کثرت کی طلب ایک فتنہ
حرص و ہوس میں مبتلا انسان اپنی آخرت سے غافل ہو جاتا ہے
فرمایا باری تعالیٰ نے
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ [التكاثر : 1]
تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص نے غافل کر دیا۔
حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ [التكاثر : 2]
یہاں تک کہ تم نے قبرستان جا دیکھے۔
كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ [التكاثر : 3]
ہرگز نہیں، تم جلدی جان لو گے۔
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ [التكاثر : 4]
پھر ہرگز نہیں، تم جلدی جان لو گے۔
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ [التكاثر : 5]
ہرگز نہیں، کاش! تم جان لیتے، یقین کا جاننا۔
لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ [التكاثر : 6]
کہ یقینا تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ [التكاثر : 7]
پھر یقینا تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ [التكاثر : 8]
پھر یقینا تم اس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھے جاؤ گے۔
کثرت کی حرص میں مبتلا انسان حلت و حرمت کے پیمانے بھول جاتا ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ (بخاري ،كِتَابُ البُيُوعِ،بَابُ مَنْ لَمْ يُبَالِ مِنْ حَيْثُ كَسَبَ المَالَ،2059)
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے۔
کثرت کی طلب میں فقراء کو نظر انداز کرنے کا انجام
سورہ قلم میں ایسے لوگوں کا ایک واقعہ اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے
یہ چند بھائی تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بہت شاندار باغ عطا فرمایا تھا، مگر بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالتے، انھوں نے قسم کھالی کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے، کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور نہ انھیں کچھ دیں گے، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے جانے سے پہلے ہی آگ لگنے یا کسی اور آسمانی آفت سے باغ برباد ہو گیا۔ صبح گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ [القلم : 17]
یقینا ہم نے انھیں آزمایا ہے، جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا، جب انھوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہوتے اس کا پھل ضرور ہی توڑ لیں گے۔
وَلَا يَسْتَثْنُونَ [القلم : 18]
اور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے۔
فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ [القلم : 19]
پس اس پر تیرے رب کی طرف سے ایک اچانک عذاب پھر گیا، جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے۔
فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ [القلم : 20]
تو صبح کووہ (باغ) کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہو گیا۔
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ [القلم : 21]
پھر انھوں نے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو آواز دی۔
أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ [القلم : 22]
کہ صبح صبح اپنے کھیت پر جا پہنچو، اگرتم پھل توڑنے والے ہو۔
فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ [القلم : 23]
چنانچہ وہ چل پڑے اور وہ چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔
أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ [القلم : 24]
کہ آج اس (باغ) میں تمھارے پاس کوئی مسکین ہر گز داخل نہ ہونے پائے۔
وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ [القلم : 25]
اور وہ صبح سویرے پختہ ارادے کے ساتھ اس حال میں نکلے کہ (اپنے خیال میں پھل توڑنے پر) قادر تھے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ [القلم : 26]
پس جب انھوں نے اسے دیکھا تو انھوں نے کہا بلاشبہ ہم یقینا راستہ بھولے ہوئے ہیں۔
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [القلم : 27]
بلکہ ہم بے نصیب ہیں۔
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ [القلم : 28]
ان میں سے بہتر نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے۔
قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ [القلم : 29]
انھوں نے کہا ہمارا رب پاک ہے، بلاشبہ ہم ہی ظالم تھے۔
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ [القلم : 30]
پھر ان کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوا،آپس میں ملامت کرتے تھے۔
قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ [القلم : 31]
