا: جی ہاں محض اللہ کی رضا کیليے۔ تو انھوں نے کہا: آپ کو خوشخبری ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا:

(قَالَ اللّٰہُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی: وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ) (صحیح الترغیب والترہیب :3018)
’’اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت ان لوگوں کیليے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیليے ایک دوسرے سے محبت کرتے، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کیليے اس کی بستی کی طرف روانہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کر دیا۔ چنانچہ وہ جب وہاں سے گذرا تو فرشتے نے کہا: تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا: اِس بستی میں میرا ایک بھائی ہے جس سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا: (هَلْ لَّكَ عَلَیْهِ مِنْ نِّعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟) یعنی کیا وہ تمہارا احسان مند ہے جس کی بناء پر تم اس سے ملنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، میں تو صرف اس ليے جا رہا ہوں کہ مجھے اس سے اللہ کی رضا کیليے محبت ہے۔ فرشتے نے کہا: (فَإِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْكَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّكَ کَمَا أَحْبَبْتَهُ فِیْهِ) (صحیح مسلم:2576)
یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جس طرح تو نے اس سے محض اللہ کی رضا کیليے محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی تجھ سے محبت کر لی ہے۔‘‘
*باہمی محبت سے ایمان کی لذت نصیب ہوتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْهِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ: أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُهُ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰہِ، وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْهُ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ) (صحیح البخاري:16،صحیح مسلم :43)
’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تو وہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے۔ ایک یہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو۔ دوسری یہ ہے کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو اور تیسری یہ ہے کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔‘‘
*اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنے سے روزِ قیامت اللہ کا سایہ نصیب ہوگا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی الْیَوْمَ؟ أُظِلُّهُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ) (صحیح مسلم :2566)
’’بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں! میں انھیں اپنے سائے میں جگہ دیتا ہوں جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ اورکوئی سایہ نہیں۔‘‘
نیز فرمایا: ’’سات قسم کے افراد کو اللہ تعالیٰ اپنا سایہ نصیب کرے گا جب اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا… وہ دو آدمی جنھوں نے محض اللہ کی رضا کیليے ایک دوسرے سے محبت کی، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے۔‘‘ (صحیح البخاری:660،صحیح مسلم :1031)
یاد رہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے دلی محبت کرتا ہو تو وہ اسے آگاہ کر دے کہ اسے اس سے محبت ہے، اس سے ان کے درمیان محبت تا دیر قائم رہے گی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذرا، اُس وقت آپ کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اِس آدمی سے اللہ کیليے محبت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے اِس بات کی خبر دی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اسے بتا کر آؤ، اس سے تمھارے درمیان محبت زیادہ دیر تک قائم رہے گی۔۔۔۔‘‘ (مسند احمد و ابو داؤد :5125۔ وحسنہ الألبانی)
02.ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہئے اس طرح کہ اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اس کا ساتھ دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ کَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْیَعُدْ بِهِ عَلٰی مَنْ لَّاظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ کَانَ لَهُ فَضْلٌ مِّنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِهِ عَلٰی مَنْ لَّا زَادَ لَهُ) (صحیح مسلم :1728)
’’جس آدمی کے پاس اضافی سواری ہو وہ اسے اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس کھانے پینے کی اضافی چیز ہو وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو۔‘‘
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ (راوی ٔحدیث) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری اور کھانے پینے کے سامان کے علاوہ اور بھی کئی چیزوں کا ذکر کیا یہاں تک کہ ہم نے یہ سمجھا کہ ضرورت سے زیادہ کسی بھی چیز پر ہمارا حق نہیں ہے۔
اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے کس طرح اظہار ہمدردی کرتے تھے اس کا اندازہ اس قصہ سے کر سکتے ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے) ہمارے پاس تشریف لائے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو کہ بہت مالدار تھے۔ انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے۔ تو میں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے ليے اور دوسرا آپ کیليے اور اس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: (بَارَكَ اللّٰہُ لَكَ فِیْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ) ’’اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا: (أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) (صحیح البخاري :3780 ،3781)
’’تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کر کے ہی۔‘‘
یہ اُس وقت کی بات ہے جب مسلمان ‘مسلمان کا ہمدرد تھا اور وہ ضرورت سے زیادہ چیزیں اپنے ضرورتمند بھائی کو دے دیا کرتا تھا۔ جبکہ آج حالات بدل چکے ہیں، کسی کو کسی کی فکر کم ہی ہے، ہر شخص اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کیليے ہی سوچتا ہے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیزیں گھر میں پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہیں لیکن ضرورت مند مسلمان کو نہیں دی جاتیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی پر دینار ودرہم کو ترجیح نہ دیتا تھا جبکہ آج ہمیں مسلمان بھائی کی نسبت دینار ودرہم زیادہ محبوب ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: (کَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٍ بِجَارِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُولُ: یَا رَبِّ! هَذَا أَغْلَقَ بَابَهُ دُوْنِیْ فَمَنَعَ مَعْرُوْفَهُ) (الأدب المفرد : 111۔ وحسنہ الألباني)
’’کتنے پڑوسی قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے ہونگے، ان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کے بارے میں کہے گا: اے میرے رب! اس نے میرے سامنے اپنا دروازہ بند کر کے اپنی نیکی کو روک لیا تھا۔‘‘
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی کے گھر میں بکرے کا سر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو اس نے کہا: میرا فلاں بھائی اور اس کے بچے مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ چنانچہ اس نے وہ گوشت اس کے گھر میں بھیج دیا۔ جب وہ اِس دوسرے صحابی کے گھر میں پہنچا تو اس نے بھی وہی بات کی جو پہلے صحابی نے کی تھی اور گوشت تیسرے صحابی کے گھر میں بھیج دیا۔ اِس طرح یہ گوشت سات گھروں میں سے ہوتا ہوا پھر پہلے صحابی کے ہاں پہنچ گیا۔تب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (مستدرك حاکم ۔صححہ وافقہ الذہبي ۔ وصححہ الحافظ فی الفتح )
03.خندہ پیشانی سے ملنا
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا: (لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا، وَلَوْأَنْ تَلْقٰی أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ) (صحیح مسلم :2626)
’’تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہی ملاقات کرو۔‘‘
مسلمان بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (تَبَسُّمُكَ فِی وَجْهِ أَخِیْكَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیُكَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِی أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیْئِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِیْقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِی دَلْوِ أَخِیْكَ لَكَ صَدَقَةٌ) (الترمذي :1956۔ وصححہ الألباني)
’’تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے، راستہ بھولے ہوئے آدمی کو راستہ دکھلانا تمھارے ليے صدقہ ہے، کمزور نظر والے کو دکھلانا تمہارے ليے صدقہ ہے، راستے پر پڑے ہوئے پتھر، کانٹے اور ہڈی کو ہٹانا تمہارے ليے صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا تمھارے ليے صدقہ ہے۔‘‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں مصافحہ کرنا مغفرت کے اسباب میں سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو دو مسلمان بوقت ِملاقات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے (مصافحہ کرتے) ہیں اللہ تعالیٰ پر ان کا حق ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے اور ان کے ہاتھ الگ الگ ہونے سے قبل ان کی مغفرت کر دے۔‘‘ (أخرجہ الإمام أحمد فی المسند وقال شعیب الأرناؤط : صحیح لغیرہ)
04.ایک دوسرے سے اچھی گفتگو کرنا
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھی گفتگو کرنی چاہئے اور آپس میں ایسی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے مسلمان بھائی کے جذبات مجروح ہوں یا اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَقُولُوا۟ لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ (البقرۃ2 :83)
’’لوگوں سے اچھی باتیں کہا کرو۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُوا۟ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَٰنَ كَانَ لِلْإِنسَٰنِ عَدُوًّا مُّبِينًا ‎﴿٥٣﴾ (الاسراء17 :53)
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتو ں سے) اُن میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
یاد رہے کہ مسلمان سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اَلْکَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ صَدَقَةٌ) (صحیح البخاري :2989، صحیح مسلم : 1009)
’’پاکیزہ کلمہ صدقہ ہے‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ثَلَاثٌ یُصَفِّیْنَ لَكَ وُدَّ أَخِیْكَ: تُسَلِّمُ عَلَیْهِ إِذَا لَقِیْتَهُ، وَتُوَسِّعُ لَهُ فِی الْمَجْلِسِ، وَتَدْعُوہُ بِأَحَبِّ أَسْمَائِهِ إِلَیْهِ) (مستدرك حاکم :5870 وہو فی ضعیف الجامع للألباني :2572)
’’تین چیزوں سے تمھیں اپنے بھائی کی خالص محبت نصیب ہوگی۔ ایک یہ ہے کہ تم اسے جب بھی ملو تو اس کو سلام کہو۔ دوسری یہ ہے کہ وہ آئے تو اسے مجلس میں بیٹھنے کی جگہ دو اور تیسری یہ ہے کہ تم اسے اس نام سے پکارو جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘
05.مسلمانوں کیليے رحمدلی، نرمی اور تواضع
مسلمانوں کو ایک دوسرے کیليے رحم دل ہونا چاہئے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اللہ تعالیٰ نے یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ وہ ﴿رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ﴾ ’’آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘
اسی طرح انھیں آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا برتاؤ کرنا چاہئے سختی کا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ ﴿ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ﴾ ’’وہ اہل ایمان کیليے نرم اور کافروں پر سخت ہونگے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا: (یَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ، وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفِ، وَمَا لَا یُعْطِیْ عَلٰی مَا سِوَاہُ) (صحیح مسلم :2593) ’’اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ چیز عطا کرتا ہے جو سختی وغیرہ پر عطا نہیں کرتا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ کَانَ هَیِّنًا لَیِّنًا قَرِیْبًا حَرَّمَهُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ) (صحیح الترغیب والترہیب للألباني :1745)
’’جو آدمی آسان، نرم دل اور (مسلمانوں سے) قریب ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کو حرام کر دیا ہے۔‘‘
خاص طور پر خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مسلمانوں کو آپس میں نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کیليے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کیليے دعا کرتے ہوئے فرمایا: (رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَی، وَإِذَا اقْتَضَی) (صحیح البخاري :2076)
’’اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو خرید وفروخت کے وقت آسان ہو اور (اپنے قرض کا) تقاضا کرتے وقت درگذر کرنے والا ہو۔‘‘
ترمذی کی روایت میں (غَفَرَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ کَانَ قَبْلَکُمْ۔۔۔) کے الفاظ ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ ’’تم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کی محض اس ليے مغفرت کر دی کہ وہ لین دین میں اور (اپنے حقوق کا) مطالبہ کرتے ہوئے نہایت سہل (آسان) تھا۔‘‘ جبکہ نسائی کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب : 1742۔1743)
اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں عاجزی اور تواضع سے پیش آنا چاہئے۔فخر، بڑائی اور تکبر کے ساتھ نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ﴿وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ‎﴿٢١٥﴾ (الشعراء26 :215)
’’مومنوں میں سے جو بھی آپ کا پیروکار ہو اس سے عاجزی سے پیش آئیں۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إِنَّ اللّٰہَ أَوْحٰی إِلَیَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَا یَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ، وَلَا یَبْغِ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ) (سنن أبي داؤد:4895 ۔ وصححہ الألباني)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی شخص کسی پر نہ فخر کرے اور نہ ہی کسی پر ظلم کرے۔‘‘
تواضع اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ورفعت میں اضافہ فرماتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّالٍ، وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰہُ) (صحیح مسلم : 2588)
’’صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی، درگذر کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں یقینی اضافہ کرتا ہے اور تواضع اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلندی عطا کرتا ہے۔‘‘
06.مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ عَادَ مَرِیْضًا نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ: طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ، وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا) (سنن ابن ماجہ:1443۔ وحسنہ الألباني)
’’جو شخص مریض کی عیادت کرے تو آسمان سے ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھیں خوشحالی نصیب ہو، تمھارا چلنا بہت اچھا ہے اور تم نے جنت میں ایک گھر بنا لیا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (إِذَا عَادَ الرَّجُلُ أَخَاہُ أَوْ زَارَہُ قَالَ اللّٰہُ لَهُ: طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ، وَتَبَوَّأْتَ مَنْزِلًا فِی الْجَنَّةِ) (الأدب المفرد :345۔ وحسنہ الألباني)
’’جب ایک آدمی اپنے بھائی کی عیادت یا اس سے ملاقات کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے: تم اچھے ہو اور تمھارا چلنا بھی اچھا ہے اور تم نے جنت میں گھر بنا لیا ہے۔‘‘
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِیْ خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتّٰی یَرْجِعَ) (صحیح مسلم :2568)
’’ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کیليے جاتا ہے تو وہ واپس لوٹنے تک جنت کے میووں میں رہتا ہے۔‘‘
صرف یہی نہیں کہ مسلمان بھائی کی عیادت کرنے والے شخص کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے بلکہ ستر ہزار فرشتے دن رات اس کی مغفرت کیليے دعا کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَعُوْدُ مُسْلِمًا غَدْوَۃً إِلَّا صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتّٰی یُمْسِیَ، وَإِنْ عَادَہُ عَشِیَّةً إِلَّا صَلّٰی عَلَیْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتّٰی یُصْبِحَ، وَکَانَ لَهُ خَرِیْفٌ فِی الْجَنَّةٍ) (سنن الترمذي :969 ۔ وصححہ الألباني)
’’کوئی مسلمان جب صبح کے وقت مسلمان بھائی کی عیادت کرے تو شام ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کیليے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ شام کے وقت اس کی عیادت کرے تو صبح ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کیليے دعا کرتے رہتے ہیں اور جنت میں اس کیليے ایک باغ ہوگا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: یَا ابْنَ آدَمَ! مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ، قَالَ: یَا رَبِّ! کَیْفَ أَعُوْدُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَّهُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ؟) (صحیح مسلم :2569)
’’بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو تم نے میری عیادت بھی نہ کی؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا جبکہ آپ تو رب العالمین ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمھیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ مریض ہے، پھر تم نے اس کی عیادت نہ کی! کیا تمھیں علم نہ تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے بھی وہیں پاتا!‘‘
07.مسلمان کی خیر خواہی کرنا
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم عَلٰی إِقَامِ الصَّلاَۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ) (صحیح البخاري:1401،صحیح مسلم : 56)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ نماز ہمیشہ پڑھتا رہوں گا، زکاۃ دیتا رہوں گا اور ہر مسلمان کیليے خیر خواہی کروں گا۔‘‘
اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کیليے ہر وہ چیز پسند کرے جو اپنے ليے پسند کرتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِه) (صحیح البخاري: 13،صحیح مسلم :45)
’’تم میں سے کوئی شخص (کامل) ایمان والا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیليے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے ليے پسند کرتا ہے۔‘‘
08.ایک دوسرے سے تعاون کرنا
مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں اس سے تعاون کرے، اگر وہ پریشان ہو تو اس کا ساتھ دے اور جہاں تک ہو سکے اس کی مدد کرے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ﴾ (المائدۃ5 :2)
’’تم نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔‘‘
اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مومنوں کو ایک دیوار کی مانند قرار دیا ہے: (اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ، یَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا) (صحیح البخاري :481، صحیح مسلم :2585)
’’ایک مومن دوسرے مومن کیليے دیوار کی مانند ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔‘‘
لہٰذا ہر مومن کو دوسرے مومن سے تعاون کرتے ہوئے اسے مضبوط بنانا چاہئے اور ضرورت کے وقت اسے بے یار ومددگار نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اور جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔
ارشاد نبوی ہے: (مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ أَخِیْهِ) (صحیح مسلم :2699)
’’جو شخص کسی مومن کی دنیاوی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کرے اللہ تعالیٰ اس کی اخروی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کر دے گا اور جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس کیليے دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا اور جو آدمی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ محتاجوں کی مدد کرنے والا بھی مجاہد کی طرح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اَلسَّاعِیْ عَلَی الْأرْمَلَةِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلَ اَلصَّائِمِ النَّهَارَ) (صحیح البخاري:5353)
’’بیوہ اور مسکین کیليے کوشش کرنے والا ایسے ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہو یا جیسے رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والا ہو۔‘‘
09.مظلوموں کی مدد کرنا
مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ اگر اس پر ظلم کیا جائے تو وہ اس کا ساتھ دے اور حسبِ قدرت اس کی مدد کرے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَإِنِ ٱسْتَنصَرُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ فَعَلَيْكُمُ ٱلنَّصْرُ﴾ (الأنفال8 :72)
’’اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو ان کی مدد ضرور کرو۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُهُ وَلَا یُسْلِمُهُ، وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أَخِیْهِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِهِ۔۔۔) (صحیح البخاري :2442،صحیح مسلم :2580)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، (چنانچہ) وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظالموں کے سپرد کرتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرتا رہتا ہے۔‘‘
اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (أُنْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُوْمًا) ’’اپنے بھائی کی مدد کرتے رہا کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: مظلوم کی مدد کرنا تو ٹھیک ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تَکُفُّهُ عَنِ الظُّلْمِ فَذَاكَ نَصْرُكَ إِیَّاہُ)(صحیح البخاري :2444،والترمذي :2255(واللفظ له)۔وصححہ الألباني)
’’اسے ظلم سے روکنا اس کی مدد کرنا ہے۔‘‘
10.مستحق لوگوں کیليے سفارش کرنا
ایک مسلمان جب اپنے ایک جائز کام کیليے سفارش کا محتاج ہو تو وہ شخص اس کے حق میں سفارش ضرور کرے جو اس کی طاقت رکھتا ہو۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ﴿مَّن يَشْفَعْ شَفَٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُۥ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَٰعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُۥ كِفْلٌ مِّنْهَا﴾ (النساء4 :85)
’’جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بُری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا۔‘‘
اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی سائل آتا یا آپ سے کوئی کام طلب کیا جاتا تو آپ فرماتے:

(اِشْفَعُوْا تُؤْجَرُوْا وَیَقْضِی اللّٰہُ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّه صلي الله عليه وسلم مَا شَاءَ) (صحیح البخاري:1432، صحیح مسلم :2627)
’’سفارش کرو، تمھیں بھی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔‘‘
خاص طور پرجب لوگ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کیليے نا جائز سفارشیں کرتے ہوں اور مستحق لوگوں کا حق چھین کر غیر مستحق لوگوں کو دلواتے ہوں اور حق والے کو بغیر سفارش کے حق ملنا مشکل ہو تو ایسے میں اس کا حق دلوانے کیليے اس کے حق میں سفارش ضرور کرنی چاہئے۔
11.مسلمان کیليے غائبانہ دعا کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ یَدْعُوْ لِأخِیْهِ بِظَهْرِ الْغَیْبِ إِلَّا قَالَ الْمَلَكُ: وَلَكَ بِمِثْلٍ) (صحیح مسلم :2732)
’’کوئی بندۂ مسلمان جب اپنے بھائی کیليے اس کے پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے: اور تیرے ليے بھی وہی چیز ہو جس کا تو اپنے بھائی کیليے سوال کر رہا ہے۔‘‘
مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے اپنے داماد (صفوان) سے پوچھا کہ اس سال تمھارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے کہا: تب ہمارے ليے بھی اللہ تعالیٰ سے خیر وبھلائی کی دعا کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کی اپنے بھائی کیليے غائبانہ دعا قبول کی جاتی ہے۔ وہ جب بھی اس کیليے خیر کی دعا کرتا ہے تو اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ جس کی اس کے ساتھ ساتھ رہنے کی ڈیوٹی ہوتی ہے وہ ہر مرتبہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور وہ اس کیليے دعا کرتا ہے کہ تجھے بھی وہی چیز نصیب ہو۔‘‘ (صحیح مسلم :2733)
*مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ، وَعِیَادَۃُ الْمَرِیْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَۃِ، وَتَشْمِیْتُ الْعَاطِسِ) (صحیح البخاري :1240،صحیح مسلم :2162)
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، فوت شدہ کی نماز جنازہ پڑھنا (اور تدفین تک اس کے ساتھ رہنا۔) دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والا (جب الحمد ﷲ کہے تو) اس کو یرحمك اﷲ کہنا۔‘‘
جبکہ مسلم کی ایک روایت میں چھ حقوق کا ذکر ہے۔ ایک یہ کہ وہ جب مسلمان سے ملے تو اسے سلام کہے، دوسرا یہ کہ جب کوئی مسلمان کسی سے نصیحت طلب کرے تو وہ اسے نصیحت کرے۔ باقی چار حقوق وہی ہیں جن کا ذکر پچھلی حدیث میں کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم :2162)
*مسلمانوں کی خدمت نہایت عظیم عمل ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی اللّٰہِ أَنْفَعُهُمْ، وَأَحَبُّ الْأعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ سُرُوْرٌ تُدْخِلُهُ عَلٰی مُسْلِمٍ، أَوْ تَکْشِفُ عَنْهُ کُرْبَةً، أَوْ تَقْضِیْ عَنْهُ دَیْنًا، أَوْ تَطْرُدُ عَنْهُ جُوْعًا، وَلَأنْ أَمْشِیَ مَعَ أَخِی الْمُسْلِمِ فِیْ حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَکِفَ فِی الْمَسْجِدِ شَهْرًا، وَمَنْ کَفَّ غَضَبَهُ سَتَرَ اللّٰہُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَلَوْ شَائَ أَنْ یُّمْضِیَهُ أَمْضَاہُ مَلَأَ اللّٰہُ قَلْبَهُ رِضًی یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ مَشَی مَعَ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ فِیْ حَاجَتِه حَتّٰی یُثْبِتَهَا لَهُ أَثْبَتَ اللّٰہُ تَعَالٰی قَدَمَهُ یَوْمَ تَزِلُّ الْأقْدَامُ، وَإِنَّ سُوْءَ الْخُلُقِ لَیُفْسِدُ الْعَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَلَ) (صحیح الجامع للألباني :176)
’’لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو اور اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ خوشی ہے جو آپ کسی مسلمان تک پہنچائیں، یا اس کی کسی پریشانی کو دور کریں، یا اس کی طرف سے قرض ادا کر دیں، یا (کھانا کھلا کر) اس کی بھوک ختم کر دیں اور مسلمان بھائی کے کسی کام کیليے اس کے ساتھ چلنا مجھے مسجد میں ایک مہینہ اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے اور جو آدمی اپنے غصے پر قابو پا لے اللہ تعالیٰ اس کے عیب پر پردہ ڈل دیتا ہے اور جو آدمی غصہ پی جائے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو اس سے انتقام بھی لے سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو خوشی سے بھر دے گا اور جو آدمی اپنے بھائی کے کسی کام کیليے اس کا ساتھ دے یہاں تک کہ اس کا وہ کام پورا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھے گا جب لوگوں کے قدم پھسل رہے ہونگے اور بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کرتی ہے جیسا کہ سرکہ شہد کو خراب کرتا ہے۔‘‘
دوسرا خطبہ
برادران اسلام! اخوت وبھائی چارے کی اہمیت وضرورت اور اس کے فضائل کے علاوہ مسلمانوں کے باہمی حقوق ذکر کرنے کے بعد اب ہم اُن امور کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور جن کی بناء پر ان کے درمیان اخوت وبھائی چارے کی فضا نفرت وعداوت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اِن امور کو ذکر کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ان سے پرہیز کریں تاکہ ہمارے آپس کے تعلقات خوشگوار رہیں اور ان میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔
*برادرانہ تعلقات کو بگاڑنے والے اُمور
01.غیبت
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ﴾ (الحجرات 49:12)
’’اور تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اسے نا پسند کرو گے۔‘‘
گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ غیبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ لہٰذا جس طرح تمھیں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا نا پسند ہے اسی طرح اس کی غیبت بھی نا پسند ہونی چاہئے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ أَکَلَ لَحْمَ أَخِیْه فِی الدُّنْیَا قُرِّبَ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُقَالُ لَهُ: کُلْهُ مَیِّتًا کَمَا أَکَلْتَهُ حَیًّا، فَیَأْکُلُهُ وَیَکْلَحُ وَیَصِیْحُ) (قال الحافظ فی الفتح (الأدب۔ باب الغیبة :سندہ حسن)
’’جس آدمی نے (غیبت کر کے) اپنے بھائی کا گوشت کھایا قیامت کے روز اس کا گوشت اس کے قریب کر کے اسے کہا جائے گا: لو اسے مردہ حالت میں کھا لو جیسا کہ تم نے اس کی زندگی میں اسے کھایا تھا۔ چنانچہ وہ اسے کھائے گا اور انتہائی بد شکل ہو جائے گا اور چیخے گا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَتَدْرُونَ مَالْغِیْبَةُ؟) ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذِکْرُكَ أَخَاكَ بِمَا یَکْرَہُ) ’’تم اپنے بھائی کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرو جسے وہ نا پسند کرتا ہو۔‘‘ پوچھا گیا کہ میں اس کے بارے میں جو کچھ کہوں اگر وہ واقعتا اس میں موجود ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنْ کَانَ فِیْهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ) ’’اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جو تم کہتے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔‘‘ (صحیح مسلم :2589)
واضح رہے کہ جس آدمی کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے اس کا دفاع کرنا چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیْهِ بِالْغَیْبَةِ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ) (صحیح الجامع للألباني :6240)
’’جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا غائبانہ دفاع کرے تو اللہ پر اس کا یہ حق ہے کہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔‘‘
02.چغل خوری
مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو بگاڑنے والے امور میں سے ایک ہے چغل خوری کرنا۔ یعنی ایک آدمی کی بات سن کر دوسرے تک پہنچانا اور اُس کی بات سن کر اِس تک پہنچانا تاکہ دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوں۔اسی طرح دو بھائیوں کو، یا خاوند بیوی کو، یا کاروبار میں دو شریکوں کو، یا دو دوستوں کو، یا دو قبیلوں کو، یا دو فریقوں کو یا دو ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف برانگیختہ کرنا بھی چغل خوری میں شامل ہے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چغل خوری کرنے والے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا: (إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ وَإِنَّهُ لَکَبِیْرٌ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنْ بَوْلِه) (صحیح البخاري ۔ الجنائز :1378،صحیح مسلم ۔ الطہارۃ :292)
’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان کو یہ عذاب (ان کے خیال کے مطابق) کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گناہ بڑا ہے۔ ان میں سے ایک چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔‘‘
بلکہ اس کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
ارشاد ہے: (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ) (صحیح مسلم :105)
’’چغل خوری کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے: (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ) (صحیح البخاري :6056،صحیح مسلم :105)
03.بد ظنی اور تجسس کرنا
بد گمانی اور تجسس کرنے سے بھی مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان دونوں کاموں سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا۟ ﴾ (الحجرات49 :12)
’’اے ایمان والو! تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے اور جاسوسی نہ کیا کرو۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ، وَلَا تَحَسَّسُوْا، وَلَا تَجَسَّسُوْا …) (صحیح البخاري :6066،صحیح مسلم :2563)
’’تم بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ یہ سب سے جھوٹی بات ہے اور تم چوری چھپے کسی کی بات نہ سنا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو۔۔۔۔۔‘‘
بعض لوگ اِس تاک میں رہتے ہیں کہ انھیں کسی طرح کسی کا کوئی عیب معلوم ہو جائے۔ اس ليے وہ اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں، یا چوری چھپے اس کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں، یا اس کے خطوط پڑھتے ہیں، یا بعض دستاویزات تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اسکے بارے میں انھیں کوئی عیب معلوم ہو اور پھر وہ اس کے عیبوں کو لوگوں کے درمیان اچھال کر اس کی تذلیل کریں، یا پولیس وغیرہ کو اس کی اطلاع دے کر اسے رسوا کریں تو اس طرح کی ساری حرکات حرام ہیں اور ان سے بچنا اور اپنے بھائیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا مسلمانوں پر لازم ہے۔
04.مذاق اڑانا یا برے القاب سے پکارنا
مسلمانوں میں سے کسی کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو اس سے بہتر تصور کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑانا یا اسے برے لقب سے یاد کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے یا برے القاب کے ساتھ پکارنے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَٰبِ﴾ (الحجرات 49:11)
’’ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا لقب رکھو۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (بِحَسْبِ امْرِءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْتَقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ) (سنن الترمذي :1927۔ وصححہ الألباني)
’’کسی آدمی کے برا ہونے کیليے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
05.بغض اور حسد
کسی مسلمان سے بغض رکھنا اور اس سے حسد کرنا حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا تَحَسَّسُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا، کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا) (صحیح مسلم:2563)
’’تم ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ باہم حسد کرو۔ نہ جاسوسی کیا کرو اور نہ ہی چوری چھپے کسی کی گفتگو سنا کرو اور خریداری کے ارادے کے بغیر محض کسی چیز کی قیمت بڑھانے کیليے بولی نہ لگایا کرو کہ دوسرا آدمی دھوکہ کھا جائے اور تم سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘
نیز فرمایا:

(دَبَّ إِلَیْکُمْ دَائُ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ: اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ هِیَ الْحَالِقَةُ، لَا أَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَفَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِمَا یُثْبِتُ ذَاکُمْ لَکُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ) (سنن الترمذي:2510۔وحسنہ الألباني)
’’تمھاری طرف تم سے پہلی امتوں کی ایک بیماری چل نکلی ہے اور وہ ہے حسد اور بغض اور یہ بیماری ایسی ہے جو بالکل صفایا کر دیتی ہے، بالوں کا نہیں بلکہ دین کا۔ اللہ کی قسم! تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ تو کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتلاؤں جو تمھارے درمیان اس محبت کو دیر تک قائم رکھے گی؟ تم آپس میں سلام کو عام کر دو۔‘‘
06.قطع تعلقی کرنا
کسی مسلمان سے محض دنیاوی اغراض ومقاصد کیليے قطع تعلقی کرنا، سلام ودعا چھوڑنا اور اس سے نفرت کرنا قطعا درست نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّهْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ) (صحیح البخاري: 6065، صحیح مسلم: 2559)
’’تم ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور تم سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کیليے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ تک چھوڑ رکھے۔‘‘ یعنی نہ اس سے سلام دعا رکھے اور نہ بات چیت کرے۔
بخاری ومسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ (وَخَیْرُهُمَا الَّذِیْ یَبْدَأُ بِالسَّلَامِ)(صحیح البخاري :6077،صحیح مسلم :2560)
’’ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کہنے میں پہل کرے۔‘‘
یاد رہے کہ جو دو بھائی آپس میں قطع تعلقی کر لیتے ہیں ان کی مغفرت نہیں کی جاتی تا وقت یکہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیْسِ، فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لَا یُشْرِكُ بِاللّٰہِ شَیْئًا إِلَّا رَجُلًا کَانَتْ بَیْنَهُ وَبَیْنَ أَخِیْهِ شَحْنَائُ فَیُقَالُ: أَنْظِرُوْا هَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوْا هَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوْا هَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا) (صحیح مسلم :2565)
’’ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، پھر ہر اس آدمی کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا۔ سوائے اس آدمی کے جو اپنے بھائی سے بغض وعداوت رکھتا ہو، چنانچہ ان دونوں کے بارے میں تین مرتبہ کہا جاتا ہے: ان کو مہلت دے دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں۔‘‘
بنا بریں ہم پر واجب ہے کہ ہم مسلمانوں سے قطع تعلقی نہ کریں اور آپس کے تعلقات کو خوشگوار بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے اور مسلمانوں کے درمیان الفت ومحبت پیدا فرمائے۔ آمین