جمالِ محمد ﷺ

کون ہے جو رسول مصطفی، احمد مجتبی اور خیر الوری محمد بن عبد اللہﷺ سے ملاقات کی تمنا نہ رکھتا ہو یا اس کا خواب نہ دیکھتا ہو ؟!

بلا شبہ آپ کی ملاقات اور دیدار ہر مومن مرد و عورت کی سب سے بڑی تمنا رہی ہے۔ اور یہ کیسے نہ ہو کہ آپ ہی نے تو ذکر و شکر اور صبر کرنا سکھایا۔

آپﷺ رب تعالی کا پیغام لائے۔ ہمیں عدل سکھایا۔ دلائل و براہین واضح کیے۔ گمراہی کو ہم سے دور کیا۔ آپ کی بعثت سے اندھیرے چھٹ گئے۔ روشنی عام ہوئی۔ غموں سے نجات ملی اور خوشی و سرور کا دور دورہ ہوا۔

جب حسن و جمال، شان و شوکت اور پاکیزگی و طہارت کا تذکرہ ہوگا تو محمد ﷺکا ذکر ضرور ہوگا۔

جس پاک رب نے جمال اور خوبصورتی کو پیدا کیا، اس نے آپﷺ کو رسول بنایا اور سب سے زیادہ خوبصورتی، حسن اور بے انتہا شان و شوکت عطا فرمائی۔ آپ ہی روشن چراغ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۝۴۶﴾

’’اے نبی! بلا شبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔ اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشنی کرنے والا چراغ (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘ (الأحزاب 33: 45،46)

اللہ تعالی نے آپﷺ کی شکل و صورت نہایت حسین و جمیل بنائی اور آپ کی سیرت و کردار کو کامل بنایا۔ آپ کا جمال آپ کی اعلیٰ اخلاق کی کتاب کا عنوان اور آپ کے شاندار محاسن کے محل کا دروازہ ہے۔ آپ کا جمال آنکھوں کو جلال نفس کو محبت، دل کو رحمت، مجلس کو ہیبت اور کائنات کو روشنی سے بھر دیتا ہے۔ آپ لوگوں کے دلوں کے سب سے زیادہ قریب اور ان کی روحوں کے پسندیدہ ہیں۔ آپ کا چہرہ سب سے جمیل اور روشن، آپ کی پیشانی سب سے زیادہ چمکدار اور نورانی تھی۔ آپ کا لباس سب لوگوں سے خوبصورت اور آپ کی خوشبو اور مہک سب سے پاکیزہ اور عمد تھی۔ آپ کی مسکراہٹ سب سے حسین اور ہیبت ور عجب سب سے عظیم تھا۔ آپ کی مجلس سب سے زیادہ سعادت والی اور برکت سب سے بڑھ کر تھی۔ آپ جود و سخا میں اپنی مثال آپ اور بات میں سب سے زیادہ سچے تھے۔ آپ کی ہتھیلیاں ایسے نرم جیسے روئی کا گالا ہو۔ سیدنا انس بن مالک ﷺ فرماتے ہیں:

((مَا مَسِسْتُ حَرِيرًا وَلَا دِيبَاجًا أَلَيْنَ مِنْ كَفَّ النَّبِيِّ، وَلَا شَمِمْتُ رِيحًا قَطُّ أَوْ عَرَقًا فَقطُّ أَطْيَبَ مِنْ رِيح أَوْ عَرْقِ النَّبِيِّ ﷺ))

’’میں نے کسی موٹے یا باریک ریشم کو نبیﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں پایا اور نہ میں نے کبھی کوئی خوشبو یا عطر نبیﷺ سلام کی خوشبو یا مہک سے اچھی سونگھی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث 3561)

آپ ﷺہم سب لوگوں سے زیادہ با وقار تھے۔ کوئی نظر بھر کر آپ کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ آپ کی نگاہیں انتہائی پاکیزہ تھیں۔ آپ عفت و پاکدامنی کے پیکر، شکوک و شبہات سے دور رہنے والے اور دامن کو داندار کرنے والے ہر معاملے سے خود کو بچانے والے تھے۔ جب اخلاقی اقدار اور حرمتوں کو پامال کیا جاتا یا کسی کی عزت سے کھیلا جاتا تو آپ کی پاکیزہ پیشانی پر پسینہ آ جاتا اور آپ کے چمکتے رخسار سرخ ہو جاتے۔ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: ((كَانَ النَّبِيُّ: أَشَدَّ حَيَاءٌ مِّنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا))

’’نبی ﷺ پرده نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلے اور حیادار تھے۔‘‘ (صحيح البخاري، المناقب، حديث:3562)

 آپﷺ کے چہرہ مبارک پر نبوت و رسالت کا نور تھا۔ قبولیت و جلال، سرداری و کمال اور عظمت و جمال کی واضح نشانی چہرہ انور پر موجود تھی۔ آپ کی عظمت میں سادگی اورہیبت و وقار میں نرمی و متانت جھلکتی تھی۔ جس نے آپ کو دیکھا، دل دے بیٹھا۔ جو آپﷺ سے ملا، اسے آپﷺ سے الفت ہو گئی۔ جس نے آپ ﷺ کی بات سنی، وہ تصدیق کیے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ آپ میں تخلیقی و اخلاقی ہر خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔ جس نے آپ سے کوئی معاملہ کیا، آپ نے اپنے جمال سے اس کا دل جیت لیا اور جس نے آپ سے ملاقات کی، آپ نے اسے اخلاق حسنہ سے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

آپﷺ ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے۔ لوگوں سے ملتے تو ہمیشہ مسکرا کر ملتے جیسا کہ عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے زیادہ مسکرانے والا نہیں دیکھا۔ (جامع الترمذي، أبواب المناقب، حديث: 364)

 نبی اکرمﷺ کا چہرہ مبارک خوشی، مقاوت، رونق، جمال، وقار اور رعب و دبدبہ سے بھر پور نظر آتا۔ وہ سورج سے زیادہ روشن اور چاند سے زیادہ با رونق تھا۔ نور، رونق، روشنی، سکون، جمال اور پاکیزگی آپ بزرگی آپ میں ایک ساتھ موجود تھیں۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک آدمی نے کہا: کیا رسول اکرمﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح، یعنی لمبا تھا؟ سیدنا جابر نے کہا: نہیں، بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا اور گول تھا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2344)

 سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺجب بھی کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک چمک اٹھتا، ایسا معلوم ہوتا جسے چاند کا ٹکڑا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3556)

آپﷺ کے حلیے اور شکل وصورت کے بارے میں سب سے خوبصورت قول سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا قد نہ تو زیادہ لمبا تھا اورنہ ہی بالکل پست، بلکہ عام لوگوں کی طرح آپ کا قد درمیانہ تھا۔ آپ کے بال مبارک بہت زیادپیچ دار نہیں تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ تھوڑے سے گھنگر الے تھے۔ آپ ﷺبھاری بھر کم جسم والے نہ تھے۔ آپ کا چہرہ بالکل گول نہ تھا بلکہ تھوڑی سی گولائی تھی۔ آپ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ آنکھیں سیاہ اور پلکیں لمبی تھیں۔ جوڑوں کی ہڈیاں موٹی، مضبوط اور گوشت سے پر تھیں۔ جسم پر ضرورت سے زیادہ بال نہ تھے۔ سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی۔ ہاتھ اور پاؤں موٹے اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔ جب آپ چلتے تو پوری قوت کے ساتھ چلتے گویا کہ نشیب کی طرف اتر رہے ہوں۔ جب آپ ﷺکسی کی طرف متوجہ ہوتے تو اس کی طرف پورے دھیان کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی کیونکہ آپ خاتم الانبیاء تھے۔ آپ تمام لوگوں سے زیادہ کشادہ دل اور تمام لوگوں سے زیادہ سچے تھے۔ آپ سب سے زیادہ نرم خو تھے۔ تمام لوگوں سے زیادہ ملنسار تھے۔ جو آپ کو اچانک دیکھتا، مرغوب ہو جاتا، اور جو پہچانتے ہوئے ملتا، وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ الغرض آپ کا حلیہ بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے رسول اللہ کا جیسا حسین و جمیل نہ پہلے دیکھا اور نہ ہی آپﷺ کے بعد کوئی آپﷺ سا دکھائی دیا۔‘‘ (شمائل ترمذي، مترجم، ص: 17)

جہاں تک آپﷺ کے لباس کا تعلق ہے تو آپ ہمیشہ ایسا لباس زیب تن کرنے کی کوشش کرتے جو دیکھنے میں بھلا اور خوبصورت لگے مگر اس میں اسراف اور تکبر نہ ہو۔ لباس میں تکلف سے کام نہ لیتے کہ وہ آپ کی استطاعت سے بڑھ کر مہنگا اور پرتعیش ہو۔ فضول خرچوں جیسا لباس پہنتے نہ زہد کا ڈراما کرنے والوں جیسا بناوٹی لباس زیب تن کرتے۔ جمال و جلال، میانہ روی و اعتدال اور کامل دکمال، غرض ہر بات اپنے لباس میں ملحوظ رکھتے۔

آپﷺ خوبصورت، پاکیزہ اور جسم ڈھانپنے والا لباس پہنتے جو دل کے لیے باعث راحت، جسم کے لیے نفع مند اور دیکھنے میں بھلا لگے اور اس سے نعمت اپنی کا اظہار ہو۔ آپ عیدین اور دیگر اہم مواقع پر عمدہ لباس زیب تن کرتے۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا قد میانہ تھا اور میں نے آپ ﷺکو سرخ جوڑے میں دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘ (صحیح البخاري، اللباس، حديث: 5848)

جس نے بھی آپ ﷤ﷺکو دیکھا، خوش ہوا اور اسے دلی سکون ملا۔

آپﷺ کی شکل وصورت کے جمال کا یہ عالم تھا کہ آپ سر پر درمیانے سائز کا سفید عمامہ باندھتے، اور یہ عربوں کا تاج شمار ہوتا تھا۔ آپ پاؤں میں رنگے ہوئے چھڑے کے خوبصورت ڈیزائن والے جوتے پہنتے تھے۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو ظاہر و باطن میں خوبصورتی اختیار کرنے کا حکم دیا کیونکہ دل خوبصورتی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور آنکھوں کو حسن بھلا لگتا ہے۔

نبی ﷺ نے فخر و غرور اور ظاہری حسن و جمال کے درمیان فرق کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((ولَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَّكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ: ((إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ))

’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث (91)

 پاک ہے وہ ذات جس نے نشان و شوکت کے ساتھ آپﷺ کو کامل بنایا، حسن عطا کر کے جمیل بنایا اور نبوت کے ساتھ فضیلت بخشی! سید نا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کا تعارف یوں کرایا ہے:

وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِي

وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ

 خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ كُلِّ عَيْبٍ

كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ

 آپﷺ سے زیادہ خوبصورت میری آنکھوں نے بھی نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپﷺ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے گویا کہ آپ کو اس طرح پیدا کیا گیا جیسا آپ نے چاہا۔‘‘

نبی ﷺ اپنے منصب رسالت میں سب سے جمیل اور اپنے اخلاق میں سب سے حسین و عظیم ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو نہایت خوبصورت اور حسین و جمیل پیدا کیا اور آپ کی صورت نہایت عمدہ بنائی۔ آپ کا اخلاق سب سے افضل، شمائل سب سے احسن اور فضائل و مناقب سب سے ممتاز ہیں کیونکہ آپﷺ اللہ تعالی کو تمام مخلوق سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں۔

اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ کو کامل خوبیاں عطا کیں۔ آپ پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کی۔ خصوصی عنایات اور نوازشیں کیں یہاں تک کہ ہر فضیلت میں آپ اسو ہ قرار پائے۔ مختلف طرح کے مکارم اخلاق آپ ہی سے سیکھے جاتے ہیں۔ فضائل و مناقب کی ساری سورتیں اسی چشمہ بھائی سے پھوٹتی ہیں۔ مختلف افراد میں پائی جانے والی ہر خوبی بدرجہ اتم آپ میں رکھی کیونکہ جو دوسروں کے لیے نمونہ ہو اس کا مثالی اور جامع ہونا ضروری ہے۔ اور یہ اعزاز اللہ تعالی نے آپ ہی کو عطا کیا ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے نمائندے اور پیامبرﷺ کو نہایت حسین و جمیل بنایا۔ آپ کی روح طاہر و پاکیزہ تھی۔ آپ کا دل سلامتی و اطمینان والا تھا اور سینہ کشادہ اور اللہ کے ذکر سے آباد تھا۔ اللہ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور غیظ وغضب، حسد، کینہ اور بغض آپ سے دور کر دیا تو آپ سب انسانوں سے بڑھ کر رحم دل، نیکو کار اور معزز بن گئے۔ اپنا، پرایا اور شہری و دیہاتی ہر ایک آپﷺ کے جود و کرم اور حلم و بردباری سے مستفید ہوا۔ آپ ﷺسب سے زیادہ پاکیزہ دل، صاف ذہن اور مثبت سوچ کے مالک تھے۔ اور آپ کو ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ آپ تو پوری دنیا کی قیادت اور انسانیت کی اصلاح کے لیے تشریف لائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝﴾

’’اے نبی! بلا شبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔‘‘ (الأحزاب 46:33)

نبی ﷺنے اعلان کیا کہ آپ پوری انسانیت میں سب سے زیادہ متقی ہیں۔ اور سب سے بڑا متقی وہ ہوتا ہے جو ہر اخلاق و عمل میں سب سے زیادہ خوبصورت ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللهِ أَنَا ) ’’بلا شبہ میں تم سب سے زیادہ متقی اور اللہ کے بارے میں تم سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث: 20)

اور آپﷺ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے اور فرماتے ہیں: ((التَّقْوٰى هَاهُنَا)) ’’تقوی یہاں (سینے میں) ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة حديث: 2564)

کیا کوئی عقل مند یہ سوچ سکتا ہے کہ جسے اس کے رب نے ﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾ ’’کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا ؟“ کا اعزاز دیا ہو، اس کے مبارک سینے میں کوئی کدورت، تکبر، فخر و غرور، انتظام اور ظلم و زیادتی کے جذبات ہوں؟ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جسے اللہ اپنا بنالے، اس کا سینہ کھول دے، اس کی روح اور دل و دماغ کو پاک صاف کرے، وہ یقیناً سب سے زیادہ خوبصورت، با کمال اور اعلیٰ ہوگا۔ آپﷺ ہی وہ طاہر وجمیل ہیں جن کے دل کو حکمت کے پانی سے دھویا گیا تو وہ سفید اور پاک صاف ہو گیا۔ اللہ تعالی نے شفافیت کو گدلا کرنے والی ہر چیز آپ سے دور کر دی اور جمال کو متاثر کرنے والی ہر بیماری، کینہ، حسد، بغض، عناد

 خیانت اور دھوکا سے آپ کو پاک کر دیا۔ انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے جبکہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے انھوں نے آپ کو پکڑا ، نیچے لٹایا، آپ کا سینہ چاک  کیا اور دل نکال لیا، پھراس سے ایک لوتھڑا نکالا اور کہا: یہ آپ (کے دل ) میں شیطان کا حصہ تھا، پھر اس دل کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اس کو جوڑا اور اسکی جگہ پر لوٹا دیا۔ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 162)

دنیا کا خوبصورت ترین دل وہ ہے جو ایمان وحکمت، شفافیت و وفاء محبت و رحمت، نیکی و برکت اور شفقت و انسان سے بھرا ہو اور آپ ﷺنے انھی اوصاف کے ساتھ پوری دنیا کو بھر دیا۔ آپ ﷺکی شخصیت کے جمال پر دلالت کرنے والی چیز آپ کے پاکیزہ اور صاف ستھرے اخلاق ہیں جو آپ کی مبارک روح سے پھوٹے۔ اگر آپ سب لوگوں سے زیادہ متقی، پارسا اور نیک نیت نہ ہوتے تو یہ تمام مبارک صفات اور خوبیاں آپ میں اکٹھی نہ ہوتیں۔ دنیا کے دانشور متفق ہیں کہ یہ خوبیاں آپ ﷺ کےسوا کسی شخص میں ایک ساتھ نہیں پائی جاتیں۔

اور جب اللہ تعالی نے ان الفاظ میں آپ کا تزکیہ فرمایا:

﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خَلْقٍ عَظِيمٍ﴾ ’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)

تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی روح تمام ارواح سے زیادہ خوبصورت اور آپ کا دل تمام دلوں سے زیادہ شفاف ہے۔ روح کا جمال صرف وہی ہے جو آپﷺ کی روح میں تھا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپﷺ کا آپ کے قتل کے منصوبے بنانے والے اور طرح طرح کی اذیتیں دینے والے دشمنوں کو معاف کر دینا جمال نہیں ؟!

کیا دوست، دشمن اپنے اور پرائے ہر شخص سے جود و کرم کا معاملہ کرنا اور سخاوت کے دریا بہا دینا آپ کا جمال نہیں ؟!کیا آپ ﷺکا عدل جمال نہیں جسے آپ نے زندگی بھر توازن کے ساتھ قائم رکھا ؟!

کیا آپ ﷺکی رحمت جمال نہیں جس سے انسان تو کیا حیوانات اور جمادات بھی مستفید ہوئے ؟!

بلاشبہ اخلاق و افعال دل کے عکاس ہوتے ہیں۔ دل اچھا ہو تو اعمال بھی اچھے اور اگر دل برا ہو تو اعمال بھی برے۔ قسم سے بتائیں کہ کیا آپ ﷺمیں موجود اعلیٰ صفات اور خوبصورت کردار آپ کی شخصیت کے جمال کی سب سے بڑی دلیل نہیں اور اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ آپ ﷺکی روح بارش کے قطروں سے زیادہ شفاف اور چمکتے سورج کی شعاعوں سے زیادہ صاف ہے؟!

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

يا مَنْ أَنَارَتْ بِنُورِ اللهِ سِيرَتُهُ

فَطَابَ مِنْ طِيْبِ ذَاكَ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ

زَكَّاكَ رَبُّكَ مِنْ غِلَّ وَمِنْ حَسَدٍ

فَأَنْتَ أَطْهَرُ مَنْ سَارَتْ بِهِ قَدَمُ

نَفْسِي الفِدَاءُ لِوَجْهِ زَانَهُ أَلْقٌ

مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ فِيهِ الْمَجْدُ وَالشَمَمُ

’’اے سے وہ ذات! جن کی سیرت اللہ کے نور سے روشن ہوگئی اور اس کی خوشبو سے ہر میدان اور ٹیلا مہک اٹھا۔ آپﷺ کے رب نے آپ کو کینے اور حسد سے پاک رکھا، اس لیے روئے زمین کے ہر فرد سے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ میری جان اس رخ زیبا پر قربان جسے اللہ کی رحمت کی تابنا کی نے حسن بخشا۔ اس چہرے میں مجد و شرف بھی ہے اور خوشبو بھی۔‘‘

اور جہاں تک آپﷺ کی طہارت کا جمال ہے، آپﷺ کا وجود اطہر اول تا آخر سرا پا طہارت ہے کیونکہ آپ کی نبوت کی بنیاد ہی ظاہری و باطنی طہارت پر ہے۔ آپﷺ زندگی موت اور دنیا و آخرت میں طاہر و مظہر اور طیب و پاک ہیں۔ آپﷺ کا فرمان ہے: ((اَلطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ))

’’صفائی نصف ایمان ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث (223)

چونکہ ایمان دلی اعتقاد اور ظاہری طہارت کا نام ہے، لہٰذا طہارت، غسل اور وضو وغیرہ کی صورت میں آدھا دین ہوا۔ اور آپﷺ ہی نے ہمیں وضو اور غسل کا طریقہ سکھایا۔ نجاست اور گندگی سے خلاصی پانے کا طریقہ بتایا۔ یُرے امور سے دور رہنے اور بے حیائی کے کام چھوڑنے کا سلیقہ دیا۔ یہ تعلیم دی کہ ہم اپنی روح اور جسم کو کیسے پاک صاف رکھ سکتے ہیں اور کسی طرح پاک صاف ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔

پاک صاف رہنے والوں کے امام، خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ ہی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرِينَ﴾

’’بے شک اللہ بہت تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور خوب پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ، حَتّٰى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ))

’’جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو کیا تو اس کے جسم سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔“ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 245)

اور آپﷺ نے فرمایا: ((لا يَقْبَلُ الله صَلاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتّٰى يَتَوَضَّأَ))

’’اللہ تعالی تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ بے وضو ہو جائے حتی کہ وہ وضو کرے۔‘‘

(صحيح البخاري، الحيل، حديث: 6954)

آپﷺ کی طہارت پسندی وحی کے تقدس کے عملی اظہار کی تائید درج ذیل ارشاد باری تعالی سے ہوتی ہے:

﴿اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ۝۷۷ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ۝۷۸ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ۝۷۹﴾

’’بلا شبہ یہ قرآن نہایت معزز ہے۔ ایک محفوظ کتاب میں۔ اسے تو نہایت پاکیزہ (فرشتے) ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔‘‘ (الواقعة 77:56-79)

حضرت حمران  رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھرکلی اور ناک میں پانی ڈالا۔ اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا۔ پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اور اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ اللہ کو دیکھا کہ آپﷺ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا:

((مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا بِشَيْءٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَمِنْ ذَنْبِهِ))

’’جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘(صحیح البخاري، الصوم، حديث: 1934)

اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اپنے وضو کو پورا کرے (یا خوب اچھی طرح وضو کرے) پھر یہ کہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس سے چاہے داخل ہو جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث: 234)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ غسل فرماتے تو دائیں ہاتھ سے آغاز فرماتے۔ اس پر پانی ڈال کر اسے دھوتے۔ پھر جہاں ناپسندیدہ چیز لگی ہوتی، اسے دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھوتے۔ جب اس سے فارغ ہو جاتے تو سر پر پانی ڈالتے۔ (صحیح مسلم، الحيض، حدیث: 321)

اور جہاں تک آپﷺ کی نظافت اور صفائی کا تعلق ہے، اس کے معاملے میں بھی آپ انسانیت کے امام اور معلم ہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! جب آپ قضائے حاجت کے لیے جاتے تو صحرا میں دور پہلے جاتے۔ کسی چیز کی اوٹ میں بیٹھتے اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی نصیحت کرتے۔ آپ نے نجاستیں زائل کرنے، استجا کرنے، ڈھیلے استعمال کرنے اور وضو و غسل کرنے کے طریقے اور آداب تک بتائے، جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

((عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسُّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ وَقَصُّ الأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ))

’’دس چیزیں (محصائل) فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کترنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھیڑ تا زیر ناف بال مونڈنا، پانی سے استنجا کرنا۔‘‘

 زکریا نے کہا کہ مصعب نے بتایا: دسویں چیز میں بھول گیا ہوں لیکن وہ کلی کرنا ہوسکتی ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث: 261)

یہ دس دی امور نظافت و طہارت کے بارے میں ہیں اور سب کی پوری تفصیل احادیث میں موجود ہے۔

بلا شبہ آپﷺ کے بعد علماء نے طہارت، نظافت، استجا، ڈھیلے استعمال کرنے، وضو اور غسل اور خوشبو استعمال کرنے کے بارے میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔ ان کے ضمن میں رسول اکرم  ﷺ کے اقوال و افعال ذکر کیے ہیں اور وہ تمام طریقے بتائے ہیں جو آپ نے مسنون ٹھہرائے، ان پر عمل کیا اور لوگوں کو ان کی دعوت دی۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ اور آپ کی امت پر احسان فرمایا کہ ان کے لیے پوری زمین پاک قرار دے دی جیسا کہ آپ نے فرمایا: ((وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا))

’’میرے لیے تمام روئے زمین سجدہ گاہ اور پاکیزگی و طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التيمم، حديث (335)

آپ ﷺنے ہر اس چیز سے بچنے کا حکم دیا جو طہارت و پاکیزگی کے منافی ہو۔ نجاستوں سے آلودہ ہونے، گندگی کے قریب جانے اور لوگوں کی گزرگاہ، سائبان یا پھل دار درخت کے نیچے گندگی پھیلانے سے منع فرمایا، جیسا کہ آپﷺ کا فرمان ہے:

’’دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سخت لعنت والے وہ دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو انسان لوگوں کی گزرگاہ میں یا ان کی سایہ دار جگہ قضائے حاجت کرتا ہے‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 269)

آپ ﷤ﷺنظافت و صفائی کے بغیر، پراگندہ حال رہنے سے منع کرتے تھے۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ نے ایک آدمی دیکھا جس کے بال پراگندہ اور بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے بالوں کو سنوار لے؟‘‘

اور آپﷺ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس کے کپڑے میلے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا اس کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے کپڑے دھولے؟‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4062)

تذکرہ نگار اور سیرت بیان کرنے والے آپ کی پاکیزہ، پاک صاف، خوبصورت، خوشبودار اور شفاف و لطیف بستی کی کیا توصیف کریں گے؟! امدح سرائی کرنے والے اس بستی کی کیا مدح کریں گے جسے اللہ نے چن لیا اور زندگی و موت ہر حال میں طبیب و پاک بنایا۔

نبی ﷺ کی خوشبو نہایت پاکیزہ و عمدہ تھی۔ آپ کا پسینہ موتیوں کی طرح چمکدار اور آپ کی سانس کستوری کی طرح معطر تھی۔ جب آپ کسی راستے سے گزر جاتے تو اپنی خوشبو اور معطر فضا کی وجہ سے پہچانے جاتے، جیسے سیدنا اس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب مدینہ میں کسی راستے سے گزر جاتے تو وہاں کستوری کی خوشبو آتی۔ لوگ کہتے: آج اس راستے سے رسول اکرمﷺ گزرے ہیں۔ (مسند أبي يعلى، حدیث: 7118)

نبی ﷺ جس کا ہاتھ چھو لیتے، اس کے ہاتھ میں دیر تک کستوری کی خوشبو رہتی، جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی اکرمﷺ سے مصافحہ کرتا یا میری جلد آپ کی جلد سے مس کرتی تو تین دن بعد بھی میرے ہاتھوں میں پسینہ آتا اور ان سے کستوری سے زیادہ عمدہ خوشبو آ رہی ہوتی۔ (المعجم الكبير للطبراني، حديث: 16830)

 ایک حدیث میں ہے: پانی کا ایک ڈول نبی کریمﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اس سے پیا اور پھر ڈول میں کلی کی اور وہ پانی کنویں میں پھینک دیا۔ یا اس طرح ہوا کہ آپ ﷺنے ڈول سے پانی پیا اور کنویں میں کلی کی تو اس کنویں سے کستوری کی طرح کی خوشبو پھیلنے گئی۔ (مسند احمد، حدیث: 18838)

نبی اکرم ﷺنے کستوری کے لیے ایک خوشبودان رکھا ہوا تھا جس سے خوشبو لگاتے۔ جسم مبارک کے علاوہ کپڑوں پر بھی اہتمام سے خوشبو استعمال کرتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کا خوشبو وان تھا جس سے آپ خوشبو لگاتے تھے۔ (سنن أبي داود، الترجل، حديث (4162)

جب آپ ﷺ کا پسینہ جسم اطہر سے ٹپکتا تو موتیوں کی طرح سفید شفاف اور کستوری سے زیادہ خوشبودار ہوتا۔ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت کے مطابق سیدہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اسے ایک شیشی میں جمع کر لیتیں اور اپنی خوشبو میں شامل کرتیں۔ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک اور پاکیزہ تھا جس سے روح اور نفس کو فرحت و سرود ملا تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷤ﷺکی خوشبو سے زیادہ بہتر اور پاکیزہ کوئی خوشبو یا عطر نہیں سونگھا۔ (صحيح البخاري، المناقب، حديث (3561)

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ پہلی (ظہر کی) نماز پڑھی، پھر آپ اپنے گھر والوں کی طرف تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ نکلا۔ آپﷺ کے سامنے کچھ بچے آئے۔ آپ نے ایک ایک کر کے ان میں سے ہر کسی کے رخساروں پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخساروں پر بھی ہاتھ پھیرا۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے آپﷺ کے اس اقدس کی ٹھنڈ اور خوشبو کو اسطرح محسوس کیا ہے جیسے آپﷺ نےابھی عطار کے ڈبے سے ہاتھ باہر نکالا ہو۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2329)

خوشبو سے نبی اکرم ﷺکے لگاؤ اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ کو خوشبو کا ہدیہ دیا جاتا تو آپ اسے رد نہ کرتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺخوشبو رد نہیں کرتے تھے۔ (صحيح البخاري، اللباس، حديث: 5929)

آپ ﷺکا دہن مبارک نہایت صاف ستھرا اور خوشبو دار تھا۔ آپ ﷺاس کی صفائی کے لیے مسواک اور کلی کا اہتمام کرتے۔ ناک اچھی طرح جھاڑتے۔ آپ کے دانتوں کی سفیدی کو برف کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ آپﷺ لہسن اور پیاز نہیں کھاتے تھے۔ آپ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: ((إِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَّا تُنَاجِي)) ’’بلاشبہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں، تم اس سے سرگوشی نہیں کرتے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث: 855)

آپ ﷺصحابہ کرام کو مسواک کرنے اور منہ کی بو دور کرنے کا خصوصی حکم دیتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم﷤ ﷺنے فرمایا: ((السوَاكَ مَطْهَرَةٌ لِّلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِّلرَّبِّ))

’’مسواک منہ کو صاف رکھنے کا آلہ اور رب کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘ (سنن النسائي الطهارة، حديث:5)

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسَّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ))

’’اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجمعة حديث: 887)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب اپنے گھروں میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث (253)

آپ ﷺنا گوار بو کبھی نہیں آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے محفوظ رکھا بلکہ آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے آپ کے وجود اطہر کی پاکیزگی، جمال اور خوشبو کا جو تذکرہ کیا ہے، وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

آپ غسل کرتے وقت، وضو کے بعد اور دیگر مواقع پر کافور وغیرہ مختلف خوشبو میں استعمال فرماتے اور آپ ﷺنے امت کو بھی صفائی اور پاکیزگی کی ترغیب دی، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

’’جو شخص جمعے کے دن غسل کرے اور جس قدر ممکن ہو، صفائی کر کے تیل لگائے یا خوشبو استعمال کرے، پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالے، پھر جتنی نماز اس کی قسمت میں ہو، ادا کرے اور جب امام خطبہ دینے لگے، خاموش رہے تو اس کے وہ گناہ جو اس جمعے سے سابقہ جمعے کے درمیان ہوئے ہوں، سب معاف کر دیے جائیں گے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الجمعة، حديث:910)

صحیح مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺعود کی خوشبو استعمال کرتے، یہ سب سے مہنگی خوشبو ہے، اس کے ساتھ کافور ملا لیتے جس سے اس کی مہک بڑھ جاتی اور خوشبو بھی بہت عمدہ ہو جاتی۔ اللہ تعالی ہمیشہ رحمت و سلامتی کا نزول فرمائے ظاہر و مظہر، سراج منیر اور بشیر و نذیر نبی ﷺ پر جو نہایت خوبصورت صفات کے مالک، روشن چاند اور میدان حشر میں خلوق کے سفارشی ہیں۔

سیرت النبیﷺ کا بغور مطالعہ کرنے سے آپ کی زندگی میں مندرجہ ذیل پہلو نمایاں نظر آئیں گے:

1۔آپ ﷺکی زندگی تمام تر جلال اور عظمت کی آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو جو بلند مقام و مرتبہ، سرداری اور رعب و دبدبہ دیا تھا اور اس کے ساتھ آپ لوگوں سے تواضع، عاجزی اور قربت کا جو برتاؤ کرتے تھے، اس کی بدولت لوگوں کے دلوں میں آپ کی عزت و جلال اور دبدبہ بیان سے باہر ہے۔ بڑے بڑے قائدین، سردار، مالدار، قبائل کے سر براہ، شعراء اور خطباء بھی آپ کی گفتگو خاموشی سے سنتے۔ دوران خطاب کوئی بات کرتا، نہ کسی کو اعتراض کی جرأت ہوتی۔ سب ہمہ تن گوش ہو کر پورے ادب و احترام سے آپﷺ کی بات سنتے تھے۔

2۔  دوسری علامت آپﷺ کا شخصی جمال ہے۔ آپ کی جسمانی و روحانی جزئیات کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکی شکل وصورت اور اخلاق کو نہایت خوبصورت بنایا۔ آپ کا چہرہ سورج اور چاند سے بھی زیادہ حسین تھا۔ آپ کے بال، آپ کی ناک، آپ کا منہ، آپ کی آنکھیں، کان اور تمام اعضاء نہایت مناسب اور ظاہر و باطن میں خوبصورت تھے۔ علماء نے آپ ﷺ کی عظیم اور مبارک شخصیت کے ہر ہر پہلو پر مستقل عنوان قائم کیے ہیں۔ آپﷺ کی خوشبو تک کا ذکر مستقل ابواب میں کیا ہے۔ آپ ﷺ سب سے اچھی خوشبو اور پاکیزہ عطر والے تھے۔ محدثین نے آپ ﷺکے لباس کا تذکرہ مستقل عنوان کے تحت کیا ہے۔ آپ کی سادگی کے باوجود آپ کا لباس سب سے زیادہ خوبصورت، پاک اور آپ کے شایانِ شان تھا۔ علماء نے آپ ﷺکے جوتوں اور دیگر استعمال کی چیزوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

آپﷺ کے اخلاق و کردار میں بھی کمال درجہ جمال و خوبصورتی تھی۔ آپ کے جود و سخا، تواضع، حلم وبردباری، زہدو شجاعت، عدل اور رحمت وغیرہ ہر ایک وصف میں جمال پایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کئی عناوین اور ابواب قائم کیے گئے ہیں۔

3۔ تیسری علامت کمال ہے۔ کمال سے مراد بشری کمال ہے۔ جو بشری کمال اللہ تعالی نے آپ ﷺکو عطا فرمایا، وہ روئے زمین پرکسی اور انسان کو حاصل نہیں ہوا ۔اور نہ انسانی تاریخ میں کسی دوسرے ایسے شخص کا وجود پایا جاتا ہے۔ دنیا جنھیں سب سے عظیم قائدین کی حیثیت سے جانتی ہے، ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور پھر قیادت کی دنیا میں ان کا موازنہ نبی اکرمﷺ کی زندگی سے کریں تو ہم نبی اکرمﷺ کو ان ان سے بہت بلند اور عظیم پائیں گے۔

دنیائے عدل میں نام کمانے والوں کے فیصلوں کو دیکھیں اور ان کے عدل وسیرت کے واقعات بغور پڑھیں،پھر ان کا موازنہ رسول اکرم ﷺ کی سیرت کے عادلانہ پہلو سے کریں۔ تو ہمیں وہ سب نامی گرامی افراد لوگ نبی اکرم ﷺکی شخصیت کے سامنے بے حیثیت نظر آئیں گے کیونکہ آپ اللہ کے نبی ہیں جنھیں اللہ کی خاص تائید اور نصرت حاصل ہے۔

ہم بڑے بڑے فصیح و بلیغ افراد کی خوبیوں کا مطالعہ کریں اور پھر نبی اکرمﷺ کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ان کی فصاحت و بلاغت کا موازنہ کریں تو اس عنایت الٰہی کے سامنے ان کی حیثیت پر گاہ کے برابر ہوگی جو کہ اللہ تعالی نے فصاحت و بلاغت کے میدان میں اپنے نبی ﷺکو عطا کی ہے۔

عجز و انکسار رکھنے والے اولیاء، عبادت گزاروں اور نیکوکاروں کی زندگی کا مطالعہ کریں، پھر ان کا موازنہ نبی اکرمﷺ کے عجز و انکسار اور نرمی و شفقت کے ساتھ کریں تو ہمیں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔

بلاشبہ یہ بشری کمال اللہ کا عطیہ اور اس کی طرف سے ملنے والی نبوت اور وحی الٰہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کی پاکیزہ و مبارک ہستی کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا تاکہ آپ ہدایت کے متلاشیوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ۝﴾
’’ بلا شبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات ) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الأحزاب 21:33)

میں عرصہ دراز سے بین الاقوامی انسائیکلو پیڈیا اور شرق و غرب کی تحقیقات کی روشنی میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتا آ رہا ہوں اور میں نے تمام بر اعظموں کے ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے فلسفیوں، قائد ین  اوردانشوروں کی آپﷺ کے بارے میں آراء بھی پڑھی ہیں، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہر انسانی کمال میں محمد ﷺ سرفہرست ہیں، آپ سے اوپر کوئی نہیں۔

اللہ تعالی کی رحمت ہو اس عظیم پیسوا ﷺ پر کہ وہ کس قدر پاکیزہ ہیں اللہ کی طرف سے سلامتی ہو اس خوبصورت چہرے پر کہ وہ کتنا شاندار ہے اللہ تعالی اس اسوہ پر برکتیں نازل فرمائے کہ وہ کتنا خوبصورت اور شاندار ہے! آپ محمد بن عبد اللہﷺ ، اللہ کے رسول، برگزیدہ خاتم النبیین، امام المرسلین اور جہان والوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ اگر چہ ہم دنیا میں آپ کے روشن چہرے کے دیدار کا شرف حاصل نہیں کر سکے، آپ کی آواز مبارک نہیں سن سکے، آپ کے ہاتھ چھونے کا اعزاز نہیں پایا مگر ہم اللہ تعالی کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہمیں آپ ﷺسے محبت ہے اور اللہ سبحانہ سے دعا گو ہیں کہ وہ جنت میں ہمیں آپ کا پڑوس اور قرب نصیب کرے۔

………………….