جہنم اور اس کا عذاب
اہم عناصر خطبہ :
٭ جہنم سے پناہ طلب کرنا
٭ جہنم سے ڈرانا
٭ جنت اور جہنم کے درمیان تکرار
٭ جہنمی گروہ
٭ جہنم کی آگ سب سے پہلے کن لوگوں کے ساتھ بھڑکائی جائے گی
٭جہنم کی گہرائی
٭ اہلِ جہنم کا کھانا پینا
٭ جہنم ہمیشہ رہے گی
٭ آتشِ جہنم کی شدت
٭عذابِ جہنم کی مختلف صورتیں
٭ عذابِ جہنم کے مراتب
٭ عذابِ جہنم سے نجات کس طرح ممکن ہے ؟
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! ہمارا سابقہ خطبۂ جمعہ جنت اور اہلِ جنت کے متعلق تھاجبکہ آج کا خطبہ جہنم اور اہلِ جہنم کے متعلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے ۔آ مین
جہنم اور اس کے عذاب کے متعلق اور جہنم والوں کے متعلق متعدد قرآنی آیات اور احادیث ِ نبویہ موجود ہیں۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
01.جہنم سے پناہ طلب کرنا
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یوں بیان فرمائی ہے :
﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا. إِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا﴾ (الفرقان25 :66-65)
’’ اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ کیونکہ اس
کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ۔ بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بد ترین جگہ ہے ۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ دعا اِس طرح سکھلاتے تھے جیسا کہ انھیں قرآن مجید کی ایک سورت سکھلاتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ،وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ،وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ)) (صحیح مسلم :590 )
’’اے اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ مسیحِ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر یہ دعا مانگتے تھے:
﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (صحیح البخاری:6389)
’’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی دے۔اور ہمیں عذابِ جہنم سے بچا ۔‘‘
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَتِ الْجَنَّۃُ : اَللّٰہُمَّ أَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ، وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ،قَالَتِ النَّارُ : اَللّٰہُمَّ أَجِرْہُ مِنَ النَّارِ )) (صحیح الجامع :6275)
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرے توجنت کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے ۔ اور جو آدمی جہنم سے تین مرتبہ پناہ طلب کرے توجہنم کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جہنم سے پناہ دے ۔‘‘
جب جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا اللہ کے بندوں کی ایک صفت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اسی بات کی تعلیم دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اکثر وبیشتر اس سے پناہ طلب کرتے تھے تو پھر ہمیں بالاولی جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔
02.جہنم سے ڈرانا
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہنم اور اس کے عذاب سے بار بار ڈرایا گیا ہے تاکہ اللہ کے بندے اس سے ڈرتے رہیں ، استقامت کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور اپنا دامن اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رکھیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِیْ النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلاَ ﴾ (الأحزاب33 :66)
’’ جس دن ان کے چہرے آگ میں پلٹے جائیں گے تو وہ کہیں گے : اے کاش ! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی بات مانی ہوتی ۔‘‘
لیکن وہاں یہ خواہش کسی کام نہیں آئے گی اور سوائے افسوس اور پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ملے گا ۔ اس لئے وہ وقت آنے سے پہلے ہمیں اپنی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی چاہئے تاکہ ہم عذابِ جہنم سے بچ سکیں ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِیْ النَّارِ عَلیٰ وُجُوْہِہِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ﴾ (القمر54:48)
’’ جس دن وہ لوگ آگ میں اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ جہنم کی لپٹ (حرارت اور شدت عذاب ) کا مزاچکھو۔ ‘‘
جبکہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آتشِ جہنم کو یاد کیا اور اس سے ڈرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ پیچھے ہٹایا ۔ پھر آپ نے فرمایا : ’’ جہنم سے بچو ۔ ‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ یاد کیا اور اپنا چہرہ پیچھے ہٹایا یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ )) (صحیح البخاری:6563،صحیح مسلم :1016)
’’ تم جہنم سے بچو اگرچہ کھجورکا آدھا حصہ صدقہ کرکے ہی ۔ اور جس شخص کو یہ بھی نہ ملے تووہ ایک اچھا کلمہ کہہ کر ہی اپنے آپ کو جہنم سے بچالے ۔‘ ‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا ۔ وہ اکٹھے ہوئے تو آپ نے ہر عام وخاص کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا :
(( یَا بَنِیْ کَعْبِ بْنَ لُؤَی ! أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ))
’’ اے کعب بن لؤی کی اولاد ! تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرۃ بن کعب کی اولاد ، عبد شمس کی اولاد ، عبد مناف کی اولاد ، بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب میں سے سب کو الگ الگ پکار کر کہا : ’’ تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو۔‘‘ پھر فرمایا : ( یَا فَاطِمَۃُ !
أَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ،فَإِنِّیْ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ) ’’ اے فاطمہ ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو ،میں اللہ کے ہاں تمھارے کسی کام نہ آؤں گا ۔‘‘ (صحیح البخاری :2753 و4771،صحیح مسلم :204واللفظ لمسلم)
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُؤْتٰی بِالنَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،لَہَا سَبْعُوْنَ أَلْفَ زِمَامٍ،مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَجُرُّوْنَہَا)) (صحیح مسلم:2842)
’’ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا ، اس کی ستر ہزار لگامیں ہو نگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہونگے۔‘‘
03.جنت اور جہنم کے درمیان تکرار
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جنت اور جہنم کے درمیان تکرار ہوئی ۔ چنانچہ جنت نے کہا : میرے اندر کمزور اور مسکین لوگ داخل ہوں گے اور جہنم نے کہا : میرے اندر ظالم اور متکبر لوگ داخل ہو نگے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے کہا:تُو میرا عذاب ہے ، تیرے ذریعہ میں جس سے چاہوں گا انتقام لوں گا ۔ پھرجنت سے کہا : تُو میری رحمت ہے ، تیرے ذریعہ میں جس پر چاہوں گا رحم کروں گا ۔ اور مجھ پرتم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا لازم ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری:7449،صحیح مسلم :2846)
محترم حضرات ! اس حدیث کی رو سے ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم ہر قسم کے ظلم اور اسی طرح بڑائی ، تکبر اور فخر سے اپنے آپ کو بچائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عذابِ جہنم سے محفوظ رکھے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اِتَّقُوْا الظُّلْمَ ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) (أحمد،طبرانی وغیرہ ۔ صحیح الجامع الصغیر للألبانی:101)
’’ ظلم سے بچوکیونکہ قیامت کے روز ظلم کی وجہ سے ( ظالم ) اندھیروں میں ڈوب جائے گا ۔‘‘
اور فرمایا : (( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ )) (صحیح مسلم:91)
’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا ۔‘‘
04.جہنمی گروہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَوَّلُ مَنْ یُّدْعٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ آدَمُ،فَتَرَائٰ ی ذُرِّیَّتُہُ،فَیُقَالُ:ہٰذَا أَبُوْکُمْ آدَمُ، فَیَقُوْلُ:لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، فَیَقُوْلُ: أَخْرِجْ بَعْثَ جَہَنَّمَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ،فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! کَمْ أُخْرِجُ ؟ فَیَقُوْلُ: أَخْرِجْ مِنْ کُلِّ مِائَۃٍ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ،فَقَالُوْا:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِذَا أُخِذَ مِنَّا مِنْ کُلِّ مِائَۃٍ تِسْعَۃٌ وَّتِسْعُوْنَ،فَمَاذَا یَبْقٰی مِنَّا؟ قَالَ:إِنَّ أُمَّتِیْ فِیْ الْأُمَمِ کَالشَّعْرَۃِ الْبَیْضَائِ فِیْ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ )) (صحیح البخاری:6529)
’’قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت آدم ( علیہ السلام ) کو پکارا جائے گا ۔ لہٰذا ان کی تمام اولاد ان کے سامنے آ جائے گی ۔ پھر ان سے کہا جائے گا:یہ ہیں تمھارے باپ آدم ۔ حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے:میں حاضر ہوں اور اپنی حاضری کو سعادت جانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا: اپنی اولاد میں سے جہنمی گروہ کو الگ کر دو ۔ تو وہ کہیں گے:اے میرے رب !کتنے لوگوں کو الگ کروں ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا:ہر سو میں سے ننانوے افراد کو الگ کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:اے اللہ کے رسول!جب ہم میں ہر سو میں سے ننانوے افراد کو الگ کردیا جائے گا تو باقی کون رہے گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( فکر نہ کرو ) میری امت پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسے ہو گی جیسے سیاہ رنگ کے بیل میں صرف ایک سفید بال ہو۔ ‘‘
05.سب سے پہلے جہنم کی آگ کس سے بھڑکائی جائے گی ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا۔ چنانچہ اسے لایا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا یعنی اقرار کر لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : میں تیرے راستے میں قتال کرتے کرتے شہید ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے توقتال صرف اس لئے کیا تھا کہ تجھے جرأت مند کہا جائے ۔ چنانچہ ایساہی کہا گیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔
پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا تھا اور اس نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور وہ قرآن کا قاری تھا ، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : میں نے علم حاصل کیا ، پھر لوگوں کو تعلیم دی اور تیری رضا کی خاطر قرآن کو پڑھا ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے علم صرف اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی کہا گیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا :جہاں کہیں خرچ کرنا تجھے پسند تھا وہا ں میں نے محض تیری رضا کی خاطر خرچ کیا اور ایسی کوئی جگہ میں نے چھوڑی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے تو محض اس لئے خرچ کیا تھا کہ تجھے سخی کہا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ ‘‘ (صحیح مسلم ۔ الإمارۃ باب من قاتل للریاء والسمعۃ :1905 )
جناب ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک حدیث بیان کرنے کے بعد میرے گھٹنے پر مارتے ہوئے فرمایا:
(( یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ !أُولٰئِکَ الثَّلاثَۃُ أَوَّلُ خَلْقِ اللّٰہِ تُسَعَّرُ بِہِمُ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) (سنن الترمذی :2382۔ وصححہ الألبانی)
’’ ابو ہریرہ ! یہ تینوں افراد اللہ کی وہ اولیں مخلوق ہیں کہ جن کے ساتھ قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی ۔ ‘‘
