کفارات ، درجات ، منجیات اور مہلکات
اہم عناصرِ خطبہ :
01. گناہوں کا کفارہ بننے والے تین امور
02. درجات میں بلندی کا ذریعہ بننے والے تین امور
03. نجات کا سبب بننے والے تین امور
04. ہلاکت وبربادی کا سبب بننے والے تین امور
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! آج کے خطبۂ جمعہ کا موضوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کو بیان فرمایا :
01. الکفارات ، یعنی گناہوں کا کفارہ بننے والے تین امور
02. الدرجات ، یعنی درجات میں بلندی کا ذریعہ بننے والے تین امور
03. المنجیات ، یعنی نجات کا سبب بننے والے تین امور
04. المہلکات ، یعنی ہلاکت وبربادی کا سبب بننے والے تین امور
آئیے سب سے پہلے وہ مکمل حدیث سماعت کیجئے ، اس کے بعد ہم ان امور کی وضاحت قدرے تفصیل سے کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( ثَلَاثٌ کَفَّارَاتٌ ، وَثَلَاثٌ دَرَجَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُہْلِکَاتٌ ))
’’ تین چیزیں گناہوں کا کفارہ ہیں ، تین چیزیں درجات میں بلندی کا ذریعہ ہیں ، تین چیزیں نجات کا سبب بنتی اور تین چیزیں ہلاکت کا سبب بنتی ہیں ۔ ‘‘
((فَأَمَّا الْکَفَّارَاتُ : فَإِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ فِی السَّبَرَاتِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، وَنَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ ))
’’ جہاں تک کفارات کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں : سخت سردیوں میں مکمل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز
کا انتظار کرنا اور باجماعت نماز پڑھنے کیلئے پیدل چل کر جانا ۔ ‘‘
((وَأَمَّا الدَّرَجَاتُ فَإِطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَإِفْشَائُ السَّلَامِ ، وَالصَّلَاۃُ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ))
’’ اور درجات میں بلندی کا ذریعہ بننے والے تین امور یہ ہیں : کھانا کھلانا ، سلام پھیلانا اور رات کے وقت نماز پڑھنا جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ ‘‘
((وَأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَالْعَدْلُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا،وَالْقَصْدُ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی،وَخَشْیَۃُ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ))
’’ اور جہاں تک نجات کا سبب بننے والے تین امور کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں : غصہ اور رضامندی ( دونوں حالتوں میں ) عدل وانصاف کا دامن تھامے رکھنا ، غربت اور مالداری ( دونوں حالتوں میں ) میانہ روی اختیار کرنا اور چھپے ہوئے اور ظاہرا ( دونوں حالتوں میں ) اللہ کا ڈر ۔ ‘‘
((وَأَمَّا الْمُہْلِکَاتُ فَشُحٌّ مُطَاعٌ ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ ، وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہٖ ))
’’ اور ہلاکت کا سبب بننے والے تین امور یہ ہیں : لالچ جس کو پورا کیا جائے ، خواہش جس کی پیروی کی جائے اور آدمی کی خود پسندی ۔ ‘‘ رواہ البزار وقال الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :453 حسن لغیرہ
یہی حدیث جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اسے بھی شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے ، تاہم اُس میں ان چاروں چیزوں کی ترتیب میں فرق اور تقدیم وتاخیرہے ۔ صحیح الجامع الصغیر : 3054
کفارات : گناہوں کو مٹانے والے امور :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں کو مٹانے والے تین امور ذکر فرمائے :
01. سخت سردیوں میں مکمل وضو کرنا
02. ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
03. باجماعت نماز پڑھنے کیلئے مسجد کی طرف پیدل چل کر جانا اور زیادہ سے زیادہ قدم اٹھانا
یہ تینوں امور اتنے عظیم ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی کے مقرب فرشتے بھی بحث کرتے ہیں ۔ اور وہ ان اعمال کی فضیلت کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اور ان اعمال کو انجام دینے والے بنو آدم پر رشک کرتے ہیں ۔ اور ان اعمال کو لکھنے اور آسمان کی طرف لے جانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((أَتَانِی اللَّیْلَۃَ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ ۔ قَالَ : أَحْسِبُہُ فِی الْمَنَامِ ۔ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ! ہَلْ تَدْرِیْ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی ؟ ))
’’ میرے پاس میرا رب تبارک وتعالی بہترین شکل میں آیا ( راوی کہتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ خواب میں ۔ یاد رہے کہ اللہ تعالی کا آنا ایسے ہی ہے جیسے اُس کے شایان شان اور اس کی کبریائی اور عظمت کے لائق ہے ) پھر اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : اے محمد ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ اوپر فرشتوں کی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے ؟‘‘
