جیسا کرو گے ویسا بھروگے (1)

 

یہ قانون فطرت ہے کہ انسان، جو بوئے گا وہی کاٹے گا گندم کاشت کرے گا تو گندم ہی کاٹے گا چاول بو کر چنے کی امید کرنا فضول ہے

اسی طرح اسے اجر و ثواب بھی انھی اعمال کا ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں۔

مقولہ مشہور ہے

الدنیا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ

دنیا آخرت کی کھیتی ہے

جو، دنیا میں جتنی محنت کرے گا وہ آخرت میں اتنا ہی صلہ پائے گا

جیسا کہ فرمایا :

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى (النازعات : 35)

جس دن انسان یاد کرے گا جو اس نے کوشش کی۔

اور جو، دنیا میں آخرت کی تیاری سے جس قدر غافل رہے گا، اسی قدر محروم رہے گا

جیسا کہ فرمایا:

وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (الإسراء : 72)

اور جو اس میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور راستے سے بہت زیادہ بھٹکا ہوا ہو گا۔

یعنی کہ نیکی کرے گا تو فائدہ بھرے گا اور گناہ کرے گا تو وبال چکھے گا

جیسے فرمایا :

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (فصلت : 46)

جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔

جیسی کوشش ویسا صلہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : 39)

اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔

وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم : 40)

اور یہ کہ اس کی کوشش جلد ہی اسے دکھائی جائے گی۔

ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى (النجم : 41)

پھر اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا، پورا بدلہ۔

اور فرمایا :

هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (النمل : 90)

تم بدلہ نہیں دیے جاؤ گے مگر اسی کا جو تم کیا کرتے تھے۔

امرأۃ العزيز کی بری کوشش، برا نتیجہ

بادشاہ کی بیوی نے اللہ کے ایک نیک بندے کو پانے کی کوشش کی مگر چونکہ اس کا طریقہ جائز اور درست نہیں تھا اس نے بے حیائی کے راستے کا انتخاب کیا تو رزلٹ بھی درست نہیں نکلا اور نہ صرف یہ کہ مستقبل میں بننے والے ایک نبی کی کفالت، نگہداشت اور خیر و برکت سے محروم ہو گئی بلکہ قیامت تک بری شہرت اور بری ناموری کا داغ لگوا بیٹھی

شیخ مدین کی بیٹی کی اچھی کوشش، اچھا نتیجہ

اور شیخ مدین کی بیٹی نے اللہ کے ایک نیک بندے کو پانے کی کوشش کی اور اس کے لیے جائز راستے کا انتخاب کیا، بے حیائی کی بجائے حیاء کا مظاہرہ کیا اور اپنا فیصلہ خود کرنے کی بجائے اپنے باپ کی ولایت میں رہ کر بات کی تو اللہ تعالیٰ نے رزلٹ بھی اچھا دیا اور نتیجۃً نہ صرف یہ کہ وہ اور اس کے گھر والے، مستقبل میں بننے والے ایک نبی کی خیر و برکت سمیٹنے لگے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کی رفیقہءِ حیات ہونے کی عظیم الشان سعادت نصیب فرمائی

نیکی کرو گے نیکی پاؤ گے

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : 60)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔

لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ (یونس : 26)

جنہوں نے اچھائی کی انہیں اچھا بدلہ ملے گا

کوئی عمل ذرہ برابر بھی ہوا تو ادلے کا بدلہ ضرور ملے گا

جیسا کہ فرمایا :

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (الزلزلة : 7)

تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزلة : 8)

اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔

دنیا میں ہی نیکی کا بدلہ نیکی

مشہور واقعہ ہے، صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے، گزشتہ زمانے میں تین افراد سفر پہ جا رہے تھے کہ بارش برسنا شروع ہو گئی، وہ تینوں ایک غار میں بیٹھ گئے کہ بارش تھمنے تک رکتے ہیں، اللہ کی کرنی دیکھیے کہ ایک بھاری چٹان، غار کے منہ پر آ کر رک گئی غار کا دھانہ بند ہو گیا، انہوں نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر وہ چٹان ان کی قوت سے بھاری تھی ذرا بھر بھی اپنی جگہ سے سرکتی نہیں تھی