اس حدیث کی بناء پر یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام عبادات کو ریاکاری سے ، لوگوں سے تعریف سننے کی خواہش یا کسی دنیاوی غرض وغایت اور مقصد سے بچائیں اور انہیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کریں ۔ کیونکہ ریاکاری شرک اصغر ہے اور جس عمل میں ریا پایا جاتا ہو اسے وہ ضائع کردیتا ہے اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا جیسا کہ ہم اس حدیث کے حوالے سے یہ جان چکے ہیں کہ عالم اورقاریٔ قرآن کو اس کے علم اورقراء تِ قرآنسے کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے کو بھی اس کی قربانی سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور صدقہ وخیرات کرنے والے انسان کوبھی اس کا یہ عمل کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا بلکہ الٹا یہ اعمال جن کے کرنے والوں کی نیت میں اخلاص نہیں پایا جاتا تھا ان کیلئے وبال جان بن جائیں گے اور انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر سب سے پہلے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ والعیاذباللہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( إِنَّ أَخْوَفَ مَا أخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأصْغَرُ،قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ ؟ قَالَ: الرِّیَائُ،یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأصْحَابِ ذَلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسَ: اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا ، فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً ؟ )) (أحمد:429/5،وقال الہیثمی : رجالہ رجال الصحیح:مجمع الزوائد:102/1، الصحیحۃ للألبانی:951)
’’ بے شک مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! شرک اصغر کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ریاکاری ، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اُس دن جبکہ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا فرمائے گا : تم ان کے پاس چلے جاؤ جن کیلئے تم دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعے ریا کاری کرتے تھے ۔ پھر دیکھو کہ کیا تمھیں ان کا کوئی بدلہ ملتا ہے ؟ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تم سب غم والے کنویں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘
صحابہ کرم رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! غم والا کنواں کیا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وَادٍ فِیْ جَہَنَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ کُلَّ یَوْمِ أَرْبَعَمِائَۃِ مَرَّۃ ))
’’ وہ جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم دن میں چار سو مرتبہ پناہ طلب کرتی ہے ۔‘‘
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اس میں کون داخل ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أُعِدَّ لِلْقُرَّائِ الْمُرَائِیْنَ بِأَعْمَالِہِمْ،وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالَی الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْأُمَرَائَ)) (سنن الترمذی :2383،سنن ابن ماجہ :256۔ واللفظ لہ)
’’ اسے ان قراء کیلئے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اعمال سے ریاکاری کی نیت کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ قراء وہ ہیں جو ( ظالم ) حکمرانوں کے پاس آتے جاتے ہیں ۔‘‘
06.جہنم کی گرمی کی شدت
اللہ تعالیٰ نے آتشِ جہنم کی شدت کا تذکرہ مختلف الفاظ میں کیا ہے ۔
چنانچہ اس کا فرمان ہے :﴿ فَأَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی﴾ (اللیل92 :14)
’’ پس لوگو ! میں نے تمھیں آگ سے ڈرا دیا ہے جو دہکتی رہے گی ۔‘‘
یعنی دہکنے والی آگ سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے بھڑکنے والی آگ کے وصف سے ذکر کیا : ﴿سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ﴾
’’ وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہو گا ۔‘‘ (المسد111:3)
اور فرمایا :﴿ إِنَّہَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ﴾ (المرسلات77 :32)
’’ جہنم محل کی مانند بڑے بڑے انگارے پھینکے گی ۔‘‘
یعنی آتشِ جہنم کے انگارے محل کی مانند بڑے بڑے ہونگے۔ والعیاذ باللہ
اور فرمایا:﴿کَلاَّ إِنَّہَا لَظیٰ. نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی. تَدْعُوْ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلّٰی. وَجَمَعَ فَأَوْعٰی﴾ (المعارج70: 18-15)
’’ ہر گز نہیں ، وہ ( جہنم ) آگ کا شعلہ ہو گی ، وہ تو سر کے چمڑے ادھیڑ ڈالے گی ، وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جس نے حق سے منہ موڑا تھا اور پیٹھ پھیر لی تھی ۔ اور مال جمع کیا تھا اور اسے سنبھال رکھا تھا ۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( نَارُکُمْ ہٰذِہِ الَّتِیْ یُوْقِدُ ابْنُ آدَمَ جُزْئٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْئً ا مِنْ نَّارِ جَہَنَّمَ ))
’’ تمھاری یہ آگ جسے بنو آدم جلاتے ہیں جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ ( اگر چہ اس کا سترواں حصہ ہے لیکن پھر بھی ) کافی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَإِنَّہَا فُضِّلَتْ عَلَیْہَا بِتِسْعَۃٍ وَّسِتِّیْنَ جُزْئً ا کُلُّہَا مِثْلُ حَرِّہَا )) (صحیح البخاری :3265،صحیح مسلم :2843)
’’ جہنم کی آگ اس سے انہتر حصے زیادہ شدید ہے اوران میں سے ہر حصے کی گرمی اتنی ہے جتنی پوری دنیا کی آگ کی ہے۔ ‘‘
آتش ِ جہنم کی شدت اورسختی کااندازہ اس حدیث سے بھی کیا جا سکتا ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَیُصْبَغُ فِیْ النَّارِ صِبْغَۃً،ثُمَّ یُقَالُ :یَا ابْنَ آدَمَ!ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ ؟ فَیَقُوْلُ : لَا وَاللّٰہِ ،یَا رَبِّ )) (صحیح مسلم:2807)
’’ دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال انسان کو جو کہ جہنمی ہو گا قیامت کے دن لایا جائے گا ، پھر اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا ۔ اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا : اے ابن ِ آدم ! کیا تم نے کبھی خوشحالی دیکھی تھی ؟ اور کیا تم کبھی آسودہ حال رہے تھے ؟ تو وہ کہے گا : اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی خوشحالی نہیں دیکھی تھی اور نہ کبھی آسودہ حال رہا تھا ۔۔۔ ‘‘
07.جہنم کی گہرائی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ۔ اچانک آپ نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا :
’’ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس چیز کی آواز تھی ؟‘‘
ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ہٰذَا حَجَرٌ رُمِیَ بِہٖ فِی النَّارِ مُنْذُ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا ، فَہُوَ یَہْوِیْ فِی النَّارِ الْآنَ،حَتَّی انْتَہٰی إِلٰی قَعْرِہَا )) (صحیح مسلم :2844)
’’ یہ ایک پتھر کے گرنے کی آواز تھی جسے ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا اور وہ جہنم کی گہرائی میں برابر نیچے جاتا رہا یہاں تک کہ اب وہ اس کی گہرائی تک جا پہنچا ہے ۔‘‘
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَوْ أَنَّ حَجَرًا مِثْلَ سَبْعِ خَلِفَاتٍ أُلْقِیَ عَنْ شَفِیْرِ جَہَنَّمَ،ہَوٰی فِیْہَا سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا،لاَ یَبْلُغُ قَعْرَہَا)) (صحیح الجامع:5248۔ الصحیحۃ :2865)
