اتباع سنت کی فضیلت

﴿الحمد لله الذي أنزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوجا۔﴾[الکہف:1] منَّ علينا ببعثة هذا النبي الكريم، وهدانا به إلى الصراط المستقيم، و أنقذنا به من الضلال المبين والعذاب الأليم، أحمده سبحانه وأشكره على سوابغ إنعامه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، الذي قال الله فيه: ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رءُوفٌ رَّحِيْمٌ﴾[ التوبه: 138] اللهم صل وسلم وبارك على سيدنا محمد وعلى آله و صحبه ومن تبعهم بإحسان:
’’سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کبھی اور پیچیدگی نہیں رکھی۔ نبی رحمت کو بھیج کر ہم پر احسان عظیم فرمایا ان کے ذریعہ صراط مستقیم کی ہدایت دی اور ضلالت و گمراہی اور درد ناک عذاب سے نجات بخشی۔ میں اللہ سبحانہ کی حمد کرتا اور اس کے بے شمار احسانات پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد علی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جن کے بارے میں خود اللہ کا فرمان ہے کہ
لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام ہو ایسے شفیق و مہربان رسول پر آپ کے آل و اصحاب اور ان کے سچے متبعین پر۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرو اس کی اطاعت و خوشنودی کے لئے اچھے اعمال کرو اور یہ یقین رکھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی پیروی اللہ کی عبادت میں داخل ہے اور اس کی رضا و قربت کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو سارے جہاں کے لئے رحمت راست بازوں کے لئے ہدایت اور تمام انسانوں کے لئے دلیل و برہان بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔
ماہ ربیع الاول میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی اسی مہینہ میں آپ نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی اور پھر وفات حسرت آیات بھی اسی ماہ میں پیش آئی، آپ کا ارشاد ہے:
(ألا أخبركم بأول أمري؟ أنا دعوة أبي إبراهيم، وبشارة عيسى، ورؤیا أمي) [یہ حدیث مسند احمد:127/4 (17150) میں موجود ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: (إني عبد الله خاتم النبيين، وإن آدم عليه السلام لمنجدل في طينته، وسأنبئكم بأول ذلك، دعوة أبي إبراهيم، وبشارة عيسى بي، و رؤيا أمي التي رأت، وكذلك أمهات النبيين ترين) نيز مسند احمد: 128/4 میں بھی ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔ سیوطی نے اس حدیث کو حسن بتایا ہے ابن عساکر، طیالسی اور دیلمی نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو: فیض القدیر46/3)]
’’کیا میں تمہیں اپنے وجود دیا اپنی نبوت کا آغاز نہ بتادوں؟ سنو! میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا خواب ہوں۔‘‘
دعائے ابراہیم سے مراد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے:
﴿ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠۝۱۲۹﴾ ( البقره:129)
اے پروردگار! ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیج، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت سکھائے اور ان (کے دلوں) کو پاک و صاف کرے بیشک تو غالب اور صاحب حکمت ہے۔
ہے۔‘‘
بشارت عیسی سے اس بشارت کی طرف اشارہ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَابَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ﴾ (الصف:6)
’’اور جب عیسی ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا پیغمبر بن کر آیا ہوں اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے یعنی تو رات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمد ہو گا۔‘‘
اسی طرح خواب سے اس واقعہ کی جانب اشارہ ہے جو آپ کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب نے بیان کیا تھا کہ حمل کے وقت میں نے دیکھا کہ مجھ سے ایک نور نکلا اور اس کی روشنی سے شام کے محل جگمگا اٹھے۔
در حقیقت یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اللہ تعالی کے عظیم احسان کی دلیل اور سارے جہاں کے لئے آپ کی رسالت کے عام ہونے کا اعلان تھا، جیسا کہ قرآن ناطق ہے:
﴿قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ۝۱۵ یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (المائدة: 15،16)
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے، جس سے اللہ اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیروں میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور ان کو سیدھے رستے پر چلاتا ہے۔‘‘
بھائیو! یہ وہی نور ہے جس سے مشرق و مغرب جگمگا اٹھے، جس کے ذریعہ دلوں کو علم و یقین اور ایمان و عرفان کی روشنی ملی، جس کی بدولت روئے زمین عدل و انصاف اور برکت و رحمت سے بھر گئی اخلاق ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہوئے فضائل کی تکمیل ہوئی لوگوں نے شرک کے بعد اللہ کی توحید کو پہنچانا حق سے بغاوت و انحراف کے بعد ہدایت و استقامت کا سبق پڑھا۔ اختلاف و افتراق کے بعد الفت و محبت کا درس لیا۔ نافرمانی و قطع تعلقی کے بعد صلہ رحمی اور احسان و بھلائی کرنے کا طریقہ سیکھا، ظلم وجور اور بدمعاملگی کے بعد عدل و انصاف اور حقوق و واجبات کی ادائیگی کا شیوہ اپنایا۔
آپ وہی نبی رحمت ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالی نے دنیا کو فساد و بگاڑ کے بعد خیر و صلاح بخشی اور بدبختی و ناکامی کے بعد فلاح و کامرانی عطا کی۔ آپ کی لائی ہوئی آسان شریعت اور گرانقدر تعلیمات ہی تمام پیچیدگیوں کا حل اور امن و سلامتی کی ضامن ہیں۔ مسلمان جب تک اس نور نبوت سے روشنی لیتے اور اس کے احکام و تعلیمات پر عمل کرتے رہے وہ کامیاب و کامراں رہے اور جس دن سے انہوں نے اس نور نبوت سے اپنا رشتہ توڑا شریعت کی مضبوط رسی کو چھوڑا اس کے احکام سے سرتابی کی آپس میں بغض و نفرت کی فضا پیدا کی ان کے اندر سے دینی غیرت و حمیت اور ایمانی اخوت و بھائی چارگی کا جذبہ مفقود ہوا اغراض و مقاصد مختلف ہوئے نفسانیت غالب آئی ہر صاحب رائے کو اپنی ہی رائے اچھی اور حق و صواب نظر آئی تو ان تمام بد اعمالیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشکلات و مصائب نے انہیں آگھیرا، دشمن ان پر ٹوٹ پڑے دوست منتشر ہو گئے اب وہ مسلسل اختلاف و افتراق اور آپس میں ایک دوسرے سے دوری کا شکار ہیں اور مزید بر آن اس کے نتیجہ میں ان کے اندر سے دینی بصیرت بھی جاتی رہی اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے اعراض بھی پیدا ہو گیا۔
خود ساختہ قوانین کو انہوں نے اپنا فیصل تسلیم کیا اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا بلکہ بعض لوگ تو اصحاب قبور تک کے پاس جا پہنچے اور وہاں جا کر اصحاب قبور سے مدد چاہی اور حاجت طلب کی اور اس ذات کو بھول بیٹھے جس کے لفظ ’’کن‘‘ سے ہر چیز وجود میں آتی ہے اور قرآن کے اس اعلان پر عمل نہ کیا:
﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ؕ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۝۱۳ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۝۱۴﴾ (الفاطر: 13،14)
’’یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کی بادشاہی ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور وہ قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو لازم پکڑو میں ذریعہ فلاح و نجات ہے اور دین کے اندر ایجاد کی جانے والی نئی چیزوں سے بچو۔ کیونکہ دین کے اندر بعد میں داخل کی جانے والی ہر نئی چیز بدعت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)
[صحیح مسلم، کتاب الاقضية ، باب نقض الاحکام الباطلة (1718) و صحیح بخاری، کتاب البیوعں باب النجش و من قال لا يجوز ذلك البيع]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا (شریعت کا حکم) نہ ہو تو وہ عمل مردود اور ناقابل قبول ہے۔‘‘
لوگوں نے جو بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں سے ایک بدعت یوم ولادت کا جشن بھی ہے (جو برتھ ڈے یا یوم پیدائش کے نام سے منایا جاتا ہے) اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے علاوہ کوئی اور جشن یا عید مشروع نہیں، یوم ولادت وغیرہ کا جشن جو قرون مشهود لها بالخیر کے بعد دین کے نام پر ایجاد کیا گیا یہ در حقیقت ایک بدعت ہے جو یہود و نصاری کی تقلید کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئی ہے اور جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
