اطاعتِ مصطفٰی ہی محبتِ مصطفٰی ہے
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [آل عمران: 33]
ذی وقار سامعین!
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بات کا اعلان کرنا اور ڈھنڈورا پیٹنا الگ بات ہے اور کسی بات کا سچااقرار، اظہار اور اُس پر عمل الگ چیز ہے۔دنیا جھوٹ سے نفرت کرتی ہے اورسچائی چاہتی ہے۔دنیا کا سارا کاروبار اور زندگی، سچائی کی بنیاد پر چل رہی ہے، جھوٹ کی بنیاد پر نہیں۔ہر انسان اور ہر کاروبار کو دنیا والوں کے سامنے پہلے اپنے اچھے، سچے، ایمان دار اور وفادار ہونے کا اعلان کر کے اپنی پہچان بنانی ہوتی ہے ، تب وہ آدمی دنیا میں کوئی مقام بناپاتا ہے اور اپنا کاروبار کامیابی کے ساتھ چلانے کے لائق ہوتا ہے۔ لیکن تماشے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اللہ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ جتنی چاہو بے ایمانی کرو، جتنی چاہو بے وفائی کرو، جتنی چاہو نافرمانی کرو، جتنا چاہو جھوٹ بولو اور جتنا چاہو اُن کو دھوکہ دو، تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔”رسول اللہﷺ سے محبت نہیں تو ایمان نہیں۔“ اس کا چرچا تو بہت کیا جاتا ہے، لیکن رسول اللہﷺ سے اصلی اور سچی محبت کیا ہے، کیا کبھی اس کو بھی بتایا جاتا ہے۔؟جب دنیا والے بے ایمانی، بے وفائی، دھوکے بازی، جھوٹ اورنافرمانی کو پسند نہیں کرتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کیسے اس طرح کے مسلمانوں سے راضی اور خو ش ہو جائیں گے۔؟
اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں ، یہ بات سمجھیں گے کہ رسول اللہﷺسے اصل محبت ، رسول اللہﷺکی کامل اور اکمل اطاعت ہے۔
اطاعتِ رسولﷺقرآن وحدیث کی روشنی میں
❄اطاعتِ رسولﷺحکم الٰہی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
”اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور بچ جاؤ، پھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔“ [المائدہ: 92]
❄نبی اکرمﷺکی اطاعت کرنے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں اور گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
”کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ [آل عمران: 31]
❄آقائے رحمتﷺکی اتباع کرنے سے اعمال تباہ برباد ہونے سے بچ جاتے ہیں ، ارشادِ ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔“ [محمد: 33]
❄اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ذیشان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اس سے منہ نہ پھیرو، جب کہ تم سن رہے ہو۔ٗ [الانفال: 20]
❄رسول اللہﷺکی اطاعت درحقیقت اطاعتِ الٰہی ہے ، اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
”جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ [النساء: 80]
❄فرمانِ الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔“ [النساء: 59]
❄ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
”اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔“ [الاحزاب: 36]
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
”اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔“ [النساء: 69]
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
”اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔“ [الحشر: 7]
❄ ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا ۔ [بخاری: 7280]
اطاعت کیسی ہو۔۔۔؟
صحابہ کرامکو نبیﷺسے حقیقی اور سچی محبت تھی ، حقیقی اور سچی محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان لوگوں نے نبی اکرمﷺکی اطاعت ویسے کی جیسے کرنا کا حق تھا ، ہمیں بھی چاہئے کہ آقائے کائناتﷺکی اطاعت ویسے کریں جیسے صحابہ نے کی ہے ، صحابہ اس شعر کی عملی تصویر تھے؎
مصور کھینچ وہ نقشہ ، جس میں اتنی صفائی ہو
اِدھر فرمانِ محمدﷺ ہو ، اُدھر گردن جھکائی ہو
چاندی کا پیالہ توڑ دیا:
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں:
أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ حُذَيْفَةَ، فَاسْتَسْقَى فَسَقَاهُ مَجُوسِيٌّ، فَلَمَّا وَضَعَ القَدَحَ فِي يَدِهِ رَمَاهُ بِهِ، وَقَالَ: لَوْلاَ أَنِّي نَهَيْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلاَ مَرَّتَيْنِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: لَمْ أَفْعَلْ هَذَا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ تَلْبَسُوا الحَرِيرَ وَلاَ الدِّيبَاجَ، وَلاَ تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَلاَ تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الآخِرَةِ
لوگ حضرت حذیفہکی خدمت میں موجود تھے، انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی نے ان کو پانی لا کر دیا۔ جب اسنے پیالہ انکےہاتھ میں دیا تو سیدنا حذیفہنے پیالہ اس پر پھینک مارا اور فرمایا: اگر میں نے اسے ایک یا دوبارہ منع نہ کیا ہوتا تو میں اس سے یہ معاملہ نہ کرتا لیکن میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپﷺنے فرمایا: ”ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتنوں ہی میں کچھ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں دنیا میں ان (کافروں) کے لیے اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔ “ [صحیح بخاری: 5426]
اگر رسول اللہﷺنے دیکھنے کا حکم دیا ہے تو۔۔۔:
مغیرہ بن شعبہکہتے ہیں:
أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا، فَقَالَ:” اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا”، فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَيْهَا، وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ وَهِيَ فِي خِدْرِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ فَانْظُرْ، وَإِلَّا فَإِنِّي أَنْشُدُكَ كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا، فَتَزَوَّجْتُهَا، فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.
میں نبی اکرمﷺکے پاس آیا اور میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہوں، آپﷺنے فرمایا: ”جاؤ اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے“، چنانچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرمﷺ کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا: اگر رسول اللہﷺنے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ کہتے ہیں: میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کر لی، پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا۔ [سنن ابن ماجہ: 1866 صححہ الالبانی]
اگر آپ راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں:
انس بن مالک کہتے ہیں کہ آپﷺ نے سیدنا جلیبیب سے ایک دن فرمایا کہ تم فلاں انصاری صحابی کے گھر جاؤ اور ان سے کہو کہ آپﷺ نے تمہیں سلام عرض کیا ہے اور ان کا حکم ہے کہ ’’ زَوِّجُوْنِیْ اِبْنَتَکُمْ ‘‘ تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو؟ چنانچہ جلیبیب اس انصاری صحابی کے گھر جاتے ہیں اور فرمان مصطفی ﷺ سے آگاہ کرتے ہیں،لڑکی کے والد نے کہا کہ رکئے ذرا میں اپنی بیوی سے رائے ومشورہ کرلیتاہوں اور پھر آپ کو بتاتا ہوں ،چنانچہ جب انصاری صحابی نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے فورا انکار کردیا اور کہا کہ اللہ کی قسم ہرگز نہیں! میں نے تو اس سے اچھے اچھے رشتے کو ٹھکرا دیا ہے اورمیں اپنی بیٹی کابیاہ اس سےکردوں! ہرگز نہیں!
ادھر وہ دونوں میاں بیوی آپس میں مشورہ کررہے ہیں اوران کی بیٹی پردے کی آڑ میں سب کچھ سن رہی ہےکہ اس کی والدہ باربار انکار کررہی ہے اور کسی بھی حال میں جلیبیب سے نکاح کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بالآخر اس نیک سیرت لڑکی نے نے اپنے والدین سے کہا کہ ’’ أنْ تَرَدُّوْا عَلَی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ أمْرَہُ ‘‘ کیا آپ لوگ نبیﷺ کے حکم کورد کردیں گے سنئے ’’ اِنْ کَانَ قَدْ رَضِیَہُ لَکُمْ فَانْکِحُوْہُ ‘‘ اگرآپﷺ میرے اس رشتے سے راضی ہیں تو آپ دونوں میرا اسی جلیبیب سے نکاح کردیں کیونکہ میرا یہ عقیدہ اور میرا یہ ماننا ہے کہ ’’ فَاِنَّہُ لَنْ یُّضَیِّعَنِیَ ‘‘ وہ مجھے ہرگز ہرگز ضائع وبرباد ہونے نہیں دیں گے ،چنانچہ جب ان کی بیٹی نے ایسا کہا تو ان کے والدین کی آنکھیں کھل گئیں اور سیدھا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اکرم ومکرمﷺ’’ اِنْ کُنْتَ قَدْ رَضِیْتَہُ فَقَدْ رَضِیْنَاہُ ‘‘ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ،آپ کا حکم سرآنکھوں پر چنانچہ آپﷺ نے اس نیک سیرت لڑکی کا نکاح جلیبیبؓ سے کردیا۔
سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ جب آپﷺ کو اس لڑکی کے مذکورہ بالا باتوں کا علم ہوتاہے تو آپﷺ اس کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں کہ ’’ اللهُمَّ صُبَّ عَلَيْهَا الْخَيْرَ صَبًّا ، وَلَا تَجْعَلْ عَيْشَهَا كَدًّا كَدًّا ‘‘ اے اللہ اس لڑکی پر خیر وبھلائی کے دروازے کو کھول دے اور اس کی زندگی کو مشقت وپریشانی سے دور رکھ،چنانچہ حضرت انس گواہی دیتے ہیں کہ بعد ازاں ’’ فَمَا كَانَ فِي الْأَنْصَارِ أَيِّمٌ أَنْفَقَ مِنْهَا ‘‘ میں نے اس لڑکی کو دیکھا کہ وہ مدینہ منورہ کے سب سے خوشحال گھرانوں میں سے تھیں۔ [مسند احمد: 19784 صحیح]
مجھ پر خواتین رشک کرتی تھیں:
ابوبکر بن ابوجہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہہ رہی تھیں:
إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي»، فَآذَنْتُهُ، فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو جَهْمٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ، لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ» فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا: أُسَامَةُ، أُسَامَةُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَاعَةُ اللهِ، وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ»، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُهُ، فَاغْتَبَطْتُ
”ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہﷺنے انہیں رہائش دی نہ خرچ۔ کہا: رسول اللہﷺنے مجھے فرمایا: "جب (عدت سے) آزاد ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا” سو میں نے آپ کو اطلاع دی۔ معاویہ، ابوجہم اور اسامہ بن زیدنے ان کی طرف پیغام بھیجا، رسول اللہﷺنے فرمایا: "معاویہ تو فقیر ہے اس کے پاس مال نہیں ہے، اور رہا ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارنے والا ہے، البتہ اسامہ بن زید ہے۔” انہوں نے (ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا: اسامہ! اسامہ! رسول اللہﷺنے انہیں فرمایا: "اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے۔” کہا: چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں اتنی خیر رکھ دی کہ مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں۔ [مسلم: 3712]
جنت کی ضمانت:
سیدنا ثوبانکہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ يَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ فَقَالَ ثَوْبَانُ أَنَا فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا
”کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگے گا تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دوں؟“ تو سیدنا ثوبان ؓ نے کہا: میں، چنانچہ وہ کسی سے کچھ نہ مانگا کرتے تھے۔[ابوداؤد: 1643 صححہ الالبانی]
دینے والا ہاتھ اور لینے والا ہاتھ:
سیدنا حکیم بن حزامنے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا ، آپﷺ نے عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا اور آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا آپﷺنے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ( یاد رکھو ) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزامنے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر حکیمکو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمرنے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزامرسول اللہ ﷺ کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پاگئے۔ حضرت عمرمال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔ [بخاری: 1472]
اشارہ ہی کافی ہے:
سیدنا کعب بن مالکنے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، مسجد میں، ابن ابی حدرد سے قرض کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمے تھا تو ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہﷺنے گھر کے اندر ان کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف گئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو آواز دی:
«يَا كَعْبُ»، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، «فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ»، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ فَاقْضِهِ
"کعب!” انہوں نے عرض کی: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا آدھا حصہ معاف کر دو۔ کعب نے کہا: اللہ کے رسول! کر دیا۔ تو رسول اللہﷺنے (دوسرے سے) فرمایا: "اٹھو اور اس کا قرض چکا دو۔ [صحیح مسلم: 3987]
میں نے کسی کو گالی نہیں دی:
سیدنا جابر بن سلیم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺسے کہا کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ، تو رسول اللہﷺنے فرمایا:
لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا ” کسی کو گالی نہ دینا۔ “
سیدنا جابر بن سلیم کہتے ہیں:
فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً
اس کے بعد میں نے کسی کو گالی نہیں دی ، نہ کسی آزاد کو ، نہ غلام کو ، نہ اونٹ کو ، نہ بکری کو۔ [ابوداؤد: 4084 صححہ الالبانی]
اس کا والد میرے والد کا دوست تھا:
عبداللہ بن دینار نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی کہ ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدوی شخص ملا، حضرت عبداللہ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ ابن دینار نے کہا: ہم نے ان سے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ تو حضرت عبداللہ بن عمرنے فرمایا:
إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ»
اس شخص کا والد (میرے والد)حضرت عمر بن خطاب کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "والدین کے ساتھ بہترین سلوک ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی۔” [صحیح مسلم: 6513]
وہ مالدار ہو گئے:
سیدنا صخر غامدیکہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
” اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا”، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ
اے اللہ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے“ اور جب بھی آپﷺکوئی سریہ یا لشکر بھیجتے، تو دن کے ابتدائی حصہ میں بھیجتے۔
عمارہ کہتے ہیں:
وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا وَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ
صخر ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارت صبح سویرے شروع کرتے تھے تو وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت ہو گیا۔ [ابوداؤد: 2606 صححہ الالبانی]
سو درہم قربان کردیا:
سیدنا أبو رافع اپنا مکان فروخت کرنا چاہتے تھے ، ایک آدمی نے اس کی قیمت پانچ سو درہم لگائی ، لیکن ان کے پڑوسی سیدنا سعد بن ابی وقاص تھے ، ان کو پتہ چلا کہ أبو رافع مکان فروخت کرنا چاہتے ہیں ، انھوں کے کہا: مجھے بھی مکان کی ضرورت تھے ، لہٰذا مجھے فروخت کردیں ، تو سیدنا سعد بن ابی وقاص نے کہا:
لا أَزِيدُهُ عَلَى أَرْبَعِ مِائَةٍ إِمَّا مُقَطَّعَةٍ وَإِمَّا مُنَجَّمَةٍ
میں تو چار سو درہم سے زیادہ نہیں دوں گا اور وہ بھی قسطوں میں ادا کروں گا۔
سیدنا أبو رافع نے کہا:
أُعْطِيتُ خَمْسَ مِائَةٍ نَقْدًا فَمَنَعْتُهُ وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ مَا بِعْتُكَهُ
مجھے تو اس کے پانچ سو نقد مل رہے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا نہ ہوتا: ”ہمسایہ اپنے قرب کے باعث زیادہ حق دار ہے۔“ تو میں تو تمہیں یہ مکان فروخت نہ کرتا یا تجھے نہ دیتا۔ [صحیح بخاری: 6977]
کیونکہ وہ ملعون اونٹنی ہے:
سیدنا عمران بن حصینکہتے ہیں:
بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَامْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى نَاقَةٍ فَضَجِرَتْ فَلَعَنَتْهَا فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ خُذُوا مَا عَلَيْهَا وَدَعُوهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ قَالَ عِمْرَانُ فَكَأَنِّي أَرَاهَا الْآنَ تَمْشِي فِي النَّاسِ مَا يَعْرِضُ لَهَا أَحَدٌ
ایک بار رسول اللہ ﷺایک سفر میں تھے اور ایک انصاری عورت اونٹنی پر سوار تھی کہ اچانک وہ اونٹنی مضطرب ہوئی، اس عورت نے اس پر لعنت کی تو رسول اللہﷺنے یہ بات سن لی، آپﷺنے فرمایا: "اس (اونٹنی) پر جو کچھ موجود ہے وہ ہٹا لو اور اس کو چھوڑو کیونکہ وہ ملعون اونٹنی ہے۔” حضرت عمران کہتے ہیں کہ جیسے میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اونٹنی لوگوں کے درمیان چل رہی ہے، کوئی اس کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ [صحیح مسلم: 6604]
بیٹھ جاؤ۔۔:
سیدنا جابر بیان کرتے ہیں:
لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ: اجْلِسُوا، فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ!. ( ایک بار ) جمعہ کے روز جب رسول اللہ ﷺ ( منبر پر ) تشریف فرما ہو گئے تو فرمایا ”بیٹھ جاؤ ! “ اسے سیدنا ابن مسعودنے سنا تو مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا تو فرمایا ” اے عبداللہ بن مسعود ! آگے آ جاؤ ۔ “ [ابوداؤد: 1091 صححہ الالبانی]
مخالفتِ رسولﷺکے نقصانات
دنیا اور آخرت میں نبی رحمتﷺکی مخالفت کے بہت سارے نقصانات ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
” اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔“[النساء: 115]
دوسرے مقام پہ فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
”پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔“ [النساء: 65]
تیسرے مقام پر رب تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
”سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔“ [النور: 63]
مخالفتِ رسولﷺکے نقصانات کی چند دنیوی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
غزوہ احد میں رسول اللہﷺکی نافرمانی کا انجام:
سیدنا براء بن عازببیان کرتے ہیں:
لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا مِنَ الرُّمَاةِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ:” لَا تَبْرَحُوا إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلَا تَبْرَحُوا , وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلَا تُعِينُونَا” , فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ فَأَخَذُوا يَقُولُونَ: الْغَنِيمَةَ , الْغَنِيمَةَ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَبْرَحُوا فَأَبَوْا , فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلًا
جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریمﷺنے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیرکی ماتحتی میں (پہاڑی پر) مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے، تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا۔ پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیرکے (تیرانداز) ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہنے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریمﷺنے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو (عارضی)ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہو گئے۔ [صحیح بخاری : 4043]
وہ صحابہ جن کا مقام ، مرتبہ اور شرف اتنا زیادہ ہے کہ ان کی جیبوں میں جنت کے ٹکٹ ہیں ، ان سے بھول ہو گئی ، وہ رسول اللہﷺکی نافرمانی کر بیٹھے تو اتنی بڑی سزا ملی کہ غزوہ احد میں حضورﷺکے ستر صحابہ شہید ہو گئے ، جن میں سردار امیر حمزہبھی شامل ہیں۔
مقامِ غور ہے کہ ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ ہم کیوں بات بات پر اور قدم قدم پر رسول اللہﷺکی نافرمانی کرتے چلے جارہے ہیں؟
آندھی کا شکار:
ابو حمید ساعدیفرماتے ہیں :
فَلَمَّا أَتَيْنَا تَبُوكَ قَالَ:أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَلاَ يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ» فَعَقَلْنَاهَا، وَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَأَلْقَتْهُ بِجَبَلِ طَيِّءٍ
تبوک کی جنگ میں ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ ہم تبوک میں پہنچے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آج رات تیز آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، وہ اس کو مضبوطی سے باندھ لے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ زوردار آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کو ہوا اڑا لے گئی، اور (وادی ) طی ءکے دونوں پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔ [صحیح بخاری : 1481]
ہاتھ شل ہو گیا:
سیدنا سلمہ بن اکوعبیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا أَكَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِمَالِهِ فَقَالَ كُلْ بِيَمِينِكَ قَالَ لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ لَا اسْتَطَعْتَ مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ قَالَ فَمَا رَفَعَهَا إِلَى فِيهِ
رسول اللہﷺکے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپﷺنے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھا۔ وہ بولا کہ میرے سے نہیں ہو سکتا۔ آپﷺنے فرمایا کہ اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے۔ اس نے ایسا تکبر کی وجہ سے کیا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ وہ ساری زندگی اس ہاتھ کو منہ تک نہ اٹھا سکا۔ [صحیح مسلم: 5268]
اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں:
حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا؛
وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ
"ہمارا آنحضرتﷺسے کیامقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔” ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرتﷺتشریف لائے اور ان سے پوچھا؛
أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
"کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے (اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔” [بخاری: 5063]
❄❄❄❄❄