’’ اگر ایک پتھر کو جو کہ سات موٹی اونٹنیوں کے برابر ہو جہنم کے کنارے سے جہنم کے اندر گرایا جائے اور وہ برابر ستر سال تک اس میں گرتا رہے تو وہ پھر بھی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے گا۔ ‘‘
08.آتشِ جہنم کی آنکھیں ، گردن ، زبان اور اس کے کان
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،لَہَا عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ،وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ ،وَلِسَانٌ یَنْطِقُ،یَقُوْلُ: إِنِّیْ وُکِّلْتُ بِثَلَاثَۃٍ:بِکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ،وَبِکُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا آخَرَ، وَبِالْمُصَوِّرِیْنَ )) (أحمد والترمذی:2574۔ صحیح الجامع :8051)
’’ قیامت کے دن ایک گردن جہنم کی آگ سے نکلے گی ، اس کی دو آنکھیں ہو نگی جن +سے وہ دیکھے گی، دو کان ہوں گے جن سے وہ سنے گی اور ایک زبان ہو گی جس سے وہ بات کرے گی۔ اور وہ کہے گی : مجھے تین افراد سونپے گئے ہیں : ہر ظالم وسرکش ، ہر وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارا اور تصویریں بنانے والے ۔‘‘
09.آتشِ جہنم کا رنگ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أُوْقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ،ثُمَّ أُوْقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ،ثُمَّ أُوْقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ،فَہِیَ سَوْدَائُ مُظْلِمَۃٌ)) (سنن الترمذی:2591، سنن ابن ماجہ:4320۔ حسن بشواہدہ)
’’ آتشِ جہنم کو ایک ہزار سال جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہو گئی ۔ پھر اسے مزید ایک ہزار سال جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہو گئی ۔ پھر اسے مزید ایک ہزار سال جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو گئی ۔ چنانچہ وہ اب سیاہ اور تاریک ہے ۔‘‘
10.جہنم میں کافر کے جسم کی ضخامت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ غِلَظَ جِلْدِ الْکَافِرِ اثْنَانِ وَأَرْبَعُوْنَ ذِرَاعًا،وَإِنَّ ضِرْسَہُ مِثْلُ أُحُدٍ، وَإِنَّ مَجْلِسَہُ مِنْ جَہَنَّمَ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ )) (سنن الترمذی :2577۔ وصححہ الألبانی ۔صحیح الجامع :2114)
’’ بے شک کافر کی کھال کی موٹائی ( ضخامت ) بیالیس ہاتھ کے برابر ہو گی اور اس کی ایک داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہو گی جتنی مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَابَیْنَ مَنْکِبَیِ الْکَافِرِ فِیْ النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ لِلرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ )) (صحیح البخاری :6551،صحیح مسلم :2852)
’’ جہنم میں کافر کے دونوں کندھوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا فاصلہ ایک تیز رفتار سوار تین دن میں طے کرتا ہے ۔‘‘
اور حضرت مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کی وسعت کتنی ہے ؟ تو میں نے کہا : نہیں ۔ انھوں نے کہا : ہاں ! اللہ کی قسم ، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جہنمی کے کانوں کی ایک لو سے اس کے کندھے تک ستر سال کی مسافت ہو گی ۔ اس میں پیپ اور خون کی وادیاں چلیں گی ۔‘‘ (أحمد ۔ بسند صحیح)
11.اہلِ جہنم کا کھانا
اہلِ جہنم کو جہنم میں کھانے کیلئے’ الزقوم ‘ نامی درخت اور خشک کانٹے دئیے جائیں گے ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ. طَعَامُ الْأثِیْمِ. کَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِیْ الْبُطُوْنِ. کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ ﴾ (الدخان44 : 46-43)
’’ بے شک زقوم( تھوہڑ) کا درخت گناہ گاروں کا کھانا ہے ۔ وہ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ، پیٹوں میں شدید گرم پانی کے کھولنے کی طرح کھولے گا ۔‘‘
اسی طرح فرمایا :﴿فَلَیْسَ لَہُ الْیَوْمَ ہَاہُنَا حَمِیْمٌ. وَّلاَ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ غِسْلِیْنٍ﴾ (الحاقۃ69 : 36-35)
’’ پس آج اس کا نہ کوئی دوست ہے اورنہ سوائے پیپ کے اس کی کوئی خوراک ہے ۔‘‘
زقوم کے درخت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں گر جائے تو اہلِ دنیا کی پورے متاعِ حیات کوبگاڑ کر رکھ دے ۔ پس اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کا کھانا ہی یہ درخت ہو گا۔‘‘ (صحیح الجامع:5250)
اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے کھانے کے متعلق فرماتے ہیں:
﴿ لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِنْ ضَرِیْعٍ . لاَّ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ﴾ (الغاشیۃ88 : 7-6)
’’ ان کا کھانا سوائے خوشک کانٹے کے کچھ نہ ہو گا ، وہ انھیں نہ موٹا کرے گا اور نہ ان کی بھوک دور کرے گا ۔‘‘
اور فرمایا :﴿ إِنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالاً وَّجَحِیْمًا. وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابًا أَلِیْمًا﴾ (المزمل73 :13-12)
’’ بے شک ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے ۔ اور گلے میں اٹک جانے والا کھانا ہے اور دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
12.اہل جہنم کا مشروب
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ. مِنْ وَّرَآئِہٖ جَہَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَّآئٍ صَدِیْدٍ. یَتَجَرَّعُہُ وَلاَ یَکَادُ یُسِیْغُہُ وَیَأْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ﴾ (إبراہیم14 :17-15)
’’ اور کافروں نے چاہا کہ اللہ ان کے اور رسولوں کے درمیان فیصلہ کر ہی ڈالے تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکش ومتکبر نامراد ہوا ۔ اور جہنم تو اس کا پیچھا کررہی ہے جہاں اسے ( جہنمی کو ) پیپ کا پانی پلایا جائے گا ، اسے وہ بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا اور اسے حلق سے نیچے اتار نہیں سکے گا ۔ اور موت اسے ہر چہار جانب سے گھیر لے گی لیکن وہ مر نہ سکے گا اور سخت عذاب اس کے پیچھے لگا ہو گا۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَارًا أَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا وَإِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآئٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِیْ الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَآئَ تْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف18: 29)
