جنگی فنون کی تعلیم و تربیت کی ترغیب

الحمد لله مؤيد المؤمنين، ومعين الصابرين، أمر بالمجاهدة للنفوس على شرائع الدين، ووعد المجاهدين بالنصر والعز والتمكين، أحمده سبحانه على فضله وإحسانه، وأشكره على ترادف إنعامه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الملك الحق المبين، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله المصطفى الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو مومنوں اور صبر کرنے والوں کا معین و مددگار ہے۔ دینی امور پر جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور مجاہدوں سے مدد اور غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس کے فضل و احسان اور مسلسل انعام و اکرام پر میں اس کی تعریف اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور وہی شہنشاہ برحق ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے منتخب اور امین بندے اور رسول ہیں۔ آپ پر اور آپ کے آل و اصحاب پر اللہ کا بے شمار درود و سلام نازل ہوں۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام کی تعمیل کرو، منہیات سے بچو اور اچھے افعال و اعمال کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرو۔
یادر کھو! ایمان بالله استقامت اور جہاد بالنفس دین کے بنیادی امور میں سے ہیں۔ اور نفس کا جہاد یہ ہے۔ کہ اللہ رب العالمین کے مقرر کردہ احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب پر صبر کیا جائے احکام الہی بندے سے صبر و مجاہدہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ تاکہ اس کا ایمان مکمل ہو جائے وہ پورے طور پر رضائے الہی حاصل کرلے اور اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی صف میں جانچے جن کے بارے میں ارشاد ہے:
﴿ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۰۰﴾ (التوبۃ:100)
’’اللہ ان سے خوش ہے۔ اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کے لئے بہشتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اللہ رب العالمین اپنے احکام کی تعمیل پر صبر و مجاہدہ کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿ وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ؕ ﴾ (الحج: 78)
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے۔ اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی۔‘‘
بندگان الهی! جہاد ایک ایسا جامع لفظ ہے۔ جو صبر و جہاد کی مختلف صورتوں کو شامل ہے، چنانچہ فرائض کی ادائیگی خواہشات نفسانی سے باز رہنے اور گناہ و معصیت کے کاموں سے بچنے پر نفس سے مقابلہ، نیز جسمانی و روحانی آلام و مصائب اور مال و اولاد کے تعلق سے پیش آنے والی پریشانیوں پر صبر و استقامت یہ سب ’’جہاد‘‘ میں شامل ہیں۔ اور جہاد فی سبیل اللہ بھی اسی ضمن میں ہے۔ جو کہ جہاد کی سب سے ارفع و اعلیٰ قسم اور اسلام کے میناروں میں سے ایک ہے۔ اور جس کے سلسلہ میں اتنی فضیلت اور ثواب کثیر کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ جو شریعت کے دیگر بہت سے اعمال کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ امور و معاملات کی فلاح و درستگی کا سبب اور ملک کے امن و سلامتی اور نجاح و کامرانی کا ذریعہ ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی برحق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مومن بندوں کو متعدد مقامات پر جہاد کا حکم دیا اور اس پر بے پناہ اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ ساتھ ہی جہاد کے لئے تیاریاں کرنے اور جنگی وسائل و ذرائع کو مکمل رکھنے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ آلات جنگ جہاد کے لوازمات میں سے ہیں۔ اور کسی فرض کی ادائیگی کے لئے جس چیز کی ضرورت پڑے وہ بھی فرض کے حکم میں ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ ﴾ (الانفال: 60)
’’جہاں تک ہو سکے طاقت سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلہ کے) لئے مستعدر ہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ہیبت بیٹھی رہے گی۔‘‘
