کرامات اولیاء کا اثبات اور اس کی اقسام
928۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((أَنَّ رَجُلَيْنِ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ وَإِذَا نُورٌ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا حَتَّى تَفَرَّقَا فَتَفَرَّقَ النُّورُ مَعَهُمَا))(أخرجه البخاري: 3805)
’’نبیﷺ کی مجلس سے دو شخص اندھیری رات میں روانہ ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ ایک (غیبی) نور ان کے آگے آگے چل رہا ہے، پھر جب وہ جدا ہوئے تو ان کے ساتھ ساتھ وہ نور بھی تقسیم ہو گیا۔‘‘
توضیح و فوائد: اللہ تعالی اپنے کسی ولی کے ہاتھ پر خلاف عادت کوئی واقعہ ظاہر کر دے تو اسے کرامت کتہے ہیں۔ معجزے اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزے میں چیلنج ہوتا ہے اور دعوی نبوت کی ان کے ساتھ تشہیر مقصود ہوتی ہے تاکہ نبوت کی تصدیق ہو جبکہ کرامت میں چیلنج مقصود نہیں ہوتا بلکہ ولی کو کرامت چھپانے کی ترغیب ہے۔ مزید برآں معجزہ نبوت کی دلیل ہوتی ہے، البتہ ولی کے لیے کرامت کا ظهور شرعاً لازم نہیں۔
929۔ سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ فقراء لوگ تھے، ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ))(أخرجه البخاري: 3581، و مسلم:2057)
’’جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔‘‘
یا جس طرح آپﷺ نے فرمایا، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تین کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ دسں کو ساتھ لے گئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ تین کو لائے تھے، سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہمارے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں، میں، میرے والد اور میری والدہ تھیں۔
(ابو عثمان نہدی نے کہا) اور مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا اور میری بیوی تھی اور میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا ایک مشترکہ خادم تھا، انھوں نے کہا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کا کھانا رسول اللہﷺ کے ساتھ کھایا، پھر آپ کے پاس ہی رکے رہے حتی کہ عشاء کی نماز پڑھ لی گئی، پھر لوٹے اور آپ کے پاس ٹھہرے حتی کہ رسول اللہﷺ کو نیند آنے لگی، پھر رات کا اتنا حصہ گزرنے کے بعد، جتنا اللہ کو منظور تھا۔ سیدنا ابو بکر گھر آئے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا: آپ اپنے مہمانوں کو، یا کہا: مہمان کو چھوڑ کر کہاں رک گئے تھے؟ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: کیا تم نے انھیں کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کیا: انھوں نے آپ کے بغیر کھانے سے انکار کر دیا، ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا مگر انھوں نے ایک نہ مانی۔
سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں (ڈر سے ) جا کر چھپ گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اوجاہل! ناک کٹے! (انھیں شرم دلائی) اور برا بھلا کہا اور مہمانوں سے کہا: کھاؤ، اس کا کیا مزہ؟ (کہ وقت پر نہیں کھایا گیا) اور کہا: (تم میرا انتظار کرتے رہے ہو لیکن) اللہ کی قسم میں (یہ کھانا) کبھی نہیں کھاؤں گا۔
(عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم! ہم لوگ جو بھی لقمہ لیتے۔ نیچے سے اس کی نسبت زیادہ کھانا اوپر
آجاتا۔ کہا یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا پہلے سے زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کھانے کو دیکھا تو وہ پہلے جتنا بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: بنوفراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ کھانا جتنا پہلے تھا، اس سے تین گنا زیادہ (ہو گیا) ہے، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کھانے میں سے کھایا اور کہا: وہ شیطان کی طرف سے تھی، یعنی قسم (کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے،) پھر انھوں نے اس میں سے ایک لقمہ اور کھایا، پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ ﷺکے پاس لے گئے، وہ کھانا آپ کے پاس صبح تک پڑا رہا۔ ان دنوں ایک قوم کے ساتھ ہمارا معاہدہ تھا اور اب وہ مدت ختم ہو چکی تھی، ہم نے بارہ کمانڈر مقرر کیے اور ہر کمانڈر کے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے، آپ نے وہ کھانا ان کے پاس بھیج دیا اور ان سب نے وہ کھانا کھایا۔
930۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ ایک رات اپنے بارے میں قراءت کر رہے تھے کہ اچانک ان کا گھوڑا بدکنے لگا، انھوں نے پھر پڑھا، وہ دوبارہ بدکا، پھر پڑھا، وہ پھر بدکا۔