’’ بے شک ہم نے ظالموں کیلئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انھیں گھیر لیں گی۔ اور اگر وہ پانی کیلئے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے ہوگی جوپگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گا ، جو ان کے چہروں کو بھون دے گا ۔ وہ بہت ہی برا پانی ہو گا اور ( جہنم ) بہت ہی بری رہنے کی جگہ ہو گی۔‘‘
نیز فرمایا :﴿یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُ . یُصْہَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ . وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ﴾ (الحج22: 21-19)
’’ ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا گرم پانی انڈیلا جائے گا جس کی گرمی سے ان کے پیٹ کی ہر چیز اور ان کے چمڑے گل کر الگ ہو جائیں گے اور انھیں لوہے کے گرزوں سے سزا دی جائے گی ۔‘‘
اسی طرح حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جو آدمی شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے چالیس راتوں تک راضی نہیں ہوتا ۔ اگر وہ اس دوران مر گیا تو اس کی موت کافر کی موت ہو گی ۔ پھر اگر وہ دوبارہ شراب نوشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور (طِیْنَۃُ الْخَبَال)سے پانی پلائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ( طِیْنَۃُ الْخَبَال) کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہلِ جہنم کی پیپ۔ ‘‘ (رواہ أحمد و سندہ حسن،ولہ شاہد من حدیث ابن عمر وابن عمرو ۔ انظر:صحیح الجامع :6312 ۔6313)
13.جہنمیوں میں سب سے کم عذاب والا شخص
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ أَہْوَنَ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَہُ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ،یَغْلِیْ مِنْہُمَا دِمَاغُہُ کَمَا یَغْلِیْ الْمِرْجَلُ،مَا یَرٰی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْہُ عَذَابًا،وَإِنَّہُ لَأَہْوَنُہُمْ عَذَابًا)) (صحیح مسلم:213)
’’ جہنم والوں میں سب سے کم عذاب والا شخص وہ ہو گا جسے آتشِ جہنم کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے ۔ ان سے اس کا دماغ ایسے کھولنے لگے گا جیسے ایک ہانڈی کھولتی ہے اور وہ یہ تصور کرے گا کہ جہنم میں سب سے زیادہ عذاب اسی کو دیا جارہا ہے حالانکہ اس کاعذاب سب سے کم ہو گا ۔‘‘
14.عذابِ جہنم کے مختلف مراتب
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مِنْہُمْ مَّنْ تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی کَعْبَیْہِ،وَمِنْہُمْ مَّنْ تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَمِنْہُمْ مَّنْ
تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی حُجْزَتِہٖ،وَمِنْہُمْ مَّنْ تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی عُنُقِہٖ، وَمِنْہُمْ مَّنْ تَأْخُذُہُ النَّارُ إِلٰی تَرْقُوَتِہٖ )) (صحیح مسلم:2845)
’’ جہنمیوں میں بعض لوگ وہ ہوں گے جنھیں جہنم کی آگ ٹخنوں تک جلائے گی ۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں وہ ان کے گھٹنوں تک جلائے گی ۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں وہ ان کے نیفے ( ازار باندھنے کی جگہ ) تک جلائے گی ۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں وہ ان کی گردن تک جلائے گی ۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں وہ ان کی ہنسلی تک جلائے گی ۔‘‘
15.جہنمیوں کی چیخ وپکار
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمُ لاَ یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلاَیُخَفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ . وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ﴾ (فاطر35:37-36)
’’ اور اہلِ کفر کیلئے جہنم کی آگ ہو گی ۔ نہ انھیں ختم ہی کردیا جائے گا کہ مرجائیں اور نہ ہی اس کا عذاب ان سے ہلکا کیا جائے گا ۔ ہم ناشکر گذار کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔ وہ لوگ اس میں چیخیں ماریں گے اور کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال دے ، ہم نیک عمل کریں گے اس کے سوا جو ہم کرتے رہے تھے ۔ ( تو اللہ تعالیٰ کہے گا ) کیا ہم نے تمھیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرتا اور تمھارے پاس تو ہماری طرف سے ڈرانے والا رسول بھی آیا تھا ۔ تو اب اپنے کئے کا مزہ چکھو ، ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے ۔‘‘
نیز فرمایا : ﴿فَأَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِیْ النَّارِ لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ﴾ (ہود11 : 106)
’’ پس جو لوگ بد بخت ہو نگے ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا ، جہاں وہ چیخیں اور دھاڑیں ماریں گے ۔‘‘
اور فرمایا : ﴿وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا. إِذَا رَأَتْہُمْ مِّنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَہَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا . وَإِذَا أُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا. لاَ تَدْعُوْا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا﴾ (الفرقان25 :14-11)
’’اور قیامت کی تکذیب کرنے والوں کیلئے ہم نے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے ۔جب جہنم انھیں دور سے دیکھے گی تو وہ لوگ اسکی غصہ بھری آواز اور چنگھاڑ سنیں گے اور جب وہ ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے جہنم کی ایک تنگ جگہ میں ڈال دئے جائیں گے تووہاں وہ اپنی ہلاکت کو پکاریں گے۔(تو فرشتے ان سے کہیں گے)آج ایک ہلاکت کو نہیں،بہت سی ہلاکتوں کو آواز دو ۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جہنم والے ’مالک ‘ (جہنم کے نگران فرشتے ) کو پکاریں گے تو و ہ انھیں چالیس سال تک جواب نہیں دے گا ۔ پھر کہے گا : تم کو بس یہیں ٹھہرنا ہے۔ پھر وہ اپنے رب کو پکاریں گے اور کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہمیں اس سے نکال دے ۔ اگر ہم نے دوبارہ گناہ کئے تو یقینا ہم ظالم ہو نگے ۔ تو وہ بھی انھیں دنیا کے ایام کے برابر مدت گذرنے تک کوئی جواب نہیں دے گا۔ پھر کہے گا : دفع ہو جاؤ اور مجھ سے بات ہی نہ کرو ۔ پھر وہ مایوس ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد سوائے چیخ وپکار اور رونے کے اور کچھ نہ ہو گا ۔ ان کی آوازیں گدھوں کی آوازوں سے ملتی جلتی ہوں گی۔‘‘ (رواہ الطبرانی والحاکم ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترھیب :3691)
اور حضرت عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ أَہْلَ النَّارِ لَیَبْکُوْنَ حَتّٰی لَوْ أُجْرِیَتِ السُّفُنُ فِیْ دُمُوْعِہِمْ لَجَرَتْ )) (الحاکم ۔ الصحیحۃ :1679)
’’ بے شک جہنم والے ضرور روئیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے آنسوؤں میں کشتیاں چلائی جائیں گی تو وہ یقینا ان میں چل سکیں گی ۔‘‘
