اسلامی صورت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۝۱۱۶ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ۝۱۱۷ لَّعَنَهُ اللّٰهُ ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ۝۱۱۸ وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاؕ۝۱۱۹ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْ ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲۰ اُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ؗ وَ لَا یَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِیْصًا۝۱۲۱﴾ (سورة نساء: 116 – 121)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوا جتنے گناہ ہیں جس کے لیے اسے منظور ہو گا وہ گناہ بخش دے گا اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ یہ لوگ خدائے تعالی کو چھوڑ کر صرف چند زنانی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں اور صرف شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو کہ حکم سے باہر ہے جس کو خدا تعالی نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ اطاعت کا لوں گا اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوس دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ چارپائیوں کے کان کاٹیں گے اور میں ان کو تعلیم دوں جس سے وہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا صریح نقصان میں پڑے گا شیطان ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو ہوس دلاتا ہے اور شیطان ان سے صرف جھوٹے وعدے کرتا ہے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اس سے کہیں بچنے کی راہ نہ پائیں گے‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی مذمت بیان کی ہے اور شیطانی کاموں کی بھی جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شیطان نے خدا کے سامنے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں انسانوں کو حکم دوں گا کہ وہ اللہ تعالی کی بنائی صورتوں کو بگاڑا کریں گے۔ صورت کا بگاڑنا مردوں کے حق میں یہ ہے کہ وہ ڈاڑھیاں منڈا کر اپنے چہرے کی خوش نمائی کو خراب کر ڈالیں گے کیونکہ مردوں کی سی داڑھی زینت وزیبائش ہے۔
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: (حَلْقُ الشَّعْرِ فِي حَقِّهَا مُثلَةٌ كَحَلْق اللحْيَةِ فِي حَقَ الرِّجَالِ) (هدايه)
’’عورتوں کے حق میں سر کے بال منڈانا مثلہ کرنا (یعنی ناک کان کاٹنے کی طرح بدصورتی) ہے جیسے مردوں کے بارے میں داڑھی منڈانا مثلہ ہے۔“
اور صاحب روح البیان و بحر الرائق فرماتے ہیں جیسے عورتوں کے حق میں سر کا منڈانا مثلہ ہے اور مردوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اور اس کی خوب صورتی جاتی رہتی ہے اسی طرح مردوں کے لیے داڑھی منڈانا مثلہ ہے اور عورتوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اور چہرے کی خوب صورتی جاتی رہتی ہے۔
صاحب تبیین الحقائق فرماتے ہیں:
(لا تَأخُذُ مِنَ اللَّحْيَةِ شَيْئا لانَّهُ مُثْلَةٌ)
’’اپنی داڑھی کے کسی بال کو نہ منڈوائے اور نہ تر شوائیے کیونکہ یہ مثلہ ہے۔‘‘
اور مثلہ کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ کافروں سے جہاد کرو غنیمت کا مال مت چراؤ اور مثلہ مت کرو۔‘‘[1]
جو لوگ داڑھی منڈاتے ہیں وہ مثلہ کرنے والے ہیں کیونکہ یہ سب ﴿فَلَيْغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ﴾ میں داخل ہیں اور داڑھی منڈانے سے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے مردوں کو عورتوں سے مشابہت رکھنا ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لَعَنَ رَسُولُ اللهِ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجهاد باب تأمير الامام الأمراء الخ (4522)
