جہیز ایک المیہ
اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبِاطِلِ﴾ (سوره نساء آیت:29)۔
ترجمہ: اے مومنو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نا کھاؤ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوْجُ فَإِنَّهُ أَغُضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری کتاب الصوم، باب الصوم لمن خاف على نفسه العزبة، صحيح مسلم: كتاب النكاح
باب استحباب النكاح لمن تافت نفسه إليه ووجد مؤنة واشتغال.)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اے نو جوانوں کی جماعت! تم میں جو بھی نان و نفقہ اور گھر چلانے کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ اس سے نگاہ پست ہو جاتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے اور جو طاقت نہ رکھتا ہو اسے روزه رکھنا چاہئے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا۔
تشریح:
عرف عام میں جہیز کا اطلاق اس سامان پہ ہوتا ہے جسے باپ اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے موقع پر دیتا ہے اور یہ ایسا رسم و رواج پا چکا ہے کہ جس کا ختم کرنا جوئے شیر لانا ہے۔ موجودہ دور میں اگر معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنی خوشی سے یہ ساری چیزیں اپنی بیٹی کو دیتا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک راز ہوتا ہے کہ بیٹی کو اپنی سسرال میں چین وسکون نصیب ہو اس پر طعنے اور طنز کے تیر نہ چلائے جائیں آپ آئے دن سنتے ہیں کہ بہووں کو سسرال میں جہیز نہ لانے کی صورت میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ نیز جہیز نہ دینے کی صورت میں اس کی بیٹی کا رشتہ بھی نہیں ہو پائے گا یہی وہ اسباب ہیں کہ باپ جہیز دینے میں خوشی کا اظہار کرتا ہے ورنہ پیسے سے کسی کو محبت نہیں۔ مان لیا جائے کہ باپ بیٹی کو جہیز خوشی سے دیتا ہے تو اگر خوشی ہی کی بات ہے تو اس کا حق وراثت دینے کی فکر کیوں نہیں کرتا اور اپنی جائداد میں اس کو وارث کیوں نہیں سمجھتا ہے جب کہ اس کے مال میں بیٹوں کی طرح لڑکیوں کا بھی حصہ بنتا ہے۔ شادی کے اخراجات کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں جو بھی نان و نفقہ اور گھر چلانے کی طاقت رکھتا ہو اسے شادی کر لینا چاہئے کیونکہ اس سے نگاہ پست ہو جاتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں شوہر کی مالی طاقت کا بیان ہے نہ کہ جنسی طاقت کا۔ کیونکہ جنسی طاقت جب ہے ہی نہیں تو روزہ رکھنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے روزہ کا حکم تو اس کو ہے جس کے اندر جنسی قوت بھری ہوئی ہو۔ شریعت کے معیار پر کی جانے والی شادی میں معمولی قسم کی صرف دو اخراجات ہیں ایک ولیمہ دوسرے مہر۔ اور ان دونوں خرچ کی ذمہ داری شوہر کے سر ہے۔ اب کوئی اگر اپنے آپ کو لاکھوں کے خرچ کا مکلف بنالے، کہ زیور اتنا چاہنے کپڑے اتنے ہونے چاہنے اتنے باراتی اور اتنی گاڑیاں ہونی چاہئے تو ایسے لوگوں کو جان لینا چاہئے جو اپنے آپ پر سختی کرتے ہیں، اللہ ان پر مزید سختی ڈال دیتا ہے۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے شادی میں کم سے کم خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ سب سے بابرکت وہ نکاح ہے جس میں خرچ کم ہو۔ (مسند احمد)۔
مذکورہ حوالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ شریعت میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں چاہے وہ مانگنے پر ملا ہو یا بن مانگے۔ لیکن شریف سے شریف انسان کا رویہ جہیز کے بارے میں بدل جاتا ہے وہ اپنے لئے جہیز کے مال کو جائز سمجھ لیتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے جہیز مانگا نہیں ہے بلکہ خوشی سے دیدیا تو میں نے لے لیا۔ تو کیا زندگی میں ایک بار خوشی آتی ہے اس کے بعد پھر بھی لڑکی کا باپ کسی خوشی کے موقع پر پچیس پچاس ہزار کیوں نہیں دیتا۔ اللہ تعالی ہمیں حیلہ بازی کے ذریعہ جہیز لینے سے بچائے اور ہمیں یہ توفیق بخشے کہ ہم شیطان کے جال سے نکل کر حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔
فوائد:
٭ جہیز لینا جائز نہیں ہے۔
٭ جس شادی میں کم خرچ ہو وہ با برکت شادی ہے۔
٭٭٭٭