جذبہ ایثار و قربانی
اہم عناصر :
❄ چادر مجھے دے دیں ❄ اہلِ صُفَّہ کو میرے پاس لاؤ
❄ ایثار کی ایک عظیم مثال ❄ اللہ تعالیٰ مسکرا پڑے
❄تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ایثار
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [الحشر: 9]
ذی وقار سامعین!
اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو طہارت و پاکیزگی سے لے کر اللہ تعالی کے دربار میں حاضری تک کے بارے میں بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ معاشرے میں زندگی کیسے بسر کرنی ہے ، ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے۔ اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم اپنی ضروریات کو ہی مقدم کریں ، اپنے پیٹ کو ہی آگے رکھیں ، بلکہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر دوسرے ضرورت مند مسلمان کا خیال رکھنا ہے اسے ہی جذبہ ایثار و قربانی کہتے ہیں کہ ایک چیز کی بندے کو خود شدید حاجت اور ضرورت ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ میرے فلاں مسلمان بھائی کو بھی اسی چیز کی ضرورت ہے تو اپنی حاجت اور ضرورت کو پس پشت ڈال کر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی احادیث مبارکہ میں ایثار کی ترغیب دی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
ترجمہ:تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔ [آل عمران: 92]
اس آیت سے پتہ چلا کہ بندہ پوری نیکی اس وقت حاصل کر سکتا ہے جب اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرے گا اور یہی ایثار ہے کہ ایک چیز کی خود ضرورت ہونے کے باوجود بندہ اس کو اللہ کے راستے میں ، اللہ کی رضا کے لیے خرچ کردے۔
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
ترجمہ: نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگ دستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں۔ [البقرہ: 177]
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالی نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اصل نیکی یہ ہے کہ ایک چیز کی محبت اور ضرورت کے باوجود بندہ اس کو قرابت داروں ، یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کردے۔
وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
"اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔” [الحشر: 9]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ایثار کرنے والوں کو کامیاب لوگ قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلاَثَةِ، وَطَعَامُ الثَّلاَثَةِ كَافِي الأَرْبَعَةِ»
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے ۔ [بخاری: 5392]
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ
سیدنا ابوموسیٰ نے کہ نبی کریم نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ ( کے قیام ) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہوجاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ [بخاری: 2486]
ان آیات اور احادیث سے ہمیں ایثار کی اہمیت اور فضیلت کا پتہ چلا ، اب ہم ایثار کے متعلقہ چند واقعات سنیں گے تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہمارے اسلاف کس قدر ایثار کرتے تھے اور ہمارے اندر بھی ایثار کرنے کا جذبہ بیدار ہو۔
چادر مجھے دے دیں
عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ، فِيهَا حَاشِيَتُهَا»، أَتَدْرُونَ مَا البُرْدَةُ؟ قَالُوا: الشَّمْلَةُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: نَسَجْتُهَا بِيَدِي فَجِئْتُ لِأَكْسُوَكَهَا، «فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ»، فَحَسَّنَهَا فُلاَنٌ، فَقَالَ: اكْسُنِيهَا، مَا أَحْسَنَهَا، قَالَ القَوْمُ: مَا أَحْسَنْتَ، لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ، وَعَلِمْتَ أَنَّهُ لاَ يَرُدُّ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ
ترجمہ: سیدنا سہل نے بیان کیا
کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد نے ( حاضرین سے ) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل نے کہا ہاں شملہ ( تم نے ٹھیک بتایا ) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بناہے اور آپ ﷺ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ ﷺ کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طورپر باندھ کر آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو ایک صاحب ( عبدالرحمن بن عوف ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے‘ یہ آپ ﷺ مجھے پہنا دیجئے۔
لوگوں نے کہا کہ آپ نے ( مانگ کر ) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور ﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن بن عوف نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ ﷺ سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔ [بخاری: 1277]
اہلِ صُفَّہ کو میرے پاس لاؤ
حضرت ابو ہریرہ کہا کرتے تھے کہ ” اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ( زمانہ نبوی میں ) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق گزر ے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا ، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلادیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر میرے پاس سے گزرے ، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا ۔
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ گزرے اور آ پ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئےے اور آپ میرے دل کی بات سمجھ گئے اور میرے چہرے کو آپ نے تاڑلیا۔ پھر آپ نے فرمایا اباہر! میں نے عرض کیا لبیک ، یا رسول اللہ! فرمایا میرے ساتھ آجاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے چل دیا ۔ پھر آنحضرت ﷺ اندر گھر میں تشریف لے گئے ۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی ۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے دودھ ملا ۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا فلاں یافلانی نے آنحضرت ﷺ کے لئے تحفہ میں بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اباہر! میں نے عرض کیا لبیک ، یارسول اللہ ! فرمایا ، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں ، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے ، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس ! جب آنحضرت ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو اسے آنحضرت ﷺ انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہیں رکھتے ۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے ۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حق دار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا ۔ جب صفہ والے آئیں گے تو آنحضرت ﷺ مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا ۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور آنحضرت ﷺ کی دعوت پہنچائی ، وہ آگئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یارسول اللہ ! فرمایا لواور اسے ان سب حاضرین کودے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑلیا اور ایک ایک کو دینے لگا ۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہوجاتا تومجھے پیالہ واپس کردیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہوکر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کردیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کردیتا ۔ اس طرح میں نبی کریم ﷺ تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہوچکے تھے۔ آخر میں آنحضرت ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اورمسکرا کر فرمایا ؛
«أَبَا هِرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «بَقِيتُ أَنَا وَأَنْتَ» قُلْتُ: صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «اقْعُدْ فَاشْرَبْ» فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، فَقَالَ: «اشْرَبْ» فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: «اشْرَبْ» حَتَّى قُلْتُ: لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ: «فَأَرِنِي» فَأَعْطَيْتُهُ القَدَحَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الفَضْلَةَ
اباہر! میں نے عرض کیا، لبیک ، یارسول اللہ ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیااور آنحضرت ﷺ برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا ، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اب بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔ [بخاری: 6452]
ایثار کی ایک عظیم مثال
جب نبی ﷺ اور صحابہ کرام ہجرت کر کے مدینہ گئے تو آقا علیہ السلام نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کے درمیان مؤاخات یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو سعد بن ربیع کا بھائی بنایا تو سعد نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا؛
إِنِّي أَكْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَسَمِّهَا لِي أُطَلِّقْهَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ أَيْنَ سُوقُكُمْ فَدَلُّوهُ عَلَى سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ ثُمَّ جَاءَ يَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ قَالَ تَزَوَّجْتُ قَالَ كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ
ترجمہ: میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھامال لے لیں ۔ اور میری دوبیویاں ہیں ، آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا ۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں ، اس پر عبدالرحمن بن عوف نے کہا : اللہ تمہارے اہل اور مال میں برکت عطافرمائے تمہارا بازار کدھر ہے ؟ چنانچہ میں نے بنی قینقاع کا بازار انہیں بتادیا ، جب وہاں سے کچھ تجارت کرکے لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ پنیر اور گھی تھا پھر وہ اسی طرح روزانہ صبح سویرے بازار میں چلے جاتے اور تجارت کرتے آخر ایک دن خدمت نبوی میں آئے تو ان کے جسم پر ( خوشبو کی ) زردی کا نشان تھا آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے شادی کرلی ہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مہر کتنا ادا کیا ہے ؟ عرض کیا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا ( یہ کہا کہ ) ایک گٹھلی کے پانچ درم وزن برابر سونا ادا کیا ہے۔ [بخاری: 3780]
اللہ تعالیٰ مسکرا پڑے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ فَقُلْنَ مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي فَقَالَ هَيِّئِي طَعَامَكِ وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ فَجَعَلَا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلَانِ فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِكَ اللَّهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ نے کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے ، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا ۔ ( تاکہ ان کو کھانا کھلادیں ) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ان کی کون مہمانی کرے گا ؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا ۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کر ، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے ، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلالو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلادو ۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلادیا اور اپنے بچوں کو ( بھوکا ) سلادیا ، پھر وہ دکھاتو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کررہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا ، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھارہے ہیں ، لیکن ان دونوں نے ( اپنے بچوں سمیت رات ) فاقہ سے گزاردی ، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا ( یہ فرمایا کہ اسے ) پسند کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی؛
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ
” اور وہ ( انصار ) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر ( دوسرے غریب صحابہ کو ) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “ [بخاری: 3798]
تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا ایثار
عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرمارہے تھے کہ ( عراق کی اراضی کے لیے ، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا ) تم لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگادیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو ۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بارڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے ، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے ۔ عمر نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو ۔ راوی نے بیان کیا کہ اندونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا ، اس کے بعد عمر نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوںگا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی ۔ راوی عمر وبن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر زخمی کردیئے گئے ۔ عمر وبن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے ، میں ( فجر کی نماز کے انتظار میں ) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا حضرت عمر کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کرلو اور جب دیکھتے کہ صفوں میںکوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے ( مصلی پر ) بڑھتے اور تکبیر کہتے ۔ آپ ( فجر کی نماز کی ) پہلی رکعت میں عموماً سورہ ¿ یوسف یا سورہ نحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوجاتے ۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا ، آپ فرمارہے ہیں کہ مجھے قتل کردیا یا کتے نے کاٹ لیا ۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کردیا تھا ۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دودھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا ۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کردیا´ جن میں سات حضرات نے شہادت پائی ۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب ( حطان نامی ) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی ۔ اس بدبخت کو جب یقین ہوگیا کہ اب پکڑلیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلاکاٹ لیا ، پھرعمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہا تھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھادیا ( عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے ( پیچھے کی صفوں میں ) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ، البتہ چونکہ عمر کی قرات ( نماز میں ) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کہتے رہے ۔ آخر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی ۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر نے فرمایا : ابن عباس ! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے ؟ ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھااور آکر فرمایا کہ مغیرہ کے غلام ( ابولولو ) نے آپ کو زخمی کیا ہے ، عمر نے دریافت فرمایا ، وہی جو کاریگر ہے ؟ جواب دیا کہ جی ہاں ، اس پر عمر نے فرمایا خدا اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی ( جس کا اس نے یہ بدلا دیا ) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو ۔ تم اور تمہارے والد ( عباس ) اس کے بہت ہی خواہش مند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں ۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا ، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کرگزریں ، مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ( مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو ) قتل کرڈالیں ۔ عمر نے فرمایا : یہ انتہائی غلط فکر ہے ، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں ، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں ۔ پھر حضرت عمر کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی ، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا ۔ ( اچھے ہوجائیں گے ) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے ۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا ۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا ۔ پھر دودھ لایاگیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا ۔ اب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے ۔ پھر ہم اندر آگئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے ، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگا یا امیر المؤمنین ! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی ۔ ابتداءمیں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے ۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی ، پھر شہادت پائی ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہوجاتا ، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب ، جب وہ نوجوان جانے لگا تواس کا تہبند ( ازار ) لٹک رہا تھا ، عمر ﷺ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلاؤ ( جب وہ آئے تو ) آپ نے فرمایا : میرے بھتیجے ! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھا ئے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے ۔ اے عبداللہ بن عمر ! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی ( ۶۸ ) ہزار نکلا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہوسکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا ، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہوسکے تو قریش سے کہنا ، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کردینا ۔ اچھا اب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاو¿ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے ۔ امیر المؤمنین ( میرے نام کے ساتھ ) نہ کہنا ، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہاہوں ، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر ) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے ۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رورہی ہیں ۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کررکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی ، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاو¿ ۔ ایک صاحب نے سہارادے کر آپ کو اٹھایا ۔ آپ نے دریافت کیاکیا خبر لائے ؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیر المومنین ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمد للہ ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی ۔ لیکن جب میری وفات ہوچکے اور مجھے اٹھاکر ( دفن کے لیے ) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے ۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ۔ اس کے بعد ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں ۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں ، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے ۔ آپ عمر کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں ۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندر ونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیر المؤمنین ! خلافت کے لیے کوئی وصیت کردیجئے ، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف کانام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حدتک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیںکوئی سروکار نہیں رہے گا ۔ جیسے آپ نے ابن عمررضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایاہو ۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہوسکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے ۔ کیونکہ میں نے ان کو ( کوفہ کی گورنری سے ) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا : میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان ( مدینہ منورہ ) میں ( رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے سے ) مقیم ہیں ۔ ( خلیفہ کو چاہیے ) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کردیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد ، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور ( اسلام کے ) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیاجائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیاجائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتاہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیاجائے اورانہیں کے محتاجوں میں تقسیم کردیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی ( جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیاہے ) وصیت کرتاہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے ، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے ، جب عمر کی وفات ہوگئی
فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي فَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَتْ أَدْخِلُوهُ فَأُدْخِلَ فَوُضِعَ هُنَالِكَ مَعَ صَاحِبَيْهِ
ہم وہاں سے ان کو لے کر ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے حجرہ کی طرف آئے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمربن خطاب نے اجازت چاہی ہے ۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیاجائے ۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے۔ [بخاری: 3700]