16.جہنم ہمیشہ رہے گی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ أَلَمْ یَعْلَمُوْا أَنَّہُ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَأَنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیْہَا ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ﴾ (التوبۃ9:63)
’’ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو اللہ اور رسول کی مخالفت کرے گا اس کیلئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ وہ بہت بڑی رسوائی ہو گی۔‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿فَادْخُلُوْا أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ ﴾ (النحل16:29)
’’ پس تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ کیلئے رہو گے ۔ اور وہ تکبر کرنے والوں
کیلئے بہت برا ٹھکانا ہے ۔‘‘
اور فرمایا:﴿إِنَّہُ مَنْ یَّأْتِ رَبَّہُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَہُ جَہَنَّمَ لاَ یَمُوْتُ فِیْہَا وَلاَ یَحْیٰی﴾ (طہ20:74)
’’بے شک جو شخص اپنے رب کے سامنے مجرم کی حیثیت سے آئے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا ۔ اس میں نہ وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا ۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا صَارَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ إِلَی الْجَنَّۃِ وَصَارَ أَہْلُ النَّارِ إِلَی النَّارِ،أُتِیَ بِالْمَوْتِ حَتّٰی یُجْعَلَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ثُمَّ یُذْبَحُ،ثُمَّ یُنَادِیْ مُنَادٍ:یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ!لَا مَوْتَ،وَیَا أَہْلَ النَّارِ!لَا مَوْتَ،فَیَزْدَادُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ فَرَحًا إِلٰی فَرَحِہِمْ،وَیَزْدَادُ أَہْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِہِمْ)) (صحیح البخاری: 6548، صحیح مسلم :2850)
’’ جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا ۔ پھر اسے جنت ودوزخ کے درمیان میں لا کرذبح کردیا جائے گا ۔ پھر ایک منادی اعلان کرے گا : اے اہلِ جنت ! تم پر کبھی موت نہیں آئے گی اور اہلِ جہنم ! تم پر بھی کبھی موت نہیں آئے گی ۔ چنانچہ جنت والوں کی خوشی میں اور جہنم والوں کے غم میں اور اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
جہنم میں کفارپر موت نہیں آئے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَ﴾ (النساء4 :56)
’’ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انھیں ہم یقینا آگ میں ڈال دیں گے ۔ جب ان کی کھالیں پک جائیں گی تو ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں۔ ‘‘
17.اپنی دعوت پر عمل نہ کرنے والے شخص کا عذاب
ایک ’داعی ‘لوگوں کو جس بات کی طرف دعوت دے ، نیکی کا حکم دے یا برائی سے منع کرے اور خود اُس دعوت پر عمل نہ کرے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ أَفَلاَتَعْقِلُوْنَ﴾ (البقرۃ2 :44)
’’ کیا تم لوگوں کو بھلی باتوں کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ حالانکہ تم اللہ کی کتاب پڑھتے ہو ، کیا تم ہوش نہیں کرتے ؟ ‘‘
اپنی دعوت پر عمل نہ کرنے والے شخص کو جہنم میں کونسا عذاب دیا جائے گا ؟
یہ حدیث سماعت کیجئے :
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ایک آدمی کو قیامت کے دن لایا جائے گا ۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی ۔ چنانچہ وہ اس طرح گھومے گا جیسا کہ ایک گدھا اپنی چکی کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ اہلِ جہنم اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے اور اس سے پوچھیں گے : اے فلاں ! تمھارا کیا معاملہ ہے ؟ تم تو ہمیں نیکی کا حکم دیا کرتے تھے اور برائی سے منع کیا کرتے تھے ؟ تو وہ جواب دے گا : میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ اور تمھیں برائی سے منع کرتا تھا لیکن خود اس سے نہیں بچتا تھا ۔‘‘ (بخاری ۔ بدء الخلق باب صفۃ النار وأنہا مخلوقۃ: 3267)
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مجھے معراج والی رات کچھ ایسے لوگوں کے پاس لایا گیا جن کے ہونٹ آتشِ جہنم کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے ۔ ایک مرتبہ انھیں کاٹا جاتا ، پھر انھیں واپس لوٹا دیا جاتااور پھر کاٹا جاتا۔ اسی طرح انھیں عذاب دیا جا رہا تھا ۔ میں نے کہا : اے جبریل یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا :یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو ایسی باتوں کا حکم دیتے تھے جن پر خود عمل نہ کرتے تھے اور کتاب اللہ کو پڑھا کرتے تھے لیکن اس پر عمل نہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (صحیح الجامع:129)
18.عذابِ جہنم کی بعض صورتیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ تَرَدّٰی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ ، فَہُوَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدّٰی فِیْہَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا،وَمَنْ تَحَسّٰی سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ، فَسَمُّہُ فِیْ یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِیْ یَدِہٖ یَجَأُ بِہَا فِیْ بَطْنِہٖ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا )) (صحیح البخاری:5778،صحیح مسلم:109)
’’ جس آدمی نے پہاڑ پر سے اپنے آپ کو گرا کر ما ردیا وہ جہنم میں ہو گااور اس میں اپنے آپ کو برابر گراتا رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اسے اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا ۔ اور جس آدمی نے زہر پی کر خود کشی کر لی وہ بھی جہنم میں ہوگا اور اس کی وہی زہر اس کے ہاتھ میں ہوگی جسے وہ برابر چاٹتا رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اسے یہ عذاب دیا جاتا رہے گا ۔ اور جس شخص نے لوہے سے اپنے آپ کو خود قتل کر ڈالا وہ بھی جہنم میں ہوگا اور اس کا وہ لوہا ( اسلحہ ) اس کے ہاتھ میں دے دیا گیا جائے گاجس سے وہ اپنے پیٹ کو مار تا رہے گااور اسے بھی ہمیشہ کیلئے یہ عذاب دیا جاتا رہے گا ۔‘‘
اور ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا : میں یہ تصویریں بناتا ہوں ۔ لہٰذا آپ مجھے ان کے بارے میں فتوی دیں ۔ انہوں نے کہا : میرے قریب آ جاؤ ۔ وہ قریب آگیا ۔ انہوں نے کہا : اور قریب آ جاؤ ۔ وہ اور قریب آگیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
(( کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ،یَجْعَلُ لَہُ بِکُلِّ صُوْرَۃٍ صَوَّرَہَا نَفْسًا،فَتُعَذِّبَہُ فِیْ جَہَنَّمَ ))
’’ ہر مصور جہنم میں ہے ، اس کیلئے اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ( اللہ ) ایک جان پیدا کر دے گا جو اسے عذاب دیتی رہے گی ۔‘‘
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم نے ضرور تصویریں بنانی ہی ہوں تو درخت اور بے جان چیزوں کی بنا سکتے ہو ۔ (صحیح مسلم:2110)
