جہادی سیرت 
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جہادی سیرت
01.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو  قتال کا حکمِ الہی
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (التوبة : 73)
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کی بری جگہ ہے۔
فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا (النساء : 84)
پس اللہ کے راستے میں جنگ کر، تجھے تیری ذات کے سوا کسی کی تکلیف نہیں دی جاتی اور ایمان والوں کو رغبت دلا، اللہ قریب ہے کہ ان لوگوں کی لڑائی روک دے جنھوں نے کفر کیا اور اللہ بہت سخت لڑائی والا اور بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ ، إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ (بخاری 25)
، مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
02.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم غلبہء اسلام کے لیے قیامت تک تلوار دے کر بھیجے گئے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ” بُعِثْتُ بِالسَّيْفِ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لِيُعْبَدَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ رُمْحِي وَجُعِلَ الذُّلُّ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَنِي وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ” (مصنف ابن ابی شیبة١٩٤٣٧ -)
 مجھے قیامت کے دن تک تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے یہاں تک کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی جائے اور میرا رزق میری تلوار کے نیچے رکھ دیا گیا اور جو میری مخالفت کرے گا اس پر ذلت رسوائی مسلط کر دی جائے گی اور جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انہیں میں سے ہوگا
03.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا شوق شہادت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ (

بخاری ومسلم)
 ”اگر میری امت پر یہ امر مشکل نہ گزرتا تو میں کسی سریہ ( یعنی مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ جس کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہو ) کی شرکت بھی نہ چھوڑتا۔ لیکن میرے پاس سواری کے اتنے اونٹ نہیں ہیں کہ میں ان کو سوار کر کے ساتھ لے چلوں اور یہ مجھ پر بہت مشکل ہے کہ میرے ساتھی مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ میری تو یہ خوشی ہے کہ اللہ کے راستے میں میں جہاد کروں، اور شہید کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں ۔“
04.نبی کریم اور آپ کے ساتھی کفار پر بہت گراں تھے
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ  (الفتح : 29)
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، ۔
05.دشمن، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا رعب ایک ماہ کی مسافت سے محسوس کیا کرتے تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي ، نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ ، وَأُحِلَّتْ لِي الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً ، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً (بخاری 335)
 مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو ( جہاں بھی ) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں
06.آپ نے مکی دور میں ہی قریش کو قتال کی وعید سنا دی تھی
عروہ بن زبیر نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے پوچھا : ’’قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ جو ایذا دی وہ کیا تھی؟‘‘ تو انھوں نے دو دنوں کا ذکر فرمایا، جن میں سے ایک وہ دن تھا جب عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں چادر ڈال کر گلا گھونٹا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دھکا دے کر آپ کو چھڑایا اور ایک اس سے پہلا دن کہ جب آپ طواف کر رہے تھے اور جب آپ کفارِ قریش کے پاس سے گزرتے تو وہ کوئی نہ کوئی تکلیف دہ بات کرتے، تین چکروں میں ایسا ہی ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ تَسْمَعُوْنَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ! أَمَا وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ ] ’’قریشیو ! سنتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! میں تمھارے پاس (تمھارے) ذبح (کا پیغام) لے کر آیا ہوں۔‘‘ [ مسند أحمد : 218/2، ح : ۷۰۵۴۔ مسند أبی یعلٰی : 425/6، ح : ۷۳۳۹ ] مسند احمد اور مسند ابی یعلی ٰ دونوں کی تحقیق میں اسے حسن کہا گیا ہے
07.مکی زندگی میں مشرکین سے اعلان برات کرتے ہوئے
( قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ * لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ * وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ * وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ * وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ * لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ)
کہہ دے اے کافرو!
میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔
اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔
اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔
اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔
تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ۔
08.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی بڑی جنگ جنگ بدر، پچپن سال کی عمر میں لڑی
09.جہادی سفر کے دوران نبی کریم اپنی باری پر پیدل چلنے کو ہی ترجیح دیتے تھے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
بدر کے دن ہم میں سے ہر تین افراد کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا حضرت علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں کہتے
نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ
 کہ اے اللہ کے رسول آپ کی باری پر بھی ہم ہی چلیں گے تو آپ انہیں جوابا ارشاد فرماتے
 مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنْ الْأَجْرِ مِنْكُمَا (مسند احمد)
نہ تو تم دونوں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہو اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ مجھے اجر کی ضرورت نہیں ہے
10.بدر کے معرکے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم زرہ پہنے ہوئے بذات خود شریک ہوتے ہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 [ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اَللّٰهُمَّ إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ ]
 ’’اے اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دیتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے (تو اس تھوڑی سی جمعیت کو مٹ جانے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دے، ورنہ اس کی ضرور مدد فرما)۔‘‘
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے : ’’اے اللہ کے رسول! بس کیجیے، آپ نے اپنے رب سے نہایت اصرار کے ساتھ دعا کی ہے۔‘‘
 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے اچھلتے ہوئے نکلے اور آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے :
 « سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ » (القمر : 45)
 ’’ عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ: {سیھزم الجمع } : ۴۸۷۵ ]
11.نبی کریم گھڑ دوڑ کا مقابلہ کراتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ، يُرْسِلُهَا مِنْ الْحَفْيَائِ، وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ، وَسَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضْمَرْ، وَكَانَ أَمَدُهَا مِنْ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ
 کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (حفیاء سے ثنیّۃ الوداع تک) گھوڑوں کی دوڑ کرائی (کہ کون گھوڑا آگے نکلتا ہے)  حفیاء سے روانہ کرتے (دوڑاتے) اور ثنیّۃ الوداع آخری حد تھی۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان گھوڑوں میں بھی دوڑ کرائی جو محنت ومشقت کے عادی نہ تھے (جو سدھائے اور تربیت یافتہ نہ تھے) اور ان کے دوڑ کی حد ثنیّۃ سے مسجد بنی زریق تک تھی
حفیاء ایک گاؤں کا نام اور ثنیّۃ الوداع ایک پہاڑ یا ایک محلے کا نام ہے۔
 ثنیّۃ سے مسجد بنی زریق تک ایک میل کا اور حفیاء سے ثنیّۃ تک پانچ چھ میل کا فاصلہ ہے
12.نبی کریم کی اونٹنی سے آگے کوئی نہیں نکل سکتاتھا
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں
كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ، تُسَمَّى الْعَضْبَائَ، لاَ تُسْبَقُ؛ فَجَائَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ، فَسَبَقَهَا؛ فَشَقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ؛ فَلَمَّا رَأَى مَا فِي وُجُوهِهِمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! سُبِقَتْ الْعَضْبَائُ! قَالَ: ” إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يَرْتَفِعَ مِنْ الدُّنْيَا شَيْئٌ إِلاَّ وَضَعَهُ "۔ (نسائی)
 کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس عضباء نامی ایک اونٹنی تھی وہ ہارتی نہ تھی، اتفاقاً ایک اعرابی (دیہاتی) اپنے جوان اونٹ پر آیا اور وہ مقابلے میں عضباء سے بازی لے گیا، یہ بات (ہار) مسلمانوں کو بڑی ناگوار گزری۔ جب آپ نے لوگوں کے چہروں کی ناگواری ورنجیدگی دیکھی تو لوگ خود بول پڑے: اللہ کے رسول! عضباء شکست کھا گئی (اور ہمیں اس کا رنج ہے)، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اللہ کے حق (واختیار) کی بات ہے کہ جب دنیا میں کوئی چیز بہت بلند ہو جاتی اور بڑھ جاتی ہے تو اللہ اسے پست کر دیتا اور نیچے گرا دیتا ہے” (اس لیے کبیدہ خاطر ہونا ٹھیک نہیں ہے)
13.نبی کریم مال غنیمت سے گھوڑے کو ڈبل حصہ دیا کرتے تھے
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے تھے
ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَرْبَعَةَ أَسْهُمٍ: سَهْمًا لِلزُّبَيْرِ، وَسَهْمًا لِذِي الْقُرْبَى لِصَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُمِّ الزُّبَيْرِ، وَسَهْمَيْنِ لِلْفَرَسِ۔ (نسائی)
خیبر کے سال زبیر بن العوام رضی الله عنہ کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں) چار حصے لگائے۔ ایک حصہ ان کا اپنا اور ایک حصہ قرابت داری کا لحاظ کر کے کیونکہ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی الله عنہا زبیر بن عوام رضی الله عنہ کی ماں تھیں اور دو حصے گھوڑے کے
14.احد کے روز جب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تو نبی کریم استقامت کا پہاڑ بن کر پیچھے سے آواز دے رہے تھے
 (صحیح مسلم میں روایت ہے ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے روزصرف سات انصار اور دوقریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان رہ گئے تھے۔)
 کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دم اچانک خالد بن  ولید کے شہسوار دکھائی پڑے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نورفقاء سمیت تیزی سے بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑدیتے یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ رضوان اللہ تعالی کو بلاتے اور ان کی ایک معتدبہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذتشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔ آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی کو پکارا، اللہ کے بندو…! ادھر….! حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی اور یہی ہوا بھی ، چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہیں موجود ہیں۔ لہذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا (الرحیق 360ص)
اسی واقعہ کو قرآن نے بیان کیا ہے
إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (آل عمران : 153)
جب تم دور چلے جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول تمھاری پچھلی جماعت میں تمھیں بلا رہا تھا تو اس نے بدلے میں تمھیں غم کے ساتھ اور غم دیا، تاکہ تم نہ اس پر غم زدہ ہو جو تمھارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمھیں مصیبت پہنچی اور اللہ اس کی پوری خبر رکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔
15.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم مبارک پر جہادی زخم
 آپﷺ کا داہنا نچلا رباعی دانت ٹوٹ گیا۔
 اور آپﷺ کا نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔
ایک کافر نے آگے بڑھ کر آپﷺ کی پیشانی زخمی کردی۔
 ایک اور اڑیل سوار عبداللہ بن قمئہ نے لپک کر آپﷺ کے کندھے پر ایسی سخت تلوار ماری کہ آپﷺ ایک مہینے سے زیادہ عرصے اس کی تکلیف محسوس کرتے رہے۔
 اس کے بعد اس نے پہلے ہی کی طرح پھرایک زور دار تلوار ماری جوآنکھ سے نیچے کی اُبھری ہوئی ہڈی پر لگی اور اس کی وجہ سے خود کی دوکڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں۔
 صحیح بخاری و مسلم میں مروی ھے
سھل رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جنگ احد کے زخموں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا
 جُرِحَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ فَكَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَغْسِلُ الدَّمَ وَعَلِيٌّ يُمْسِكُ فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّ الدَّمَ لَا يَزِيدُ إِلَّا كَثْرَةً أَخَذَتْ حَصِيرًا فَأَحْرَقَتْهُ حَتَّى صَارَ رَمَادًا ثُمَّ أَلْزَقَتْهُ فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ ( بخاري ومسلم)
حضرت سَہلؓ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کا زخم کس نے دھویا ؟ پانی کس نے بہایا ؟ اور علاج کس چیز سے کیا گیا ؟ آپﷺ کی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھورہی تھیں۔ اور حضرت علیؓ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑ ا لیا۔اور اسے جلا کر چپکا دیا ، جس سے خون رک گیا
 جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَعْضِ الْمَشَاهِدِ وَقَدْ دَمِيَتْ إِصْبَعُهُ فَقَالَ
هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ (بخاري 5794  و مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لڑائی کے موقع پر موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے مخاطب ہو کر فرمایا تیری حقیقت ایک زخمی انگلی کے سوا کیا ہے اور جو کچھ ملا ہے اللہ کے راستے میں ملا ہے
 ( مولانا وحیدالزماں مرحوم نے ترجمہ یوں کیا ہے ) ایک انگلی ہے تیری ہستی یہی۔۔۔ تو اللہ کی راہ میں زخمی ہوئی
16.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہر نشانہ باز بھی تھے
 احد کے دن ابی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہے؟ یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کوئی اس پرحملہ کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسے آنے دو۔ جب قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا اور اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے آپہنچے۔ اس کی خود اورزرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھلی دکھائی پڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ٹکا کر  نیزہ مارا
 تو چیختے ہوئے کہنے لگا مجھے واللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کردیا۔
(اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب مکے میں ابی کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی تو وہ آپ سے کہتا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس عودنامی ایک گھوڑا ہے۔ میں اسے روزانہ تین صاع (ساڑھے سات کیلو) دانہ کھلاتا ہوں۔ اسی پر بیٹھ کر تمیں قتل کروں گا۔ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بلکہ ان شا ء اللہ میں تمیں قتل کروں گا۔) (ابن ہشام 2/ 84 – زاد المعاد 2 / 97)
اسے ابن جریر اورامام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے سعید بن مسیب اورزھری رحمہما اللہ تعالی سے روایت کیا اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے تفسیر ابن کثیر ( 2 / 296 ) اس کی سند کوصحیح قرار دیا ہے
17.نبی کریم لوگوں کو تیر اندازی پر ابھارا کرتے تھے
سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَسْلَمَ يَتَنَاضَلُونَ بِالسُّوقِ ، فَقَالَ :   ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ لِأَحَدِ الْفَرِيقَيْنِ فَأَمْسَكُوا بِأَيْدِيهِمْ ، فَقَالَ : مَا لَهُمْ قَالُوا وَكَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَ بَنِي فُلَانٍ ، قَالَ : ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ (بخاری 3507)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کے صحابہ کی طرف سے گزرے جو بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل! خوب تیر اندازی کرو کہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں فلاں جماعت کے ساتھ ہوں، یہ سن کر دوسری جماعت والوں نے ہاتھ روک لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جب آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہو گئے تو پھر ہم کیسے تیر اندازی کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تیر اندازی جاری رکھو۔ میں تم سب کے ساتھ ہوں
18.میدان احد میں ستر اصحاب کی شہادت کے باوجود اگلے ہی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اور جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے
 جب مشرکین، احد سے پلٹ کر چند منزل دور چلے گئے تو وہ مدینے پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے یہ سن کر مسلمانوں میں خوف اور کمزوری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کہا : «حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ» ’’ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔‘‘
اور آپ نے مسلمانوں کو مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا،  اس وقت اگرچہ شرکائے احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے تھے لیکن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد (نامی جگہ) پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انھوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں، اگلے سال پھر آئیں گے۔
اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی کیا ہے
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران :، 172،173)
وہ جنھوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا، اس کے بعد کہ انھیں زخم پہنچا، ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے نیکی کی اور متقی بنے بہت بڑا اجر ہے۔
وہ لوگ کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لیے (فوج) جمع کر لی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس (بات) نے انھیں ایمان میں زیادہ کر دیا اور انھوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔
19.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جہادی اشعار پڑھا کرتے تھے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا اندازہ کرکے خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ ۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے،  تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :
 {اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهْ ¤ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ}
 ’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘
صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہا : {نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا ¤ عَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا}  ’’ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں کہتے : {اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الْآخِرَهْ ¤ فَبَارِكْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ}
 ’’اے اللہ! خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔‘‘
براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ يَنْقُلُ التُّرَابَ حَتَّى وَارَى التُّرَابُ شَعَرَ صَدْرِهِ ، وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ الشَّعَرِ وَهُوَ يَرْتَجِزُ بِرَجَزِ عَبْدِ اللَّهِ
 اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا
 وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا
 فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا
 وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا
 إِنَّ الْأَعْدَاءَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا
میں نے دیکھا کہ غزوہ احزاب میں ( خندق کھودتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود مٹی اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ سینہ مبارک کے بال مٹی سے اٹ گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( جسم مبارک پر ) بال بہت گھنے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے
 ”اے اللہ! اگر تیری ہدایت نہ ہوتی تو ہم نہ صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے تو ہمارے اوپر سکینت نازل کر اور جب ہم دشمن سے ملیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ھے وہ جب بھی فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں ہم اسے مٹا دیتے ہیں
20.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پیٹ پر پتھر باندھ کر جہاد کرتے ہوئے
 جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’خندق کے دن ہم کھدائی کر رہے تھے، تو ایک سخت چٹان پیش آگئی۔ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ یہ ایک سخت چٹان پیش آ گئی ہے۔
قَامَ وَ بَطْنُهُ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ، وَ لَبِثْنَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ لاَ نَذُوْقُ ذَوَاقًا،
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہمیں تین دن گزر چکے تھے کہ ہم نے کوئی چیز چکھی تک نہ تھی
میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔‘‘ گھر جا کر میں نے بیوی سے کہا :
رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ شَيْئًا، مَا كَانَ فِيْ ذٰلِكَ صَبْرٌ، فَعِنْدَكِ شَيْءٌ ؟  [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ۴۱۰۲ ]
 ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا، تو تیرے پاس کچھ (کھانے کے لیے) ہے؟‘‘
اسی غزوہ کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا ہے
إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا
هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الأحزاب : 11، 10)
جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔
اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔
21.خندق سے فارغ ہوتے ہی ایک اور جہادی مہم کے لیے روانہ
 عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : [ لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ وَ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ، أَتَاهُ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللّٰهِ! مَا وَضَعْنَاهُ، فَاخْرُجْ إِلَيْهِمْ قَالَ فَإِلٰی أَيْنَ؟ قَالَ هَاهُنَا، وَأَشَارَ إِلٰی بَنِيْ قُرَيْظَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِلَيْهِمْ ] [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب… : ۴۱۱۷ ] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس آئے، ہتھیار اتار دیے اور غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’آپ نے ہتھیار اتار دیے، اللہ کی قسم! ہم نے تو نہیں اتارے، سو آپ ان کی طرف نکلیے۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کس طرف؟‘‘ انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’اس طرف۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکل پڑے۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : [ كَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَی الْغُبَارِ سَاطِعًا فِيْ زُقَاقِ بَنِيْ غَنْمٍ مَوْكِبِ جِبْرِيْلَ حِيْنَ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِلٰی بَنِيْ قُرَيْظَةَ ] [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب…: ۴۱۱۸ ]’’گویا کہ میں وہ غبار چمکتا ہوا دیکھ رہا ہوں جو جبریل علیہ السلام کی سواری سے بنو غنم کی گلی میں اٹھ رہا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف گئے۔‘‘
22.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے موت کی بیعت لیا کرتے تھے
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے شاگرد یزید نےان سے پوچھا :
’’ اے ابو مسلم! آپ بیعت رضوان کے دن کس چیز پر بیعت کرتے تھے؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’موت پر۔‘‘
[ بخاري، الجہاد والسیر، باب البیعۃ في الحرب علٰی أن لا یفروا:۲۹۶۰ ]
اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے فرمایا :
’’ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ اس بات پر بیعت کی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔‘‘
 [ مسلم، الإمارۃ، باب استحباب مبایعۃ الإمام الجیش… : ۶۸ /۱۸۵۶ ]
اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح : 18)
بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
23.آپ نے دنیا کے مختلف بادشاہوں کے نام  بارعب خطوط لکھے
/تمام خطوط کا آغاز
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” سے
/سب سے پہلے اپنا نام
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم قبط کی جانب
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف
محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی عظیم فارس کی جانب
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب
محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام
/اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے
/میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہو گے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا
 اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہو گا "
اور اگر تم نے رو گردانی کی تو تم پر اریسیوں (رعایا) کا بھی (گناہ) ہو گا
 تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آ کر رہے گا لہذا اسلام لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا "
اور اگر تم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہو گی اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آ جائے گی "۔
24.دشمن کا تلوار سونت کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر کھڑا ہونا:
غزوۂ ذات الرقاع  ۷ھ میں جو صلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا۔ اس سفر سے واپسی پر ایک قابل ذکر واقعہ پیش آیا جسے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
اتفاق سے دوپہر کو ایسے مقام پر پہنچے جہاں خار دار درخت بہت تھے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں اتر پڑے۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی الگ الگ درختوں کے سائے میں ٹھہرے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہرے اور تلوار درخت سے لٹکا دی (اور سوگئے) جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ بھی سو رہے تھے۔
« ثُمَّ اِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلَّمَ یَدْعُوْنَا ، فَجِئْنَاہ فَاِذَا عِنْدَہُ اَعْرَابِیٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلمَ : اِنَّ ہٰذَا اخْتَرَطَ سَیْفِیْ وَاَنَا نَائِمٌ فَا سْتَیْقَظْتُ وَہُوَفی یَدِہ صَلْتًا فَقَالَ لِیْ ! "مَنْ یَمْنِعُکَ مِنِّیْ؟ قُلْتُ ! اللّٰہُ ! فَہَا ہُوَ ذاجَالِسٌ” ثُمَّ لَم یُعَاقبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم»
 یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم کو بلانے لگے۔ہم آئے تو دیکھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک گنوار (غورث بن حارث) بیٹھا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: پتہ ہے ابھی اس گنوار نے کیا کیا؟ میں سورہا تھا کہ اس نے میری تلوار سونت لی۔ میں جاگا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں دیکھی۔کہنے لگا! اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا’’ میرا اللہ‘ ‘دیکھو وہ گنوار یہ بیٹھا ہے۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو کوئی سزا نہ دی۔)
25.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ :    لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ (بخاری 2908)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔
62.سخت جنگ کے وقت لوگ آپ کے پیچھے چھپا کرتے
  حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا :
 «كُنَّا وَاللهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِي بِهِ، يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم 4616)
 اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کی اوٹ لیتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑا ہوتا
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ذکر فرمایا :
[ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّفُ فِي الْمَسِيْرِ فَيُزْجِي الضَّعِيْفَ وَيُرْدِفُ وَيَدْعُوْ لَهُمْ ]
[ أبوداوٗد، الجہاد، باب في لزوم الساقۃ : ۲۶۳۹۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲۱۲۰ ]
 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے رہتے، کمزور (کی سواری) کو ہانکتے اور (پیدل کو) پیچھے بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔‘‘
27.حنین کی جنگ میں آپ کی ثابت قدمی اور جوانمردی کااعلی نمونہ
ایک آدمی حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا : ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا : میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رخ تک نہیں پھیرا ، کچھ جلد باز لوگ اور نہتے ہوازن کے اس قبیلے کی طرف بڑھے ، وہ تیر انداز لوگ تھے ، انہوں نے ان ( نوجوانوں ) پر اس طرح یکبارگی اکٹھے تیر پھینکے جیسے وہ ٹڈی دل ہوں ۔ اس پر وہ بکھر گئے ، اور وہ ( ہوازن کے ) لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے ، ابوسفیان ( بن حارث ) رضی اللہ عنہ آپ کے خچر کو پکڑ کر چلا رہے تھے ،
فَنَزَلَ وَدَعَا وَاسْتَنْصَرَ، وَهُوَ يَقُولُ:
 «أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ،
 أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ،
اللهُمَّ نَزِّلْ نَصْرَكَ»،
تو آپ نیچے اترے ، دعا کی اور ( اللہ سے ) مدد مانگی ، آپ فرما رہے تھے : میں نبی ہوں ، یہ جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔ اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما ۔
حدیث مذکورہ میں تین باتیں قابل غور ہیں جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شجاعت  کے واضح دلائل ہیں:
01.فوج میں بھگدڑ مچی ہے۔ اس حال میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خچر پرسوار ہیں۔ کسی تیز گام گھوڑے پر نہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی کسی محفوظ مقام پر جلد پہنچ کر پناہ لے سکیں۔
02.خچر کا رنگ بھی سفید تھا۔جو دشمن کو دور سے بخوبی نظر آسکتا ہے۔
03.نعرہ بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  وہ لگا رہے ہیں جو دشمن کے کینہ و عداوت کا اصل سبب ہے
28.مسجد حرام میں پڑے بتوں پر جہادی نبی کی جہادی یلغار
:
فتح مکہ کے بعدرسول اللہﷺ جب مسجد حرام میں داخل ہوئے تو اس وقت آپﷺ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی ، اور بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر 360 بُت تھے۔ آپﷺ اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے ، اور کہتے جاتے تھے :
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (۱۷: ۸۱)
”حق آگیا اور باطل چلاگیا، باطل جانے والی چیز ہے۔”
”حق آگیا اور باطل کی چلت پھرت ختم ہوگئی۔”
اور آپﷺ کی ٹھوکر سے بُت چہروں کے بل گرتے جاتے تھے۔
وہاں آپ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بھی دکھائی دیں ،اور ان کے ہاتھ میں فال گیری کے تیر تھے۔ آپﷺ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا: اللہ ان مشرکین کو ہلاک کرے۔ اللہ کی قسم ! ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال کے تیر استعمال نہیں کیے۔ آپﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر لکڑی کی بنی ہوئی ایک کبوتری بھی دیکھی اسے اپنے دست مبارک سے توڑدیا اور تصویریں آپﷺ کے حکم سے مٹادی گئیں
الرحیق 550
29.الرحیق المختوم میں 80 غزوات کا تذکرہ ہے
ٹوٹل مدنی جہادی زندگی 9 سال بنتی ہے
گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی میں تقریباً ہر 35 دن کے بعد ایک جہادی معرکہ آرائی نظر آتی ہے
30.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کےترکہ میں دنیاوی متاع کی بجائے جہادی اسلحہ تھا
عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں
مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا، وَلاَ دِرْهَمًا، وَلاَ عَبْدًا، وَلاَأَمَةً، إِلاَّ بَغْلَتَهُ الشَّهْبَائَ الَّتِي كَانَ يَرْكَبُهَا، وَسِلاَحَهُ، وَأَرْضًا جَعَلَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ مَرَّةً أُخْرَى صَدَقَةً۔ (بخاری)
(رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم انتقال فرما گئے) اور انتقال کے وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام نہ لونڈی
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