جھوٹی گواہی پر تنبیہ

الحمد لله العليم القادر، المحيط علمه بالظاهر وما تكنه الضمائر. يعلم السر وأخفى، وإليه الماب والرجعي، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله المطصفى، الداعي إلى البر والهدى، والمحذر من أسباب الهلاك والردى، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو واقف کار اور قدرت والا ہے۔ اس کا علم ظاہر و باطن سب کو محیط ہے، دور از دنیاز کا جاننے والا ہے۔ اور اس کی طرف لوٹ کر جانا بھی ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اس ذات واحد کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے منتخب بندے اور رسول ہیں، جنہوں نے خیر و ہدایت کی طرف دعوت دی اور تباہی و ہلاکت کے اسباب سے ڈرایا۔ اس رسول پاک محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل ہو۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور اس کی ناراضگی اور انتقام کے اسباب سے بچو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ پر کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔ تمام حرکات و تصرفات سے واقف ہے۔ اور بندوں کے تمام اقوال و افعال کا علم رکھتا ہے۔ لہذا خالص اللہ کے لئے عمل کرو بیچ بات کہو، حکم الہی کے مطابق امانتیں ادا کرو، بولو تو حق بولو’ اپنے علم و تحقیق کی حد تک گواری دو اور گواہی دینے میں کسی بات کی کمی نہ کرو کیونکہ یہ کمان شہادت ہے۔ جس کے بارے میں اللہ کا اعلان ہے:
﴿وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَإِنَّهُ أٰثِمٌ قَلْبُهُ﴾ (البقره: 283)
’’جو شہادت کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہو گا۔‘‘
لیکن یہ بھی خیال رہے کہ شہادت دینے میں اپنی جانب سے کسی چیز کا اضافہ نہ کرو اور نہ یہ شهادت زور (یعنی جھوٹی گواہی) ہو جائے گی اور شہادت زور گناہ کبیرہ ہے۔ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے: صحیحین کی روایت ہے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ثلاثا؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وكان صلى الله عليه وسلم متكئا فجلس فقال: ألا وشهادة الزور، ألا وشهادة الزور، فمازال يكررها حتى قلنا: ليته سنكت) [صحیح بخاری: کتاب الشهادات، باب ما قيل في شهادة الزور (2653) و صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الکبائر واكبرها (87،88)]
’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کبیرہ نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا: ہاں اے اللہ کے رسول! ضرور بتائیں آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، صحابی ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: یاد رکھو! جھوٹی گواہی دینا۔ یاد رکھو! جھوٹی گواہی دینا۔ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں۔ کہ اس آخری جملہ کو آپ بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اپنے جی میں کہا کہ کاش اب آپ سکوت فرما لیتے۔‘‘
اللہ کے بندو! جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے۔ اور جھوٹی گواہی دینے والا اللہ کو دھوکہ دینے والا اور بندوں کا خائن ہے۔ اور اللہ تعالی خیانت کرنے والے گنگار شخص کو پسند نہیں فرماتا۔ ساتھ ہی جھوٹی گواہی سے زمین کے اندر فساد پیدا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی زمین میں فساد مچانے والوں کی بابت فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللهَ لا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ (يونس: 81)
’’اللہ تعالی فساد مچانے والوں کے کام سنوارا نہیں کرتا۔‘‘
دینی بھا ئیو! لہٰذا جب کوئی بات کہو تو اللہ سے ڈرتے رہو، گواہی دو تو حق بولو امین بنائے جاؤ تو امانتیں ادا کرو اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو، نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جھوٹی گواہی دینے والا بہت بڑا خائن اور گنہگار ہے۔ ایسے شخص کے لئے اللہ کے یہاں نہایت درد ناک عذاب تیار ہے۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(لا إيمان لمن لا أمانة له) [مسند احمد: 154/3 (12568)]
’’جس شخص میں امانت نہیں اس کے اندر ایمان بھی نہیں۔‘‘
سوچو تو سہی! کیا جھوٹی گواہی دینے والا صاحب امانت ہو سکتا ہے؟ کیا جھوٹی گواہی دینے والے کو کبھی بھی امین سمجھا جا سکتا ہے؟ جھوٹی گواہی دینے والا آپ کو گناہوں کی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ اور فریقین میں سے ہر ایک پر ظلم کرتا ہے، فریق مخالف پر ظلم یوں کرتا ہے۔ کہ اس کے خلاف باطل گواہی دے کر اسے مغلوب کر دیتا ہے۔ اس کے سینہ میں اپنے خلاف بغض و حمد بڑھاتا ہے۔ اس کے حق سے اسے محروم کرتا اور معاشرہ میں فساد مچاتا ہے۔ اور فریق موافق پر اس طرح ظلم کرتا ہے۔ کہ اس کی طرف سے جھوٹی گواہی دے کر اسے حرام مال کھلانے اور لوگوں پر ظلم کرنے میں اس کا تعاون کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس صریح حکم کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائده:2)
’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں مدد نہ کرو۔‘‘
جھوٹی گواہی دینے والا حاکم کو غلط فیصلہ کرنے اور خلاف واقعہ حکم صادر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور جھوٹی گواہی کے ذریعہ اللہ کے حکم کو بدل کر اس کے غضب و عتاب کا مستحق ہوتا ہے۔ جھوٹی گواہی دینے اور جھوٹی گواہی لینے والے با ہم ایک دوسرے کا ظلم و عدوان پر تعاون کرتے ہیں۔ اور باطل کے ذریعہ حرام مال حاصل کرتے ہیں، جس سے وہ چند روز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور عنقریب ہی وہ مال فنا ہو جاتا ہے۔ بلکہ کبھی تو ایسا ہوتا ہے۔ کہ وہ حرام مال بہت بڑی ناکامی و محرومی کا نتیجہ دے جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ خود اسی شخص کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ یا اس کے مال یا اولاد یا اہل و عیال میں سے کسی کی ہلاکت و بر بادی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
حرام اور باطل طریقہ سے مال حاصل کرنے والے کو سوچنا چاہئے کہ اس نے اس دنیا کے اندر اگر باطل کے ذریعہ لڑ کر مال حاصل کر لیا ہے۔ تو کل قیامت کے دن اس کی طرف سے اللہ رب العالمین سے کون لڑے گا؟ اسی طرح جھوٹی گواہی دینے والے کو بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا قیامت کے دن اللہ رب العالمین اس سے جھوٹی گواہی کی بابت باز پرس نہیں کرے گا؟ اور کیا حرام و باطل طریقہ سے مال کھانے والے کا محاسبہ نہیں ہو گا؟
خیانت کرنے والو! سوچو تو سہی کل اپنے پروردگار کو کیا جواب دو گے۔ جب تمہارے حقدار خصیم تمہارے گرد جمع ہو جائیں گے اور سارے مظلوم تم سے چمٹ جائیں گے، تم اکیلے ہو گئے۔ کوئی تمہاری طرف سے جھگڑا یا حمایت کرنے والا نہ ہو گا، تمہارا باطل اس وقت بے جان اور تمہارے فریق کا حق زندہ ہو گا چہرے کے بل گھسیٹ کر تمہیں لایا جائے گا اور وہ مال بھی حاضر ہو گا جو تم نے دنیا میں ظلما کھایا تھا اور پھر اللہ علام الغیوب فیصلہ فرمائے گا۔
لہٰذا! اللہ سے ڈرو اور زندگی فوت ہونے سے پہلے اس کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کے نگراں ہونے کے تصور سے معمور رکھو ارشاد الہی ہے:
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۝۴۲﴾ (ابراہیم:42)
’’یہ ہرگزمت خیال کرو کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے بے خبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے۔ جبکہ آنکھیں (دہشت کے سبب) کھلی کی کھلی رہ جائیں کیس دن تک مہلت دے‘‘
اسی طرح اللہ نے قرآن کریم کے اندر ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے۔ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے لغو اور فسق و فجور کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے، دین و ایمان اور عزت و آبرو پر دھبہ لگانے والی باتوں سے دور اور ظاہر و پوشیدہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)
’’اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گذرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو! یہ دنیا چند روزہ ہے۔ اور زندگی چند لمحات کی ہے، پھر ایک مسلمان کس بنیاد پر اپنے آپ کو گناہوں سے ملوث کرتا ہے؟ اسے یہ بھی تو خبر نہیں کہ وہ کب اس دنیا سے رخصت ہو کر قبر کی تنہائی میں چلا جائے جہاں سوائے عمل صالح کے اس کا کوئی مونس و مدد گار نہ ہو گا قبر کی وحشت ناک تنہائی میں اس کے برے اعمال اسے ڈرائیں گے اس وقت اس کا دنیا کا مال کام آئے گا نہ اس کی توبہ و معذرت قبول ہوگی۔ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُوْلٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا﴾ (الاسراء:36)
’’جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب جوارح سے ضرور باز پرس ہو گی۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