تو میں نے کہا : نہیں ۔
تو اللہ تعالی نے اپنا دست مبارک میرے کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک کو میں نے اپنے پستانوں کے درمیان ( یافرمایا : ) اپنے سینے میں محسوس کیا ۔ اور میں نے وہ سب کچھ معلوم کرلیا جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ۔ اللہ تعالی نے پھر فرمایا : (( یَا مُحَمَّدُ ! ہَلْ تَدْرِیْ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی؟ ))
’’ اے محمد ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ اوپر فرشتوں کی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے ؟‘‘
تو میں نے کہا : ’’ جی ہاں ، کفارات اور درجات کے بارے میں ۔ ‘‘
((وَالْکَفَّارَاتُ : الْمُکْثُ فَی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ ، وَالْمَشْیُ عَلَی الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ فِی الْمَکَارِہِ))
’’ اور کفارات یہ ہیں : نمازوں کے بعد مساجد میں بیٹھے رہنا ، جماعتوں کی طرف پیدل چل کر جانا اور سخت سردی میں مکمل وضو کرنا۔ ‘‘
اس کے بعد فرمایا :
(( وَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ عَاشَ بِخَیْرٍ وَمَاتَ بِخَیْرٍ ، وَکَانَ مِنْ خَطِیْئَتِہٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ ))
’’ اور جو شخص ان چیزوں کو ہمیشہ جاری رکھے وہ خیر پر زندہ رہتا ہے اور خیر پر ہی اس کی موت آتی ہے ۔اور وہ گناہوں سے یوں پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت گناہوں سے پاک تھا ۔‘‘
( اِس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یہ تینوں کام کرتا رہے تو وہ خیر وبھلائی کے ساتھ زندہ رہتا ہے اور اسی کے ساتھ اس کی موت آتی ہے ۔ اور جب اس کی موت آتی ہے تو وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے ۔ )
اللہ تعالی نے فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا پڑھا کریں :
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ ،وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ ،وَإِذَا أَرَدتَّ بِعِبَادِکَ
فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُونٍ ))
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتا ہوں ۔ اور جب تو اپنے بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اُس میں مبتلا کئے بغیر میری روح کوقبض کر لینا ۔ ‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : درجات سے مقصود ہے : سلام پھیلانا ، کھانا کھلانا اور رات کو اُس وقت نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ ‘‘ جامع الترمذی :3233 ،3234 ۔ وصححہ الألبانی
٭ یہ تینوں اعمال ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے نہ صرف گناہ مٹتے ہیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ نیکیوں میں بھی اضافہ کرتا ہے ۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَلَا أَدُلُّکُمْ مَا یُکَفِّرُ اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَزِیْدُ بِہٖ فِی الْحَسَنَاتِ ؟ ))
’’میں تمھیں وہ اعمال نہ بتلاؤں کہ جن کے ذریعے اللہ تعالی گناہوں کو مٹاتا اور نیکیوں کو بڑھاتا ہے ؟ ‘‘
تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! کیوں نہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((إِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ عَلَی الْمَکَارِہِ،وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ))
’’ سخت سردی میں مکمل وضو کرنا ، اِن مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ۔ ‘‘
اس کے بعد فرمایا :(( مَا مِنْکُمْ مِنْ رَجُلٍ یَخْرُجُ مِنْ بَیْتِہٖ مُتَطَہِّرًا ، فَیُصَلِّیْ مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ الصَّلَاۃَ،ثُمَّ یَجْلِسُ فِی الْمَجْلِسِ یَنْتَظِرُ الصَّلَاۃَ الْأُخْرَی،إِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَقُولُ : اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اَللَّہُمَّ ارْحَمْہ)) مسند أحمد :11007۔ وصححہ الأرنؤوط
’’ تم میں سے جو شخص بھی اپنے گھر سے مکمل طہارت کے ساتھ نکلے ، پھر مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھے ، پھر دوسری نماز کے انتظار میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہے تو فرشتے اس کیلئے یوں دعا کرتے ہیں : اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما ، اے اللہ ! اس پر رحم فرما ۔ ‘‘
حدیث کے اِس آخری حصے سے معلوم ہوا کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھنا نہ صرف
