خطرناک دشمن

اہم عناصر :
❄ شیطان کی تخلیق ❄ شیطان کی انسان دشمنی
❄ شیطان سے بچاؤ کے چند اسباب
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبه لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ]فاطر:6 [
ذی وقار سامعین!
کسی انسان سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ شیطان خودتو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن اس کی دشمنی اعلانیہ ہے۔یعنی اس نے اللہ تعالی کی قسم اٹھا کر کھلم کھلا اعلان کر رکھا ہے کہ میں بنو آدم کو ضرورگمراہ کروں گا۔عجیب بات یہ ہے کہ شیطان نے انسان سے اِس اعلانیہ جنگ کی اجازت اللہ تعالی سے مانگی تو اس نے اسے اجازت دے دی۔ ظاہر ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تھی۔ پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اِس جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے تین امور کا حکم دیا:
1۔ شیطان کو انسان کا دشمن قرار دے کر انسانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ بھی اسے اپنا دشمن ہی تصور کریں۔اللہ تعالی نے فرمایا؛
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ
’’ شیطان یقینا تمھارا دشمن ہے لہذا تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو۔وہ اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بن جائیں۔‘‘ ]فاطر:6[
اللہ تعالی کے اس واضح ترین حکم کے باوجود آج انسانوں نے شیطان کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔چنانچہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ تعالی نے انھیں منع کیا ہے اور ہر وہ کام نہیں کرتے جس کا اللہ تعالی نے انھیں حکم دیا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے؛
اَفَتَتَّخِذوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٓ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَ ھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا] الکہف:50[
’’ کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارا دشمن ہے ؟ ظالموں کیلئے برا بدلہ ہے۔‘‘
2۔ اللہ تعالی نے شیطان سے براہِ راست ڈرایا اور اس کے نقش ِ قدم پہ چلنے سے منع فرمایا۔ اللہ تعالی نے فرمایا؛
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّة] الأعراف:27[
’’ اے بنو آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں فتنہ میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا۔‘‘
اسی طرح اس نے فرمایا:؛
یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ] النور: 21[
’’ اے ایمان والو ! تم شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔اور جو شخص شیطان کے نقشِ قدم پر چلے گا تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا حکم دے گا۔‘‘
3۔ اللہ تعالی نے نہ صرف شیطان سے ڈرایا بلکہ اس کے شر اور فتنے سے بچنے کیلئے مختلف تدابیر سے بھی آگاہ کیا تاکہ انسان شیطان کی اِس اعلانیہ جنگ میں مسلح ہو کر اس کا مقابلہ کر سکے۔
شیطان کی تخلیق
اللہ رب العزت نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ شیطان جنوں میں سے تھا۔ فرمان باری تعالی ہے ؛
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا [ الکھف: 50]
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا. اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے. ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے۔ دوسری آیت کریمہ میں اس فرمان سے اس کی تخلیق کی ابتداء واضح فرمادی ہے؛
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
فرمایا تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا، جب میں نے تجھے حکم دیا ؟ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔[الاعراف: 12]
تو آگ وہ مادہ ہے جس سے جنوں کی ابتدائی تخلیق ہوئی ہے. جیسا کہ میں مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں رسول ﷺ نے فرمایا؛
” فرشتوں کو نور سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کے کھلے سے پیدا کیا اور آدم اس سے جو چیز تمہارے لئے بیان کر دی گئی ہے ۔‘‘ ]مسلم :2294/4[
اور یہ چیز اس کی تخلیق کے بیان میں واضح نص ہے کہ اسے آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے۔
شیطان کی انسان دشمنی
1۔ شیطان کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنا:
حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور شیطان کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو. تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے شیطان کے۔ قرآن مجید میں ہے؛
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
فرمایا تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا، جب میں نے تجھے حکم دیا ؟ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ [الاعراف: 12]
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ [الاعراف: 13]
”فرمایا پھر اس سے اتر جا، کیوں کہ تیرے لیے یہ نہ ہوگا کہ تو اس میں تکبر کرے۔ سو نکل جا، یقیناً تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔”
یہاں سے شیطان کی انسان دشمنی کی ابتداء ہوئی.
2۔ شیطان کا حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے نکلوانا:
شیطان کا حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو یہ وسوسہ ڈالنا کہ وہ دونوں اس درخت سے کھا لیں جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع کیا تھا۔ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ﷺ اور ان کی بیوی کو جنت میں ٹھہرا دیا تو ان کے لئے جنت کے ہمہ قسم پھل حلال قرار دیئے ، ماسوا ایک درخت کے. آزمائش و امتحان کی خاطر اس کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ جب شیطان کو اس معاملہ کی خبر ہوئی تو اس نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو وسوسے ڈالنے لگا اور انہیں معصیت الہی کی خاطر درخت سے کھانے کے لئے گمراہ کرنے لگا کبھی انہیں جنت میں ہمیشہ رہنے کا وعدہ دینے لگا اور کبھی حلف اٹھا کر خیرخواہی جذبہ ظاہر کرنے لگا. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ. وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ [الاعراف: 21-20]
"پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرم گاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا اور اس نے کہا تم دونوں کے رب نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ، یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ اور اس نے دونوں سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تم دونوں کے لیے یقیناً خیر خواہوں سے ہوں۔”
ان دونوں نے اس درخت سے کھا لیا اتو اللہ نے انکو زمین پر اتار دیا. قرآن مجید میں ہے؛
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ. ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ. قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا
"پس دونوں نے اس میں سے کھالیا تو دونوں کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ دونوں اپنے آپ پر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس پر توجہ فرمائی اور ہدایت دی۔ فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ۔” [الاعراف:123.122.121]
3۔ شیطان انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِيْ مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَی الدَّمِ ]بخاری:۶۷۵۰، مسلم:۲۱۷۴ [
’’بیشک شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کی انسان سے دشمنی نہایت شدید ہے اور وہ اس کیلئے بہت بڑا فتنہ ہے۔اتنا بڑا فتنہ کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ اپنا کام کر جاتا اور اسے گمراہ کر ڈالتا ہے۔
4۔ نظر نہ آنے والا دشمن:
شیطان انسان کا ایسا دشمن ہے جسے انسان نہیں دیکھ سکتا لیکن وہ اسے دیکھ سکتا ہے۔اور یہ نہایت خطرناک بات ہے کیونکہ دشمن اگر سامنے ہو تو اُس سے انسان بچنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن اگر وہ چھپا ہوااور بہت شاطر اور مکار ہو تو اس سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔إلا من رحم اللّٰه
اللہ تعالی کا فرمان ہے: اِنَّهٗ یَرٰكُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ [ الأعراف:27]
’’ بے شک وہ(شیطان)اور اس کا قبیلہ تمھیں اُس جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
5۔ شیطان کا لشکر:
شیطان اکیلا نہیں بلکہ جن وانس میں سے اس کا ایک بہت بڑا لشکر ہے جو اس کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے؛
وَكَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ]الأنعام:112[
’’اوراسی طرح ہم نے شیطان صفت انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو دھوکہ دینے کی غرض سے کچھ خوش آئند باتیں ایک دوسرے کو سجھاتے رہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے؛
وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ ]الأنعام:121[
’’بلا شبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں(شکوک وشبہات)القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑتے رہیں۔‘‘
اِن دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کے اعوان ومددگار بہت زیادہ ہیں۔وہ ان سے بہت سارے کام لیتا ہے۔انسان کو گمراہ کرنے کے مختلف طریقے آزماتا اور انھیں اللہ تعالی سے دور کرتا ہے۔اس کی تائید اِس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ابلیس اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنی فوجیں اِدھر اُدھر بھیج دیتا ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ معزز اس کے لئے وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ بپا کرتا ہے۔چنانچہ ایک شیطان آتا ہے اور آکر اسے بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے۔تو ابلیس اسے کہتا ہے:تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے: (مَا تَرَكْتُهُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ امْرَأَتِهِ)’’ میں نے آج فلاں آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی۔‘‘ تو ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے(اور ایک روایت کے مطابق اسے اپنے گلے لگا لیتا ہے)اور پھر اسے مخاطب ہو کر کہتا ہے:تم بہت اچھے ہو۔‘‘ ]مسلم:2813[
6۔ انتہائی چوکنا دشمن:
شیطان ہر وقت ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے یا اللہ کی عبادت سے دور کرنے کیلئے گھات لگا کر بیٹھا رہتا ہے۔اورجیسے ہی اسے موقعہ ملتا ہے تووہ اسے اپنے شکنجے میں پھنسا لیتا ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے؛
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ] الاعراف: 17[
’’ کہنے لگا:تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے لہذا اب میں بھی تیری صراط مستقیم پر(ان کو گمراہ کرنے کیلئے)بیٹھوں گا۔پھر ان کے آگے سے ، ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں بائیں سے(غرض ہر طرف سے)انھیں گھیر لوں گا۔اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہ پائے گا۔‘‘
مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ آگے ‘‘ سے مراد آخرت کے بارے میں شک ڈالنا ہے۔’’پیچھے ‘‘ سے مراد انھیں دنیا پہ فریفتہ کرنا ہے۔’’ دائیں ‘‘ سے مراد دین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا ہے اور ’’ بائیں ‘‘ سے مراد گناہوں کی ترغیب دلانا ہے۔یا اِس سے مراد یہ ہے کہ میں کسی طرح بھی انھیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا بلکہ ورغلاتا ہی رہوں گا۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے؛
وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ ] الزخرف:63[
’’ اورجو شخص رحمن کے ذکر سے آنکھیں بند کرتا ہے ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔‘‘
اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کے ذکر سے غافل رہنے والے انسان پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔لہذا اس کے تسلط سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالی کو یاد رکھے۔ اوررسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے؛
مَا مِنْکُم مِّنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِیْنُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِیْنُهُ مِنَ الْمَلَائِکَة)قَالُوا:وَإِیَّاکَ یَا رَسُولَ اللّٰهِ ! قَالَ:(وَإِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ أَعَانَنِی عَلَیْهِ فَأَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ
’’ ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:آپ کے ساتھ بھی ؟ تو آپ نے فرمایا:’’ ہاں میرے ساتھ بھی ہے۔لیکن اللہ تعالی نے میری مدد کی ہے اور میرا ساتھی مسلمان ہو چکا ہے۔چنانچہ وہ مجھے خیر کا ہی حکم دیتا ہے۔‘‘ ]مسلم:2814[
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اکرم ﷺ ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو مجھے ان پرغیرت آئی۔جب آپ ﷺواپس تشریف لائے تو آپ نے وہ دیکھ لیا جو میں کر رہی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا:تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟ عائشہ ! کیا تمھیں غیرت آگئی ہے ؟ تو میں نے کہا:مجھ جیسی عورت کو آپ جیسی شخصیت پر کیوں نہ غیرت آئے ! آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمھارے پاس تمھارا شیطان آگیا ؟ میں نے کہا:یا رسول اللہ ! کیا میرے ساتھ بھی شیطان ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں ہے۔میں نے پوچھا:کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا:ہاں ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔میں نے کہا:آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن میرے رب نے اس پرمیری مدد کی ہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے. [ مسلم:2815]
شیطان سے بچاؤ کے چند اسباب
1. اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا:
❄ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے؛
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ. إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [الحجر: 40-39]
"اس (شیطان) نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔”
❄ اللہ تعالیٰ کا فرمان ذیشان ہے؛
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ. إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ[ص: 83-82]
"کہا(شیطان نے) تو قسم ہے تیری عزت کی! کہ میں ضرور بالضرور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔”
2. شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ٭ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ
’’ اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجئے۔یقینا وہ خوب سننے والا اور سب سے زیادہ جاننے والاہے۔بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں انھیں جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو وہ(اللہ کو)یاد کرنے لگتے ہیں، پھر وہ اچانک بصیرت والے بن جاتے ہیں۔‘‘ ] الاعراف: 201-200[
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں ، کیونکہ اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے۔اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی ایک صفت ذکر فرمائی ہے کہ جب انھیں شیطان کی طرف سے وسوسے لاحق ہوتے ہیں تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں جس سے ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اس کے فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔
3۔ اللہ تعالی کا ذکر کرتے رہنا:
❄ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نے ارشاد فرمایا:
یَعْقِدُ الشَّیْطَانُ عَلٰی قَافِية رَأْسِ أَحَدِكُمْ إِذَا هُوَ نَامَ ثَلاَثَ عُقَدٍ ، یَضْرِبُ عَلیٰ مَکَانِ كُلِّ عُقْدَة:عَلَیْکَ لَیْلٌ طَوِیْلٌ فَارْقُدْ ، فَإِنِ اسْتَیْقَظَ فَذَكَرَ اللّٰهَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَة ، فَإِنْ تَوَضَّأَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَة، فَإِنْ صَلّٰی اِنْحَلَّتْ عُقَدُة ، فَأَصْبَحَ نَشِیْطًا طَیِّبَ النَّفْسِ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِیْثَ النَّفْسِ كَسْلاَنَ ] بخاری:1142 ، مسلم:776[
’’ تم میں سے کوئی شخص جب سو جاتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ کی جگہ پر مارتے ہوئے کہتا ہے۔لمبی رات ہے ، مزے سے سوئے رہو۔ پھر اگر وہ بیدار ہو جائے اور اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔اور اگر اٹھ کر وضو کرے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔اور اگر نماز بھی پڑھے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں پھر وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور خوش مزاج ہوتا ہے ، ورنہ بد مزاج اور سست ہوتاہے۔‘‘
❄ حدیث نبوی میں ہے ؛
إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَیْتَهُ فَذَكَرَ اللّٰهَ عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ الشَّیْطَانُ:لَا مَبِیْتَ لَکُمْ وَلَا عَشَائَ ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ یَذْكُرِ اللّٰهَ عِنْدَ دُخُولِه قَالَ الشَّیْطَانُ:أَدْرَكْتُمُ الْمَبِیْتَ ، وَإِذَا لَمْ یَذْكُرِ اللّٰهَ عِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ:أَدْرَكْتُمُ الْمَبِیْتَ وَالْعَشَائَ ] مسلم:2018[
’’ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو اور داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرے اور کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر کرے تو شیطان(اپنے ساتھی شیطانوں کو)کہتا ہے:تمھارے لئے رات گذارنے کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی کھانا ہے۔ اور جب وہ داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے:تمھیں رات گذارنے کی جگہ مل گئی۔اور جب وہ کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو وہ کہتا ہے:تمھیں رات گذارنے کی جگہ بھی مل گئی اور کھانا بھی مل گیا۔‘‘
4۔ گھر میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے؛ لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ وَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِیْ تُقْرَأُ فِیْهِ سُورَةالْبَقَرَة ] مسلم:780[
’’ تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(اور ان میں قرآن پڑھا کرو)کیونکہ جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔‘‘
5۔ باجماعت نماز کی پابندی:
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی پابندی سے انسان ‘شیطان سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں سستی برتنے سے شیطان اس پرغالب آجاتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا فرما ن ہے:
مَا مِنْ ثَلَاثَة فِی قَرْیَة وَّلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیْهِمُ الصَّلَاة إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَة فَإِنَّمَا یَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَة ]ابو داؤد:547 ، نسائی:847 وحسنہ الألبانی[
’’کسی بستی میں جب تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر غالب آجاتا ہے۔ لہذا تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیونکہ بھیڑیا اُسی بکری کو شکار کرتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔‘‘
6۔ سونے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑھنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ( رات میں ) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اس کے اظہار معذرت پر ) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ ابھی وہ پھر آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آکے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤگے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھاوہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی الله لا اله الا هو الحی القیوم۔۔ پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع الله لا اله الا هو الحی القیوم۔۔۔ سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ( اس کے پڑھنے سے ) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی یہ بات سن کر ) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔ [بخاری: 2311]
7۔ جمائی لیتے وقت اپنا منہ بند رکھنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اَلتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِذَا تَثَائَ بَ أَحَدُكُمْ فَلْیَرُدَّہُ مَا اسْتَطَاعَ ، فَإِنَّ أَحَدكمْ إِذَا قَالَ:ها ، ضَحِکَ الشَّیْطَانُ ]بخاری: 3289[
’’ جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔لہذا تم میں سے کوئی شخص جب جمائی لے تو اسے حسب استطاعت روکے۔کیونکہ کوئی شخص جب(جمائی لیتے ہوئے)’ ہا ‘ کہے تو شیطان ہنس پڑتا ہے۔‘‘
8. لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ…پڑھنا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، كَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ يَوْمَهُ ذَلِكَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ، إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ [بخاری: 3293]
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے گا لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ( ترجمہ ) ” نہیں ہے کوئی معبود ، سوا اللہ تعالیٰ کے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، ملک اسی کا ہے ۔ اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ تو اسے یہ پانچ انعام ملیں گے:
١. دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔
٢. سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی.
٣. سو برائیاں اس سے مٹادی جائیں گی۔
٤. اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سے اس کی حفاظت کرتی رہے گی۔ یہاں تک کہ شام ہوجائے.
٥. کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا ، مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمات پڑھ لے۔
9. سجدہ تلاوت کرنا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ” إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي، يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ – وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: يَا وَيْلِي – أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِيَ النَّارُ” [مسلم: 244]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے ، وہ کہتا ہے : ہائے اس کی ہلاکت !(اور ابوکریب کی روایت میں ہے ، ہائے میری ہلاکت!) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا ، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا ،سو میرے لیے آگ ہے ۔ ‘‘
❄❄❄❄❄