استقامت فی الدین

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ [حم السجدة:30]
’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔‘‘
یہی مضمون سورۃ الاحقاف آیت نمبر 13-14 میں بھی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ۝۱۳ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأحقاف: 13-14]
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ مسکین ہوں گئے یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے، ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
اللہ رب العزت کے ہاں ایسا شخص کامیاب و کامران اور سعادت مند نہیں، جو جذباتی انداز میں کبھی دین کو اپنا لیتا ہے اور کبھی دین کو خیر باد کہ دیتا ہے کبھی ایمان کی لہر دوڑی تو نماز پڑھ لی اور کبھی غلبہ نفاق ہوا اور نماز چھوڑ دی۔ رمضان میں دین کی طرف مائل ہو گیا، اور جونہی رمضان گزرا دین کو نظر انداز کر دیا۔ کبھی جوش ایمان پیدا ہوا تو توجہ بھی شروع کر دی، اور کبھی ایسا غلبہ شیطان ہوا کہ فرض نمازیں تک ترک کر دیں۔ کبھی سر سے پاؤں تک (چہرہ، وضع قطع، لباس و حجامت) سب کچھ ایسا بنایا کہ چلتا پھرتا اسلام نظر آنے لگا اور کبھی مجسمہ یہودیت و نصرانیت بن کر ظاہر ہو گیا۔ یہ کامیابی و کامرانی نہیں، یہ سعادت و نجات والی زندگی نہیں، یہ تو قیامت کی نشانی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
(بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ)
’’اندھیری سیاہ رات کے ٹکڑوں کی طرح رونما ہونے والے فتنوں سے پہلے پہلے عمل کر لو، ان فتنوں میں لوگوں کا یہ حال ہو گا کہ:
(يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا)
’’صبح آدمی مؤمن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ شام کو مؤمن ہو گا اور صبح کافر ہو جائے گا۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب الحث على المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن۔ رقم: 313]
آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اس قسم کے مسلمان ہیں۔ کبھی نماز پڑھ لی کبھی چھوڑ دی۔ کبھی دین کی طرف آ گئے۔ کبھی بے دین ہو گئے۔ یہ کامیابی نہیں۔ کامیابی کیا ہے؟ کامیابی یہ ہے کہ انسان پوری زندگی دین کے مطابق بنائے اور مرتے دم تک دین پہ قائم رہے۔ اسے استقامت فی الدین کہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اسے حقیقی کامیابی و کامرانی قرار دیا ہے۔ اور قرآن مجید میں اس کی بڑی شان و عظمت بیان کی ہے۔
اللہ رب العزت سورہ ھود آیت نمبر 112 میں فرماتے ہیں:

﴿فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ [هود: 112]
’’پس آپ جمے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں خبر دار! تم حد سے نہ بڑھنا اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے والا ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے، حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے اسلام کے بارے ایسی (جامع) بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے استفسار کی ضرورت باقی نہ رہے؟ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’آپ کے سوا‘‘ آپﷺ نے فرمایا:
’’تو اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کر‘‘[صحیح مسلم، كتاب الإيمان باب جامع أوصاف الإسلام، رقم: 159.]