گناہوں کا کفارہ ہے بلکہ یہ فرشتوں کی دعاؤں کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہے ۔
٭ اور یہ تینوں اعمال ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے نہ صرف گناہ مٹتے ہیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ درجات بھی بلند کرتا ہے ۔اور ان کے ذریعے جہاد کی تیاری بھی ہوتی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَا یَمْحُو اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ ؟ ))
’’ کیا میں تمھیں ان اعمال کے بارے میں خبر نہ دوں جن کے ساتھ اللہ تعالی گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ؟ ‘‘
تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! کیوں نہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ عَلَی الْمَکَارِہِ ، وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ ))
’’ مشقت کے اوقات میں مکمل وضو کرنا ،مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ۔چنانچہ یہی جہاد ہے ، یہی جہاد ہے ، یہی جہاد ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 251، جامع الترمذی :51، سنن النسائی :143۔ واللفظ لہما
اب تک ہم نے جو احادیث پیش کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ تین امور ( سخت سردی وغیرہ میں مکمل وضو کرنا ، باجماعت نماز پڑھنے کیلئے مسجد کی طرف چل کر جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ) نہ صرف گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں بلکہ ان سے مزید فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ اور وہ ہیں :
٭ نیکیوں میں اضافہ
٭ درجات میں بلندی
٭ زندگی بھی خیر وبھلائی کے ساتھ گزرتی ہے اور موت بھی اسی پر آتی ہے
٭ ان امور کو ہمیشہ جاری رکھا جائے تو موت کے وقت انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوتا ہے
٭ ان امور کے ذریعے جہاد کی تیاری ہوتی ہے
٭ مسجد میں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھنے سے فرشتوں کی دعائیں بھی نصیب ہوتی ہیں۔
اب ہم ان تینوں امور کے کچھ مزید فضائل ذکر کرتے ہیں :
وضو کی فضیلت
• نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ ، خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ جَسَدِہٖ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِہ )) صحیح مسلم :245
’’ جو آدمی اچھی طرح وضو کرے تو اس کے جسم سے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی چلے جاتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :((مَنْ تَوَضَّأَ ہٰکَذَا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ، وَکَانَتْ صَلَاتُہُ وَمَشْیُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ نَافِلَۃً )) صحیح مسلم :229
•
’’ جو شخص میرے وضو کی طرح وضو کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف اس کے چل کرجانے کو اضافی عبادت سمجھا جاتا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ إِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ فَلْیُطِلْ غُرَّتَہُ وَتَحْجِیْلَہُ)) صحیح مسلم : 246
•
’’ مکمل وضو کرنے کی وجہ سے قیامت کے روز تمھارے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے ۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص استطاعت رکھتا ہو تو وہ اپنے چہرے اور ہاتھ پاؤں کی چمک کو زیادہ لمبا کرے ۔ ‘‘
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے اور اس کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے کے فضائل
• حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَمَاعَۃٍ تَزِیْدُ عَلیٰ صَلاَتِہٖ فِیْ بَیْتِہٖ وَصَلاَتِہٖ فِیْ سُوْقِہٖ بِضْعًا وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃ))
’’ آدمی کی باجماعت نماز کا ثواب اُس نماز سے بیس سے زیادہ گنا بڑھ جاتا ہے جسے وہ گھر میں اور بازار میں اکیلے پڑھے ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :
(( وَذَلِکَ أَنَّ أَحَدَہُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ ، لَا یَنْہَزُہُ إِلَّا الصَّلَاۃُ ، لَا یُرِیْدُ إِلَّا الصَّلَاۃَ ، فَلَمْ یَخْطُ خُطْوَۃً إِلَّا رُفِعَ لَہُ بِہَا دَرَجَۃٌ ، وَحُطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ حَتّٰی یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ کَانَ فِی الصَّلَاۃِ مَا کَانَتِ الصَّلَاۃُ تَحْبِسُہُ ، وَالْمَلَائِکَۃُ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ
مَجْلِسِہِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ ، یَقُوْلُوْنَ : اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ ، مَا لَمْ یُؤْذِ فِیْہِ ، مَا لَمْ یُحْدِثْ فِیْہِ)) صحیح البخاری :2119 ، صحیح مسلم : 649
’’ اور یہ اس طرح کہ جب کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر مسجد میں صرف نماز پڑھنے کی نیت سے آئے ، نماز کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہ ہو تو اس کے ایک ایک قدم پر اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے ۔ پھرجب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے تو وہ ایسے ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو۔اور وہ جب تک اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے توفرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اے اللہ! اس پر رحم فرما ۔ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما ۔ وہ بدستور اسی طرح دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ کسی کو اذیت نہ دے یا اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے ۔ ‘‘
اِس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے متعدد فضائل ذکر فرمائے ہیں :
01. مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا اکیلئے نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ گنا ( اور دوسری روایت کے مطابق ستائیس گنا ) افضل ہے ۔
02. مسجد کی طرف آتے ہوئے ہر قدم پر ایک درجہ بلند کردیا جاتااور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ۔
03. جب تک وہ مسجد میں نماز کیلئے بیٹھا رہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو ۔
04. نماز کے بعد جب تک وہ اپنی جگہ پہ بیٹھا رہے فرشتے اُس کیلئے مسلسل دعائے مغفرت ودعائے رحمت کرتے رہتے ہیں ۔
• حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ ، أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نُزُلًا ، کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ ))
’’ جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد میں جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے ، وہ جب بھی جائے ، صبح کو یا شام کو ۔ ‘‘ صحیح البخاری :662، صحیح مسلم :669
الدرجات : درجات کو بلند کرنے والے امور :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درجات کو بلند کرنے والے تین امور ذکر فرمائے :
01. کھانا کھلانا۔
02. سلام کو عام کرنا۔
03. رات کو اٹھ کر اُس وقت نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔
ان تینوں امور کے مزید فضائل :
• نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا ، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا ، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ)) صحیح مسلم :54
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !تم جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ۔اور تم ایمان والے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ کیا میں تمھیں وہ کام نہ بتاؤں کہ جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کردو گے ؟ تم اپنے درمیان سلام کوپھیلا دو ۔ ‘‘
یعنی ہر مسلمان کو سلام کہا کرو ۔
• حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سب سے پہلی حدیث سنی وہ یہ تھی :
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! أَفْشُوْا السَّلَامَ ، وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ ، وَصِلُوْا الْأَرْحَامَ ، وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ)) سنن ابن ماجہ :1334، 3251 ۔ وصححہ الألبانی
’’ اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ ( اگر یہ کام کرو گے تو ) جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ۔ ‘‘
• حضرت ابو مالک ا لأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا،وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا،أَعَدَّہَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَلَانَ الْکَلَامَ ، وَتَابَعَ الصِّیَامَ ، وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ)) مسند أحمد وابن حبان ۔صحیح الجامع للألبانی :2123
’’ بے شک جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ انھیں اللہ تعالی نے اس شخص کیلئے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو ، بات نرمی سے کرتا ہو ، مسلسل روزے رکھتا ہو
اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
• حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا : (السلام علیکم) تو آپ نے فرمایا : ’’دس نیکیاں ۔ ‘‘پھر ایک اور بندہ آیا اور اس نے کہا : ( السلام علیکم ورحمۃ اللہ ) تو آپ نے فرمایا : ’’بیس نیکیاں ۔‘‘ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: ( السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ) تو آپ نے فرمایا : ’’تیس نیکیاں ۔‘‘ جامع الترمذی :2689 ، سنن أبی داؤد : 5195۔ وصححہ الألبانی
• حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا ہوا ہے ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کون نمازِجنازہ میں اور میت کی تدفین میں شریک ہوا ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں شریک ہوا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَا اجْتَمَعْنَ فِی امْرِیئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) صحیح مسلم :1028
’’ یہ کام جس شخص میں ( ایک دن کے دوران) جمع ہو جائیں تووہ یقینا جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘
• حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ ،وَہُوَ قُرْبَۃٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ ، وَمَنْہَاۃٌ لِلْآثَامِ)) جامع الترمذی :3549 ۔ وحسنہ الألبانی
’’ تم قیام اللیل ضرور کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی عادت تھی ، اس سے تمہیں تمہارے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، یہ گناہوں کو مٹانے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہے ۔ ‘‘
المنجیات : نجات کا سبب بننے والے امور :
عزیز القدر بھائیو اور بزرگو ! آئیے اب ذکر کرتے ہیں نجات کا سبب بننے والے امور کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات کا سبب بننے والے تین امور ذکر فرمائے :
01. غصہ اور رضامندی ( دونوں حالتوں میں ) عدل وانصاف کا دامن تھامے رکھنا
02. غربت اور مالداری ( دونوں حالتوں میں ) میانہ روی اختیار کرنا
03. چھپے ہوئے اور ظاہرا ( دونوں حالتوں میں ) اللہ کا ڈر
01. غصے کی حالت میں بسا اوقات انسان بے قابو ہو جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انصاف کا دامن اس سے چھوٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات خوشی کی حالت میں بھی وہ اس قدر مست ہو جاتا ہے کہ عدل وانصاف کے دامن کو چھوڑ دیتا ہے ۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ وہ دونوں حالتوں میں عدل وانصاف کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے ۔ نہ تو غصے کی حالت میں تفریط کا شکار ہو کر کسی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنائے اور نہ ہی خوشی کے عالم میں افراط کا شکار ہوکر کسی کو اُس کے مقام سے بڑھا دے اور حد سے تجاوز کرے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ﴾ المائدۃ5 :8
’’ اے ایمان والو ! اللہ کی خاطر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو ۔ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اِس بات پر مشتعل نہ کردے کہ تم عدل کو چھوڑ دو ۔ عدل کیا کرو ، یہی بات تقوی کے قریب ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا﴾ النساء4 :135
’’ اے ایمان والو ! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو ۔ خواہ وہ گواہی تمھارے اپنے یا تمھارے والدین یا قریبی عزیزوں کے خلاف ہی ہو ۔ اگر کوئی فریق امیر ہے یا فقیر ، بہر صورت اللہ ہی ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے چلتے ہوئے عدل کو مت چھوڑو ۔ اور اگر گول مول بات کرو یا سچائی سے کتراؤ ( تو جان لو کہ ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبرہے ۔ ‘‘
عدل وانصاف کی اللہ تعالی کی ہاں بڑی قدر ومنزلت ہے ۔ اور اس کی عظیم فضیلت ہے ۔
باری تعالی کاارشاد ہے : ﴿ وَأَقْسِطُوْا إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾ الحجرات49 :9
’’ تم انصاف کیا کرو کیونکہ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِن نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ ،اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِہِمْ وَأَہْلِیِْہِمْ وَمَا وَلُوْا )) صحیح مسلم :1827
’’بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں اُس کی دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہو نگے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں ، اپنے گھر والوں اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف کرتے ہیں ۔ ‘‘
02. مالداری اور غربت ( دونوں حالتوں میں ) میانہ روی اختیار کرنا
انسان چاہے مالدار ہو یا غریب ہو ، دونوں حالتوں میں اسے اعتدال کی راہ اور میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔نہ وہ اسراف اور فضول خرچی کرے اور نہ ہی بخل اور کنجوسی کرے ۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یوں بیان فرماتے ہیں :
﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾ الفرقان25 :67
’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل ، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا :
﴿ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾ الإسراء17 :29
’’ اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو ( یعنی بخل اور کنجوسی نہ کرو ) اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دو ( یعنی اسراف اور فضول خرچی بھی نہ کرو ۔) ورنہ خود ملامت زدہ اور درماندہ بن جاؤ گے ۔ ‘‘
