جہاد کے متعلق صحابہ کرام کا موقف
عَن أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَصْحَابَهُ حَتَّى سبقوا المُشْرِكِينَ إِلَى بَدْرٍ وَجَاءَ المُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لا ينقل من أحد منكم إلى شيءٍ حَتَّى أكون أَنَا دُونَهُ، فَدَنَا المُشْرِكُونَ، فَقَالَ قوموا إلى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ، قَالَ: يَقُولُ عُمَيرُ بن الحمام الأنصاري: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: بَخٍ بَخٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قُولِكَ بَخٍ بخٍ ؟ قَالَ لَا، وَاللهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِن أَهْلِهَا، قَالَ فإنك من أهلها، قال: فأخرج تُميرات من قَرَنِهِ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنهُنَّ ثُمَّ قَالَ : لَئِن أَنا حَييتُ حَتَّى أكل تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةً طَوِيلَةٌ، قَالَ فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مَنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم: كتاب الإمارة، باب ثبوت الجنة للشهيد.)
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ہے اور آپ کے ساتھی بدر کی طرف نکلے اور مشرکین سے پہلے وہاں پہنچ گئے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کی طرف آگے نہ بڑھے یہاں تک کہ میں اس کے پاس رہوں، مشرکین لڑائی کے لئے قریب ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسی جنت کی طرف قدم بڑھاؤ جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے، عمیر بن حمام نے کہا یا رسول اللہ ! جنت کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو انہوں نے کہا اخا اخا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اخا اخا کہنے پر کس چیز نے ابھارا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ کسی چیز نے نہیں، بلکہ میں نے اس امید سے کہا ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہو جاؤں، آپ ﷺ نے کہا، تم اسی میں سے ہو۔ پھر انہوں نے اپنے تھیلے سے کچھ کھجور میں نکالیں اور کھانے لگا پھر کہا اگر میں اپنی ساری کھجوریں کھانے تک رکے رہا تو بڑی لمبی عمر ہو گی اور جتنی کھجور میں ان کے پاس باقی تھیں اسے پھینک دیا اور جنگ میں کود پڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
عَنْ شَدَّادِ بْنِ الهَادِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَاءَ إِلَى النبي الله فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَهَاجِرُ مَعَكَ، فأوصى به النبي الله بَعْضَ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةً عَلِمَ النَّبِيِّ اللهُ سَبِيًّا فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَكَانَ يَرْعَى ظَهْرَهُم فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ فَقَالَ: مَا هٰذَا؟ قَالُوا : قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ قَسَمْتُهُ لَك، قَالَ مَا عَلى هٰذَا اتبعتُك، ولكني اتبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أَرْمَى إِلَى هَهُنَا، وَأَشَارَ إِلَى خَلْقِهِ بِسَهُم فَأَمُوتَ فَادْخُلَ الجنة، فَقَالَ إِن تَصْدِّقِ اللهَ يَصْدُقَكَ، فَلَبِثُوا قَلِيلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ العَدُوِّ، فَأْتِي بِهِ النَّبِيُّ يُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهُمْ حَيْثُ أَشَارَ فَقَالَ النَّبِيُّ أهوَ هُوَ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صدق الله فَصَدَّقَهُ. (اخرجه النسالي)
( سنن نسالی کتاب الجنائز، باب الصلاة على الشهداء، ح (1845)، وصححه الألباني في صحيح الأحكام (61)
شداد بن هاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے پر ایمان لایا اور آپ ﷺ کی اتباع کی، پھر پوچھا کیا میں آپ کے ساتھ ہجرت کر سکتا ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے اپنے بعض ساتھیوں کو اس کے متعلق (خیر کی) وصیت کی، پس جب کسی غزوہ میں مال نقیمت حاصل ہوا تو آپ ﷺ نے اس کا بھی حصہ لگا دیا کیونکہ وہ ان کے اونٹوں کو چراتا تھا آپ ﷺ کے ساتھیوں نے جب اس کے حصے کو اس تک پہنچایا تو اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ وہ حصہ ہے جسے رسول اللہ ہے نے تمہارے لئے متعین کیا ہے پھر وہ شخص مال لے کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا رسول اللہ یہ آپ نے کیا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارا حصہ ہے، اس نے کہا میں اس کے لئے آپ کے اوپر ایمان نہیں لایا اور نہ ہی آپ کی اتباع کی بلکہ اس لئے اتباع کی ہے کہ مجھے یہاں پر تیر ماری جائے (اور اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا) اور میں اللہ تعالی کے راستے میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اللہ تعالی سے سچ کہہ رہے ہو تو یقینا یہ سچ ہو کر رہے گا چنانچہ تھوڑی دیر بعد سب پھر دشمنوں سے لڑائی کے لئے میدان جنگ میں اتر پڑے پر کچھ ہی لحہ بعد اسے رسول اللہ کے پاس اٹھا کر لایا گیا اس حال میں کہ اسے اس جگہ پر تیر لگا تھا جہاں پر اس نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالی سے سچ کہا تھا تو اللہ تعالی نے اسے سچ کر دکھایا۔
تشریح:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جہاد میں جانے کے لئے ہمیشہ تیار رہا کرتے تھے۔ ان کے جذبہ جہاد کا انداز و اس بات سے ہوتا ہے کہ جب ایک صحابی کو مال عظیمت دیا گیا تو انہوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں نے آپ کی اتباع اس لئے کی ہے کہ میں اللہ تعالی کے راستے میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ﷺ فرمایا : اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو یقینا یہ ہوکر رہے گا چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد و و دشمنوں کے مقابلہ میں میدان جنگ میں اتر پڑا اور کچھ ہی لمحہ بعد اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ وہی مخص ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے کیا کہا تھا تو اللہ تعالی نے اسے سچ کر دکھایا۔ جہاد کے تعلق سے یہ صحابہ کرام کا موقف تھا۔ اللہ تعالی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جیسا ایمان کامل ہمیں بھی عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایمانی قوت بہت زیادہ تھی۔
٭ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہادت کے متمنی تھے۔
٭صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر بھلائی میں آگے ہوتے۔
٭٭٭٭