زمانہ کے لحاظ سے جنگی تعلیمات اور قوت کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے، قوموں کے عروج اور حالات کے تغیر و تبدل سے اس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، جہاد فی سبیل اللہ ایک ایسا فریضہ ہے۔ جو عسکری علوم و فنون کی تعلیم و تربیت جدید اسلحہ جات کے استعمال کرنے کی مهارت شجاعت و بہادری کی مشق اور جنگی امور و معاملات میں حذاقت و دانشمندی کے بغیر کما حقہ انجام نہیں دیا جا سکتا، اس کے لئے اضاعت وقت، راحت طلبی اور سہل پسندی سے بھی اجتناب کرنا ہو گا۔ آرام طلبی نیز آلات جنگ کی مشق اور تربیت سے غفلت دین و ملت ملک و حکومت اور افراد و قبائل سب کے لئے نقصان دہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا آیت: ﴿ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ﴾ من قوۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
(ألا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمي، أَلا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمِيُ، أَلا إِنَّ الْقُوَّة الرمي) [صحیح مسلم: کتاب الامارة، باب فضل الرمی (1917) و مسند احمد (157/4 (17437)]
’’سن لو! بیشک قوت تیر اندازی ہے۔ بیشک قوت تیر اندازی ہے۔ بیشک قوت تیر اندازی ہے۔‘‘
آپ کی بیان فرمائی ہوئی یہ تفسیر ہر زمانہ کو عام اور نوع بنوع جدید اسلحہ جات مثلاً: بم، گولے اور راکٹس وغیرہ کو شامل ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے آپ کو جوامع الکلم سے نواز ا تھا۔
ایک دوسری حدیث کے اندر آپﷺ نے فرمایا:
(ارموا واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا) [مسند احمد: 144/3 (17302) و 148/4 (17338) و سنن ابن ماجه: كتاب الجهاد، باب الرمي في سبیل الله (2811)]
’’یعنی تیراندازی بھی کرو اور گھوڑ سواری بھی۔ لیکن تیراندازی میرے نزدیک گھوڑ سواری سے محبوب ہے۔‘‘
مسلم نوجوانو! اس اہم فریضہ سے ہم غافل کیسے ہو گئے جو ہمارے دین کی ایک اہم بنیاد ہے؟ اور اس پاکیزہ مقصد کو ضائع کیوں کر دیا۔ جس کے بغیر ہمارے امور و معاملات کی درستگی ممکن نہیں؟ ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں۔ جنہیں تیر اندازی آتی ہے۔ نہ فنون جہاد سے واقفیت ہے۔ اور نہ ہی دفاعی یا ہجومی اسلحہ جات کے استعمال کا طریقہ جانتے ہیں۔ کیا ہر مسلمان کو دین و وطن اور اپنے نفس و محارم کی حمایت و دفاع کا حکم نہیں ہے؟
آلات جہاد اور جنگی ساز و سامان کی تعلیم و تربیت سے بے اعتنائی در حقیقت ذلت ورسوائی اور ضعف و کمزوری کی ایک قسم اور ہم پر دشمنوں کے مسلط ہو جانے کا ایک اہم سبب ہے۔ نیز مختلف تجارتوں میں پھنس کر حصول دولت کے پیچھے پڑ کر نوع بنوع سواریوں، لباس و پوشاک اور مال و اسباب کے ذریعہ فخر و مباحات کر کے اور زراعت و کاشتکاری میں گم ہو کر امور جہاد کو فراموش کر دینا، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینے کے مترادف اور دشمنوں کے غلبہ و تسلط کا سبب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع. وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا، لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دینکم) [سنن ابی داود، كتاب الاجازة، باب في الحمى من العينة (3662) و مسند احمد: 42/2 (5007)]
’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے اور گائے کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی ہی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالی تم پر ذلت مسلط کر دے گا اور جب تک اپنے دین اسلام کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ گے تمہیں اس ذلت سے چھٹکارا نہیں دے گا۔ اس حدیث کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے۔ کہ جب لوگ دنیا اور دنیا کے مال و اسباب میں پل کر جہاد کی تیاری نیز دشمنان اسلام سے محتاط رہنے کی تدبیریں چھوڑ دیں گے تو ان کے دلوں کے اندر ضعف و بزدلی پیدا ہو جائے گی اور دشمن ان پر غالب آجا ئیں گے‘‘