دینداری، تقوی و پرہیزگاری اور حقیقی مسلمانی یہی ہے کہ انسان پورے دین کو اپنائے اور ہمیشہ کے لیے اپنائے، اس کا عقیدہ و عمل، فکر و عقل، شکل و صورت، وضع قطع، خلوت و جلوت، اخلاق و سیرت، خوشی، و نمی، تجارت و صنعت، معاشرت و مصاحبت، حکومت و سیاست … سب کچھ قرآن وسنت کے مطابق ہو اور ہمیشہ مطابق رہے۔ یہ استقامت ہے۔ جتنے مرضی طوفان آئیں، آندھیاں چلیں، فتنے کھڑے ہوں، سازشیں زوروں پر ہوں، پر دین پر قائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو نفلی عبادات وحسنات میں بھی استقامت کی ترغیب دی۔
بخاری و مسلم کی حدیث ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے (مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا:
(يَا عَبُدَ اللهِ لَا تَكُنْ مِّثْلَ فُلَانٍ، كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ)[صحيح البخاري، كتاب التهجد باب ما يكره من ترك قيام الليل لمن يقومہ، رقم: 1143 و مسلم رقم: 2733]
’’اے عبداللہ! تو فلاں انسان جیسا نہ بننا جو رات کو قیام کرتا تھا پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا۔‘‘
اور متفق علیہ حدیث ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ) [صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب الجلوس على الحمير و نحوه رقم: 5861 و صحیح مسلم رقم 1830]
’’اللہ کے ہاں زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر پیشگی ہو اگرچہ وہ قلیل ہو۔‘‘
یہ حدیث بھی نفلی عبادت پر استقامت و مداومت کی ترغیب دے رہی ہے۔ قرآن کریم میں نبیوں اور مؤمن بندوں کی استقامت کے واقعات مذکور ہیں:
1۔ حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت:
اللہ رب العزت سورہ یونس آیت نمبر71،72 میں فرماتے ہیں:
﴿وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۷۱فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ ۙ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ [يونس: 71-72)
’’اور آپ ان کو نوح (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکاء کے پختہ کرلو۔ پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہیے۔ پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو، پھر بھی اگر تم اعراض ہی کیے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا۔ میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں۔‘‘
غور کیجئے! حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کی انتہائی شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجود اللہ کے دین پر استقامت اختیار کی اور ہزار سال کے قریب عمر پائی اور عمر بھراستقامت فی الدین کو اپنائے رکھا۔
2۔ حضرت ھود علیہ السلام کی استقامت:
رب ارض و سماء نے سورہ ہود آیت نمبر54 تا 56 میں فرمایا:
﴿اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ۝۵۴
مِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵
اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ ؕ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا ؕ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ [هود: 54-55-56]
’’بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تو ہمارے کسی معبود کے برے چھپٹے میں آگیا ہے اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تو اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو، اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو۔ میرا بھروسہ صرف اللہ تعالی پر ہی ہے، جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے۔ یقینًا میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے۔‘‘
غور فرمائیے! حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں، اذیتوں اور سازشوں کے باوجود دین پر استقامت اختیار کی اور توحید و عمل صالح پر ڈٹے رہے۔
3۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی استقامت:
اللہ رب العزت سورۃ الانعام میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا ؕ فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ۝۸۱
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠﴾ [الأنعام: 81-82]
’’اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے۔ حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ۔ سو ان وہ جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے۔ اگر تم خبر رکھتے ہو، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک طرف تنہا دین توحید پر تھے اور دوسری طرف پوری قوم مخالف تھی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام جان تھیلی پر رکھ کے ڈٹے رہے اور ایک لمحے بھر کے لیے بھی دین حق کو نظر انداز نہ کیا اور نہ ہی کوئی لچک پیدا کی۔
4۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی استقامت:
اللہ رب العزت سورة الاعراف آیت نمبر (88-89) میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫۝۸۸
قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَا ؕ وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ؕ عَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ؕ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۝۸۹﴾ [الأعراف: 88-89]
’’ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراہ ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالی نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں آجائیں لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘
سبحان اللہ! حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دین حق پر استقامت اور پختگی اختیار کی۔
تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی مجموعی استقامت:
رب کائنات سورہ ابراہیم آیت نمبر 13-14 میں فرماتے ہیں:

﴿ وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوْحٰۤی اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ۝۱۳ وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَ خَافَ وَعِیْدِ﴾ [ابراهيم: 13-14]
’’کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے۔ اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بنائیں گے۔ یہ ہے ان کے لیے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوف زدہ رہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولان عظام استقامت فی الدین میں بہت بڑا نمونہ تھے، کہ انہوں نے ہر حال میں اللہ کے دین کو تھامے رکھا مخالفوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کی اور اللہ کے وعدے پر یقین رکھا۔
ایمان لانے والے جادوگروں کی استقامت:
اللہ رب العزت سورہ طٰہٰ میں فرماتے ہیں:
﴿فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی۝۷۰
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ؕ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ ؗ وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰی۝۷۱
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ۝۷۲
اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِ ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی﴾ [طه: 70-73)]
’’اب تو تمام جادو گر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لائے ۔ فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقینًا یہی تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، (سن لو) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر شکوا دوں گا، اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنے آ چکیں اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیوی زندگی میں ہے۔ ہم (اس امید سے) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرمادے اور (خاص کر) جادوگری (کا گناہ) جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے، اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘
اللہ اکبر! وہ جادوگر جو چند لمحے پہلے لالچی اور حریص تھے اور فرعون سے بہت ڈرنے والے تھے جب ان میں ایمان پیدا ہو گیا تو نہ لا ہی رہا نہ فرعون کا ڈر رہا اور نہ فرعون کی دھمکیوں کی پرواور ہی، بلکہ وہ استقامت فی الدین میں تاقیامت نمونہ بن گئے۔
اصحاب کہف کی استقامت:
رب کائنات سورہ کہف (آیت نمبر13 تا 16) میں فرماتے ہیں:
﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًیۗۖ۝۱۳
وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا۝۱۴
هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً ؕ لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًاؕ۝۱۵
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَی الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا﴾ [الكهف: 13 تا 16]
’’ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں۔ یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی، ہم نے ان کے دل مضبوط کر دیئے تھے جبکہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکاریں اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی، یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے اللہ پر جھوٹ افترا باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے؟ جبکہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہو گئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا۔‘‘
سبحان اللہ! یہ کیسے عظیم لوگ تھے جنہوں نے ایمان و توحید کی خاطر سب کچھ لٹا دیا اور ہنستا مسکراتا وطن چھوڑ کر غار میں جا چھپے اور دنیا کی لذتوں پر آخرت کو ترجیح دی اور دنیا کے مال و متاع کے مقابلے میں دین پر استقامت کو پسند کیا تو اللہ تعالی نے انہیں قیامت تک استقامت فی الدین میں نمونہ بنا دیا۔
اہل ایمان کی اجمالی استقامت:
اللہ رب العزت سورة البقرہ آیت نمبر 214 میں فرماتے ہیں:
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ﴾ [البقرة: 214]
’’کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔‘‘
معلوم ہوا ہر دور میں مخلص اہل ایمان اور کھرے اہل حق نے ہمیشہ استقامت اختیار کی ہے اور وہ ہر قسم کے فتنوں میں دین حق پر ڈٹے رہے۔
زوجہ فرعون کی استقامت:
رب کائنات نے سورۃ التحریم آیت نمبر (11) میں فرماتے ہیں:
﴿وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ۘ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [التحريم:11]
’’اور اللہ تعالی نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے۔‘‘
مرد تو مرد رہے، ایمان تو عورتوں کو بھی دلیر بنا دیتا ہے، یہ فرعون کی بیوی (جناب آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا) جب ایمان لے آتی ہے تو شاہی محل کی تمام رونقوں سہولتوں اور نعمتوں کو تج دیتی ہے اور فرعون کے سخت ظلم و تشدد کے باوجود ایمان پر قائم رہتی ہے۔
اصحاب الاخدود کے ظلم کا نشانہ بننے والوں کی استقامت:
یہ واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد کا ہے جب ایک نو عمر لڑکے کی کرامت دیکھ کر ایک ظالم بادشاہ کی ساری رعایا مسلمان ہو گئی تو اس ظالم بادشاہ نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ بڑی بڑی کھائیاں کھو دو اور ان کھائیوں میں انتہائی انتہائی تیز آگ بھڑکاؤ، اور پھر ایک ایک مسلمان کو پکڑ کر آگ کے قریب کرو اور اسے کہو کہ یا تو دین اسلام چھوڑ کر بادشاہ کو رب مان لو یا پھر آگ میں جلنے کے لیے تیار ہو جاؤ، فوجیوں نے کھائیاں کھود کر بڑی تیز آگ جلائی ایک ایک مسلمان کو پکڑ کر لاتے گئے لیکن تمام مسلمانوں نے آگ میں جلنا گوارا کر لیا اور بادشاہ کو رب ماننا گوارا نہ کیا، آخر میں ایک عورت لائی گئی اس کی گود میں دودھ پیتا بچہ تھا وہ جب آگ کے قریب ہوئی تو بچے کی خاطر ذرا ٹھٹھک گئی، قریب تھا کہ اس کے قدم ڈگمگا جاتے لیکن اللہ نے اسے برموقع اپنی قدرت دکھلائی کہ اس کے دودھ پیتے بچے کو قوت گویائی بخشی وہ بول پڑا۔ اے ماں! کیوں ڈرتی ہے (إِنَّكِ عَلَى الْحَق) تو حق پر ہے۔
آخر اس عورت نے دودھ پیتے بچے سمیت آگ میں کودنا گوارا کر لیا لیکن شرک کرنا گوارا نہ کیا۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔[صحیح مسلم، الزهد، باب قصة اصحاب الاخدود والساحر والراهب والغلام (3005) و احمد (17/6)]
حقیقت بات ہے جب انسان سچے دل سے ایمان قبول کر لیتا ہے تو ایمان اور دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتا ہے لیکن ایمان نہیں چھوڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