انھوں نے کہا ہائے ہماری ہلاکت! یقینا ہم ہی حد سے بڑھے ہوئے تھے۔
عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ [القلم : 32]
امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔یقینا (اب) ہم اپنے رب ہی کی طرف راغب ہونے والے ہیں۔
كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ [القلم : 33]
اسی طرح (ہوتا) ہے عذاب۔ اور یقینا آخرت کا عذاب کہیں بڑا ہے، کاش ! وہ جانتے ہوتے۔
کاروبار، تجارت اور مال وزر میں اتنا کھو جانا کہ دعوت و جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے دوری ہوجائے، یہ ہلاکت ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [البقرة : 195]
اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت ہم انصار کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی اور اس کے مددگار بہت ہو گئے تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے چھپا کر دوسروں سے کہا کہ ہمارے اموال (یعنی کھیت اور باغات وغیرہ) ضائع ہو گئے، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی ہے اور اس کے مدد گار بہت ہو گئے ہیں، چنانچہ ہم اگر اپنے اموال میں ٹھہر جائیں اور جو ضائع ہو گئے ہیں انھیں درست کر لیں(تو بہترہے)، تو اللہ تعالیٰ نے ہماری بات کی تردید کرتے ہوئے یہ آیت اتار دی
لھذا ’’ہلاکت‘‘ ہمارا اپنے اموال میں ٹھہر جانا، انھیں درست کرنا اور جنگ کو چھوڑ دینا تھا۔
ابو ایوب رضی اللہ عنہ اللہ کے راستے ہی میں نکلے رہے یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں دفن ہوئے۔ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورۃ البقرۃ : ۲۹۷۲ و صححہ الألبانی ]
آدمی کے مال کی حقیقت
ابو مُطرّف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ يَقُوْلُ ابْنُ آدَمَ مَالِيْ، مَالِيْ، قَالَ وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ! مِنْ مَّالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ؟ ] [ مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن : ۲۹۵۸ ]
’’ابن آدم کہتا ہے میرا مال، میرا مال، حالانکہ اے آدم کے بیٹے! تیرے مال میں سے تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تونے کھایا اور فنا کر دیا، یا پہنا اور پرانا کر دیا، یا صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا۔‘‘
مالداری سے اخروی فائدہ اٹھائیں
عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ» [رواه الحاكم وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير :رقم 1077]
”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔”
ابن آدم کی حرص کی انتہا
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لَوْ كَانَ لاِبْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَّالٍ لاَبْتَغٰي ثَالِثًا، وَلاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ تَابَ ] [ بخاري، الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال: ۶۴۳۶ ]
’’اگر ابن آدم کے پاس مال کی بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی تلاش کرے گا اور آدم کے بیٹے کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ اس کی طرف پلٹ آتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔‘‘
مال و جاہ کی محبت آدمی کے دین کو کس قدر نقصان پہنچاتی ہے
سب سے زیادہ نقصان دہ چیز، دو چیزوں کی حرص ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِيْ غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِيْنِهِ ]
[ ترمذي، الزھد، باب حدیث ما ذئبان جائعان… : ۲۳۷۶، وصححہ الألباني ]
’’دو بھوکے بھیڑیے جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ انھیں اتنا خراب نہیں کرتے جتنا آدمی کے مال اور شرف ( اونچا ہونے) کی حرص اس کے دین کو خراب کرتی ہے۔‘‘
اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
وہ لوگ سب سے زیادہ نقصان والے ہوتے ہیں جن کی ساری محنت اور کوشش محض دنیا حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا [الكهف : 103]
کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا [الكهف : 104]
وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔
’’جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور آخرت کی پروا نہ کی اور دنیا کی خوش حالیوں اور کامیابیوں کو اپنا اصل مقصد بنائے رکھا
ہر امت کا ایک بت ہوتا ہے جس کی وہ پرستش کرتی ہے اور اس امت کا بت درہم و دینار ہے!
حسن بصری رحمہ اللّٰہ
قال الحسن البصري رحمه الله: لكل أمة وثن يعبدون ، وصنم هذه الأمة الدينار والدرهم.
انسانی طبیعت میں حرص اور کنجوسی ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [النساء :128]
اور تمام طبیعتوں میں حرص (حاضر) رکھی گئی ہے
اور فرمایا
قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا [الإسراء : 100]
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
سورہ نساء میں ہے
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا [النساء : 53]
یا ان کے پاس سلطنت کا کچھ حصہ ہے؟ تو اس وقت تو وہ لوگوں کو کھجور کی گٹھلی کے نقطہ کے برابر نہ دیں گے۔
مال کی حرص بڑھاپے تک آدمی کے ساتھ رہتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ يَكْبَرُ ابْنُ آدَمَ، وَ يَكْبَرُ مَعَهُ اثْنَتَانِ حُبُّ الْمَالِ، وَطُوْلُ الْعُمُرِ ] [ بخاري، الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ… : ۶۴۲۱ ]
’’آدمی بڑا ہوتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں بڑی ہوتی جاتی ہیں، مال کی محبت اور لمبی عمر کی محبت۔‘‘
جتنی زیادہ نعمتیں، اتنا زیادہ محاسبہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے اور ایک انصاری کے گھر آئے، اس نے مہمانی میں کھجوریں اور بکری کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے گوشت اور کھجوریں کھائیں اور اوپر سے شیریں پانی پیا۔ جب خوب سیر ہوچکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] [ مسلم، الأشربۃ، باب جواز استتباعہ غیرہ… : ۲۰۳۸ ]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم سے قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں ( بھی) سوال ہوگا۔‘‘
کھجوریں اور جو کی روٹی کھا کر چٹائی پر سونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ}
تم سے ایک دن تمام نعمتوں کی بابت لازماً پوچھا جائے گا۔
ذرا سوچیے کہ پھر ہمارا کیا بنے گا !!
اور فرمایا
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا [الإسراء : 36]
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یا راستہ چلنے والا رہتا ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا
«كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ» (بخاری ،كِتَابُ الرِّقَاقِ،بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ»،6416)
” دنیا میں اس طرح ہوجاجیسے مسافر یا راستہ چلنے والا ہو “
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا
اضْطَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ فَأَثَّرَ فِي جِلْدِهِ فَقُلْتُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ كُنْتَ آذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَكَ عَلَيْهِ شَيْئًا يَقِيكَ مِنْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنَا وَالدُّنْيَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْيَا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا (ابن ماجہ، كِتَابُ الزُّهْدِ،بَابُ مَثَلُ الدُّنْيَا،4109) (السلسلۃ الصحیحۃ 1388)
:رسول اللہ ﷺ چٹائی پر (آرام کرنے کے لئے) لیٹے تو اس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہوگئے ۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں فرماتے توہم آپ کے لئے کوئی چیز (بستر وغیرہ)بچھادیتے جس کے ساتھ اس (چٹائی کی سختی)سے بچاؤ ہوجاتا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :‘‘میرا دنیا سے کیاتعلق ! میری اور دنیا کی مثال توایسے ہے، جیسے کوئی سوار (مسافر)سائے کے لئے درخت کے نیچے ٹھہرا،پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوگیا’’
اخراجات میں میانہ روی اختیار کریں گے تو کثرت کی حرص کنٹرول ہوسکتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ (ابو داؤد و علقہ البخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو فضول خرچی اور بخل کے بغیر
خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کیجئے
وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا [الإسراء – آیت 29]
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔
اور فرمایا
وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا [الإسراء – آیت 26]
اور مت بےجا خرچ کر، بےجا خرچ کرنا۔
اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا [الإسراء – آیت 27]
بیشک بےجا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔
کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کریں
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ المسرفین
اے آدم کی اولاد ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بیشک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ الأعراف – آیت 31
قناعت پسند شخص کامیاب ہوگیا
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ (مسلم ،كِتَابُ الزَّكَاةِ،بَابٌ فِي الْكَفَافِ وَالْقَنَاعَةِ2426)
” وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی
اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کی طرف نہ دیکھیں
کثرت کی حرص سے بچنے اور قناعت اختیار کرنے کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کی طرف دیکھا ہی نہ جائے اور نہ ہی ان کی شاہانہ زندگی زیر بحث لائی جائے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى
اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
میزان بینک کے مالک کا بیٹا
اونچے سٹیٹس اور ٹھاٹھ باٹھ کی باتیں سننے، کرنے اور دیکھنے سے انسان کی طبیعت میں اسی طرح کے ماحول اور سہولیات کو حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے اور پھر اگر یہ حاصل نہ ہو سکے تو مایوسی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے
ہمارے استاذ گرامی جناب یوسف طیبی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک واقعہ سنایا
وہ فرماتے ہیں کہ میزان بینک کے مالک کا بیٹا کراچی کے ایک مہنگے سکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا کہ جہاں پر یورپ کے مالدار لوگوں کے تذکرے اس کے نصاب تعلیم میں پڑھائے جاتے تھے کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ بچہ مایوس اور پریشان سا رہتا ہے باپ نے وجہ پوچھی تو بیٹے نے بتایا کہ ابا جی ہمارے گھر میں سویمنگ پول نہیں ہے میں اس لیے پریشان ہوں
وائٹ بورڈ پہ لگی لائن کو چھوٹا کریں
کہتے ہیں ایک استاد نے وائٹ بورڈ پہ مارکر کے ساتھ ایک لکیر کھینچی اور کلاس میں موجود تمام شاگردوں سے کہا اس لکیر کو کسی طرف سے کاٹے بغیر چھوٹا کریں سب شاگرد حیران رہ گئے کہ کاٹنا بھی نہیں اور چھوٹا بھی کرنا ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے
جب جواب دینے میں ناکام ہوگئے تو استاد نے اسی کے ساتھ اس سے کچھ بڑی لکیر کھینچی
اور پوچھا بتاؤ کون سی لکیر چھوٹی ہے تو تمام شاگردوں نے کہا ہاں جو پہلے تھی وہ چھوٹی ہے
استاد صاحب نے کہا دیکھا ناں کیسے یہ لکیر بغیر کاٹے چھوٹی ہو گئی ہے
پھر انہوں نے کہا کہ جب یہ اکیلی تھی اس کا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں تھا تو اس کو کوئی بھی چھوٹا نہیں کہتا تھا مگر جب اس کا اس سے بڑی کے ساتھ موازنہ ہوا تو یہ چھوٹی محسوس ہونے لگی کیوں کہ کیمپریزن میں بڑی چیز بھی چھوٹی بن جاتی ہے
یہی حالت ہماری زندگی کی سہولیات کی ہے جب ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کو دوسروں کے پاس موجود نعمتوں سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی نعمتیں چھوٹی محسوس ہونے لگتی ہیں
اپنے سے کمزور لوگوں کی طرف دیکھیں تاکہ شکر پیدا ہو
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ (كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَابٌ «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ»،7430)
"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے جو تم پر کی گئی۔”
پہننے کے لیے جوتا نہیں ہے تو شکوہ شکایت کی بجائے اسے دیکھیں جس کے پاؤں ہی نہیں ہیں
ایک شخص اللہ تعالیٰ سے جوتا مانگ رہا تھا اور کچھ شکوہ بھی کر رہا تھا کہ میں اتنا غریب ہوں کہ میرے پاس پہننے کے لئے جوتا بھی نہیں ہے دعا سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلا تو ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے فوراً کہنے لگا اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے جوتا نہیں دیا تو کوئی بات نہیں پاؤں تو دیئے ہیں ناں
کمزوروں کے ساتھ رہنے کی، نبوی خواہش
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا ] [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین… : ۲۳۵۲ ]
’’اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! یہ کیوں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزارے کی زندگی پسند کیا کرتے تھے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ] [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ : ۱۰۵۵ ]
’’اے اللہ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ» (ترمذي،أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَهْلِهِ2362صحيح)
نبی اکرمﷺ آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے
تکلفانہ زندگی کی خواہش کا بہترین تریاق آخرت کی یاد
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضبوط بٹی ہوئی پٹّی کی چارپائی پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پہلوؤں اور (چارپائی کی سخت کھردری) پٹّی کے درمیان کوئی چیز (بچھی ہوئی) نہ تھی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم و نازک جلد والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلو بدلا تو (نظر آیا کہ اس سخت) پٹّی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم و نازک جلد اور پہلوؤں میں دھنسنے کے نشانات تھے۔ پس (یہ دیکھ کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے عمر! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
یا رسول اﷲ! بخدا میں نہ روتا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں قیصر و کسریٰ سے زیادہ مقام و مرتبہ ہے۔ بے شک وہ دنیا میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اِس حالت میں ہیں جسے میں دیکھ رہا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
یَا عُمَرُ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَنَا الْآخِرَۃُ وَلَھُمُ الدُّنْیَا
اے عمر! کیا تو اِس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت اور اُن کے لئے دنیا ہو۔
اُنہوں نے عرض کیا :
(یا رسول اﷲ!) کیوں نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سو (اصل حقیقت) یہی ہے۔”
جو انعامات اللہ کے پاس ہیں وہ دین سے غافل کردینے والی تجارت سے کہیں بہتر ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ [الجمعة : 11]
اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں، کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
یعنی اللہ کی خاطر تم جس لہو (کھیل تماشے) اور تجارت کو چھوڑو گے اللہ کے پاس اس سے کہیں بہتر بدلا دنیا اور آخرت دونوں میں موجود ہے
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین ہوتو دنیا کی مصیبتیں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتیں
اگر کسی سے کہا جائے کہ آگ میں چھلانگ لگا دو تو کوئی بھی آگ میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار نہیں ہوگا لیکن اگر یقین دلا دیا جائے کہ آگ کے دوسری طرف ایک کلو سونا پڑا ہے اگر آپ کسی طرح اس طرف پہنچ جائیں تو وہ آپ کو مل جائے گا تو بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو اس میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہو جائیں گے
سونے کے حصول کا یقین ان پر آگ کی مصیبت کو ہلکا کر دے گا
بالکل اسی طرح اگر ہمارے دلوں میں اللہ سے ملاقات کا یقین پختہ ہوجائے اور آخرت کی نعمتوں پر یقین آجائے تو دنیا کی مصیبتیں ہمارے لئے بہت ہلکی ہو سکتی ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں :
اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنْ الْيَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَلْ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا (ترمذی ،ابْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،باب دعاء اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ،3502)
یعنی اے اللہ ہمیں اپنی ملاقات اور جنت کی ملاقات اور یوم آخرت کی ملاقات کا ایسا پختہ یقین عطا فرما دے کہ دنیا کی مصیبتیں ہمیں بالکل ہلکی محسوس ہونا شروع ہو جائیں
اولاد کی تربیت کی فکر کرو سہولیات کی نہیں
کثرت مال کی حرص اور ہوس پیدا کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے آدمی اپنی اولاد کو نازونعم میں دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور پھر اس خواہش کو پروان چڑھانے کے لیے ہر طرح سے کوشش کرتا ہے
اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی فکر کرو
سہولیات کی فکر مت کیا کرو
پرندے اپنے بچوں کو اڑنا اور پرواز کرنا سکھاتے ہیں گھونسلے بنا کر نہیں دیتے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کو سہولیات کی بجائے تعلق باللہ پر تربیت کرتے ہیں
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ) چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاؤں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی،۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَانِي إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا تُكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ ، وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ ، وَتَحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ ( Sahih Bukhari#3705)
کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔
ایک آدمی پنکھے سے جھول گیا
ایک شخص صرف اس وجہ سے خودکشی کرتے ہوئے پنکھے سے جھول گیا کہ اس نے اپنے بچوں کو چھوٹی عید پر کپڑے بنوا کر دیے تھے اور جب بڑی عید آئی تو اس کے بچوں نے پھر کپڑوں کی ڈیمانڈ کی اس کی جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ نئے کپڑے بنوا کر دے سکتا
بچوں نے کہا کہ بابا ہمارے ہمسایوں نے تو اپنے بچوں کو نئے کپڑے بنوا کر دیے ہیں تو وہ دل برداشتہ ہو گیا اور اس نے خودکشی کر لی
حالانکہ اگر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سامنے رکھا ہوتا اور اپنے بچوں کو وہی بات سمجھاتا جو نبی علیہ السلام نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سمجھائی تھی تو کبھی بھی خود کشی کی نوبت نہ آتی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا [الكهف : 46]
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میںبہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو دنیا کی زندگی پر آخرت کو ترجیح دینے کا سبق دیتے ہیں
بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ’’ایلاء‘‘ کہتے ہیں
پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا [الأحزاب : 28]
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آئو میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اورتمھیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔
وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا [الأحزاب : 29]
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
تمہارے پاس بچا کیا رہ گیا
"فرض کرلو کہ ساری دنیا تمہارے ہاتھ میں آجائے اور دنیا کے برابر اور دنیا بھی اس میں ملا دو، پھر مشرق و مغرب تمہارے پاس چلے آئے، اب موت تمہارے سامنے آجائے تو یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس بچا کیا رہ گیا؟”
[ سیر أعلام النبلاء للذهبي : ٣٣٠/٨ ]