03. چھپے ہوئے اور ظاہرا ( دونوں حالتوں میں ) اللہ کا ڈر
انسان چاہے لوگوں کے سامنے ہو یا ان کی نظروں سے اوجھل ہو ، ہر دو حالت میں اسے اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہئے ۔ اور اللہ تعالی سے ڈر کر اپنے دامن کو ہر حال میں گناہوں سے بچانا چاہئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی ہر جگہ پر اور ہر حال میں انسان کی نگرانی کر رہا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ﴾ ’’ بے شک اللہ تعالی تم پر نگران ہے ۔ ‘‘ النساء4 :1
جو لوگ اللہ تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں ، خاص طور پر اپنی خلوتوں میں ، تو اللہ تعالی ان کے متعلق ار شاد فرماتا
ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ ﴾ الملک67 :12
’’ بے شک وہ لوگ جو اپنے رب سے غائبانہ طور پر( یا خلوتوں میں ) ڈرتے رہتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے ۔ ‘‘
خلوت میں اللہ تعالی کے ڈر سے رونے کی بڑی فضیلت ہے ۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو ان خوش نصیب لوگوں میں ذکر فرمایا جنھیں اللہ تعالی قیامت کے روز اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ، جبکہ اُس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ ))
’’سات افراد ایسے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے (عرش کے ) سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ۔‘‘
ان میں سے ایک وہ ہے جس کے بارے میں فرمایا: (( وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ))
’’ وہ آدمی جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔‘‘ صحیح البخاری :660 ، صحیح مسلم :923
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو اپنی خشیت نصیب فرمائے ۔ اور ہمیں نجات کا سبب بننے والے تمام امور پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ اسی طرح گناہوں کا کفارہ بننے والے اور درجات میں بلندی کا ذریعہ بننے والے امور کو بھی اختیار کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
معزز سامعین ! آئیے اب حدیث کے آخری حصے کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین امور کا ذکر فرمایا جو انسان کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ
المہلکات : ہلاکت کا سبب بننے والے امور :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلاکت کا سبب بننے والے تین امور ذکر فرمائے :
01. لالچ جس کو پورا کیا جائے
02. خواہش جس کی پیروی کی جائے
03. آدمی کی خود پسندی
01. ( شُحّ ) سے مراد یہ ہے کہ جو چیز انسان کے پاس نہ ہو وہ اس کے حصول کا لالچ کرے ۔ اور جو چیز اس کے پاس ہو وہ اس میں بخیلی اور کنجوسی کا مظاہرہ کرے ۔ مال سمیٹنے کی شدید حرص اور خرچ کرنے میں انتہائی کنجوسی۔ اِس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلکات میں سب سے پہلے ذکر فرمایا ۔
وہ ’ لالچ ‘ جس کو پورا کرنے کیلئے انسان اپنا تن ، من ، دھن لگا دے اور اپنی ساری توانائیاں صرف کردے ، ایسالالچ انسان کیلئے یقینا تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ حلال وحرام کا لحاظ نہیں کرتا ، بلکہ ہر صورت میں اپنے لالچ کو پورا کرنے کی دھن میں مگن رہتاہے ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ فَإِنَّ الشُّحَّ أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ،حَمَلَہُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوْا دِمَائَہُمْ وَاسْتَحَلَّوْا مَحَارِمَہُمْ)) صحیح مسلم : 2578
’’ تم ظلم سے بچتے رہنا ، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب بنے گا ۔ اور لالچ سے بھی بچے رہنا ، کیونکہ اسی لالچ نے ہی تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا ۔ لالچ نے انھیں خون بہانے ( قتل کرنے ) اور اپنے محارم کو حلال کرنے پر آمادہ کیا ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِیَّاکُمْ وَالشُّحَّ ، فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِالشُّحِّ ، أَمَرَہُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوْا ، وَأَمَرَہُمْ بِالْقَطِیْعَۃِ فَقَطَعُوْا ، وَأَمَرَہُمْ بِالْفُجُوْرِ فَفَجَرُوْا))
’’ تم لالچ سے بچو ، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔ لالچ نے انھیں کنجوسی کرنے کا حکم دیا ، تو انھوں نے کنجوسی کی ، لالچ نے انھیں قطع رحمی کا حکم دیا تو انھوں نے قطع رحمی کی ۔ اور لالچ نے انھیں گناہ کا حکم دیا تو انھوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد :1700 ۔ وصححہ الألبانی
ان دونوں حدیثوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ’ لالچ ‘ کس قدر بری بلا ہے !