اب وہ تینوں اپنی کسی اہم نیکی کو یاد کرنے لگے

ایک نے کہا :میں نے ایک رات اپنے والدین کے ساتھ اس انداز میں نیکی کی کہ ان کے آرام کی خاطر اپنی رات کا آرام قربان کر دیا

دوسرے نے کہا: میں نے ایک مزدور کے ساتھ یہ نیکی کی کہ اس کی اجرت کچھ مکئی یا چاول دینے تھے مگر وہ ناراض ہو کر اپنی مزدوری میرے پاس ہی چھوڑ کر چلا گیا تو میں نے اس کی وہ امانت کاروبار میں لگادی اس سے اتنی برکت پیدا ہوئی کہ بکریوں، گائیوں کے ریوڑ بن گئے

پھر کئی سالوں کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور مجھ سے اپنی اجرت کا مطالبہ کرنے لگا تو میں نے ساری بکریاں، گائیاں اور ان کا چرواہا بھی اسے دے دیا

تیسرے نے کہا: میں نے ایک عورت کو برائی کی دعوت دی، اسے پیسے بھی دے دیے مگر جب بری نیت سے اس کے پاس بیٹھا تو اس نے مجھے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈر جا، تو میں صرف اللہ کے ڈر سے بدکاری کیے بغیر اٹھ کر واپس آگیا

اے اللہ تعالیٰ اگر ہمارے یہ نیک کام تجھے پسند ہیں تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما

تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کو غار کے منہ سے سائیڈ پر کردیا اور وہ تینوں حضرات بحفاظت نکل گئے

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : 60)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔

وہ نماز روزے کی پابند تھی تو اللہ تعالیٰ نے مرتے وقت کلمہ پڑھا دیا

ایک ڈاکٹر صاحب نے دوران ڈیوٹی پیش آنے والے کئی واقعات لکھے جن میں سے ایک یہ ہے

ھﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺣﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﻮﮌ ﺑﺨﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﺗﮭﯿﮟ.ﻋﻼﺝ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ, ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﺭﮈ ﮐﯽ ﻧﺮﺱ ﻧﮯ ﭨﯿﻠﯽ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ, ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺟﺐ ﻭﺍﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ, ﯾﮧ ﻣﺮﺣﻮﻣﮧ ﻧﻤﺎﺯ, ﺭﻭﺯﮮ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻓﻈﮧ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ.

جو آخرت چاہتا اسے آخرت اور جو دنیا چاہتا اسے دنیا ملے گی

فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (الشورى : 20)

جو کوئی آخر ت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اورجو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم اس میںسے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔

ایک طالب علم نے گناہ سے بچنے کے لیے اپنے جسم کو بدبو سے آلودہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی قبر کو خوشبو سے بھر دیا

ایک طالب علم کو جب قبر میں دفن کیا گیا تو اسکی قبر سے خوشبو آرہی تھی ۔اس طالب علم کے استاد میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس طالب علم کا ایسا کونسا عمل تھا؟

تو انہوں نے بتایا کہ یہ طالب علم دوسرے طلبہ کی طرح کسی کے گھر سے کھانا لینے جایا کرتا تھا۔اس گھر کی ایک لڑکی کے دل میں فتور پیدا ہوگیا۔ایک روز اسکے گھر والے کسی کی تعزیت پر گئے ہوئے تھے اور لڑکی گھر پر اکیلی تھی ۔جب یہ طالب علم حسب معمول انکے گھر کھانا لینے گیا تو لڑکی نے اندر بلالیا اور باہر کا دروازہ بند کرلیا۔

لڑکی نے دعوت گناہ دی اور کہا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تم پر تہمت لگا دوں گی۔لڑکے نے کہا*:مجھے قضائے حاجت کرنا ہے۔لڑکی نے چھت کی طرف اسے بھیج دیا۔اس نے بیت الخلاء سے فضلہ اٹھا کر اپنے جسم پر مل لیا۔وہ واپس آیا تو لڑکی نے شدید نفرت کا اظہار کیا اور فورا اسے گھر سے نکال دیا۔شدید سردی کا موسم تھا۔طالب علم نے مسجد میں آکر غسل کیا۔سردی سے کانپتے ہوئے اس نے مسجد میں ہی نماز تہجد پڑھی۔طالب علم سے اصل وجہ پوچھی تو ڈرتے ڈرتے تمام واقعہ سنایا۔اس طالب علم نے گناہ سے بچنے کیلئے اپنے جسم کو آلودہ کرلیا۔کچھ بعید نہیں کہ اللہ کو اسکا یہ عمل پسند آگیا ہو۔