اسید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خوف پیدا ہوا کہ وہ یحی، یعنی ان کے بیٹے کو روند ڈالے گا، میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو اچانک چھتری جیسی کوئی چیز میرے سر پر تھی، اس میں چراغوں جیسے قمقمے تھے، دو فضا میں بلند ہو گئی حتی کہ مجھے نظر آنا بند ہوگئی۔
میں صبح رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کل میں آدھی رات کے وقت اپنے باڑے میں قراءت کر رہا تھا کہ اچانک میرا گھوڑا بدکنے لگا۔
رسول اللہ اللہ نے فرمایا: ((اِقرِا ابن حضيرٍ)) ’’ ابن حضیر! پڑھتے رہتے۔‘‘
میں نے عرض کی: میں پڑھتا رہا، پھر اس نے دوبارہ اچھل کود کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اقرأ ابن خضیر)) ’’ابن حضیر! پڑھتے رہتے۔‘‘
میں نے کہا: میں نے قراءت جاری رکھی، اس نے پھر بدک کر چکر لگانے شروع کر دیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اقرأ ابن خضیر)) ’’ابن حضیر! پڑھتے رہتے‘‘
میں نے کہا: پھر میں نے چھوڑ دیا، (میرا بیٹا) یحی اس کے قریب تھا، میں ڈر گیا کہ وہ اسے روند دے گا تو میں نے چھتری جیسی چیز دیکھی، اس میں چراغوں کی طرح کی چیزیں تھیں، وہ فضا میں بلند ہوئی تھی کہ مجھے نظر آئی بند ہوگئی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ كَانَتْ تَسْتَمِعُ لَكَ وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَرَاهَا النَّاسُ مَا تَسْتَتِرُ مِنْهُمْ)) (أخرجه البخاري:5018 ومُسْلِمٌ:796)
’’وہ فرشتے تھے جو تمھاری قراءت سن رہے تھے اور اگر تم پڑھتے رہتے تو لوگ صبح انہیں دیکھ لیتے، وه ان سے اوجھل نہ ہوتے۔‘‘
931۔ سید نا صہیب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ فَلَمَّا كَبِرَ قَالَ لِلْمَلِكِ إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ فَابْعَثْ إِلَيَّ غُلَامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ غُلَامًا يُعَلِّمُهُ فَكَانَ فِي طَرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ فَقَعَدَ إِلَيْهِ وَسَمِعَ كَلَامَهُ فَأَعْجَبَهُ فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ مَرَّ بِالرَّاهِبِ وَقَعَدَ إِلَيْهِ فَإِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ فَقَالَ إِذَا خَشِيتَ السَّاحِرَ فَقُلْ حَبَسَنِي أَهْلِي وَإِذَا خَشِيتَ أَهْلَكَ فَقُلْ حَبَسَنِي السَّاحِرُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَدْ حَبَسَتْ النَّاسَ فَقَالَ الْيَوْمَ أَعْلَمُ آلسَّاحِرُ أَفْضَلُ أَمْ الرَّاهِبُ أَفْضَلُ فَأَخَذَ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ أَمْرِ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَمْضِيَ النَّاسُ فَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا وَمَضَى النَّاسُ فَأَتَى الرَّاهِبَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ أَيْ بُنَيَّ أَنْتَ الْيَوْمَ أَفْضَلُ مِنِّي قَدْ بَلَغَ مِنْ أَمْرِكَ مَا أَرَى وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى فَإِنْ ابْتُلِيتَ فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ وَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُدَاوِي النَّاسَ مِنْ سَائِرِ الْأَدْوَاءِ فَسَمِعَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ كَانَ قَدْ عَمِيَ فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ فَقَالَ مَا هَاهُنَا لَكَ أَجْمَعُ إِنْ أَنْتَ شَفَيْتَنِي فَقَالَ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِاللَّهِ دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ فَآمَنَ بِاللَّهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ فَأَتَى الْمَلِكَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ كَمَا كَانَ يَجْلِسُ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ قَالَ رَبِّي قَالَ وَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي قَالَ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الْغُلَامِ فَجِيءَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ أَيْ بُنَيَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ مَا تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ فَقَالَ إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ فَجِيءَ بِالرَّاهِبِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَدَعَا بِالْمِئْشَارِ فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِجَلِيسِ الْمَلِكِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِالْغُلَامِ فَقِيلَ لَهُ ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اذْهَبُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَاصْعَدُوا بِهِ الْجَبَلَ فَإِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاطْرَحُوهُ فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الْجَبَلَ فَقَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَرَجَفَ بِهِمْ الْجَبَلُ فَسَقَطُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ قَالَ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اذْهَبُوا بِهِ فَاحْمِلُوهُ فِي قُرْقُورٍ فَتَوَسَّطُوا بِهِ الْبَحْرَ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاقْذِفُوهُ فَذَهَبُوا بِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ فَانْكَفَأَتْ بِهِمْ السَّفِينَةُ فَغَرِقُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ قَالَ كَفَانِيهِمُ اللَّهُ فَقَالَ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَتَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ خُذْ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي ثُمَّ ضَعْ السَّهْمَ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ ثُمَّ قُلْ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ ارْمِنِي فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي فَجَمَعَ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ ثُمَّ وَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبْدِ الْقَوْسِ ثُمَّ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ رَمَاهُ فَوَقَعَ السَّهْمُ فِي صُدْغِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي صُدْغِهِ فِي مَوْضِعِ السَّهْمِ فَمَاتَ فَقَالَ النَّاسُ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ فَأُتِيَ الْمَلِكُ فَقِيلَ لَهُ أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ قَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ حَذَرُكَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ فَأَمَرَ بِالْأُخْدُودِ فِي أَفْوَاهِ السِّكَكِ فَخُدَّتْ وَأَضْرَمَ النِّيرَانَ وَقَالَ مَنْ لَمْ يَرْجِعْ عَنْ دِينِهِ فَأَحْمُوهُ فِيهَا أَوْ قِيلَ لَهُ اقْتَحِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءَتْ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا فَتَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِيهَا فَقَالَ لَهَا الْغُلَامُ يَا أُمَّهْ اصْبِرِي فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ))(أخرجه مسلم:3005)
"”تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا: اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، آپ میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دیجیے، میں اسے جادو سکھا دوں گا، چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیج دیا، وہ اسے سکھانے لگا، جب وه لڑکا (جادو سیکھنے کے لیے) جاتا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا، وہ اس کے پاس بیٹھنے اور اس کی باتیں سننے لگا جو اسے اچھی لگتیں، جب وہ جادوگر کے پاس آتا تو راہب سے گزرتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ جاتا اور جب وہ جادوگر کے پاس جاتا تو وہ لیٹ ہونے کی وجہ سے اسے مارتا، اس (لڑکے) نے راہب سے اس بات کی شکایت کی۔ راہب نے اس سے کہا: جب تمھیں جادو گر سے ڈر لگے تو اس سے کہنا: میرے گھر والوں نے مجھے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے ڈر لگے تو کہہ دیا: مجھے جادو گر نے روک لیا تھا، وہ اسی طرح آ جا رہا تھا کہ اس کا سامنا ایک بڑے جانور سے ہوا جس نے لوگوں کا راستہ بند کر رکھا تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ آج میں پتہ چلا لوں گا کہ جادو گر افضل ہے یا راہب ؟ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ اگر تجھے راہب کا معاملہ جادوگر سے زیادہ پسند ہے تو اس جانور کو مار دے تا کہ لوگ گزر سکیں، اس نے پتھر مار کر اس جانور کو ختم کر ڈالا اور لوگ گزرنے لگے، پھر وہ راہب کے پاس آیا اور یہ بات بتائی۔ راہب نے اس سے کہا: بیٹے! آج تم مجھے سے افضل ہو، تمھارا (اللہ کے ہاں مقبولیت) کا معاملہ وہاں تک پہنچ ’یا جو مجھے نظر آرہا ہے۔ اب جلد ہی تمھاری آزمائش ہوگی، جب تم آزمائش میں مبتلا ہو جاؤ تو میری نشاندہی نہ کر دیتا۔ یہ لڑکا مادر زاد اند ھے اور پھلبہری کے مریض کو ٹھیک کر دیتا تھا اور وہ لوگوں کی اس کے علاوہ بیماریوں کا علاج بھی کرتا، بادشاہ کے ایک مصاحب نے، جو اندھا ہو گیا تھا، یہ بات سنی تو وہ بہت سے جو تحفے لے کر آیا اور کہا: یہ جو کچھ ہے، اگر تم نے مجھے شفا دے دی تو سب تمھارا ہے۔ لڑ کے نے کہا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا۔ شفا اللہ تعالی دیتا ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ سے دعا کروں گا، اللہ تمہیں شفا عطا فرمادے گا، وہ اللہ پر ایمان لے آیا اور اللہ نے اسے شفا دے دی۔ وہ پادشاہ کے پاس گیا اور پہلے کی طرح اس کے پاس بیٹھ گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا: تمھاری بینائی کسی نے لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا کوئی اور رب ہے؟ اس نے کہا: میرا اور تمھارا رب اللہ ہے۔ بادشاہ نے اسے پکڑ لیا اور مسلسل اسے اذیت دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے اس لڑکے کا پتہ بتا دیا۔ اس لڑکے کو لایا گیا، بادشاہ نے اس سے کہا: بیٹے! تمھارا جادو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تم مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کر دیتے ہو، پھلبہری کے مریضوں کو تندرست کر دیتے ہو اور یہ کرتے ہو اور یہ کرتے ہو۔ تو اس نے کہا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا تو صرف اللہ دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے پکڑ لیا اور اسے مسلسل اذیت دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا پر بتادیا، پھر راہب کو لایا گیا۔ اور اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جاؤ، اس نے انکار کیا تو اس (بادشاہ) نے آرا منگوایا اور اس کے سر کے درمیان میں رکھا اور اسے چیر دیا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے (ہو کر ادھر ادھر) کر گئے، پھر بادشاہ کے مصاحب کو لایا گیا، اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جاؤ، اس نے بھی انکار کر دیا۔ اس نے اس کے سر پر بھی آرا رکھا اور اسے چیر دیا، اس کے دو ٹکڑے ہو کر (ادھر، ادھر) گر گئے، پھر اس لڑکے کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جاؤ، اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا: اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جاؤ، جب تم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچو تو اگر یہ اپنے دین سے پلٹ جائے تو ٹھیک ورنہ اسے اس چوٹی سے نیچے پھینک دو۔ چنانچہ وہ اسے لے گئے اور اسے لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے اس نے دعا کی: اے اللہ تو جس طرح سے چاہے، مجھے ان سے بچالے، چنانچہ پہاڑ زور سے ہلا اور وہ (پہاڑ سے) نیچے گر گئے۔ لڑکا چلتا ہوا بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا تیرے ساتھ جانے والوں کا کیا بنا؟ اس نے کیا: اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا، چنانچہ اس نے اسے اپنے چند اور ساتھیوں کے سپرد کیا اور کہا: اسے لے جاؤ اسے ایک کشتی میں بٹھاؤ اور اسے لے کر سمندر کے وسط میں پہنچو، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک، ورنہ اسے سمندر میں پھینک دو۔ وہ اسے لے گئے، اس نے کہا: اے اللہ تو جس طرح سے چاہے مجھے ان سے بچا، تو کشتی ان لوگوں پر الٹ گئی اور وہ سب غرق ہو گئے۔ وہ (لڑکا) چلتا ہوا بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا: تمھارے ساتھ جانے والوں کا کیا بنا؟ اس نے کہا: اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا، پھر اس نے بادشاہ سے کہا: تم مجھے قتل نہیں کر سکو گے یہاں تک کہ جو میں تمھیں کیوں وہی کرو۔ اس نے کہا: وہ کیا ہے؟ لڑکے نے کہا: سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرو اور مجھے ایک درخت پر سولی کے لیے لٹکاؤ، پھر میرے ترکش میں سے ایک تیر لو، اسے کمان کے درمیان میں رکھو، پھر کہو: اللہ کے نام پر جو لڑکے کا رب ہے، پھر مجھے اس کا نشانہ بناؤ، اگر تم نے اس طرح کیا تو مجھے مار دو گے۔ اس نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا، اسے کھجور کے ایک جتنے کے ساتھ لٹکا دیا، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر نکالا، اسے کمان کے درمیان میں رکھا، پھر کہا: اللہ کے نام سے جو (اس) لڑکے کا رب ہے، پھر اسے نشانہ بنایا تو تیر اس کی کنپٹی کے اندر گھسا، لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر تیر لگنے کی جگہ رکھا اور وفات پا گیا۔ اس پر سب لوگ کہہ اٹھے: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ کے پاس آکر کہا گیا: جس بات سے تم ڈرتے تھے اسے دیکھ لیا؟ اللہ کی قسم! تمھارا ڈر (حقیقت بن کر) تم پر آن پڑا، لوگوں نے ایمان قبول کر لیا۔ بادشاہ نے راستوں کے سروں پر خندقوں کی کھدائی کا حکم دیا تو وہ کھود دی گئیں، (ان میں) آگ بھڑکا دی گئی۔ اس (بادشاہ) نے کہا: جو اپنے دین سے نہ پھرے، اسے ان (خندقوں) میں جلا ڈالو یا اس (ایمان لانے والے) سے کہا جاتا۔ اس کے اندر گھسو تو وہ ایسا کر گزرتے یہاں تک کہ ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، اس نے اس میں گرنے سے تردد کیا تو اس بچے نے اس سے کہا: میری ماں! صبر اختیار کر تو یقینًا حق پر ہے۔‘‘