اور ’لالچ ‘ کی سنگینی کی وجہ سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
(( لَا یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِیْمَانُ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا)) سنن النسائی :3110۔ وصححہ الألبانی
’’ کسی بندے کے دل میں لالچ اور ایمان ( دونوں ) کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘ یعنی اگر ایمان ہے تو لالچ نہیں اور اگر لالچ ہے تو ایمان نہیں ۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ التغابن64 :16
’’ اور جس شخص کو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا جائے تو ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں ۔ ‘‘
02. دوسری مہلک چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے ۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنے نفس کو ہی معبود بنا لے اور ہمیشہ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑا رہے تو وہ یقینا تباہی اور بربادی سے دوچار ہو گا ۔
خواہشات ِ نفس کی پیروی کرنے والے شخص اور جانوروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ، بلکہ وہ جانوروں سے بھی بد تر ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ٭ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ الفرقان25 : 43۔44
’’بھلا آپ نے اس پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی معبود بنا رکھا ہے ؟ کیا اس کو ( راہ راست پر لانے کے ) ذمہ دار آپ بن سکتے ہیں ؟ یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہیں ۔ ‘‘
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے نفسانی خواہشات کے پیروکار کو سب سے بڑا گمراہ قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ ﴾ القصص28 :50
’’ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو ؟ ‘‘
لہٰذا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگنے کی بجائے انسان کو اللہ رب العزت کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے ۔
جو لوگ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگنے سے بچا لیتے ہیں تو اللہ تعالی ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے : ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾ النازعات79 : 40۔41
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہش ( کی پیروی کرنے ) سے روکتارہا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالی ہم سب کو نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے سے محفوظ رکھے ۔
03. تیسری مہلک چیز ہے : خود پسندی میں مبتلا ہونا
جی ہاں ، اپنے حسن وجمال ، یا خوبصورت لباس ، یا مال ودولت ، یا ذہانت وفطانت کی بناء پر خود پسندی میں مبتلا ہونا بھی انسان کیلئے مہلک اور تباہ کن ہے ۔
سب سے پہلے جو خود پسندی کا شکار ہوا وہ ابلیس ہے ۔ چنانچہ جب اس نے اللہ تعالی کے حکم پر آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اللہ تعالی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا :
﴿أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ﴾ ’’ میں اس سے بہتر ہوں ‘‘
تو نتیجہ کیا نکلا ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ ﴾ الحجر15 :34
’’ تُو اس ( جنت ) سے نکل جا ، کیونکہ تو مردود ہے ۔ ‘‘
اِس سے ثابت ہوا کہ خود پسندی انسان کو لے ڈوبتی ہے ۔ اور اس کا انجام بہت برا ہے ۔
سورۃ الکہف میں اللہ تعالی نے دو آدمیوں کا قصہ بیان فرمایا ہے ، جن میں سے ایک کو اللہ تعالی نے دو باغ عطا کئے تھے ، ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑ لگا دی تھی اور ان دونوں کے درمیان قابل کاشت زمین بنائی تھی۔ یہ دونوں باغ اپنا پورا پھل لائے اور بار آور ہونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالی نے ان کے بیچوں بیچ نہر بھی جاری کر دی تھی ۔۔۔۔ یہ اللہ تعالی کی اس پر بڑی نعمتیں تھیں جن پر اسے اللہ تعالی کا شکرگزار ہونا چاہئے تھا۔لیکن وہ خود پسندی کا شکار ہوگیا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا :
﴿اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ﴾ الکہف18 :34
’’ میں تجھ سے مالدار بھی زیادہ ہوں اور افرادی قوت بھی زیادہ رکھتا ہوں ۔ ‘‘
اِس کے علاوہ اسے قیامت پر بھی یقین نہ تھا ۔ چنانچہ اپنے مال ودولت کی بناء پر اِس خود پسندی نے اسے ہلاک کردیا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
﴿وَاُحِیْطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلٰی مَآ اَنْفَقَ فِیْھَا وَ ھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا٭وَ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مُنْتَصِرًا ﴾ الکہف18 : 42۔43
’’ باغ کے پکے پھلوں کو عذاب نے آگھیرا ۔ اور جتنا وہ باغ پر خرچ کر چکا تھا اس پر اپنے دونوں ہاتھ ملتا رہ گیا ۔ وہ باغ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا ۔ اب وہ کہنے لگا : کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا ۔ اللہ کے سوا کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو اس کی مدد کرتی اور وہ خود بھی اس آفت کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ ‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ خود پسندی کا نتیجہ بہت برا ہوتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّۃٍ تُعْجِبُہُ نَفْسُہُ ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَہُ ، إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ )) صحیح البخاری :5789 ، صحیح مسلم :2088
’’ ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا ، اسی دوران اچانک اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا ۔‘‘
اس حدیث میں غور فرمائیں کہ یہ آدمی اپنے حسن وجمال اور خوبصورت لباس کی وجہ سے خود پسندی کا شکار ہو گیا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ۔ والعیاذ باللہ
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان تمام اعمال سے بچنے کی توفیق دے جو انسان کی تباہی وبربادی کا سبب بن سکتے ہیں ۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین