ختم نبوت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا﴾ [الاحزاب:40)
امام الانبیاء، سید الرسل، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا آخری نبی ہونا ایسا اٹل مسئلہ ہے جس پر ساری اُمت مسلمہ متفق ہے لیکن بعض لوگوں نے جھوٹا دعوائے نبوت کر کے امت مسلمہ کے اس متفق علیہ عقیدے اور مسئلے کو اختلافی مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن ہر دور میں اس جھوٹے نبی کو ماننے والے خود اُمت مسلمہ سے خارج ہو گئے اور کافر ٹھہرے اور اللہ کے فضل سے یہ مسئلہ ختم نبوت متفق علیہ مسئلہ ہی رہا۔
لیکن کافروں کی یہ سازش اس حوالے سے انتہائی خطر ناک ہے کہ اس سازش کے نتیجے میں بعض دفعہ بعض سادہ لوح مسلمان مرتد ہو کر اپنی عاقبت تباہ کر لیتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسئلہ ختم نبوت مدلل انداز میں لوگوں کو سمجھایا جائے اور موجودہ دور کے جھوٹے نہیں اور خطر ناک دجال غلام احمد قادیانی کی اصل حقیقت لوگوں کے سامنے رکھی جائے تاکہ کوئی سادہ لوح مسلمان کسی قادیانی کے جال میں پھنس کر اپنی عاقبت تباہ نہ کر بیٹھے۔
اس مسئلے کے دلائل سب سے پہلے قرآن کریم سے بیان کرتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب میں آپ ﷺ کا نام نامی اسم گرامی لے کر یہ مسئلہ واضح فرمایا:
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ﴾ [الاحزاب:40]
’’محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ ہاں آپ اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں۔‘‘
غور کیجئے! اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کتنی وضاحت کے ساتھ آپ کا نام لے کر فرمایا کہ آپ آخری نبی ہیں۔ اور آیت کے آخر میں فرمایا:
﴿وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ [الأحزاب:40]
’’اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو جاننے والے اور ہر چیز کا پورا علم رکھنے والے کا یہ اعلان ہے کہ محمد رسول اللہ ہی آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ پھر قرآن کریم میں آپ کی رسالت کی عالمگیری کا تذکرہ، آپ پہ اترنے والی شریعت کی حفاظت کا اعلان، آپ کے دین کی تکمیل کا اعلان، یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
پھر قرآن کریم کا بار بار مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں گزشتہ آسمانی کتابوں اور گزشتہ پیغمبروں کی تصدیق اور ان پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے لیکن آپ کے بعد کسی پیغمبر اور کسی کتاب کی تصدیق کا حکم موجود نہیں۔ بلکہ آپ کے بعد آخرت اور قیامت کا تذکرہ ہے۔
سورة النساء آیت نمبر (162) میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [النساء:162]
’’لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور زکوۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہ ہیں جنہیں ہم بہت اجر عطا فرمائیں گئے۔‘‘
قرآن کریم کے بارے بھی بار بار اعلان کیا گیا:
﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ﴾
’’کہ پہلے پیغمبروں اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا۔‘‘
سورۃ البقرہ آیت نمبر (97) میں خالق کائنات مالک ارض و سماء فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [البقرة: 97]
’’(اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبریل کا دشمن ہو (وہ اپنے غصے میں مر جائے) اس (جبریل) نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے۔‘‘
اور سورۃ المائدہ آیت نمبر 48 میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ﴾ [المائدة: 48]
’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘
اب ذرا کتب حدیث کی طرف آئیے حدیث کی کتابیں مسئلہ ختم نبوت سے پر ہیں۔ اور آپ ﷺ کے بہت سارے نام ہی آپ کے آخری نبی ہونے پر دلالت کرتے ہیں: (الْعَاقِب) آخر میں آنے والا) [صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب ماجاء في أسماء رسول الله (3532)]