اور دوسری روایت میں فرمایا :
(( مَنْ صَوَّرَ صُوْرَۃً فِیْ الدُّنْیَا کُلِّفَ أَنْ یَّنْفُخَ فِیْہَا الرُّوْحَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَلَیْسَ بِنَافِخ )) (صحیح البخاری:5963،صحیح مسلم:2110)
’’ جس شخص نے دنیا میں تصویر بنائی اسے روزِ قیامت مکلف کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے ، لیکن وہ نہیں پھونک سکے گا ۔‘‘
19.جہنمی مسلمان کا فدیہ ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ ہٰذِہِ الْأُمَّۃَ أُمَّۃٌ مَرْحُوْمَۃٌ عَذَابُہَا بِأَیْدِیْہَا،فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ دُفِعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ فَیُقَالُ:ہٰذَا فِدَاؤُکَ مِنَ النَّارِ)) (سنن ابن ماجہ : 4292۔ صحیح الجامع:2261)
’’ بے شک یہ امت ایسی امت ہے جس پر رحم کیا گیا ہے اوراس کا عذاب ( دنیا میں ) خود اسی کے ہاتھوں میں ہے ۔ ( یعنی اس امت کے بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے عذاب دیا جائے گا ۔ ) پھر جب قیامت کا دن آئے گا توہر مسلمان کو ایک مشرک آدمی دیا جائے گا اور اسے کہا جائے گا : یہ ہے جہنم سے تمھارا فدیہ ۔‘‘
اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَجِیْئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ بِذُنُوْبٍ أَمْثَالَ الْجِبَالِ،فَیَغْفِرُہَا اللّٰہُ لَہُمْ ، وَیَضَعُہَا عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی )) (صحیح مسلم :2767)
’’ قیامت کے روز مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایسے آئیں گے جن پر پہاڑوں کی طرح گناہ ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے گا اور ان کے گناہ یہود یوں اور نصرانیوں پر ڈال دے گا ۔‘‘
20.زمین کے برابر سونے کے بدلے میں جہنم سے آزادی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ قیامت کے دن کافر کو لایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا : تمھارا کیا خیال ہے اگر تمھارے پاس زمین کے برابر سونا ہوتا تو کیا تم اس کے بدلے جہنم کے عذاب سے آزادی کا پروانہ حاصل کرتے ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ تو کہا جائے گا : تجھ سے دنیا میں اس سے کہیں زیادہ آسان مطالبہ کیا گیا تھا ( لیکن تم نے وہاں ہمارا آسان مطالبہ پورا نہ کیا ؟ ) ‘‘ (صحیح البخاری:6538و6557،صحیح مسلم :2805)
ایک روایت میں ہے : اسے کہا جائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان کام کا سوال کیا گیا تھا ( اور تم نے وہ بھی نہ کیا ۔)
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے فضل وکرم سے آتشِ جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
برادران اسلام ! آئیے اب یہ بھی جان لیجئے کہ ہم جہنم کے عذاب سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ أعاذنا اللہ منہا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلآئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم66: 69)
’’ اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔ جس پر سخت دل ، مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایمان والے کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائے ۔ اور یہ کیسے ہو گا ؟ یقینایہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے سے ، اس کے احکام پر عمل کرنے سے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں کوچھوڑ نے سے ہو گا ۔
نیز اس آیت کی روشنی میں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم اپنے اہل وعیال کو بھی جہنم سے بچانے کی فکر کرتے ہیں ؟ اگر ہم خود نمازی ہیں تو کیا ہم اپنے بیوی بچوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں؟ اگر ہم خود محرمات سے پرہیز کرتے ہیں تو کیا ہم اپنے اہل وعیال کو بھی محرمات سے منع کرتے ہیں ؟ کیا ہم اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو شرعی پردے کا حکم دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر فرض کیا ہے ؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری بیویاں اور بیٹیاں بے پردہ ہو کر بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومتی رہتی ہوں اور ہمیں ذرا بھی احساس نہ ہوتا ہو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے ہم سے ان کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کرنی ہے ؟ ہم جس طرح اپنے بچوں کو سکول کے امتحان کیلئے تیار کرتے ہیں ، کیا قبر کے امتحان کیلئے بھی انھیں تیار کرنے کا کبھی سوچا ؟ کیا ہمیں کبھی اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے بیوی بچے جب کوئی گناہ کرتے ہیں اور ہم انھیں منع نہیں کرتے تو ہم بھی ان کے گناہ میں شریک ہو جاتے ہیں !
عزیزان گرامی ! جہنم سے نجات پانے کیلئے اپنے دامن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچانا ضروری ہے ۔ لہٰذا جہنم سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کیلئے ضرور ی ہے کہ :
٭ ہم اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نافرمانی ( شرک )سے قطعی اجتناب کریں ۔ چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے متعلق یہ عقیدہ قطعا نہ رکھیں کہ وہ نفع ونقصان کا مالک ہے اور حاجتیں پوری کر سکتا ہے اور مشکلیں ٹال سکتا ہے ، کیونکہ یہ اختیارات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اس کو چھوڑ کر کوئی اورچاہے کوئی نبی ہو یا بزرگ ان اختیارات کا مالک نہیں ۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو پکاریں ، صرف اسی سے مدد مانگیں اور صرف اسی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھیں ۔
٭ نیز تمام عبادا ت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے بجا لائیں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں ، کیونکہ شرک کرنے والے کے تمام اعمالِ صالحہ غارت ہو جاتے ہیں اور جنت کو اس پر حرام کردیا جاتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿ اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ﴾ (المائدۃ5:72)
’’ یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔‘‘
اس لئے شرک کی تمام اشکال سے اپنا دامن پاک رکھیں ، درباروں اور مزاروں پر ہرگز نہ جائیں جہاں لوگ شرکیہ اعمال بجا لاتے ہیں ، قبروں کا طواف کرتے ہیں ، چادر یں چڑھاتے ہیں ، نذرونیاز پیش کرتے ہیں اور غیر اللہ سے مانگتے ہیں ۔
٭ اس کے علاوہ کسی نجومی یا عامل کے پاس قطعا نہ جائیں ، کیونکہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ ایسے لوگوں کے پاس جانا اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق شریعت ِ محمدیہ کا انکار کرنے کے برابرہے۔