(ماخوذ ”قبر کا بیان”از مولنا محمد اقبال کیلانی)

جیسا گمان، ویسا نتیجہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي (بخاری ،7405)

کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں

اس نے گمان کیا کہ یہ بیماری ہلاک کردے گی تو وہ واقعی ہلاک ہو گیا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گیے

آپ نے فرمایا کہ

” کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ گناہوں کو دھودے گا ۔

اس نے اس پر کہا :

آپ کہتے ہیں گناہوں کودھونے والا ہے ۔ ہر گز نہیں ۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا ( راوی نے ) تثور کہا ( دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے ) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش ماررہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھاتو پھر یوں ہی ہوگا ۔

تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة : 152)

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

یونس علیہ السلام نے اللہ کو یاد کیا تو بچ گئے نہ یاد کرتے تو پڑے رہتے

یونس علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں متعدد مرتبہ بیان ہوا ہے جب قوم سے ناراض ہو کر سمندری سفر پر چل نکلے، مسافروں سے بھری کشتی میں بیٹھ گئے، سمندر کے بیچ پہنچے تھے کہ کشتی بھنور میں پھنس گئی، طے یہ ہوا کہ قرعہ اندازی کرتے ہیں جن کے نام قرعہ نکلے گا انہیں سمندر میں چھلانگ لگانا پڑے گی، الغرض جہاں اور کئی لوگوں کے نام قرعہ آیا وہاں یونس علیہ السلام کا نام بھی نکل آیا، یونس نے چھلانگ لگا دی ادھر اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دے دیا کہ یونس کو نگل لے

اب یونس، مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے مگر وہاں بھی رب تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے

(لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ) (الأنبياء : 87)

اتنے خوفناک منظر اور اندھیرے میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بدلے میں اللہ تعالیٰ نے بھی یونس علیہ السلام کو یاد کیا اور مچھلی کے پیٹ سے باہر نکال دیا

پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اگر یونس، میری تسبیح کرتے ہوئے مجھے یاد نہ کرتا تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی پڑا رہتا

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (الصافات : 143)

پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔

لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الصافات : 144)

تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔

جو ،خوش حالی میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے گا تو اللہ تعالیٰ سختی میں اسے یاد رکھے گا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’لڑکے! میں تمھیں چند باتیں نہ سکھاؤں جن کے ساتھ تمھیں اللہ تعالیٰ نفع دے گا؟‘‘

میں نے کہا :

’’کیوں نہیں!‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اِحْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ، اِحْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهُ أَمَامَكَ، تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ ] [مسند أحمد : 307/1، ح : ۲۸۰۷، قال المحقق حدیث صحیح ]

’’اللہ کا دھیان رکھ، وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ خوش حالی میں اس سے جان پہچان رکھ، وہ سختی میں تیری پہچان رکھے گا۔‘‘

تم میرا شکر ادا کرو میں تمہیں اور دوں گا

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (إبراهيم : 7)

اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا

اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔

تم اللہ کی مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا

إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ (محمد : 6)

اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا

تم مجھے دو میں تمہیں دوں گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (التغابن : 17)

اگر تم اللہ کو قرض دو گے، اچھا قرض تو وہ اسے تمھارے لیے کئی گنا کر دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان، بے حد بردبارہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ (بخاري ،كِتَابُ تَفْسِيرِ، القُرْآنِ 4684)

( میری راہ میں ) خرچ کرو، میں تم پر خرچ کروںگا

جو خرچ کرنے سے ہاتھ روکے گا اللہ اس سے اپنا ہاتھ روک لے گا

اسماءرضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ (بخاري ،كِتَابُ الزَّكَاةِ،1433)

کہ خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا

مرکز القادسية کا دستر خوان

جامع مسجد القادسية لاہور چو برجی چوک میں، جماعت کا عظیم الشان مرکز ہے اس مرکز کی بہت اہم خوبی یہ ہے کہ خدمتِ خلق کے جذبے سے مزدوروں اور غریب لوگوں کے لیے یہاں فری دسترخوان لگایا جاتا ہے ایک دفعہ کسی صاحب نے امیر جماعت کو مشورہ دیا کہ اگر یہ دستر خوان بند کر دیں تو ہم اپنے بجٹ میں کافی بچت کرسکتے ہیں

امیر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اپنا دستر خوان کھلا رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اپنا دستر خوان کھلا رکھے گا اور اگر ہم نے تنگ کر دیا تو اللہ تعالیٰ بھی تنگ کر دیں گے

اور ماشاء اللہ اس فراخی کے عظیم فوائد آج تک دیکھنے کو مل رہے ہیں

ھذا من فضل ربی (التغابن : 17)

جتنا کوئی اللہ کی طرف جاتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس کی طرف جاتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً (بخاری ،7405)

میں اپنے بندے کے ساتھ ویسے ہی ہوں جیسے وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں ۔

جو، اللہ کی طرف اندھیرے میں چل کر آئے گا، اللہ اسے نور میں چلائے گا

سیدنا بُرَیدَہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا

”بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (أبو داؤد كِتَابُ الصَّلَاةِ 561،صحیح)

خوشخبری دو ۔ قیامت کے روز کامل نور کی ، ان لوگوں کو جو اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چل چل کے آتے ہیں ۔ “

جو، اللہ سے ملنا چاہتا ہے، اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ»

جو شخص اللہ سے ملنے کو دوست رکھتا ہے ، اللہ بھی اس سے ملنے کو دوست رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔

اس نے اللہ کی توحید سے محبت کی تو رب تعالیٰ نے اس سے محبت کی

عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر روانہ کیا ۔ وہ صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں ختم قل ھو اللہ احد پر کرتے تھے ۔

ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا

لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا

کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور میں اسے پرھنا پسند کرتا ہوں ۔

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ (بخاری، 7375)

کہ انہیں بتا دوں کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے ۔

جو، اللہ کا گھر بنائے گا، اللہ اس کا گھر بنائے گا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ ". [ بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا : ۴۵۰ ]

’’جو کوئی مسجد بنائے جس کے ساتھ وہ اللہ کا چہرہ طلب کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس جیسا (گھر) جنت میں بنائے گا۔‘‘

ابراہیم علیہ السلام نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا، تو اللہ تعالیٰ نے جنت میں اپنے گھر کے پاس بٹھایا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا

فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 411)

انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی

جو،اللہ کے لیے صبر کرتا ہے،اللہ اس کا سینہ ٹھنڈا کرتا ہے

ایک مثال

ظالم امیہ، مظلوم بلال رضی اللہ عنہ کے ہتھے چڑھ گیا

بلال رضی اللہ عنہ کی مظلومیت اور امیہ کے ظلم سے کون ناواقف ہے

ظلم و ستم کا کون سا طریقہ ہے جو امیہ نے بلال پر نہ آزمایا تھا

مگر بلال تھا کہ صبر و ثُبات کا کوہ گراں بنا ہوا تھا جب بھی سختی آتی ٹھنڈی آہ بھر کر "أحد أحد” کہتے اور اس امید پر صبر کرتے کہ سو دن ظالم کے اور ایک دن مظلوم کا

بالآخر وہ ایک دن آ ہی گیا

عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ واللہ! میں،بدر کے دن، امیہ اور اس کے بیٹے کو قیدی بنا کر لے جارہا تھا کہ اچانک بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا – بلالؓ نے کہا: اوہو! کفار کا سرغنہ، امیہ بن خلف ! اب یا تو میں بچوں گا یا یہ بچے گا۔ میں نے کہا: اے بلالؓ ! یہ میرا قیدی ہے ، انہوں نے کہا : اب یاتو میں رہوں گا یایہ رہے گا۔ پھر نہایت بلند آواز سے پکارا:”اے اللہ کے انصارو ! یہ رہاکفار کا سرغنہ اُمیہ بن خلف ، اب یاتو میں رہوں گا یا یہ رہے گا۔” حضرت عبد الرحمنؓ کہتے ہیں کہ اتنے میں لوگوں نے ہمیں کنگن کی طرح گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا مگر ایک آدمی نے تلوار سونت کر اس کے بیٹے کے پاؤں پر ضرب لگائی اور وہ تیورا کر گر گیا۔ اُدھر اُمیہ نے اتنے زور کی چیخ ماری کہ میں نے ویسی چیخ کبھی سنی ہی نہ تھی۔ میں نے کہا : نکل بھاگو ، مگر آج بھاگنے کی گنجائش نہیں ، اللہ کی قسم ! میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا۔ حضرت عبد الرحمنؓ کا بیان ہے کہ لوگوں نے اپنی تلوار وں سے ان دونوں کو کاٹ کر ان کاکام تمام کردیا۔

عبد الرحمنؓ بن عوف نے اُمیہ بن خلف سے کہا کہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گیا اور حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنے آپ کو اس کے اوپر ڈال لیا، لیکن لوگوں نے نیچے سے تلوار مار کر اُمیہ کو قتل کردیا۔ بعض تلواروں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا

چنانچہ بعد میں عبد الرحمنؓ اپنے پاؤں کی پشت پر اس کا نشان دکھایا کرتے تھے

اس نے سنت کو گلے لگایا تو سنت نے اس کا گلا کٹنے سے بچا لیا

مجلہ الدعوہ میں ایک واقعہ پڑھا تھا لاہور میں ہمارے ایک بھائی نے اپنے چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی سجھا رکھی تھی ماشاء اللہ گھنی اور لمبی داڑھی نے سینہ ڈھانپ رکھا تھا (ایسے واقعات تو آپ نے بکثرت سنے ہوں گے کہ پتنگ کی ڈور پھرنے سے بندہ مر گیا) بعینہ اس بھائی کے سا بھی یہی واقعہ پیش آیا موٹر-سائیکل پہ جا رہا تھا پتنگ کی ڈور سیدھی گلے پہ آ گئی مگر اللہ کی مدد دیکھیے کہ ٹھوڑی سے گلے اور سینے تک پھیلی ہوئی مبارک سنت نے قاتل ڈور کو دندان شکن ہزیمت سے دوچار کرتے ہوئے اپنے محب کے گلے کو خراش تک نہ آنے دی

من کان للہ کان اللہ لہ

جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اس کا ہوجاتا ہے

جو،کسی کو آزاد کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے آزاد کرے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُسْلِمَةً أَعْتَقَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْ النَّارِ حَتَّى فَرْجَهُ بِفَرْجِهِ (بخاري ،كِتَابُ كَفَّارَاتِ الأَيْمَانِ،6715)

جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک ٹکڑے کے بدلے آزاد کرنے والے کا ایک ایک ٹکڑا جہنم سے آزاد کرے گا۔ یہاں تک کہ غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کرنے والے کی شرمگاہ بھی دوزخ سے آزاد ہوجائے گی

جو، کسی کا سودا واپس کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ واپس بھیج دیں گے

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ (ابوداؤد ،کِتَابُ الْإِجَارَةِ،3460)

” جس نے کسی مسلمان کا سودا واپس کر لیا ، اللہ اس کی لغزشیں واپس کر لے گا ۔ “ ( یعنی معاف فر دے گا ) ۔

وہ، مقروض سے درگزر کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کیا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا

تَجَاوَزُوا عَنْهُ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا

کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے ( آخرت میں ) درگزر فرمائے۔

فَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُ (بخاری ،كِتَابُ البُيُوعِ،2078)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ( اس کے مرنے کے بعد ) اس کو بخش دیا۔

جو مساکین کو قریب کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے قریب کرے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ترمذی ،أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ،2352،صحیح)

عائشہ! مسکینوں سے محبت کرو اوران سے قربت اختیا رکرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم کو روزقیامت اپنے سے قریب کرے گا

تم لوگوں پر رحم کرو، لوگوں کا رب، تم پر رحم کرے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ, ارْحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ, يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ (ابو داؤد، كِتَابُ الْأَدَبِ، 4941،صحیح)

” رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرمائے گا ۔ تم اہل زمین پر رحم کرو ‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ “

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ارْحَمُوا تُرْحَمُوا، وَاغْفِرُوا يَغْفِرِ اللَّهُ لَكُمْ (مسند أحمد،7041،حسن)

رحم کروگے ،رحم کیے جاؤ گے اور معاف کرو گے، اللہ تمہیں معاف کرے گا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ ” (صحيح البخاري،كِتَابٌ : الْأَدَبُ،6013)

جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا

میں، مسطح رضی اللہ عنہ کو معاف کرتا ہوں میرا رب مجھے معاف کر دے

عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، جب مسطح نے بہتان والی یہ بات کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ وظیفہ بند کر دیا لیکن جب یہ آیت اتری

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (النور : 22)

اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیونکہ نہیں، میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ چنانچہ انھوں نے وہ وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا اور کہا، میں اس میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔

وہ، لوگوں کو معاف کرتا تھا اور کہتا: "جو گزر گیا سو گزر گیا” رب العزت نے اسے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ”جو گزر گیا سو گزر گیا”

امام ذھبی نے مسعود الهمذاني کے حالات میں لکھا ہے کہ

أنه كان من خيار الناس، وكان كثيرا ما يصفح عن الناس بقوله: "الماضي لا يُذكر”

وہ بہت اچھا آدمی تھا (اور لوگ اس پر زیادتی کرتے تو بعد میں) لوگوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کرتا تھا کہ گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا

قيل إنّه رؤي في المنام بعد موته فقيل له: ما فعل الله بك؟

پھر ان کی وفات کے بعد کسی نے خواب میں ان سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا

تو کہنے لگے :

أوقفني بين يديه، وقال لي: يامسعود الماضي لايُذْكَر، انطلقوا به إلى الجنة”.

تاريخ الإسلام (٤٢/٣٢٧)

مجھے میرے رب نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا :اے مسعود گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا (اور فرشتوں سے کہا 🙂 اسے جنت میں لے چلو

اگر تم بکری پر رحم کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا

قرہ مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا :

’’یا رسول اللہ! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو میں اس پر رحم کرتا ہوں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَالشَّاةُ إِنْ رَحِمْتَهَا رَحِمَكَ اللّٰهُ، مَرَّتَيْنِ ] [ الأدب المفرد للبخاري : ۳۷۳۔ مسند أحمد : 436/3، ح : ۱۵۵۹۸ ]

’’اور بکری پر اگر تو رحم کرے گا تو اللہ تجھ پر رحم کرے گا۔‘‘

یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔‘‘

شاعر کہتا ہے :

کرو مہربانی تم اہلِ زمین پر

خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر

کر بھلا سو ہو بھلا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ، 6853)

جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا

جو، کسی کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا

وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ، 6853)

اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پشی کرے گا

جو، کسی کی مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا

وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ، 6853)

اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے

مدد کے بدلے مدد کا مثالی واقعہ

ذہبی رحمہ اللہ نے ابن شقیق سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن المبارک سے ایک آدمی کے بارے میں سنا جو ان سے اپنے عارضہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو سات سالوں سے گھٹنے میں لاحق تھا اور مختلف قسم کا علاج کراچکا تھا اورمختلف قسم کے اطباء سے پوچھا مگر ان لوگوں کی کوئی دوا کام نہ آئی تو اس سے ابن المبارک نے کہا کہ جاؤ اور ایک ایسی جگہ کنواں کھودو جہاں لوگ پانی کے لئے محتاج ہوں ، مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے قدم سے بہنے والا خون رک جائے گا،اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور اللہ کے حکم سے وہ ٹھیک ہوگیا۔

(سير أعلام النبلاء 8/ 408)

اس نے ایک پلاٹ دیا، اللہ تعالیٰ نے اسے کئی پلاٹ دے دیے

ایک دوست کہتے ہیں کہ

میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا

کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے

یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔

حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔

اس (دوست) کا کہنا ھے کہ

عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے

مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے،

اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے،

چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔

کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے

اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلاٹس ہیں

جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا (بنی اسرائیل : 7)

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے

اس نے ایک اونٹنی دی، اللہ تعالیٰ نے بدلے میں 7 سو اونٹنیاں دے دیں

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے روایت کی، کہا:

جَاءَ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ مَخْطُومَةٍ، فَقَالَ : هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعُمِائَةِ نَاقَةٍ كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ ".(مسلم 1892)

ایک شخص اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے آیا اور کہنے لگا: یہ اللہ کی راہ (جہاد) میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں اس کے بدلے میں قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور سبھی نکیل سمیت ہوں گی۔”

رشتہ داری کو ملانا اور توڑنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

مَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ (ابو داؤد، كِتَابُ الزَّكَاةِ، 1694)

جو صلہ رحمی کرتا ہے میں اس سے جڑتا ہوں اور جو اس کو کاٹتا اور توڑتا ہے میں اس سے کٹ جاتا ہوں ۔ “

جو، اپنے بھائی کا دفاع کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا دفاع کرے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ترمذی ،أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ،1931،صحیح)

جوشخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجود گی میں ) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا

مشقت کروگے،مشقت ہوگی، نرمی کرو گے، نرمی ہوگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللهُمَّ، مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارْفُقْ بِهِ (مسلم، كِتَابُ الْإِمَارَةِ، 4722)

"اے اللہ! جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے، تو اس پر سختی فرما، اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور ان کے ساتھ نرمی کی، تو اس کے ساتھ نرمی فرما

جس نے صف کو ملایا، اللہ اسے ملائے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ (أبو داؤد کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ ،666،صحیح)

جس نے صف کو ملایا ، اللہ اسے ملائے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹے ۔

جو، جیسا بننا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ویسا بنا دیتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ (بخاری ،كِتَابُ الزَّكَاةِ،1469)

جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنادیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبرو استقلال دے دیتا ہے۔

یوسف علیہ السلام بچنا چاہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا

ہوا یہ کہ یوسف علیہ السلام کو حاکم وقت کی بیوی بند کمروں میں تنہائی میں جا کر برائی کی دعوت دینے لگی

اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟ (تفسير القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

لیکن ان سب کے باوجود یوسف علیہ السلام نے کتنی شاندار بات کہی

فرمایا

مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔

عورت نے زنا کا عزم کیا، مگر یوسف علیہ السلام نے انکار کیا، چنانچہ اسی کشمکش میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے، آگے یوسف علیہ السلام اور پیچھے عزیز کی بیوی۔ یوسف علیہ السلام اس لیے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیز کی بیوی دوڑی کہ پہلے پہنچ کر انھیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔ یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ وہ دروازے جو عزیز کی بیوی نے بہت اچھی طرح بند کیے جب یوسف علیہ السلام گناہ سے بچنے کے لیے بند دروازوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگے تو اللہ تعالیٰ نے کھولنے میں بھی مدد فرما دی۔ اسی مقصد کے لیے اس نے پیچھے سے قمیص پکڑی کہ روک لے مگر قمیص پھاڑ کر بھی روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ یوسف دروازے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے

سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت : 69)

اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بلاشبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

امام يحيى بن معاذ رحمه الله فرماتے ہیں:

على قدر حبك لله يحبك الخلق وعلى قدر خوفك من الله يهابك الخلق وعلى قدر شغلك بالله يشتغل في أمرك الخلق.

جس قدر آپ کی اللہ سے محبت ہو گی اس قدر ہی مخلوق آپ سے محبت کرے گی جس قدر آپ اللہ تعالی سے ڈریں گے اس قدر ہی مخلوق آپ کا حیا کرے گی اور جس قدر آپ اللہ تعالی کے (ذکر و فکر ) میں مشغول ہوں گے اس قدر ہی لوگ آپ کے کام میں سنجیدہ ہوں گے

سير السلف(صـ 1206)