[2] بخاری: کتاب اللباس، باب المتسبھین بالنساء۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔‘‘
پس جب مردوں کو عورتوں کی وضع اور عورتوں کو مردوں کی وضع اختیار کرنی جائز نہیں ہے تو داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے کیونکہ مرد و عورت کے درمیان ظاہر میں فرق کرنے والی صرف داڑھی ہے اس لیے کہ دونوں کے دونوں بلوغ سے پہلے شکل وصورت میں برابر ہوتے ہیں اور اس بلوغ کے ختم ہو جانے کے بعد دونوں میں تفریق ہو جاتی ہے ایک کے چہرے پر سیاہ بالوں کی لکیر پیدا ہو جاتی ہے جس کو داڑھی کہتے ہیں اور دوسرا اس سے خالی ہوتا ہے مگر سینہ پر گوشت کے غدود ابھر آتے ہیں جن کو پستان کہا جاتا ہے۔ اور یہی دونوں چیزیں دونوں کے لیے ما بہ الامتیاز ہیں۔ یہ ایک قدرتی فلسفہ ہے جو ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کیا گیا ہے اس کا نیست و نابود کرنا قدرتی فلسفہ کے یقینًا خلاف ہوگا اور اس کو مہذب صورت میں باقی رکھنا منشاء قدرت کے بالکل موافق ہو گا، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(اللَّحْيَةٌ مِنْ تَمَامِ خَلْقِ الرِّجَالِ وَيَتَمَيَّزُ الرِّجَالُ مِنَ النِّسَاءِ فِي ظَاهِرِ الْخَلْقِ) (أحياء العلوم)
’’داڑھی مردوں کی پوری خلقت میں داخل ہے اور اس سے ظاہری صورت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان امتیاز ہے۔ اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوگی کہ داڑھی منڈانے والے اس آیت کریمہ میں داخل ہیں۔ لہٰذا داڑھی منڈانا شیطانی فعل ہے ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔ داڑھی بڑھانا فطرت میں داخل ہے اور منڈانا فطرت کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَإعْفَاءُ اللِّحَيَّة)[1]
’’دس چیزیں فطرت سے ہیں بعض ان میں سے مونچھ کا کٹانا اور داڑھی کا بڑھانا بھی ہے۔“
اور ڈاڑھی کا بڑھانا تمام نبیوں کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کا ذکر ہے۔
اور جناب رسول اللہ ﷺ کی بھی داڑھی مبارک تھی۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
(كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ شَعرِ اللحْيَةِ.)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الطهارة باب خصال الفطرة
[2] مسلم: كتاب الفضائل، باب اثبات خاتم النبوة وصفته و محله من جسده 259/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رسول اللہﷺ کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔‘‘
اور (اعْفُو اللّحٰي)) آپﷺ نے اس وقت فرمایا تھا جب کہ کفار مکہ و مشرکین عرب و مجوس واہل فارس وغیرہ داڑھی منڈاتے اور موچھیں بڑھاتے تھے تو ایسے موقعہ پر آپ نے فرمایا (اعفو اللحي وخالفو المجوس) چنانچہ شراح حدیث لکھتے ہیں۔
(فَإِنَّهُمْ يَقُصُّونَ لَحَاهُمْ وَمِنْهُمْ مَنْ كَانَ يَحْلِقُهَا وَكَانَ مِنْ عَادَةِ الْفُرْسِ قَصُّ اللحْيَةِ فَنَهَى الشَّارِعُ عَنْ ذَلِكَ) (احكام اللحى)
’’مشرکین عرب اور مجوس اور فارس وغیرہ کے بعض لوگ داڑھیاں کٹاتے تھے اور بعض لوگ منڈاتے تھے اور فارسیوں کی عادت داڑھی کٹانے کی تھی تو شریعت نے اس کٹانے اور منڈانے سے روک دیا اور بڑھانے کا حکم دیا۔“
سہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہﷺ کا خط کسری کے دربار میں پڑھا گیا تو باذان نے میر منشی بابویہ اور خر خس کے ہاتھ آپ کے خط کا جواب لکھ کر ان دونوں کو سفیر بنایا اور مدینہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بھیجا۔ بابویہ نے باذان کا خط پیش کیا۔ آپ نے خط کا مضمون معلوم کر کے ارشاد فرمایا کہ ابھی تم قیام کرو و سوچ کر جواب دیا جائے گا۔ سفیروں نے پندرہ روزہ مدینہ میں قیام کیا بعض ارباب سیر نے بیان کیا ہے کہ آپ نے جب بابویہ اور خرخسہ کے چہروں کو دیکھا تو طبع مبارک مکدر ہوگئی بابویہ اور اس کا ساتھی ایرانی رسم ورواج کے مطابق داڑھی منڈائے اور مونچھوں کو متکبرانہ انداز سے بل دیئے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ یہ متکبرانہ انداز کی تعلیم تم نے کہاں سے حاصل کی ؟ بابویہ نے عرض کیا کہ حضور ہمارے سلطان کا یہی طرز ہے اور ہم اسی لیے اس طرز کو محبوب رکھتے ہیں آپﷺ نے یہ سن کر فرمایا: (أَمَرَنِي رَبِّي بِاعْفَاءِ لِحْيَتِي وَقَصِّ شَوَارِبي) (طبقات ابن سعد)
’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ داڑھی کو بڑھاؤں اور مونچھوں کو کٹاؤں۔‘‘
اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(ذكَرَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَجُوسَ قَالَ إِنَّهُمْ يُوفِّروْنَ سِبَالَهُمُ وَيَحْلِفُونَ لُحَاهُمْ فَخَالِفُوهُمْ)[1]
’’رسول اللہﷺ نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں تم ان کا خلاف کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بيهقي: کتاب الطھارۃ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَارْخُوا اللحٰى خَالِفُوا الْمَجُوسَ)[1]
’’مونچھیں کاٹو، داڑھیاں بڑھاؤ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(خَالِفُو الْمُشْرِكِينَ احْفُو الشَّوَارِبَ وَاعْفُو اللُّحٰى)[2]
’’مشرکین کی مخالفت کرو تم مونچھوں کو کٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ ( کیونکہ مشرکین مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھی منڈاتے ہیں۔‘‘
یہ احادیث ہر اعتبار سے بتلا رہی ہیں کہ داڑھی بڑھانا ہر اعتبارت نہایت ضروری ہے ورنہ جناب رسول اللہﷺ اتنے اہتمام اور تاکید سے نہ فرماتے کہ تم داڑھی کو ضرور بڑھاؤ اس لیے کہ مجوس و مشرکین اپنی داڑھیوں کو منڈاتے ہیں تم کو چاہیے کہ تم ان کو مخالفت کرو۔
بعض حضرات داڑھی بڑھانے والوں کو ذلت و حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان سے تمسخر و استہزاء کرتے ہیں اگر یہ نظر استخفاف واستہزاء اس حیثیت سے ہے کہ وہ ایک نبی کی سنت پر عامل ہیں تو اس صورت میں ان کے ایمان کا باقی رہنا بہت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت کا اعتقاد ہے کہ شریعت کی باتوں پر استہزاء کرنے والا کافر ہے کیونکہ شریعت کی باتوں پر استہزا کرنا گویا صاحب شریعت کا استہزاء کرنا ہے۔
(وَالْإِسْهَانَةُ وَالْإِسْتِهْزَاء عَلَى الشَّرِيعَةِ كُفْرٌ) (شرح عقائد)
’’شریعت کو حقیر سمجھنا اور استہزا کرنا کفر ہے۔‘‘
اور سنت پر استہزاء کرنے سے کفر لازم آتا ہے۔
( وَالْاسُتِهْزَاء عَلَى السُّنَّةِ كُفْرٌ) (عقائد)
’’سنت کا مذاق اڑانا کفر ہے۔“
خود رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے متعلق فیصلہ فرما دیا ہے کہ۔
(سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِي یُجَابُ الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَقَالَ فِي اٰخِرِهِ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح مسلم:603۔ [2] بخاري: کتاب اللباس، باب تقليم الاظفار۔
[2] مستدرک حاکم، کتاب الایمان باب ستة لعنهم الله و كل نبي يجاب 36/1.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’چھ شخصوں پر خدا اور تمام انبیاء علیہم السلام لعنت کرتے ہیں ایک وہ جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا ہے اور وہ جو میری سنت کو استخفافاً چھوڑ دینے والا ہو۔“
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
(التَّارِک لِسُنّنِى الْمُعْرِضُ عَنْهَا بِالْكَلْيَةِ أَوْ بَعْضِهَا اسْتِخْفَافًا وَقِلَّةٍ مُبَالَاةٍ فَهُوَ كَافِرٌ وَمَلْعُونٌ وَتَارِكُهَا تَهَاوُنَّا وَ تَكَاسُلًا عَنِ اسْتِخْفَافٍ فَهُوَ عَاصٍ) (مرقاة)
’’میری سنتوں کو چھوڑ دینے والا یعنی اعراض کرنے والا تمام سے یا بعض سے اور بے پرواہی کرنے والا استخفاف سے کافر اور ملعون ہے اور جو سستی ہے استخفافا چھوڑتا ہو وہ عاصی اور گنہ گار ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(منُ رَغِبَ عَنْ سُنَنِي فَلَيْسَ مِنِّى)[1]
’’جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
علامہ ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں کہ:
(مَنْ هَزَلَ بِلَفْظِ كُفْرٍ ارْتَدَّ وَ اِنْ لَّمْ يَعْتَقِدُ وَالْإِسْتَخْفَافُ كَالْكُفْر) (فتح القدير)
’’جو کفریہ الفاظ سے مذاق کرے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے اگرچہ اس کا اعتقاد نہ ہو اور شریعت کی باتوں کو استخفاف کی نظر سے دیکھنا کفر کی طرح ہے۔‘‘
داڑھی بڑھانا سنت موکدہ بلکہ واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار ہے توضیح تلویح میں ہے کہ
(تركُ السُّنَّةِ الْمُوَكَّدَةِ قَرِيبٌ مِّنَ الْحَرَامِ وَيَسْتَحِقُّ حِرْمَانَ الشَّفَاعَةِ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَتِي فَلَيسَ مِنِّى)[2]
’’سنت مؤکدہ کا چھوڑنا حرام کے قریب ہے اور اس کا تارک آنحضورﷺ کی شفاعت سے محروم رہے گا اس لیے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس شخص نے میری سنت سے منہ پھیرا وہ مجھ سے نہیں ہے۔“
آنحضرت ﷺ کے حلیہ شریف میں مذکور ہے کہ آپ کی ریش مبارک بہت گھنی تھی اور ایسی ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی تھی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی ذرا باریک اور دراز تھی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی چوڑی تھی ساری سینہ مبارک کو بھرے ہوئے تھی۔ حضرت احنف بن قیس جو اکابر تابعین سے ہیں اور ولادت آنحضور ﷺ کے زمانہ ہی میں ہوئی تھی بڑے عاقل و برد بار تھے۔ آپ کے پاؤں میں کجی تھی اور ایک آنکھ بھی جاتی رہی تھی آپ کے خلقۃً داڑھی نہیں نکلی تھی آپ کے شاگرد نہ اس پاؤں کی کجی پر افسوس کرتے ہیں نہ یک چشمی پر بلکہ داڑھی کے نہ ہونے پر کراہت ظاہر کرتے تھے اور کہتے کاش بیس ہزار میں داڑھی ملتی تو ہم احنف بن قیس کے لیے داڑھی خرید لاتے۔
قاضی شریح جو کہ اجلہ تابعین اور ا کابر مجتہدین میں سے ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے محکمہ عدالت میں قاضی القضاۃ تھے آپ کے بھی خلقۃً داڑھی نہ تھی اور آپ اسی وجہ سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے آرزو ہے کہ اگر دس ہزار میں داڑھی ملتی تو میں ضرور خرید لیتا اور داڑھی میں بارہ باتیں ہیں جن کو لوگوں نے خلاف سنت نکالا ہے اور ایجاد کیا ہے۔
منجملہ ان بارہ خصلتوں میں ایک داڑھی کا ترشوانا اور کم کرانا بھی ہے اور داڑھی کا کٹانا مثلہ ہے یعنی صورت بگاڑنی ہے اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (احیاء العلوم)
غور کرنے کی بات ہے کہ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام اور تابعین اور اتباع تابعین نے ڈاڑھیاں رکھیں۔ منڈانا اور ترشوانا تو در کنار اگر کسی کے خلقۃً داڑھی نہ نکلی تو اس پر سخت افسوس کرتے اور اس عیب کو ہر عیب سے بدتر جانتے یہاں تک کہ علمائے امت نے داڑھی ترشوانے اور منڈوانے کو علامات قیامت سے شمار کیا ہے کہ آخر زمانہ میں قیامت کے نزدیک ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو داڑھیاں منڈائیں گے اور ترشوائیں گے چنانچہ علماء کی پیشین گوئی کے مطابق اس زمانے والوں نے داڑھیاں منڈانی شروع کر دی اور اپنی وضع و صورت و سیرت کو کافروں اور مشرکوں کی طرح بنایا اور اسوہ رسول و صحابہ کرام کو پس پشت ڈال دیا۔
داڑھی منڈانے اور ریش تراشی کی وبا کچھ ایسی عالمگیر ہوگئی کہ جس جگہ پر چلی اس کو ایسا جھلسا کہ گویا اسے دوبارہ پنپنے کا موقع نہیں رہا۔ اور جن درخشاں کلیوں پر چلی اس کو ایسا مرجھایا کہ وہ دوبارہ ترو تازہ ہی نہیں ہو سکتیں یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں صورت کی حیثیت سے کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ جب ہماری نظر دو مختلف قوموں کے چہروں پر پڑتی ہے تو ہم نہیں تمیز کر سکتے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کا چہرہ ہے یا ان کے پیاروں کا۔ کیونکہ دونوں صورتیں یکساں ہیں یہ لوگ اپنی صورت بگاڑنے میں ایسے منہمک ہیں کہ غالباً ان کے نزدیک کوئی دوسرا کام اس سے زیادہ ضروری نہیں کیونکہ جب خدا کی غیر ذی عقل مخلوق صبح سویرے اٹھ کر اس کی تقدیس و تسبیح اور تقلیل میں مصروف ہو جاتی ہے اور اپنے پیارے پیارے نغموں سے اسے مسرور کرتی ہے۔ ادھر ذی عقل انسان جو اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی ہے۔ صبح سویرے اپنے ہاتھوں میں استرا قیچی لیے اٹھتا ہے اور ان اجزاء کو جن کو قدرت نے زینت و جمال کے لیے عطا کیا تھا ایسا قتل کرنا شروع کر دنیا ہے کہ گویا ان بالوں نے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ اور اب صبح کو بے چارے اس کی سزا کے طور پر شہید کیے جا رہے ہیں اور جب بھی آگے بڑھ کر اپنے وجود سے چہرہ کو منور کرنا چاہتے ہیں تو فورا ان کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس مرض میں چھوٹے بڑے جوان بوڑھے عالم جاہل مولوی طالب علم اکثر مبتلا ہیں حالانکہ داڑھی کا بڑھانا شعائر اسلام میں سے ہے۔ جب کہ میدان جنگ میں دشمنوں کی فوجیں آپس میں گٹھ جائیں اور بے پناہ تلواریں ٹکرا کر شور محشر بپا کر رہی ہوں، اس شور و شغب اور تداخل افواج کی محشر خیزی میں صرف داڑھی ایک ایسی وردی ہے کہ اپنے اور پرائے میں امیتاز پیدا کرائے گی اگر اسی ہنگامہ آرائی میں کوئی سپاہی اپنی وردی اتار کر داڑھی منڈا کٹر دشمنوں کی وردی پہن کر بڑی بڑی مونچھیں رکھ کر یا داڑھی اور مونچھ دونوں منڈا کر اپنی ہی فوج میں آئے اور ہزار مرتبہ چلا کر اعلان کرے میں دشمن کی فوج سے نہیں ہوں پھر بھی اسی پر یہی حکم لگایا جائے گا کہ وہ دشمن ہی ہے کیونکہ
(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)[1]
’’جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ اسی قوم سے ہے۔‘‘
(مَنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ ) (الدرايه)
اور فرمایا: ’’جو کسی بری قوم کے عمل کو پسند کرے وہ اس برے عمل میں اس کا شریک ہوتا ہے۔‘‘
قیام پاکستان کے وقت میں یہ منظر سامنے آیا اس لیے جو رویہ دشمن کے ساتھ برتا جائے گا وہی اس کے ساتھ عمل میں لایا جائے گا لیکن اس حالت میں دشمن کی فوج کا سپاہی اگر اپنے حریف کی فوجی وردی پہن کر داڑھی رکھ کر آئے تو وہی بے پناہ تلواریں اس کے سر پر سایہ رحمت ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک اس کو ضرور نجات مل جائیگی جب تک اس کا نفاق آشکارا نہ ہو جائے یہ سب باتیں محض تشبیہ کی وجہ سے ہیں، اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا کہ کسی ہسپتال میں ایک لاوارث مسلمان کا انتقال ہو گیا۔ چونکہ اس کی داڑھی اور مونچھیں منڈی ہوئی تھیں۔ ہندؤں نے کہا کہ یہ ہندو ہے ہم اس کو لیجا کر مرگھٹ میں جلائیں گے۔ مسلمانوں نے کہا اس کے سر پر چوٹی نہیں ہے اس لیے یہ مسلمان ہے ہم اس کو قبرستان لے جا کر دفن کریں گے۔ اس پر ہندوں نے کہا کہ ہمارے یہاں سر پر چوٹی رکھنی ضروری نہیں ہے دیکھو ہمارے سر پر بھی چوٹی نہیں ہے ہاں داڑھی منڈوانی ضروری ہے ہم دونوں کی داڑھیاں منڈی ہوئی ہیں بہر کیف دو قوموں میں اس قسم کی گفتگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‎[1] ابوداؤد، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة: 78/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتی رہی آخر ایک عقل مند نے کہا۔ اس کی مسلمانی یعنی ختنہ کی جگہ دیکھی جائے۔ اگر مسلمانی کی ہوئی ہے تو مسلمان ہے ورنہ ہندو ہے۔ چنانچہ فتنہ کی جگہ دیکھی گئی تو وہ مسلمان نکلا۔ تب مسلمانوں نے اس لاش کو قبرستان میں دفن کیا ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ ہے کہ ہندوؤں نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا۔ مسلمانوں نے مقدمہ دائر کر دیا اور اس میں ہزاروں روپے خرچ ہوئے۔ بہت دنوں بعد فاضل جج نے فیصلہ کیا کہ مقتول تو مسلمان ہی ہے جیسا کہ ختنہ سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر چونکہ اس مقتول کی شکل ہندوانہ پوزیشن میں تھی اس لیے مسلمانوں نے ہندو سمجھ کر اسے قتل کیا ہے لہذا مسلمانوں کو اتنے دنوں کی سزا دی جاتی ہے۔
داڑھی بڑھانا فطرت سے ہے۔
فطرت کے معنی دین اور قدیم دستور کے ہیں اور خلقت اور اسلام کے بھی ہیں اور اس طریقے کے ہیں جس پر تمام شریعتیں چلی ہیں یعنی ہر ایک نبی نے اور ان کی امت نے اس پر عمل کیا ہے اور اس میں ان کا امتحان لیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ﴾ (سوره بقره: 124)
’’اور یاد کیجئے! جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو ابراہیم نے ان کو پورا کر دکھایا‘‘
یعنی اللہ تبارک و تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چند باتوں میں امتحان لیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور جن باتوں میں امتحان ہوا تھا ان میں داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا تراشنا بھی تھا۔ یعنی داڑھی بڑھانے اور مونچھ ترشوانے میں بھی ان کا امتحان لیا گیا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوئے اور وہ ان پر واجب تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ان کلمات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کلمات کے چند تفسیریں کی گئی ہیں جو تفاسیر میں مذکور ہیں ان میں سے دس سنتیں ہیں۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ان کلمات سے وہ دس خصلتیں مراد ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں فرض تھیں اور ہماری شریعت میں سنت رہ گئیں۔ پانچ سر میں ہیں اور پانچ باقی بدن میں۔ اور وہ کلی کرنا، ناک میں پانی دینا، مانگ نکالنا، مونچھ تراشنا، داڑھی بڑھانا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کیا فرماتی ہیں:
(قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللحية)[1]
’’حضور اکرم ﷺ فرمایا ہے کہ دس چیزیں فطرت سے ہیں بعض ان میں سے مونچھ کا کٹانا اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’داڑھی کا بڑھانا بھی ہے۔‘‘
اب اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی تفسیر مذکور سے ملا دیا جائے تو کلمات میں اعفاء اللحیہ اور قص الشوارب بھی داخل ہوگا۔ لہذا اس صورت میں آیت کریمہ کے یہ معنی ہوں گے کہ رب العزۃ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قص شوارب اور اعفاء للحیہ میں بھی امتحان لیا۔ اور وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو داڑھی کے بڑھانے اور مونچھ ترشوانے کا حکم دیا گیا تھا۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ :
(وَ ثَبَتْ أَنَّ هَذِهِ الْخِصَالَ أُمِرَبِهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ)[2]
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔“
اور ہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا﴾ (البقرة: 95)
’’کہ ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کی اتباع کرو۔ )
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:
﴿أُولَئِكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهُ﴾ (انعام: 90)
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے راہ دکھائی تو اے محمد! ان ہی کے طریقہ کی تم بھی پیروی کرو۔‘‘
اس آیت میں اللہ رب العزت نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء سابقین کی تابعداری اور پیروی کرو اور ان کے نقش قدم پر چلو۔ اور فطرت کے معنی سنت قدیمہ کے ہیں۔ قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:
(الْفِطْرَةُ السُّنَّةُ الْقَدِيمَةُ الَّتِي اخْتَارَهَا الْأَنْبِيَاءُ وَاتَّفَقَّتْ عَلَيْهَا الشَّرَائِعُ وَكَانَّهَا أَمْرٌ جبلیٌّ فُطِرُوا عَلَيْهَا) (فتح البارى)
’’فطرت سے سنت اور طریقہ قدیم مراد ہے جس کو تمام انبیاء علیہم السلام نے پسند فرمایا اور تمام شریعتوں کا اس پر اتفاق ہو گیا اور یہ خصال عشرہ فطرت میں داخل ہے۔ گویا ہماری خلقت اور پیدائش اسی پر واقع ہوئی اور ان امور پر عمل کرنا ہمارا فطری خلفی اور جبلی کام ہے۔“
پس معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺتک تمام انبیاء علیہم السلام کا اور ان کی امتوں کا یہی عمل تھا کہ داڑھیاں رکھتے تھے اور یہی سنت قدیمہ متواترہ متفقہ ہے اور فَبِهَدَاهُمُ اقْتَدِه سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تقریباً اٹھارہ انبیاء کا ذکر فرمایا ہے جن میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام ہیں اور یہ دونوں داڑھی رکھتے تھے اور اس کا ثبوت اس سے بھی ملاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے جانے لگے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے کو یہ وصیت کی کہ میرے بعد قوم کی خبر گیری کرتے رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ مشرک اور بت پرست بن جائیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور پر جانا تھا کہ ان کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا حضرت ہارون ع علیہ السلام نے ہزارہا سمجھایا مگر وہ نہ مانے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے واپس آ کر ان واقعات کو دیکھا تو دیکھتے ہی آپ طیش میں آگئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کے سر کے بال اور داڑھی پکڑ کر ملامت کرنی شروع کر دی چونکہ اس میں حضرت ہارون علیہ السلام کے کی ذلت تھی۔ آخر ان سے نہ رہا گیا اور فرمایا کہ:
﴿يَابْنَ اُمَّ لَا تَأْخُذُ بِلِحْيَتِى وَلَا بِرَأْسِي﴾ (طه: 94)
’’اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑئیے۔‘‘
بہر حال داڑھی کا بڑھانا نبیوں کی سنت ہے اور منڈانا تمام نبیوں کی سنت کے خلاف ہے اور جو داڑھی بڑھا کر اوپر چڑھائے یا باندھے تاکہ دکھائی نہ دے جیسے سکھ لوگ رکھ کر کسی کپڑے اور رومال سے باندھے لیتے ہیں تو اس طرح کرنا بھی شرعا حرام ہے حضرت رویفع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(قَالَ لِى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رُوَيْفِعُ لَعَلَّ الْحَيوةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِى فَاخْبرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا أَوِ اسْتَنْجِٰي بِرَجِيْعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ فَإِنَّ مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيءٌ مِّنْهُ)[1]
’’مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے رویفع! ممکن ہے کہ میرے بعد تم زیادہ دنوں تک زندہ رہوا اور تمہاری عمر لمبی ہو تو میرا یہ پیغام لوگوں کو پہنچا دو کہ جو شخص داڑھی کو باندھے یا گلے میں زنار لڑکائے یا گوبر اور ہڈی سے استنجا کرے تو محمدﷺ اس سے بیزار ہیں۔“
یعنی داڑھی رکھ کر جو اسے اوپر چڑھائے یا گرہ لگائے یا کسی کپڑے سے باندھ کر گرہ لگا کر چھپالے تو رسول اللہ ﷺ اس سے بیزار ہیں۔
غور کیجئے! کہ داڑھی باندھنے سے جب آپ اس قدر بیزار ہیں تو داڑھی منڈانے سے بدرجہ اولی بیزار ہیں ممکن ہے اسی بیزاری اور ناراضگی کی وجہ سے قیامت کے روز سفارش بھی نہ فرمائیں گے رسول کی مخالفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داؤد، کتاب الطهارة، باب ما ينهى عنه ان يستنجى به:14؍1۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی بڑی سزا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْم﴾ (سورة نور: 63)
’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ اس سے کوئی درد ناک مصیبت یا عذاب ان کو نہ پہنچے۔‘‘
اور یہ داڑھی منڈانا اسلامی طریقے کے اور مسلمانوں کے راستے کے بالکل خلاف ہے ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَنْ يَشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهٖ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (نساء: 115)
’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے وضاحت ہو جانے کے بعد بھی رسول کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا ہے اور اسے دوزخ میں ڈالیں گے۔ اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے پہنچنے کی۔‘‘
یعنی جو غیر شرعی طریقہ پر چلے شریعت ایک طرف ہو اور اس کی راہ دوسری طرف ہو۔ فرمان رسول ﷺ کچھ اور ہو اور اس کا منتہائے نظر کچھ اور ہو حالانکہ اس پر حق کھل چکا ہے۔ دلیل دیکھ لی ہو پھر بھی مخالفت رسول ﷺ کر کے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسی ٹیڑھی اور بری راہ پر اسے لگا دیتے ہیں اسے پھر وہی بری راہ اچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ جہنم میں جا پہنچتا ہے مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ ڈھونڈتا ہے یعنی دراصل وہ رسول کی مخالفت کرتا ہے ایسے لوگ قیامت کے دن بہت افسوس کریں گے اور پچھتائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷ یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹﴾ (فرقان: 27)
’’اس دن ستمگر شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول کی راہ لی ہوتی ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست بنایا نہ ہوتا اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔‘‘
یعنی قیامت کے روز رسول کا نافرمان کف افسوس ملتے ہوئے کہے گا کہ کاش میں رسول کے راستے پر چلتا اور فلاں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ ان ایرے غیروں نے نصیحت پہنچنے کے بعد مجھے افسوس گمراہ کر دیا لیکن اس وقت کے افسوس کرنے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا۔
پس میرے عزیز بزرگو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی مخالفت سے بچو ورنہ قیامت میں کف افسوس ملو گے اسلامی شکل وصورت بنانا اسلامی شعار ہے۔ اسی طرح سے اسلامی اصول کے مطابق پورے سر پر کانوں کی لو تک سر کے بال رکھنا سنت ہے رکھو تو سب رکھو اور منڈاؤ تو سب منڈ او انگریزی فیشن کو اختیار کرنا سنت کے خلاف اور تشبه باليهود و النصارى والكفار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قرع سے منع فرمایا ہے۔ یعنی سر کے بال کے کچھ حصے کٹائے جائیں یا منڈائے جائیں یا چھوڑ دئیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بال کانوں کی لو تک تھے۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(كَانَ شَعُرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نِصْفِ أَذْنَيْهِ)[1]
’’یعنی رسول اللہﷺ کے بال نصف کان تک تھے۔‘‘
اللہ تعالی ہم سب کو صورت اور سیرت کے انتہار سے پکا اور سچا مسلمان بنائے اور اسی پر ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرے۔ آمین۔
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ بَارَكَ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمُ بِالْآيَتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب الفضائل، باب صفة شعر النبي، ابو داؤد، کتاب الترجل، باب ماجاء في الشعر 131/4۔