(لتتبعن سنن من كان قبلكم، حذو القذة بالقذة، حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه)[یہ حدیث مسند احمد میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے دیکھئے: 125/4 (17135) نیز دیکھئے: (9826، 10646،11800) وغیرہ۔]
’’تم ضرور پہلی امتوں (یعنی یہود و نصاری) کی پیروی میں ایسے برابر ہو جاؤ گے جیسے جوتے کا ایک تلوا دوسرے تلوے کے برابر ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھسو گے۔‘‘
یوم ولادت کی عید جو آج بہت سارے لوگ اپنے لئے یا اپنی اولاد یا والد کے لئے مناتے ہیں امت اسلامیہ کے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کا ایک فعل ہے جسے مسلمانوں نے اپنا لیا ہے۔ بہت سے لوگ اہل کتاب کی تقلید میں سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی عید میلاد کا اہتمام کرتے ہیں جس طرح اہل کتاب عیسی علیہ السلام کی عید میلاد مناتے ہیں، حالانکہ آپ کا مقام و مرتبہ اور شرف و فضیلت تمام انسانوں کے درمیان نہایت ممتاز اعلیٰ اور مسلم ہے، آپ کی ولادت با سعادت کا جشن منانے سے آپ کے مرتبہ و فضیلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ ولادت ایک ایسی شے ہے جس میں تمام انسان بلکہ تمام مخلوق مشترک ہیں۔
یوم ولادت کے جشن کی بجائے اگر یوم نبوت کو عید منانے کی بات ہوتی کہ جس روز آپ پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا یا واقعہ ہجرت کی یاد میں جشن منایا جاتا کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو آلام و مصائب سے نجات دی اطمینان و سکون بخشا ان کی اپنی حکومت قائم ہوئی، قتال کی اجازت ملی اور شان و دبدبہ اور شوکت و قوت حاصل ہوئی یا غزوہ بدر کے دن کو جشن و مسرت کے لئے خاص کیا جاتا جسے یوم الفرقان کہا جاتا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے دشمنان اسلام کو ذلیل ورسوا کیا اور مسلمانوں کو فتح و نصرت سے نوازا یا فتح مکہ کے دن کو یوم عید قرار دیا جاتا کہ جس کے فورًا بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے ہر چہار جانب سے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے لئے وفود آئے اور تمام اہل عرب مطیع و فرمانبردار ہو گئے یا حجۃ الوداع کے دن کی مناسبت سے عید منائی جاتی کہ جس روز اللہ تعالی نے دین اسلام کی تکمیل فرمائی مسلمانوں پر اپنی نعمتیں پوری کیں اور ان کے لئے مذہب اسلام کو پسند کیا اگر تاریخ کے ان اہم واقعات میں سے کسی واقعہ کی عید منانے یا جشن کا اہتمام کرنے کی بات ہوتی کہ جہاں سے اسلامی تاریخ میں ایک انقلاب آیا تو البتہ عید میلاد النبی کی بہ نسبت یہ عید قدرے عقل سے لگتی ہوئی ہوتی۔
لیکن مسلمانو! یاد رکھو کہ سب سے بہترین طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے اور سب بدترین فعل وہ ہے جو دین کے نام پر لوگوں نے بعد میں ایجاد کر لیا ہو۔ اگر عید میلاد النبی کا عمل مشروع اور باعث ثواب ہوتا تو ہمارے اسلاف خود کو اس سعادت سے محروم نہ رکھتے بلکہ انہوں نے ضرور اس کار خیر کو انجام دیا ہوتا حالانکہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔
مزید بر آن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)[اس حدیث کا حوالہ گذر چکا ہے۔]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر شریعت کا حکم نہ ہو تو وہ عمل مردود و ناقابل قبول ہے۔‘‘
اس قسم کی مجالس و محافل کا انعقاد اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی وجہ سے ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی محبت باعث ثواب ہے اور کسی بھی شخص کا اسلام اس وقت تک صحیح نہیں ہو گا جب تک کہ اس کے دل میں آپ کی محبت پیدا نہ ہو بلکہ جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے نزدیک اس کے اپنے نفس اپنی اولاد اپنے باپ اور سارے لوگوں سے زیادہ عزیز و محبوب نہ ہو جائیں اس کا ایمان ہی نا مکمل رہے گا۔ [صحیح بخاری: کتاب الایمان، باب حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم من الایمان (1514) و صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (44)]
لیکن ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس امت کے اسلاف صحابہ کرام ہم سے کہیں زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اس طرح کی محفلیں منعقد نہیں کیں اور اس قسم کے جشن نہیں منائے۔
ثانيًا ’’محبت‘‘ مجلسیں منعقد کرنے، طرح طرح کے پکوان کھانے اشعار پڑھنے اور لیے لیے قصیدے سننے اور سنا لینے کا نام نہیں بلکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی جائے آپ کا طریقہ اپنایا جائے آپ کی سنت کی پیروی کی جائے اور آپ کی سیرت کو اپنے لئے ہر وقت اور ہر معاملہ میں اسوہ بنایا جائے ارشاد الہی ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ﴾ (الاحزاب: 21)
’’تمہارے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) بہترین اسوہ ہیں اس شخص کے لئے جسے اللہ (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی امید ہو۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی کتاب قرآن مجید کو لازم پکڑو کہ اس سے راہ یاب ر ہو گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو کہ اس کے ذریعہ فلاح پاؤ گے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ﴿ولَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوفٌ رَحِيْمٌ﴾ (التوبه: 128)
’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم السائر المسلمين من كل ذنب . فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبہ ثانیہ
الحمد لله على إحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، تعظيماً لشأنه سبحانه، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله الداعي إلى رضوانه، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه وإخوانه.
ہر قسم کی تعریف و ثنا اور شکر و سپاس اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے انعام واکرام اور توفیق سے نوازا۔ میں اللہ سبحانہ کی عظمت شان کا اقرار کرتے ہوئے شہادت دیتا ہوں کہ اس ذات واحد کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور انسانیت کو اس کی رضا و رحمت کی طرف بلانے والے ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بنده و رسول محمد پر اور ان کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے اور سب سے اچھار استہ سید نا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دکھایا ہوا راستہ ہے۔ اور سب سے بد ترین شئے بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ جماعت کے ساتھ اللہ کی توفیق و نصرت ہوتی ہے اور جو جماعت سے نکلا وہ جہنم رسید ہوا۔
اللہ کے بندو! سوچو تو سہی، آخر کب تک ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں گے؟ کتاب اللہ سے کب تک منہ موڑے رہیں گے؟ سنت رسول سے کب تک اعراض کرتے رہیں گے؟ اور یاد آخرت سے کب تک غفلت برتتے رہیں گے؟ قرآن کریم اعلان کر رہا ہے:
﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُوْنَ﴾ (الانبياء:1)
’’لوگوں کا حساب ( یعنی اعمال کی جانچ کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں۔‘‘
کیا ہم میں کا ہر شخص یہ نہیں جانتا کہ دنیا سے اسے جاتا ہے؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ قبر میں رکھے جانے کے بعد دو فرشتے (منکر و نکیر) اس سے سوال کریں گے؟ اور پھر بروز قیامت اللہ رب العالمین کے روبرو اس کا نہایت سختی کے ساتھ حساب ہو گا؟ اور لوگ دو طبقوں میں بٹ جائیں گے ایک طبقہ جنت میں داخل ہو گا اور دوسرا جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔
اے اللہ! تو ہمیں خواب غفلت سے بیدار کر دے، ہماری آنکھیں کھول دے اور توفیق دے کہ آخرت کے لئے ہم کچھ توشہ تیار کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