اتحاد و اتفاق کی اہمیت

ارشاد ربانی ہے ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران آیت: 103)
ترجمہ: اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔
عَنْ عَرْفَجَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يقولُ : إِنَّهُ سَتَكُونَ هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيْعٌ، فَاضْرِبُوهُ بالسَّيْفِ كَائِنَا مَنْ كَانَ (اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم كتاب الإمارة، باب حكم من فرق أمر المسلمين وهو مجتمع.)
عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول اللہ اے سے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب فتنے اور فساد ہوں گے پھر جو کوئی اس امت کے اتفاق کو بگاڑنا چاہے تو اس کو تلوار سے مارنا چاہئے جو کوئی بھی ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِنَّ اللَّهَ يرْضَى لَكُم ثَلَاثًا وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا، فيرضى لَكُمْ أَن تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوابه شيئًا، وأن تَعْتَصِمُوا بِحَبْل الله جَمِيعًا، وَلَا تَفَرَّقُوا وَيَكْرَهُ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، (أخرجه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الأقضية، باب النهي عن كثرة المسائل من غير حاجة والنهي عن منع ….)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری تین باتوں سے خوش اور تین باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ تم اس کی عبادت کروا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر پکڑے رہو اور الگ نہ ہو جاؤ (یعنی قرآن پر عمل کرتے کرتے۔ اور اختلاف سے بچو۔) اور تمہارے بے فائدہ بک بک کرنے اور بہت پوچھنے سے ناراض ہوتا ہے (یعنی ان مسائل کا پوچھنا جن کی ضرورت نہ ہو یا ان باتوں کا جن کی حاجت نہ ہو اور جن کا پوچھنا دوسرے کو ناگوار گزرے) اور مال کے تباہ کرنے سے (یعنی بے فائدہ خرچ کرنے سے جو نہ دنیا میں کام آئے اور نہ عقبی میں)۔
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوعِظَةٌ بَلِيغَةً، ذَرَفَتْ مِنهَا العيون ووجلت منها القلوب، فَقَالَ قَائِلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ هَذِهِ مَوعِظَةٌ مُوَدْعٍ فَإِذَا تَعَهَدُ إِلَيْنَا، فَقَالَ : أَوْصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنكُم بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةَ الْخُلَفُاءِ الرَّاشِدِيْنَ المَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَغَضُوا عَلَيْهَا بالنَّواجِدْ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةً. (أخرجه أبو داود والترمذي).
(سنن ابوداود، كتاب السنة، باب في لزوم السنة، سنن ترمذی ابواب العلم باب ماجاء في الأخذ بالسنة وإحتساب البدعة، وقال حسن صحيح، ح: 2676 وصححه الألباني في صحيح سنن الترمذی (2676).
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللهﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک جامع وعظ فرمایا جس سے ہماری آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور قلوب تھرا گئے۔ ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کا خطبہ ایسا لگا جیسے الوداعی خطبہ ہو، آپ ہمیں وصیت کیجئے آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں تقوی کی وصیت کرتا ہوں، اور اگر تمہارے اوپر کوئی کالا حبشی حاکم مقرر ہو جائے تو اس کی بھی اطاعت کرنا اور جو شخص تم میں۔ میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف پائے گا پس تمہارے اوپر ہماری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کا اختیار کرنا ضروری ہے، اسے مضبوطی (دانتوں) سے پکڑے رکھو اور نئی چیزوں (بدعتوں) سے بچو اس لئے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
تشریح:
اسلام میں اتحاد و اتفاق کی کافی اہمیت ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا ہے وہ پستی کی طرف چلے گئے ہیں اور ان کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو ہمیشہ اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے کہ وہ قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑے رہیں آپس میں متحد رہیں اور اختلافات سے بچیں تاکہ وہ دوسروں پر غالب رہیں اور ان کا مقام لوگوں کے مابین بلند رہے۔ اللہ تعالی ہمیں متحد رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اختلافات سے بچائے۔
فوائد:
٭ قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے۔
٭ اختلاف و افتراق سے بچنا بیحد ضروری ہے۔
٭ اختلاف ہی فتنہ و فساد کا سبب ہے۔
٭ حاکم وقت کی اطاعت واجب ہے۔
٭٭٭٭