٭دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے پرہیز کریں اور صرف وہ اعمال بجا لائیں جو کہ قرآن مجید سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہوں ، کیونکہ جو اعمال قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہوں وہ رد کردئے جاتے ہیں اور قابلِ قبول نہیں ہوتے ۔
٭ حلال کمائیں اور حلال ہی کھائیں اور حرام سے پرہیز کریں ۔ سودی لین دین ، چوری ، خیانت اور حرام اشیاء کی خرید وفروخت سے بچیں ۔ اور صرف جائز اور حلال ذرائعِ معاش اختیار کریں ۔
٭ اپنے پورے جسم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچائیں ۔ دماغ سے غلط نہ سوچیں ۔ کانوں سے بے حیائی کی گفتگو، گانے ، موسیقی ، غیبت ، اور چغلی وغیرہ نہ سنیں ۔ نظر سے غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ اپنی زبانوں کو جھوٹ ، گالی گلوچ ، غیبت ، جھوٹی گواہی اور چغلی وغیرہ سے محفوظ رکھیں ۔ اپنے پیٹ میں حرام نہ جانے دیں ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ اپنے ہاتھوں سے کسی حرام چیز کو نہ پکڑیں اور نہ ہی ان سے کسی کو تکلیف پہنچائیں ۔ اپنے پاؤوں سے حرام کاموں کی طرف چل کر نہ جائیں ۔ الغرض یہ کہ اپنے پورے بدن کو حرام اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رکھیں۔
سب سے زیادہ جہنم میں پہنچانے والی چیز
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز
جنت میں پہنچائے گی ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ )) ’’ اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز جہنم میں پہنچائے گی ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ )) ’’ منہ اور شرمگاہ ۔‘‘ (سنن الترمذی:2004۔ وقال:صحیح غریب۔وحسنہ الألبانی)
اس حدیث کی رو سے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے منہ اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں ۔ منہ سے کسی کو گالی گلوچ نہ کریں ۔ جھوٹ ، غیبت ، فحش گوئی اور چغل خوری سے اپنا منہ پاک رکھیں ۔ منہ سے صرف حلال کھائیں پییں اور اسے حرام سے بچائے رکھیں ۔ اسی طرح اپنی شہوت جائز اور حلال طریقے سے پوری کریں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَت أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ. فَمَنِ ابْتَغَی وَرَائَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ﴾ (المعارج70: 31-29)
’’اورجو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اب جو شخص اس کی علاوہ کوئی اور راہ تلاش کرے گا تو ایسے لوگ حد سے گذر جانے والے ہیں ۔‘‘
جہنم کو شہوات سے ڈھانپا گیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ)) (صحیح مسلم:2822)
’’ جنت کو ان کاموں سے ڈھانپا گیا ہے جو کہ ( طبعِ انسانی کو ) نا پسند ہوتے ہیں اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپا گیا ہے ۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ ، اسے دیکھ کر آؤ ۔ چنانچہ وہ گئے اور جنت کو اور اس میں اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں اہلِ جنت کیلئے تیار کی تھیں۔ انہیں دیکھا ، پھر واپس آئے اور کہا: اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! اس کے بارے میں جو بھی سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہو گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ( طبعی طور پر) ناپسندیدہ کاموں سے ڈھانپ دیا ۔ اس کے بعد پھر حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ اب اسے دیکھ کر آؤ ۔ چنانچہ وہ گئے ، اسے دیکھا اور واپس آکر کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہو گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا توحضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ ، اسے دیکھ کر آؤ ۔ چنانچہ وہ گئے اور جہنم کو دیکھا ۔ پھر واپس آئے اور کہا : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! اس کے بارے میں جو بھی سنے گا وہ اس میں قطعا داخل نہ ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے شہوات سے ڈھانپ دیا ۔ اس کے بعد پھر حضرت جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ اب اسے دیکھ کر آؤ۔ چنانچہ وہ گئے ، اسے دیکھا اور واپس آکر کہنے لگے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں ہر شخص داخل ہو گا۔‘‘ (سنن الترمذی،وأبوداؤد والنسائی۔وحسن إسنادہ الألبانی فی تخریج المشکاۃ:5696)
محترم حضرات! جب جہنم کو شہوات سے ڈھانپا گیا ہے تو اس سے بچنے کیلئے شہوت پرستی سے بچنا انتہائی ضروری امر ہے ، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں کی اکثریت شہوات میں غرق ہو چکی ہے ، فحاشی اور عریانی عام ہو چکی ہے ، بدکاری اور شراب نوشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں ، رقص وسرور اور موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ اوروہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ اسلام کے واضح احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے من مانی کرتے ہیں ، گویا کہ ان کی نفسانی خواہش ہی ان کا معبود ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنتَ تَکُونُ عَلَیْْہِ وَکِیْلاً. أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُونَ أَوْ یَعْقِلُونَ إِنْ ہُمْ إِلَّا کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً﴾ (الفرقان25 44-43)
’’ بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیا جو اپنی خواہشِ نفس کو ہی اپنا معبود بنائے ہوئے ہے ۔کیا آپ ایسے شخص ( کو راہ راست پر لانے ) کے ذمہ دار بن سکتے ہیں ؟ یا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ۔ یہ تو مویشیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَائِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآب﴾ (آل عمران3 :14)
’’ لوگوں کیلئے خواہشاتِ نفس سے محبت مثلا عورتوں سے ، بیٹوں سے ، سونے اور چاندی کے جمع کردہ
خزانوں سے، نشان زدہ ( عمدہ ) گھوڑوں ، مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے ۔ (حالانکہ ) یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے ۔‘‘
اس آیت میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے انہی کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات سے غافل ہو جاتا ہے ۔ اس لئے انہیں محض دنیوی زندگی کا سامان ہی قرار دیا گیا ہے ، لیکن اگر ان چیزوں کے حصول میں شرعی حدود وقیود کی پابندی کی جائے ، حلال وحرام کے درمیان تمیز کی جائے ، ان میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی یاد اور فکرِ آخرت سے غفلت نہ برتی جائے تو ان چیزوں سے محبت ہونے کے باوجود بھی انسان دونوں جہانوں میں کامرانی سے ہمکنار ہو سکتا ہے … اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین ودنیا کی خیر وبھلائی نصیب فرمائے اور عذابِ جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین