جمعہ جات تفسیر سورۃ النساء
01. یتیم (یا کسی کم تر) سے زیادتی جائز نہیں خواہ وہ احسان کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔
فأما اليتيم فلا تقهر … فك رقبة * أو إطعام فيه يوم ذي مسغبة يتيما ذا مقربة
في "صحيح مسلم” وغيره عن أبي مسعود البدري – رضِي الله عنه – قال: "كنتُ أضرِب غلامًا لي بالسَّوط، فسمعتُ صوتًا من خلفي: ((اعلم أبا مسعود، اعلم أبا مسعود، اعلم أبا مسعود))، فلم أفهم الصوت من الغضب، فلمَّا دنا مِنِّي إذا هو رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- فإذا هو يقول: ((اعلم أبا مسعود، اعلم أبا مسعود))، فسقط السَّوْطُ من يدي من هَيْبَتِه، فقال: ((اعلم أبا مسعود أنَّ اللهَ أقدَرُ عليك منك على هذا الغلام))، فقلت: يا رسول الله، هو حُرٌّ لوجه الله، فقال -صلى الله عليه وسلم-: ((أمَا لو لم تفعل للفحتْك النارُ، أو لمسَّتْك النار))، فقلت: والذي بعثك بالحقِّ، لا أضرب عبدًا بعده أبدًا، فما ضربت مملوكًا لي بعد ذلك اليوم”
02. نكاح كر لو : دو، تین، چار… اگر تم عدل نہ کر سکو فواحدۃ او ما ملکت ایمانکم
نکاح سے اصل مقصود صرف وقتی شہوت رانی نہ ہو بلکہ اصل مقصود عفت کے ساتھ تا حیات ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ (محصنین غیر مسافحین) صرف بیوی کی نہیں، بچوں کی بھی اور بیوی کے متعلقین کی (استطاعت کی حد تک) نکاح دو مرد وعورت کا نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے۔
نکاح صرف دو خاندانوں کا ملاپ اور آپس کی حسن معاشرت نہیں بلکہ بہترین معاشرے کی اکائی ہے۔ کسی معاشرے میں اگر نکاح کامیابی سے نبھ رہے ہیں طلاق نہیں ہو رہیں تو وہ ایک بہترین معاشرہ ہے۔
جس طرح ایک بیوی کے ساتھ انصاف کرنا اور اس کے ساتھ حسن سلوک مرد کا فرض ہے (وعاشروهن بالمعروف … ، خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي) اسی طرح ایک مرد کیلئے جائز ہے کہ وہ ضرورت کے وقت اسی ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو، تین یا چار تک شادیاں کر سکے بشرطیکہ وہ بیویوں کے مابین عدل کر سکے۔
عدل سے مراد: ظاہری طور پر دنوں کی باریاں اور نان نفقہ کی برابر ہے۔ ورنہ حقیقی سو فیصد عدل کرنا نا ممکن ہے: ولن تستطيعوا أن تعدوا بين النساء ولو حرصتم فلا تميلوا كل الميل فتذروها كالمعلقة
03. تعدد ازواج:
01. نسب خلط ملط نہ ہو۔
02. عورت حائضہ اور حاملہ ہوتی ہے وہ سب شوہروں کو برابر وقت نہیں دے سکتی۔
03. مرد زیادہ شادیاں کرے تو وہ بیواؤں کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے، عورت زیادہ شادی کریں تو بیویائیں زیادہ ہو جائیں گی۔
4. چار سے زیادہ نکاح نبی کریمﷺ کا خاصہ ہے۔ نبی کریمﷺ کے زیادہ نکاحوں کی حکمتیں
05. ففي صحيح البخاري وغيره عن سعيد بن جبير قال: قال لي ابن عباس: هل تزوجت قلت لا، قال فتزوج فإن خير هذه الأمة أكثرها نساء.
نحلہ کا مطلب واجب یا فریضہ :
باب الشروط في النكاح وقال عمر مقاطع الحقوق عند الشروط وقال المسور بن مخرمة سمعت النبي ﷺ ذكر صهرا له فأثنى عليه في مصاهرته فأحسن قال حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي
4856 حدثنا أبو الوليد هشام بن عبد الملك حدثنا ليث عن يزيد بن أبي حبيب عن أبي الخير عن عقبة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أحق ما أوفيتم من الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج (بخاري)
نبی ﷺ کے علاوہ کسی کےلئے جائز نہیں کہ وہ مہر واجب کیے بغیر نکاح کرے۔ وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي إن أراد النبي أن يستنكحها خالصة لك من دون المؤمنين
حق مہر :
01. مہر عورت یا اس کے ولی کے خواہش کے مطابق ہونا چاہئے۔ اور اگر ان میں آپس میں اختلاف ہو جائے تو مہر مثل
جب حق مہر طے ہو جائے تو وہ خالص عورت کا حق ہے ولی کو اس میں کچھ لینا جائز نہیں بجز عورت کی اجازت کے۔
02. حق مہر کی مقدار کے بارے میں کوئی حد متعین نہیں ہے نہ کم کی، نہ زیادہ کی (احناف کم از کم 10 دراہم قرار دیتے ہیں) أن تبتغوا بأموالكم … التمس ولو خاتما من حديد (متفق عليه)… بعض ضعیف احادیث (ترمذی) میں جوتوں پر نکاح کی بات بھی ہے تو لوہے کی انگوٹھی سے قیمتی ہی ہے … عن جَابِرِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ أَعْطَى فِي صَدَاقِ امْرَأَةٍ سَوِيقًا، أو تَمْرًا فقد اسْتَحَلَّ … أبو داؤد،
سیدنا علی سے مروی ہے: لَا يَكُون المهْرُ أَقَلَّ مِن عَشرة دراهم … حدیث ضعیف
بہتر یہ ہے کہ تخفیف اور آسانی ہو: خیر الصداق أيسره (صحيح الجامع) إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة
امام نووی: والمستحب أن لا يزيد على خمسمائة درهم لما روت عائشة قالت: (كان صداق رسول الله ﷺ لأزواجه اثنتى عشرة أوقية ونشا ، أتدرون ما النش ؟ نصف أوقية، وذلك خمسمائة درهم)” انتهى من "المجموع” (16/ 322).
نکاح مہر مقرر کیے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ (مہر مؤجل) لیکن دینا ضروری ہے۔
اگر نکاح ہوجائے حق مہر بھی طے ہو اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے تو نصف حق مہر دینا ہوگا۔ الا یہ کہ عورت یا شوہر معاف کر دے اور شوہر کو معاف کرنا اولیٰ ہے کیونکہ وہ صاحب فضل ہے اور حق مہر کے علاوہ بھی متاع بھی ہونا چاہئے۔
اگر وہ خوشی سے چھوڑ دیں تو ٹھیک ہے لیکن خوشی سے کا مطلب؟؟؟ آپ دے دیں وہ چاہے تو واپس کر دے۔ (وراثت میں بھی) وأن تعفو أقرب للتقوىٰ ولا تنسوا الفضل بينكم