چنانچہ بہت سے اسلامی ممالک میں آج اس پیشگوئی کی تصویر موجود ہے۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ جہاد کے اس عظیم دینی فریضہ کا خیال کریں اور ہر ممکن مادی و معنوی قوت کے ذریعہ دشمنان دین کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں عصر حاضر کی ایک اہم ترین ضرورت یہ ہے۔ کہ مسلمان جنگی انتظامات سے واقف ہوں اور عسکری علوم و فنون سیکھیں تاکہ ان کے ذریعہ وہ اپنے دین و وطن کا دفاع اور اپنے وجودو تشخص کی حفاظت کر سکیں، ظالموں اور سرکشوں کو آگے بڑھنے سے روک سکیں اور انہیں رعب ودبدبہ اور شان و شوکت حاصل ہو۔ مسلمانوں کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیروں کے دست نگر اور محتاج رہیں اللہ تعالی نے ان کے لئے تو عزت و سر بلندی اور فتح و غلبہ لکھ دیا ہے۔ شرط یہ ہے۔ کہ وہ اسباب و وسائل اپنائیں۔ اپنے رب کا حکم مانیں اور اس کے دین کی مدد کریں چنانچہ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷﴾ (محمد:7)
’’اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
بندگان الهی! لہٰذا اللہ سے ڈرو اور جہاد کے وسائل و لوازمات کو اپناتے ہوئے اس فریضہ کو ادا کرو کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ ہی دین کی بلندی ہے۔ اور اس کے بارے میں رسول صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه بالغزو مات على شعبة من النفاق)[1]
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو زندگی میں جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں کبھی جہاد کا جذبہ پیدا ہوا تو وہ نفاق کی حالت میں مرا۔‘‘
أعوذ بالله من الشيطن الرجيم ﴿وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًا ؕ وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۴۰﴾ (الحج:40)
’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کی) خانقاہیں۔ اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اللہ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ ویران ہو چکی ہوتیں اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے۔ اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ توانا و غالب ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله العليم الحكيم، أحمده سبحانه على نعمه الغزار، وأشكره على جوده المدرار، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله المصطفى المختار. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کے لئے ہے۔ جو علیم و حکیم ہے۔ اس کی بے پناہ نعمتوں اور مسلسل فضل و کرم پر میں اس کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل واصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت و خوشنودی نیز قرآن و حدیث کے ارشادات کی تعمیل میں جلدی کرو۔ اللہ رب العالمین نے ہمیں دشمنان اسلام سے قتال کرنے کی تیاری نیز ان کے خلاف ہر ممکن قوت سے اس طرح مسلح رہنے کا حکم دیا ہے۔ کہ وہ کبھی بھی ہم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکیں اور نہ حقیر سمجھیں ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کے حق میں عزت و سر بلندی اور قوت و غلبہ لکھ دیا ہے۔ جب تک کہ اسلام کے ماننے والے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ ﴾ (الانفال: 60)
’’جہاں تک ہو سکے طاقت سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلہ کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ہیبت بیٹھی رہے گی۔‘‘
اللہ عزوجل نے اس آیت کے اندر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے حتی المقدور تیاری کا جو حکم دیا ہے وہ پوری امت مسلمہ کو شامل ہے۔ کیونکہ جنگی تیاری ایک ایسی چیز ہے۔ جس سے دشمنان اسلام کے دلوں میں یہ خوف پیدا ہو گا کہ ہاں مسلمان بھی دیگر قوموں کے درمیان ایک مضبوط اور طاقتور قوم ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے۔ کہ ہم اپنی ہر طرح کی علمی و مادی طاقت جمع کریں تاکہ دیگر قوموں کے اندر ہمارا رعب و دبدبہ پیدا ہو اور ہم اسلام کا کلمہ بلند کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