یہ رسول اللہ ﷺ کے اسماء گرامی میں سے ایک اسم گرامی ہے۔ جس کا معنی ہی آخر میں آنے والا ہے یعنی تمام انبیاء و رسل میں سے آخر میں آنے والا۔ اور جامع الترمذی کی حدیث میں اس کا یہ معنی خود رسول اکرم ﷺ نے بیان فرمایا کہ میں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
الْمُقَفّٰى (آخر میں آنے والا) [صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب في اسمائهﷺ، رقم: 6108]
آپ کا یہ اسم گرامی بھی کھلے لفظوں میں اعلان کر رہا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
یہیں پر بس نہیں آپ ﷺ نے تو اپنی امت سمیت آخری ہونے کا اعلان فرمایا:
(نَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْأَوَّلُونَ يَومَ الْقِيَامَةِ) [صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب فرض الجمعة، رقم: 876]
’’ہم (دنیا میں آنے کے اعتبار سے) آخری ہیں اور کل قیامت کے دن حساب و کتاب اور دخول جنت کے اعتبار سے) سب سے پہلے ہوں گے۔‘‘
جنت کا دروازہ کھلوانے کا اعزاز آپ کو حاصل ہو گا اور آپ اور آپ کی امت سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
اور بخاری ومسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس محل کی مانند ہے جس کی عمارت نہایت شاندار بانی ہوئی ہے لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑی گئی ہے دیکھنے والوں نے اسے گھوم پھر کر دیکھا وہ ایک اینٹ کے برابر خالی جگہ کے علاوہ عمارت کی خوبصورتی پر متعجب تھے۔ پس میں نے اس اینٹ کی جگہ کو پر کر دیا یہ عمارت میری وجہ سے مکمل ہوئی اور پیغمبروں کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب خاتم النبيين (3535)]
اور ایک روایت میں ہے کہ میں ہی وہ (آخری) اینٹ ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب خاتم السببين (3536)]
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے چھ چیزوں کے ساتھ (دوسرے انبیاء پر) فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات عطا ہوئے۔ مجھے رعب کے ذریعہ نصرت عطا ہوئی۔ میرے لیے غنیمتیں حلال قرار دی گئیں۔ میرے لیے ساری زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا۔ مجھے تمام مخلوق کی جانب (رسول بنا کر) بھیجا گیا اور نبیوں کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا۔ یعنی مجھے آخری نبی بنا کر بھیجا گیا۔[صحیح مسلم، كتاب المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة (511)]
اور متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’انبیاء علیہم السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کرتے رہے جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ بن جاتا۔ بلا شبہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔’’ [صحیح البخاری، کتاب احاديث الأنبياء، باب ما ذكر عن بني اسرائيل، رقم: 3455]
اور بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جناب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نزدیک تیرا مقام وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ البتہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب فضائل اصحاب النبي سوري باب مناقب على رقم 3706 و مسلم 6217]
صحیح مسلم میں ہے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ، فَاحْذَرُوهُمْ) [صحیح مسلم، کتاب الفتن باب لا تقوم الساعة في يمر الرجل الخ، رقم: 7340]
’’بلا شبہ قیامت سے پہلے جھوٹے لوگ (کثرت سے) ہوں گے تم ان سے بچتے رہنا۔‘‘
مرزا غلام احمد انہی کذابوں میں سے ایک کذاب ہے نبی نہیں۔ ’’قیامت سے قبل 30 دجال ہوں گے۔ سب یہ دعوی کریں گے وہ نبی ہیں۔‘‘[1]
(مرزا غلام احمد بھی انہی میں سے ایک ہے وہ نبی اور رسول نہیں کذاب اور دجال ہے)۔ جامع ترمذی کی روایت ہے:
(إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِیَّ)[2]
’’رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی لہذا میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔‘‘
مسیح موعود غلام احمد قادیانی نہیں۔ کیوں؟
1۔ ’’(ابن مریم) آسمان سے اتریں گے۔‘‘[3] مرزا نہ آسمان پہ گیا نہ اترا۔
2۔ ’’حقیقی مسح دمشق میں سفید منارے پر اتریں گے‘‘[4] تو مرزا نے دمشق دیکھا بھی نہیں۔
3۔ ’’جناب مسیح ابن مریم دجال کو قتل کریں گے‘‘[5] مرزاد جال کے وجود کا ہی منکر ہے۔
4۔ ’’مسیح ابن مریم عدل والی حکومت قائم کریں گئے۔‘‘[6] جبکہ مرزا انگریز کا غلام رہا۔
5۔ ’’حقیقی مسیح کے دور میں یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا‘‘[7] (مرزا منکر ہے)۔
6۔ ’’حقیقی مسیح کے دور میں مال وافر ہوگا کوئی زکوۃ وصول نہیں کرے گا۔‘‘ مرزا خود لوگوں کی خیرات پر گزر بسر کرتا رہا۔
[1] صحيح مسلم، كتاب الفتن باب لا تقوم الساعة في يمر الرجل الخ، رقم: 7342۔
[2] جامع الترمذی، ابواب الرؤيا، باب ذهبت النبوة و بقيت المبشرات، رقم: 2272۔
[3] سنن أبی داود، كتاب الفتن، باب خروج الدجال (3635)۔
[4] سنن ابی داؤد، کتاب الفتن و اشراط الساعة، باب خروج الدجال (3635/3)۔
[5] صحیح مسلم، كتاب الفتن باب ذكر الدجال رقم: (7373)
[6] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب نزول عیسی ابن مریم حاكمًا الخ رقم: (391، 392)۔
[7] صحیح مسلم، کتاب الفتن باب ذكر الدجال رقم: (7373)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔ ’’اصلی مسیح پر تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے۔‘‘ [النساء: 159) مرزا پر کوئی اہل کتاب سے ایمان نہیں لایا۔
8۔ ’’حقیقی مسیح حج کریں گے‘‘ [1] مرزا حج نہ کر سکا۔ بلکہ دجال کی طرح مکہ و مدینہ سے محروم رہا۔
9۔ ’’اصلی مسیح جزیہ ختم کریں گئے صلیب توڑ دیں گئے خنزیر ختم کریں گے۔‘‘[2] مرزا کچھ بھی نہ کر سکا۔
10۔ ’’مسیح ابن مریم جہاد کریں گے[3] جبکہ مرزا تو کہا کرتا تھا کہ مجھے صرف اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مسلمانوں کو جہاد سے منع کروں۔
یہ بڑی بڑی دس قسم کی نشانیاں ہیں جو سیح موعود (عیسی بن مریم علیہ السلام) اور غلام احمد قادیانی کے درمیان فرق کرتی ہیں۔ مزید برآن مرزا غلام احمد قادیانی کا کردار و عمل اس کے افعال و اقوال اور اس کے اخلاق وسیرت سے بھی روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ نبی ہے نہ مسیح موعود ہے نہ مہدی ہے اور نہ مجدد ہے بلکہ وہ انتہائی جھوٹا اور کذاب ہے۔ اور اس کا جھوٹا ہونا اس کے اپنے مباہلے کے صاف ظاہر ہوتا ہے اس نے شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کو مباہلے کی دعوت دی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ دوسرے کی زندگی میں ہیضے یا طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر مر جائے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا یہ چیلنج قبول کر لیا نتیجہ کیا نکلا؟ دعوت مباہلہ کے 13 ماہ بعد 26 جون کو مرزا غلام احمد قادیانی اپنے ہی چیلنج کے مطابق ہیضے کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو کر بدترین موت مرا اور مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد چالیس سال زندہ رہے۔
اس طرح مرزا انعام احمد قادیانی اپنے ہی مباہلے کے ذریعے جھوٹا کذاب اور دجال ثابت ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]حوالہ سابقہ رقم 389 و 390 و صحيح البخاري كتاب أحاديث الأنبياء باب نزول عيسى بن
مريم، رقم: 3448۔
[2]حواله سابقه
[3 ]حوالہ سابقه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی به عقیده مشرک گستاخ انبیاء و رسل گستاخ صحابہ و اولیاء منکر حدیث شراب نوش، بدزبان، عیاش عاشق نامراد اور زر پرست شخص تھا۔ قطعًا مجدد، مہدی، مسیح موعود اور نبی نہیں تھا تمام تفصیلات کے لیے محقق الحصر فضیلت الشيخ ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ’’قادیانی کافر کیوں؟“ کا مطالعہ فرمائیں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا نبی ہونا تو کجا ایک عام درجے کا اچھا انسان ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی ہمیں فتنہ قادیانیت سے محفوظ فرمائے اور برحق عقیدہ ختم نبوت پر قائم و دائم رکھنے اور الصادق المصدوق الصادق الامین خاتم النبیين، رحمة اللعالمین، صاحب لواء الحمد، شافع محشر، معلم انسانیت، سید ولد آدم، نبی التوبة، نبي الرحمة، امام الانبیاء، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا پیروکار بنائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